مندرجات کا رخ کریں

"قریش" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Shamsoddin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
Shamsoddin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 110: سطر 110:
[[زمرہ:مکہ]]
[[زمرہ:مکہ]]
[[زمرہ:عرب قبائل]]
[[زمرہ:عرب قبائل]]
[[زمرہ:حضرت محمد]]
[[زمرہ:پیغمبر اسلام]]

نسخہ بمطابق 17:56، 2 اگست 2018ء

قریش، حجاز میں عرب کا سب سے مشہور اور اہم قبیلہ تھا اور پیغمبر اکرم بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اکثر ماہرین انساب کا عقیدہ ہے کہ قریش نضر بن کنانہ؛ پیغمبر اکرم(ص) کے بارہویں جد، کا لقب تھا؛ اسی لیے جس قبیلے کا بھی نسب "نضر بن کنانہ" تک پہنچے انہیں "قرشی" کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض ماہر انساب قریش کو فہر بن مالک؛ پیغمبر اکرم کے دسویں جد کا لقب سمجھتے ہیں اور اس کی نسل کو قریشی قرار دیتے ہیں۔ قرآن میں ایک سورہ بھی سورہ قریش کے نام سے آیا ہے۔

وجہ تسمیہ

"قریش" نام رکھنے کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں:

  • اول: بعض نے کہا ہے کہ قریش پیغمبر اکرم(ص) کے ایک جد «فہر» کا لقب تھا بنابرین انکی اولاد کو ان کی طرف نسبت دیتے ہوئے "قریش" کہا گیا ہے۔ [1]
  • دوم: بعض کہتے ہیں کہ قریش "نضر ابن کنانہ" کا لقب تھا لہذا اس کی اولاد اور نسل پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔[2] "نضر" کو بھی اسی لئے قریش کہا جاتا تھا کہ وہ نادار لوگوں کی تلاش کرتا تھا اور چونکہ "تقریش" کا معنی تلاش اور جستجو کرنا ہے اسی وجہ سے اسے قریش کا لقب مل گیا۔[3]
  • سوم: بعض کا کہنا ہے کہ "قرش" کا معنی کسب کرنا ہے، چونکہ قریش کھیتی باڑی نہیں بلکہ انکا پیشہ تجارت تھا اس وجہ سے یہ لقب انہیں ملا ہے۔[4]
  • چہارم: بعض کا کہنا ہے کہ قریش کے معنی ادھر ادھر سے جمع ہونے والوں کے ہیں اور قریش کے قبیلے کو اس لئے قریش کہا جاتا ہے کیونکہ قصی بن کلاب نے جب مکہ فتح کیا تو مکہ کے اطراف کے لوگوں کو جمع کر کے انہیں مکہ میں جگہ دیا۔[5]

قریش کے مختلف طائفے

قریش مکہ کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو ظہور اسلام کے وقت مختلف گروہوں میں تقسیم ہوا جن میں سے بنی ہاشم، بنی مطلب، بنی حارث، بنی امیہ، بنی نوفل، بنی حارث بن فہر، بنی اسد، بنی عبدالدار، بنی زہرہ، بنی تیم بن مرہ، بنی مخزوم، بنی یقَظہ، بنی مرّہ، بنی عدی بن کعب، بنی سہم، بنی جُمَح، بنی مالک، بنی معیط، بنی نزار، بنی سامہ، بنی ادرم، بنی محارب، بنی حارث بن عبداللہ، بنی خزیمہ و بنی بنانہ ہیں۔ قریش کے 25 طا‎ئفوں میں سے بعض بطحاء (مکہ کا میدانی علاقہ) میں رہتے تھے جو "قریش بطاح" یا "قریش بطحاء" سے مشہور تھے جبکہ کچھ اور طا‎ئفے پہاڑوں پر اور شہر سے باہر رہتے تھے جو "قریش ظواہر" سے مشہور تھے۔

قریش اور مکہ کی سرداری

قریش سے پہلے کعبہ کی ریاست قبیلہ خزاعہ کے ہاتھ میں تھا۔[6] ان دنوں قریش، مکہ کے اطراف میں زندگی بسر کرتے تھے اور کعبہ کے امور میں ان کی کو‎ئی مداخلت نہیں تھی۔ کچھ مدت کے بعد قصی بن کلاب مکہ آیا اور قبیلہ خزاعہ کے سردار کی بیوی سے شادی کیا اور قصی نے آہستہ آہستہ کعبہ کے امور اپنے ذمے لے لیا اور اس کام میں بنی کنانہ اور قریش سے مدد لی۔[7]

پیشہ

تجارت

قریش تجارت پیشہ لوگ تھے اور یمن، شام اور ایران کی طرف تجارتی سفر کرتے تھے اور اس زمانے کے مشہور بازار جیسے بازار عکاظ، بازار ذی المجاز انکے تھے۔

