جیش اسامہ

فاقد سانچہ
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے

جیش اسامہ پیامبراسلام کی حیات طیبہ کا وہ آخری لشکر ہے جو آپ کے حکم سے رومی بادشاہت کے حملوں کے جواب دینے کیلئے اسامہ بن زید کی سپہ سالاری میں گیا۔ اسی مناسبت سے جیش اسامہ یا سریہ اسامہ کے نام سے معروف ہوا۔ بعض بزرگ صحابہ کی حکم عدولی کی بنا پر یہ لشکر رسول اکرم کے زمانے میں اپنے سفر پر روانہ نہ ہو سکا۔ شیعہ عقیدے کے مطابق اس لشکر کی روانگی میں مذکورہ ہدف کے علاوہ دیگر رسول اللہ کی رحلت اور خلافت جیسے اہداف بھی پیش نظر تھے۔

اسباب

رسول اللہ نے جب اس لشکر کی تیاری کا حکم دیا تو اس وقت اسلامی معاشرے کو مخصوص قسم کے حالات کا سامنا تھا لہذا ان حالات کے تجزیے اور تحلیل کے بغیر رسول خدا کے حکم کی حقیقت سے آگاہی ممکن نہیں ہے:

  • اس لشکر کی تیاری کے حکم سے ایک یا دو مہینے پہلے واقعہ غدیر ہوا جس میں پیغمبر نے اپنے بعد علی بن ابی طالب(ع) کی جانشینی کا اعلان کیا۔ یہ مسئلہ اہل بیت کے مخالفین کیلئے نہایت تلخ تھا۔ یہ انہیں خلافت کے حصول کی طرف راغب کرتا تھا۔[1]
  • تاریخی روایات کی بنا پر رسول اللہ نے اپنے صحابہ کو اپنی وفات کی خبر سے آگاہ کر دیا تھا لہذا وہ عنقریب اس واقعہ کے رونما ہونے سے آگاہ تھے۔ عبد اللہ بن مسعود سے منقول ہے کہ آپ نے اپنی رحلت سے ایک مہینہ پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔[2]
  • نبوت کے جھوٹے مدعیوں کے ظہور کا زمانہ تھا۔[3] لیکن ان حالات میں رسول اللہ نے ان جھوٹے مدعیوں کی طرف لشکر بھیجنے کی بجائے شام کی طرف کوچ کا حکم دیا تھا۔

مقاصد

شاید پیغمبر(ص) کا اس لشکر کو شام بھیجنے کا پہلا مقصد جنگ موتہ کی شکست کا بدلہ لینا تھا کیونکہ اس جنگ میں رسول اللہ کے تین اصحاب جعفر بن ابی طالب، عبد اللہ بن رواحہ اور زید بن حارثہ (کہ جو اسامہ کا باپ تھا) شہید ہوئے تھے۔ لہذا اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ اسامہ کی سپہ سالاری کا انتخاب اسی کے پیش نظر ہوا۔

دوسری جانب رسول اللہ (ص) کا اپنے آخری ایام میں اس لشکر کے دیگر مقاصد ہون گے ان مقاصد میں سے، ایک مقصد مدینہ سے خلافت کی طمع رکھنے والے اصحاب سے مدینہ کو خالی کرنا بھی ہو سکتا ہے۔[4]

اسی طرح کمسنی میں اسامہ کی سپہ سالاری کا انتخاب یہ پیغام بھی ہو سکتا ہے کہ رہبری اور قیادت کا معیار سن و سال نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر اس توانائی کا ہونا ہے۔ پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد کچھ لوگوں نے اسی کمسنی کی بنا پر علی بن ابی طالب کو خلافت نہ دینے کا بہانہ بنایا۔

لشکر کی تیاری

سپہ سالار کا انتخاب

پیغمبر (ص) نے اسامہ بن زید کو لشکر کا سردار مقرر کیا۔ اس کا والد زید بن حارثہ رسول اللہ (ص) کا آزاد کردہ غلام اور پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھا۔ اسی وجہ سے ان باپ اور بیٹا کو موالی پیغمبر (ص) کہتے تھے۔ اسامہ کی کنیت ابو یزید اور ابو خارجہ تھیں نیز ابو یزید میں ابو زید سے تصحیف ہو کر ابو یزید بن جانے کا احتمال پایا جاتا ہے۔[5] رحلت پیغمبر (ص) کے وقت اسامہ کی عمر 19 سال تھی لہذا وہ بعثت کے چوتھے سال میں پیدا ہوا ہوگا۔[6]

