یہ مقالہ ایک فقہی مسئلے کے بارے میں توصیفی مقالہ ہے اس بنا پر یہ اعمال کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا اپنے وظیفے پر عمل کرنے کیلئے اپنے اپنے مراجع کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔
یائِسہ، اس عورت کو کہا جاتا ہے جو طبیعی طور پر عمر کے اس مرحلے میں پہنچے جس میں اسے خون حیض نہیں آتا ہے اور حاملہ بھی نہیں ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے بھی عورتوں کے یائسہ ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یائسہ ہونے کی عمر میں اختلاف پایا جاتا ہے اکثر فقہاء کا کہنا ہے کہ سیدہ عورتیں ساٹھ سال کی عمر میں اور غیر سیدہ پچاس سال کی عمر میں یائسہ ہوتی ہیں۔
شیعہ فقہ کے مطابق یائسہ عورتوں کے لیے طلاق کی عدت رکھنا ضروری نہیں ہے وہ طلاق فورا بعد ہی دوسری شادی کر سکتی ہیں۔ اور وہ جوان عورتیں جنہیں حیض نہیں آتا ہے انہیں "یائسہ مُستَرابہ" کہا جاتا ہے جنکے خاص احکام ہیں۔
معنا
فقہی منابع کے مطابق عورتیں عمر کے ایک ایسے مرحلے میں پہنچ جائیں کہ انہیں فطری طور پر خون حیض نہیں آتا ہے اور حاملہ نہیں ہوتی ہیں تو ان عورتوں کو "یائسہ" کہا جاتا ہے۔ اور اس حالت کو "یائسہ ہونا" کہا جاتا ہے۔ [1] قرآن کریم میں سورہ نور آیت نمبر 60 [یادداشت 1]اور سورہ طلاق کی چوتھی آیت [یادداشت 2]میں عورتوں کا یائسہ ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فقہی کتابوں میں بھی یائسہ کے احکام حیض سے مربوط مسائل کے ذیل میں بیان ہوئے ہیں۔ [2]
یائسگی کی عمر
شیعہ فقہا کے درمیان یائسہ کی عمر میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے؛[3] اکثر فقہاء جیسے صاحب جواہر،[4]طباطبایی یزدی[5] و امام خمینی[6]کا کہنا ہے کہ سیدہ عورتیں ساٹھ سال کی عمر میں اور غیر سیدہ پچاس سال کی عمر میں یائسہ ہوتی ہیں۔[7] بعض دوسرے فقہاء نے (سیدہ اور غیر سیدہ) تمام عورتوں کے لئے یائسہ کی عمر کو ۵۰ سال اور بعض دوسروں نے سب کے لئے 60 سال قرار دیا ہے۔ جبکہ بعض قائل ہیں کہ یائسہ ہونے کی عمر ساٹھ سال ہے لیکن پچاس سے ساٹھ سال کے درمیانی عرصے میں عورتوں کو احتیاط پر عمل کرنا چاہئے.[8]
بعض فقہاء کے مطابق یائسہ ہونے کے لئے کوئی خاص عمر نہیں ہے کیونکہ عورتوں میں سے ہر کسی کی طبع مختلف ہے چونکہ طبیعت مختلف ہے اسی لیے ہر عورت کے لئے یائسہ ہونے کا اس کا اپنا خاص وقت ہے جس میں وہ یائسہ ہوتی ہے۔.[9]
احکام
یائسہ عورتوں کو طلاق ہوجائے یا نکاح فسخ ہوجائے تو فقہاء کے فتوے کے مطابق ایسی عورت کے لئے عدّہ رکھنا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ شوہر سے جدا ہونے کے فورا بعد کسی اور سے شادی کر سکتی ہے۔[10]
یائسہ عورتوں کو جو خون آتا ہے وہ فقہاء کی نظر میں، خون حیض شمار نہیں ہوگا[11]مکارم شیرازی صاحب کے فتوے کے مطابق ایسا خون خون استحاضہ ہوگا؛ لیکن وہ عورتیں جو ڈاکٹر سے معالجہ کرا کر اپنے ہارمونز کو قوی کرنے کے لئے داوئی استعمال کرتی ہیں اور اس سے ان کا ماہواری خون جاری رہتا ہے تو ایسی صورت میں اگر خون میں حیض کے تمام شرائط پائے جاتے ہوں تو وہ خون حیض شمار ہوگا۔[12]
مسترابہ یائسہ
بعض عورتوں کو پیدائشی طور پر یا ہارمونز میں کچھ تبدیلی کی وجہ سے جوانی میں حیض نہیں آتا، ایسی عورتوں کو فقہ میں «یائسہ مسترابہ» کہتے ہیں اور ان کے احکام، یائسہ عورتوں سے کچھ مختلف ہیں۔[13]سورہ نور آیت نمبر 60 سے استناد کرتے ہوئے فقہاء نے ایسی عورتوں (یائسہ مسترابہ) کے لئے طلاق یا فسخِ نکاح کی عدت کو تین قمری مہینے قرار دیا ہے۔[14]
نوٹ
↑وَ الْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ اللاَّتي لا يَرْجُونَ نِکاحاً فَلَيْسَ عَلَيْہنَّ جُناحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيابَہنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجاتٍ بِزينَة وَ أَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَہنَّ وَ اللَّہ سَميعٌ عَليمٌ؛ (ترجمہ: اور ضعیفی سے بیٹھے رہنے والی عورتیں جنہیں نکاح سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اپنے ظاہری کپڑوں کو الگ کر دیں بشرطیکہ زینت کی نمائش نہ کریں اور وہ بھی عفت کا تحفظ کرتی رہیں کہ یہی ان کے حق میں بھی بہتر ہے اور اللہ سب کی سننے والا اور سب کا حال جاننے والا ہے)
↑وَ اللاَّئي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحيضِ مِنْ نِسائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہنَّ ثَلاثَة أَشْہرٍ؛ (ترجمہ: اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اگر ان کے یائسہ ہونے میں شک ہو تو ان کا عدہ تین مہینے ہے اور اسی طرح وہ عورتیں جن کے یہاں حیض نہیں آتا ہے اور حاملہ عورتوں کا عدہ وضع حمل تک ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کے امر میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔)
حوالہ جات
↑محقق داماد، بررسی فقہی حقوق خانوادہ، نکاح و انحلال آن، ۱۳۸۴ش، ص۴۵۰.