سورہ قارعہ
عادیات | سورۂ قارعہ | تکاثر | |||||||||||||||||||||||
|
سورہ قارعہ قرآن مجید کی 101ویں سورت ہے جو مکی سورتوں میں سے ہے اور 30ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کا نام سورت کے پہلے لفظ «القارعہ» سے لیا گیا ہے جو قیامت کے ناموں میں سے ایک ہے جس کا معنی "کھڑکھڑانے والی" ہے۔ سورہ قارعہ قیامت اور اس کے واقعات کے بارے میں ہے جس میں نیک کاموں کے لئے اجر اور برے کاموں کی سزا کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ روایات میں ذکر ہوا ہے کہ جو بھی اس سورت کی تلاوت کرے، قیامت میں اس کا نامہ اعمال سنگین ہوگا۔
تعارف
- نام
اس سورت کا نام اس کے پہلے لفظ «القارعہ» سے لیا ہے جو پہلی آیت میں موجود ہے۔[1]قارعہ کا معنی شدت سے کسی کو مارنا ہے جو قیامت کے ناموں میں سے ایک ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ قیامت کو اس لئے قارعہ کہا گیا ہے کہ اس دن دلوں میں شدید خوف ایجاد کر کے اور اللہ کے دشمنوں کو عذاب کے ذریعے پیٹتے ہیں۔[2]
- ترتیب اور محل نزول
سورہ قارعہ مکی سورتوں میں سے ایک ہے جو ترتیب نزول کے اعتبار سے 30ویں سورت ہے جو پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئی ہے۔ اور قرآن کے موجودہ مصحف میں 101ویں سورت ہے[3] جو 30ویں پارے میں واقع ہے۔
- آیات اور کلمات کی تعداد
سورہ قارعہ میں 11 آیات، 35 الفاظ اور 160 حروف ہیں اور حجم کے اعتبار سے اس کا شمار مفصلات سورتوں میں ہوتا ہے۔[4]
مضمون
یہ سورت آغاز سے اختتام تک واقعۂ محشر کو بیان کرتی ہے اور معاد (یعنی قیامت سے متعلق نازل ہونے والی) سورتوں میں سے ہے۔ اس دن کے شدائد و احوال اور انسان کے انتہائی انجام کو بیان کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ اگر کسی کے نیک اعمال برے اعمال اور گناہوں سے زیادہ اور معصیتوں پر بھاری ہوں تو وہ پر سرور زندگی اور جاویدانی حیات سے بہرہ ور ہوگا اور اگر کسی کے برے اعمال اس کے نیک اعمال پر بھاری ہوں تو اس کا ٹھکانا دوزخ اور بہت زیادہ جھلسا دینی والی آگ ہے۔[5]
آخرت میں سعادت کا معیار، اچھے اعمال | |||||||||||||||
دوسرا مطلب: آیہ ۶-۱۱ آخرت میں سعادت کا معیار | پہلا مطلب: آیہ ۱-۵ قیامت کے دن انسانی روابط ختم ہونا | ||||||||||||||
پہلا نکتہ: آیہ ۶-۷ اچھے اعمال والے آرامش میں ہونگے | پہلا نکتہ: آیہ ۱-۳ روز قیامت دنیوی نظام مٹ جانا | ||||||||||||||
دوسرا نکتہ: آیہ ۸-۱۱ برے اعمال والوں کا عذاب میں مبتلا ہونا | دوسرا نکتہ: آیہ ۴ انسان منتشر ہونے کے بعد روابط مٹ جانا | ||||||||||||||
تیسرا نکتہ: آیہ ۵ پہاڑ ریزہ ریزہ ہونے کے بعد طبیعی نظام ختم ہونا | |||||||||||||||
قیامت میں اعمال کا پلڑہ بھاری ہونا
تفسیر البرہان میں سورہ قارعہ کے ذیل میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اعمال کے ترازو میں محمد و آل محمد پر صلوات سے زیادہ بھاری کوئی عمل نہیں ہے۔ اسی طرح بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ [7] فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ سے مراد امیرالمؤمنینؑ یا وہ شخص ہے جس نے آپ کی ولایت مان لیا ہے اور «وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ سے مراد وہ شخص ہے جس نے آپؑ کی ولایت سے انکار کیا ہے۔[8]
فضیلت اور خصوصیات
اُبَی بن کَعب سے ایک روایت میں منقول ہے کہ جو بھی اس سورت کی تلاوت کرے گا قیامت کے دن اس کا نامہ اعمال سنگین کرے گا اور اسی طرح امام باقرؑ سے منقول ہے کہ جو بھی القارعہ کی تلاوت کرتا ہے وہ دجال پر ایمان لانے کے فتنے سے محفوظ رہتا ہے اور قیامت میں جہنم کی ناپاکیوں سے محفوظ رہتا ہے[9]
متن سورہ
سوره قارعہ
|
ترجمہ
|
---|---|
الْقَارِعَةُ ﴿1﴾ مَا الْقَارِعَةُ ﴿2﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ ﴿3﴾ يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ ﴿4﴾ وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ ﴿5﴾ فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ ﴿6﴾ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ ﴿7﴾ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ ﴿8﴾ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ﴿9﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ ﴿10﴾ نَارٌ حَامِيَةٌ ﴿11﴾ |
کھڑکھڑانے والی (بڑاحادثہ)۔ (1) کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی۔ (2) اورآپ کو کیا معلوم کہ وہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے۔ (3) جس دن سب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (4) اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی مانند ہوں گے۔ (5) تو جس کی (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے۔ (6) تو وہ دل پسند عیش و آرام میں ہوگا۔ (7) اور جس کے (نیکیوں کے پلڑے) ہلکے ہوں گے۔ (8) ان کا ٹھکانہ گہرا گڑھا (ھاویہ) ہوگا۔ (9) اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ (ھاویہ) کیا ہے۔ (10) وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ (11) |
پچھلی سورت: سورہ عادیات | سورہ قارعہ | اگلی سورت:سورہ تکاثر |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ علیبابایی، برگزیده تفسیر نمونه، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۵۶۵.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۳۸۴.
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۱۶۶.
- ↑ دانش نامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۷.
- ↑ دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص1267۔
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۴۰.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۴۰.
- ↑ «في حديث أبي من قرأها ثقل الله بها ميزانه يوم القيامة» و «عمرو بن ثابت عن أبي جعفر (ع) قال من قرأ القارعة آمنه الله من فتنة الدجال أن يؤمن به و من قيح جهنم يوم القيامة(مراجعہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۰۶).
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ البعثۃ، چاپ اول، ۱۴۱۷ھ.
- دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، 1377ہجری شمسی۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۹۷۴ء.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق و مقدمہ محمد جواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
- علیبابایی، احمد، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