یہ لوگ ہر سال سردیوں اور گرمیوں میں دنیا کے مختلف علاقوں کی طرف سفر کرتے تھے جسکا قرآن مجید میں بھی تذکرہ ہوا ہے۔ البتہ انکی تجارت کا رخ ہمیشہ مکہ کی طرف ہی رہا ہے۔ غیر عرب تاجر سامان خریدتے تھے اور ہمسایہ ممالک کو بھیجتے تھے۔[8] پھر ہاشم ابن عبد مناف نے قریش کا شام اور یمن کے درمیان تجارت کی بنیاد رکھا۔ ہاشم نے شام کے بادشاہ سے شام کے شہروں میں تجارت کرنے کی اجازت نکالی پھر انکے بھا‎ئی عبد الشمس نے حبشہ کے حاکم سے وہاں تجارت کرنے کی اجازت لے لی اور عبد مناف کا چھوٹا بیٹا نوفل ابن عبد مناف نے عراق سفر کر کے کسری سے عراق میں تجارت کرنے کی اجازت حاصل کی۔[9]

کعبہ سے مریوط قریش کے عہدے

قریش، کعبہ اور اس سے مربوط مسا‎ئل پر خاص توجہ دیتے تھے اور انکے سیاسی اور اقتصادی عہدے اور تقرریاں بھی اس پر موقوف تھیں۔ کعبہ سے مربوط ہر ادارے کو ایک طا‎ئفے کا بزرگ سنبھالتا تھا اور ظہور اسلام کے وقت اکثر عہدے قریش کے دس طا‎ئفوں بنی ہاشم، بنی امیہ، بنی عبدالدار، بنی اسد، بنی مخزوم، بنی سہم، بنی تیم، بنی عدی بنی نوفل اور بنی کے ہاتھوں میں تھے۔

کعبہ کے جن عہدے پر قریش فا‎ئز تھے وہ مندرجہ ذیل ہیں: «سقایت» (کعبہ کے زواروں کو پانی پلانا)، «رِفادت» (کعبہ کے زوار اور مہمانوں کی میزبانی)، «حجابت» (کعبہ کی چابی رکھنے اور چوکیداری)، «قضاوت»، «قیادت» (تجاری اور جنگی کاروان کی سرداری اور سرپرستی)، «عمارت» (مسجد الحرام کی حفاظت اور مرمت)، کعبہ کا مال جمع کرنے اور اس کی حفاظت اور دیہ اور غرامت دینے کا عہدہ۔

دین

حضرت ابراہیم کی پیروی

تاریخ اسلام کے بعض منابع کے مطابق قریش والے آغاز میں دین ابراہیمی یعنی دین حنیف کے پیروکار تھے لیکن آہستہ آہستہ اس سے دور ہوگئے لیکن اس کے باوجود اس دین کے بعض احکام اور آداب ابھی تک باقی تھے اگرچہ اس میں بھی بعض بدعت اور تبدیلیاں ایجاد کی گئی تھیں۔ ان بدعتوں میں سے ایک وقوف عرفہ اور اس کے مناسک ہیں۔

وقوف عرفہ، دین حنیف کے احکام میں سے ہونے کا علم ہونے کے باوجود قریش نے اسے ترک کر کے اس کو دیگر اعراب پر واجب قرار دیا اور کہا: «ہم ابراہیم کے فرزند، اہل حرم، کعبہ کے خادم اور اس میں رہنے والے ہیں؛ ہمیں حرم سے باہر جانا اور غیر حرم کو حرم کی طرح احترام کرنا مناسب نہیں کیونکہ ہمارا یہ کام عربوں کے ہاں ہمارے مقام اور منزلت کو کم کرتا ہے۔»[10]

وہ لوگ حرم سے باہر رہنے والوں کو کھانے پینے کی چیزیں حرم لے آنے سے منع کرتے تھے اور ان پر لازم تھا کہ وہ اہل حرم کے ہاں سے کھانا کھا‎ئے، طواف کے وقت مکہ والوں کی طرح لباس پہنا ضروری تھا جو انکا قومی اور ملی لباس تھا اور جن کو لباس خریدنے کی استطاعت نہ ہو وہ ننگے طواف کرتے تھے۔[11]

ان بدعتوں کا ایجاد کرنا اس وقت سے شروع ہوا جب اللہ تعالی نے ابرھہ کی فوج کو تہس نہس کر دیا کیونکہ اس واقعے کے بعد کعبہ اور قریش کا مقام عربوں کی نظر میں بہت بلند ہوا اور عرب کہتے تھے « یہ لوگ (قریش) اہل اللہ ہیں اسی لیے اللہ نے انکا دفاع کیا اور ان کے دشمنوں کو نابود کیا».[12] وہ لوگ حج کے اعمال انجام دیتے ہو‎ئے:

  • چکنا‎ئی والے کھانے نہیں پکاتے تھے
  • دودھ جمع کر کے نہیں رکھتے تھے
  • بال اور ناخن نہیں کاٹتے تھے
  • گھی استعمال نہیں کرتے تھے
  • عورتوں سے معاشرت نہیں کرتے تھے
  • عطر استعمال نہیں کرتے تھے
  • گوشت نہیں کھاتے تھے
  • مکہ کے کسی گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے
  • مناسک حج انجام دیتے ہو‎ئے چمڑے کے خیموں میں رہتے تھے۔[13]

بت‌پرستی

مکہ کے لوگ حضرت اسماعیل(ع) کے پیروکار تھے یہاں تک کہ عمرو بن لحی خزاعی نے اسمیں تبدیلی لے آیا۔ اس نے بلقاء شام کی طرف ایک سفر کے دوران وہاں سے کچھ بت لے آیا اور مکہ میں بت پرستی کو را‎ئج کیا۔ [14]

عزی، ہبل، أساف، نائلہ و مناۃ، قریش کے مشہور بتوں میں سے ہیں۔

  • «عزّی» سب سے بڑا بت تھا، اسی وجہ سے قریش کو عزّی کہا جاتا تھا۔ وہ عزی کی زیارت، اسے ہدیہ دینے اور اس کے لیے قربانی کرنے کے ذریعے تقرب حاصل کرتے تھے۔[15]
  • «ہبل» جو سرخ عقیق سے انسانی شکل میں بنایا گیا تھا اور کعبہ کے اندر سب سے بڑا بت تھا۔[16]
  • أساف اور نائلہ بھی قریش کے دو بت تھے جنکی پرستش کرتے تھے اور یہ دونوں دو مسخ شدہ پتھر کی شکل میں کعبہ کے سامنے رکھا جاتا تھا تاکہ لوگ انہیں دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔[17]
  • مناۃ بھی ان بتوں میں سے تھا جس کی عربوں کے علاوہ قریش بھی احترام کرتے تھے۔[18]

اس کے باوجود قریش کے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بتوں کی پرستش سے اجتناب کر کے دین حنیف پر باقی تھے یا نصرانی ہو‎ئے تھے۔ اس کے علاوہ قریش میں بالخصوص بنی ہاشم کے طا‎ئفہ میں دین حنیف کے پیروکار بھی تھے۔ ورقۃ بن نوفل ان لوگوں میں سے ایک تھا جس نے بت پرستی سے گریز کرتے ہو‎ئے مسیحیت اختیار کیا تھا۔[19] اسی طرح زید بن نفیل نے بھی بت پرستی سے گریز کیا اور دین کی تلاش میں تھا یہاں تک کہ عیسا‎ئیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔[20]

قریش کے عہد و پیمان

پیمان مطیبین

عبد مناف اور عبد الدار کی وفات کے بعد قصی بن کلاب کے بیٹوں کی درمیان مکہ کے امور کی سرپرستی میں اختلاف ہوا اور وہ دو گروہ میں بٹ گئے اور قریش کے دوسرے طایفے بھی ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہوگئے۔

پہلا گروپ عبد الشمس ابن عبد مناف کی سرپرستی میں:

بنی مخزوم، بنی سہم، بنی جمح اور بنی عدی نے عبدالدار کے ساتھ پیمان باندھا

دوسرا گروپ: عبد الدار عامر بن ہاشم بن عبدمناف کی سربراہی میں۔

بنی‌اسد بن عبدالعزی، بنی‌زہرہ بن کلاب، بنی‌تیم بن مرۃ بن کلاب اور بنی‌حارث بن فہر عبد مناف سے ملحق ہوگئے۔

ہر قوم نے دوسرے گروپ کے خلاف قسم کھایا۔ عبد مناف کے حامیوں اور طرفداروں نے عطر سے بھرے ایک کٹورے میں ہاتھ ڈالا اور اس کو کعبہ پر مَل کر ثابت قدمی کی تاکید کی اور انکے مقابلے میں عبد الدر کے حامیوں نے بھی خون سے بھرے ایک کٹورے میں ہاتھ ڈال کر کعبہ کی دیوار سے مَلا اور کسی بھی صورت میں ہار نہ ماننے اور کامیابی کے بغیر جوتے نہ اترنے کی قسم کھایا.[21] آخر کار دونوں طرف صلح پر راضی ہوگئے اور مکہ کے عہدوں کو آپس میں بانٹ دیا۔[22]