مخالفتیں

رسول خدا کی طرف سے اسامہ بن زید کو لشکر کا سردار بنائے جانے پر بعض اصحاب اس تقرری کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔[7] طبری[8] قول ابن عباس میں انکی مخالفت منافقوں نے کی۔ نیز تاریخی مآخذ میں عیاش بن ابی ربیعہ مخذومی کا نام بھی مخالفت کرنے والوں میں لیا جاتا ہے۔[9] یہاں تک کہ شیخ مفید نے رسول اللہ (ص) کی جانب سے ان مخالفین کی توبیخ کی طرف اشارہ کیا ہے نیز ان میں ابوبکر اور عمر کا نام بھی ذکر کیا ہے۔[10]

انکی مخالفت کی وجہ اسامہ کا کم سن ہونا تھا کہ جسکی عمر اس وقت 17[11] یا 18[12] یا 19 یا 21[13] سال سے زیادہ نہیں تھی۔ انہوں نے رسول خدا (ص) سے کہا: بزرگ مہاجر و انصار کی موجودگی میں ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے کو ہمارے لئے امیر بنا رہے ہیں؟ [14]

زمان

ماه محرم[15] کے آواخر ایک اور نقل کے مطابق صفر سنہ 11 ہجری کے آواخر میں پیامبر(ص) نے مسلمانوں کو روم سے جنگ کا حکم دیا اور لشکر کی سرداری اسامہ کو سونپی جیسے سنہ 8 ہجری میں غزوه موتہ کے موقع پر اسکے باپ کے حوالے کی تھی اور اس نے شہادت پائی۔ اسامہ نے مدینہ کے نزدیک جُرف نامی جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور لوگ اس لشکر میں شمولیت کیلئے آنے لگے۔[16]

تعداد اور غایت لشکر

  • تعداد لشکر: اسکی تعداد مختلف ذکر ہوئی ہے۔ 700 نفر[17] تا 4000 نفر[18] و حتی 12000 نفر[19] کر ہوئی ہے۔ خلافت حضرت ابو بکر کے زمانے میں اس کی تعداد 3000 نفر ذکر ہوئی ہے۔[20]
  • غایت: منابع تاریخی میں لشکر کی غایت فلسطین کی سر زمین میں بلقاء اور داروم نام کا علاقہ ذکر کی گئی۔[21]

لشکر میں شمولیت کا حکم

اسامہ کے لشکر میں شامل ہونے والے اکثر افراد مہاجرین کو اس لشکر میں شمولیت کا کہا گیا تھا۔ ابن اسحاق کہتا ہے: پہلے تمام مہاجرین اسامہ کے ہمراہ باہر نکلے تھے۔[22] نیز اسکی واقدی نے بھی تأیید کی اور کہا: مہاجرین میں سے کوئی ایسا نہیں بچا تھا کہ جسے اس لشکر کی شمولیت کا نہ کہا گیا ہو۔[23] بعض تاریخی مآخذ سر شناس مہاجرین و انصار کو ذکر کرتے ہیں کہ جنہیں لشکر کے ساتھ جانے کا کہا گیا۔ [24]

کچھ ایسے افراد کے نام مذکور ہیں کہ جنہیں خاص طور پر اسامہ کے لشکر میں شمولیت کا کہا گیا۔ مثلا حضرت أبو بکر،[25] عمر بن الخطاب[26]، ابو عبیدۀ جراح،[27]

مؤرخین متاخر میں سے ابن کثیر نے حضرت ابوبکر کو اس سفر سے مستثنا کیا ہے اور اسکی دلیل کوئی تاریخی گزارش نہیں بلکہ صرف پیغمبر کی جگہ مدینہ میں اسکے نماز پڑھانے سے استناد کیا ہے۔[28]

لشکر کے فرائض

سرعت عمل اور شبیخون مارنا اس لشکر کی دو اساسی ذمہ داریاں تھیں۔ تاریخی منابع نے وضاحت کی ہے کہ پیامبر اس جنگ میں جلدی کرنے کا حکم دیا تھا (أمرهم بالانكماش في غزوهم‏) اور اسامہ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:

{{حدیث|فأغر صباحا على أهل أبنی... و أسرع السّير تسبق الخبر[29]
ابنی کے اہالیوں پر صبح ہی کو حملہ کرو .... اور جلدی سفر کرو۔

نبز منقول ہے کہ بعض اشخاص جیسے ام ایمن کی اس درخواست کہ آپ کی طبیعت کے ٹھیک ہونے تک اس لشکر کی تاخیر کی جائے، کی رسول اللہ نے مخالفت کی۔ [30] اور مسلسل حکم دیتے رہے کہ : أنفذوا بعث (جیش) اسامہ (اسامہ کے لشکر کی روانگی کے حکم کا اجرا کرو۔)[31]