حلف الفضول

اس عہد و پیمان کا سبب یہ تھا کہ بنی زبید سے ایک شخص مکہ آیا اور عاص بن وائل سہمی کو کچھ سامان بیچا؛ لیکن عاص قیمت ادا کرنے میں تعلل کے شکار ہو‎ئے اور یہ شخص مجبور ہوکر کوہ ابوقبیس پر گیا اور اشعار کی صورت میں اپنی شکایت کا اعلان کیا۔ قریش کے کچھ لوگ اس واقعے کی وجہ سے شرمسار ہوگئے اور چارہ جو‎ئی کے درپے ہو‎ئے۔ اس کام میں پہل کرنے والا زبیر بن عبدالمطلب تھا جس نے قریش کو دارالندوہ میں بلایا اور وہاں سے عبداللہ بن جدعان کے گھر چلے گئے اور وہاں عہد کیا « ہر مظلوم کی مدد کریں اور اس کا حق لینے میں سب ساتھ دیں اور کسی کو یہ اجازت نہ دیں کہ مکہ میں کو‎ئی کسی پر ظلم کرے۔» قریش نے اس عہد و پیمان کو حلف الفضول نام دیا۔[23]

جنگیں

قریش نے دوسرے قبیلوں کے ساتھ بہت ساری جنگیں لڑیں اور ان میں سے سب سے مشہور فجار کی جنگیں اور «یوم الغنب» تھیں۔

حوالہ جات

  1. المنتظم، ج۲، ص۲۲۹.
  2. المنتظم،ج۲،ص:۲۲۹
  3. تاریخ الطبری/ترجمہ، ج۳، ص۸۱۶.
  4. معجم البلدان، ج۴، ص۳۳۷؛ بلاذری،انساب الاشراف، ج۱۱، ص۸۰.
  5. معجم البلدان، ج۴، ص۳۳۶.
  6. مقدسی، البدء و التاریخ، ص۱۲۶.
  7. ابن سعد، طبقات الکبری، ص۵۶؛ تاریخ یعقوبی، پیشین، ص۲۳۸.
  8. تاریخ یعقوبی، ص۲۴۲.
  9. انساب الاشراف، ص۵۹.
  10. منمق، ص۱۲۷.
  11. سیرہ ابن ہشام، ص۱۲۹؛ طبقات الکبری، ج۱، ص۵۹.
  12. سیرہ ابن ہشام، ص۱۲۹؛ طبقات الکبری، ج۱، ص۵۹.
  13. تاریخ یعقوبی، ص۲۵۶؛ طبقات الکبری،ج۱، ص۵۹.
  14. کلبی،الاصنام، ص۸.
  15. الاصنام، ص۱۱۴.
  16. الاصنام، ص۱۲۳.
  17. الاصنام، صص ۹ اور ۱۱۱؛ السیرۃ النبویہ، ص۸۲.
  18. الاصنام، ص۱۱۱.
  19. المعارف، ص۵۹؛اصفہانی، ابوالفرج؛ الاغانی، ج۳، ص۱۱۹.
  20. المعارف، ص۵۹؛ تاریخ یعقوبی، ص۲۵۷.
  21. الانساب، ص۵۶؛ السیرۃ النبویہ، ص۱۳۱-۱۳۲؛ انساب الاشراف، ج۱، ص۵۶.
  22. مسعودی؛ مروج الذہب، ص۲۷۱؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۸.
  23. مسعودی؛ مروج الذہب، ص۲۷۱؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۸.

مآخذ

  • ابن حبیب بغدادی؛ المنمق فی اخبار القریش، تحقیق خور شید احمد فاروق، بیروت، عالم الکتب، چاپ اول.
  • ابن سعد؛ طبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطاء، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول.
  • ابن قتیبہ؛ المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ دوم.
  • ابن ہشام؛ السیرۃ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا.
  • اصفہانی، ابوالفرج؛ الاغانی، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی.
  • بلاذری؛ انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکارو ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، ۱۹۹۶.
  • سمعانی؛ الانساب، تحقیق عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدرآباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، چاپ اول.
  • معجم البلدان، شہاب الدین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی (م ۶۲۶)، بیروت،‌دار صادر، ط الثانیۃ، ۱۹۹۵.
  • یعقوبی؛ تاریخ یعقوبی، بیروت، دارالصادر، چاپ دوم، ۱۹۸۸.
  • مسعودی؛ مروج الذہب، تحقیق اسعد داغر قم‌دار المجری، چاپ دوم، ۱۴۰۹.
  • مقدسی، مطہر بن طاہر؛ البدء و التاریخ، پورسعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ بی‌تا.
  • کلبی، ہشام بن محمد؛ الاصنام، تحقیق احمد زکی پاشا، قاہرہ، افست تہران، نشر نو، چاپ دوم.