بعض صحابہ کی حکم عدولی

رسول خدا کی جانب سے اس قدر تاکید کے باوجود لشکر نے صرف سفر کا آغاز ہی نہیں کیا بلکہ اس قدر سستی کا مظاہرہ کیا کہ وہ لشکر رحلت پیغمبر کے بعد ایک مہینے تک وہیں رہا ۔

شیخ مفید حضرت ابوبکر و عمر کی لشکر کے ساتھ عدم روانگی کو یوں بیان کرتے ہیں: «پیامبر نے ابوبکر و عمر کو لشکر سے ملحق ہونے کا حکم دیا تھا لیکن وہ انکی مخالفت سے آگاہ نہیں تھے۔ جب عائشہ اور حفصہ نماز پڑھانے کیلئے اپنے اپنے والد کے لئے کوشش کی تو رسول اللہ کو اس کا علم ہوا۔[32]

اسامہ کی واپسی

واقدی[33] کی روایت کے مطابق اسامہ ربیع الاول کی دسویں رات کے بعد چند اصحاب اور عمر بن خطاب کے ہمراہ رسول اللہ کی عیادت کیلئے مدینے آئے اور پھر لشکر کے پڑاؤ کے مقام پر جا کر تمام کو جہاد کی دعوت دی اس دوران اس کی ماں کی جانب سے بھیجے ہوئے قاصد کے توسط سے رسول اللہ کی وفات کے قریب ہونے کی اطلاع ملی۔ لہذا وہ دوبارہ مدینہ واپس آئے۔[34] اسی وقت حضرت ابوبکر مدینہ سے اپنی بیوی کے پاس سُنح چلے گئے۔[35]

ایک روایت کے مطابق اسامہ کی بیوی کے قاصد نے رسول کی بیماری میں شدت کی خبر دی اور اس نے رحلت پیغمبر تک صبر کیا۔[36] بالآخر اسامہ مدینہ واپس لوٹ آئے اور رسول اللہ کے کفن و دفن میں شرکت کی۔[37]

لشکر کی اہمیت

لشکر میں ابو بکر و عمر جیسے بزرگ اصحاب کی موجودگی سے بحث کی اہمیت پیدا ہوتی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے اسامہ کی قیادت اور اسکی عزیمت میں جلدی کی تاکید فرمائی تھی اور یہی بات سبب بنی کہ مختلف گروہ اس بحث کے ضمن میں اسامہ کی شخصیت کی طرف اشارہ کریں مثلا معتزلہ علما میں سے جاحظ اس لشکر کی قیادت اسکے سپرد کرنے کو اس کے فضل اور برتری کی دلیل سمجھتا ہے اور خاص طور پر اس نے پیغمبر کے بعد اسامہ کی خلفا کے ساتھ ہمسوئی کی تاکید کی ہے۔[38] اسی طرح سے فاضل شخص کی موجودگی میں مفضول کی امامت کے درست ہونے پر اسی اسامہ کے لشکر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[39]

لیکن امامیہ نے ابوبکر اور تخلف اور جیش اسامہ سے اسکے تخلف کے بارے میں سخن کہی ہے۔[40] یہ موضوع صرف ابحاث میں ایک مستقل عنوان سے مخصوص نہیں رہا بلکہ امامیہ کے بعض علما جیسے گیارہویں صدی ہجری میں محمد بن حسن شیروانی (د 1098ھ) نے جیش اسامہ کے عنوان پر مستقل رسالے لکھے ہیں۔[41]

لشکر کی دوبارہ روانگی

جب حضرت ابوبکر خلیفہ بنے تو انہوں نے بزرگ صحابہ کے اعتراضات کی کوئی پرواہ کئے بغیر اسامہ کو اسی مشن پر روانہ کیا جو پیغمبر (ص) نے اسے سونپا تھا البتہ صرف اسامہ سے یہ چاہا کہ وہ عمر کو خلیفہ کا ساتھ دینے پر مجبور کرے اور اسی روایت کے مطابق خود پیدل راستہ طے کرتے ہوئے اسامہ کا ساتھ دیا۔[42]

بعض مآخذ سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ اسامہ شروع میں ابو بکر کی خلافت کے موافق نہ تھا اور کہتے ہیں کہ ابوبکر نے خلافت حاصل کرنے کے بعد اسے مدینہ سے ایک خط لکھا۔ اس خط کے جواب سے اسامہ کا سخت لہجہ مکمل آشکار ہے[43] لیکن اس خط کے مضامین کہ جس میں مسئلہ سقیفہ کے متعلق مناظراتی رنگ کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اسامہ کی خلافت میں ہمسوئی کی وجہ سے اس خط کے جعلی ہونے کا احتمال نمایاں ہے۔ یہانتک کہ ایک روایت کے مطابق وفات رسول کے بعد اسامہ ابو بکر کی جانب سے دستور کا منتظر تھا۔[44]

لشکر کشی

اسامہ نے شام کے علاقے بلقاء پر لشکر کشی کی۔ اُبنی نام کے دیہات پر حملہ کیا اور کامیاب ہوا۔ بعض روایات کی بنا پر اپنے باپ کے قاتل کو قتل کیا اور پھر 40 یا 60 روز کے بعد مدینہ واپس لوٹ آیا۔ اسکی کامیابی کی خبر مدینہ کے لوگوں کیلئے کافی خوشحال کنندہ تھی جو کہ قبائل عرب کے ارتداد کی وجہ سے کافی خوفزدہ تھے۔[45]

حوالہ جات

  1. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۱۱
  2. طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۱۹۱؛ مقریزی، امتاع الاسماع، ج۱۴، ص۴۸۵
  3. تاریخ طبری، ج۳، ص۱۴۶
  4. مفید، ص۱۶۷
  5. رجوع کریں: بخاری، التاریخ ۱ (۲) / ۲۰؛ بلاذری، انساب (بغداد)، ج۵، ص۷۷؛ قس، ابن حبان، ص۱۱؛ ابو نعیم، معرفہ، ج۲، ص۱۸۱
  6. واقدی(۱۹۶۶)، ج۳، ص۱۱۲۵
  7. بلاذری، ج۲، ص۱۱۵؛ واقدی،ج۳،ص۱۱۱۸
  8. طبری، ج۳، ۱۸۶
  9. ابن اثیر، ج۴، صص۲۱-۲۲
  10. شیخ مفید، ارشاد، ص۱۶۹
  11. یعقوبی، تاریخ یعقوبی ج۱، ۵۰۹
  12. مسعودی، مروج الذہب ص۲۴۱
  13. بلاذری، ج۲، ۱۱۶
  14. أمّر غلاما حدثا علی جلّة المهاجرین و الأنصار ابن ہشام، ج۲، ص۶۵۰
  15. تاریخ طبری، ج۳، ص۱۸۴.
  16. رجوع کریں: واقدی(۱۹۶۶)، ج۳، ص۱۱۱۷؛ ابن ہشام،السیرۃ النبویہ ج۴، ص۲۹۹۳۰۰
  17. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۶، ص۳۰۵
  18. مجلسی، بحار الأنوار، ج۲۸، ص۱۰۷
  19. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۱۳۹
  20. مقریزی، امتاع الاسماع، ج۲، ص۱۲۷
  21. تاریخ طبری، ج۳، ص۱۸۴
  22. ابن ہشام، السیره النبویہ، ج۲، ص۶۴۲؛ تاریخ طبری، ج۳، ص۱۸۴
  23. واقدی، المغازی، ج۳، ص۱۱۱۸.
  24. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۱۴۵؛ ابن سید الناس، عیون الأثر، ج۲، ص۳۵۰
  25. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۱۴۶؛ ابن سید الناس، عیون الأثر، ج۲، ص۳۵۰
  26. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۱۴۶؛ ابن سید الناس، عیون الأثر، ج۲، ص۳۵۰؛ واقدی، المغازی، ج۳، ص۱۱۱۸
  27. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۱۴۶؛ واقدی، المغازی، ج۳، ص۱۱۱۸
  28. ابن کثیر، ج۵، ۱۹۵-۱۹۶
  29. مقریزی، إمتاع الأسماع، ج۱۴، ص۵۱۹؛ ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج۲، ص۱۴۶؛ واقدی، المغازي، ج۳، ص۱۱۱۷
  30. واقدی، المغازي، ج۳، ص۱۱۱۹
  31. مقریزی، إمتاع الأسماع، ج۲، ص۱۲۵؛ ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج۲، ص۱۹۱؛ واقدی، المغازي، ج۳، ص۱۱۱۹-۱۱۲۱
  32. شیخ مفید، الإرشاد في معرفۃ حجج الله على العباد، ۱۴۱۳ق، ج ۱، ص ۱۸۳.
  33. واقدی (۱۹۶۶)، ج۳، ص۱۱۱۸ بہ بعد
  34. رجوع کریں : بلاذری، انساب(۱۹۵۹)، ج۱، ص۳۸۴
  35. رجوع کریں: واقدی(۱۹۶۶)، ج۳، ص۱۱۲۰؛ بلاذری، انساب(۱۹۵۹)، ج۱، ص۵۵۴
  36. رجوع کریں: ابن سعد (دار صادر)، ج۴، ص۶۸۶۷
  37. رجوع کریں: ابن ہشام، ج۴، ص۳۱۲؛ بلاذری انساب (۱۹۵۹)، ج۱، ص۵۶۹، ۵۷۱؛ طبری، ج۳، ص۲۱۲
  38. جاحظ، ۱۶۸۱۶۷
  39. رجوع کریں: ناشی اکبر، ص۵۱
  40. رجوع کریں: ابو القاسم کوفی، ج۱، ص۲۶۲۵؛ سید مرتضی، ج۴، ص۱۴۴ به بعد
  41. رجوع کریں: آقا بزرگ، الذریعہ ج۵ ص۳۰۴
  42. رجوع کریں : واقدی(۱۹۶۶)، ج۳، ص۱۱۲۲-۱۱۲۱؛ یعقوبی (۱۳۷۹ق)، ج۲، ص۱۲۷؛ طبری، ج۳، ص۲۲۳ بہ نقل از سیف بن عمر
  43. رجوع کریں: سُد آبادی، ص۱۴۲۱۴۳؛ ابن طاووس، ص۹۵
  44. زہری، ص۱۷۴
  45. ابن سعد (دار صادر)، ج۱، ص۱۹۱؛ یعقوبی (۱۳۷۹ق) ج۲، ص۱۲۷؛ طبری، ج۳، ص۲۲۷

مآخذ

  • آقا بزرگ طہرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳
  • ابن حبان، محمد، مشاہیر علماء الامصار، فلایش ہامر، قاہره، ۱۳۷۹ق/۱۹۵۹ء
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر.
  • ابن سعد، طبقات الکبری، بیروت‌ دار بیروت لطباعہ و النشر، ۱۹۸۵ش.
  • ابن ہشام، عبدالملک بن ہشام (م ۲۱۸)، السیرة النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت،‌ دار المعرفہ، بی‌تا.
  • ابن طاووس، علی، الیقین فی امرة امیرالمومنین(ع)، نجف، ۱۳۶۹ق/۱۹۵۰ء
  • ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، تحقیق احمد ابو ملحم، بیروت، دارالکتب، العلمیہ، ۱۹۹۵ء
  • ابو القاسم کوفی، علی، الاستغاثہ، نجف، ۱۳۸۶ق.
  • ابو نعیم اصفہانی، احمد، معرفہ الصحابہ، محمد راضی بن حاج عثمان، ریاض، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸ء
  • بخاری، اسماعیل، التاریخ الکبیر، حیدرآباد دکن، ۱۹۸۲ء
  • بلاذری، احمد، انساب الاشراف، ج۱، محمد حمید الله، قاہره، ۱۹۵۹م، ج۵، بغداد مکتبہ المثنی.
  • بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، ۱۹۹۶ء
  • جاحظ، عمرو، العثمانیہ، عبدالسلام محمد ہارون، قاہره، ۱۳۷۴ق/۱۹۵۵ء
  • زہری، محمد، المغازی النبویہ، سہیل زکار، دمشق، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ء
  • سُد آبادی، عبید اللہ، المقنع فی الامامہ، کر شبع، قم، ۱۴۱۴ق.
  • سید مرتضی، علی، الشافی فی الامامہ، عبدالزہراء حسینی خطیب، تہران، ۱۴۱۰ق.
  • شیخ مفید، ارشاد، ترجمہ محمد باقر ساعدی خراسانی، اسلامیہ، تہران، ۱۳۸۰ش، چاپ اول.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء
  • ناشی اکبر، عبدالله، مسائل الامامہ، یوزف فان اس، بیروت، ۱۹۷۱ء
  • واقدی، محمد، المغازی، مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶ء
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تصحیح مارسدن جونس، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، الطبعہ الثالثہ، ۱۹۸۹ء
  • یعقوبی، احمد، التاریخ، بیروت، ۱۳۷۹ق.
  • یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، بنگاه ترجمہ و نشر کتاب۱۳۴۷ش.
  • قنوات، عبدالرحیم، بررسی دو روایت از ماجرای جیش اسامہ، مجلہ تاریخ و تمدن اسلامی، سال سوم، شماره ششم، پائیز و زمستان ۱۳۸۶ش.