واقعہ فدک
واقعہ فدک، پیغمبر اکرمؐ کی وصال کے بعد پیش آنے والے واقعات میں سے ایک ہے جس میں خلیفہ اول کے حکم پر فدک کو حضرت فاطمہؑ سے چھین کر بیت المال میں شامل کیا گیا۔ حضرت ابوبکر، پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ایک حدیث(جسے خلیفہ اول کے علاوہ کسی اور نے نہیں سنا) سے استدلال کرتے ہوئے مدعی ہوا کہ انبیا کسی چیز کو بطور ارث نہیں چھوڑا کرتے۔ جس پر حضرت فاطمہؑ نے فرمایا کہ فدک کو پیغمبر اکرمؐ نے اپنی وصال سے پہلے ہی مجھے بخش دیا تھا۔ حضرت زہراؑ نے اپنے اس مدعا کو ثابت کرنے کیلئے امام علیؑ اور ام ایمن کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔ شیعہ اور بعض اہل سنت علماء کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے فدک حضرت زہراؑ کیلئے اس وقت دیا تھا جب "آیت ذو القربی" نازل ہوئی اور پیغمبر اکرمؐ کو یہ حکم دیا گیا کہ حقدار کو اس کا حق دیا جائے۔
بعض مصادر کے مطابق حضرت زہراؑ کی گفتگو سننے کے بعد حضرت ابوبکر نے فدک پر حضرت زہراؑ کی ملکیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک سند تحریر کیا۔ لیکن خلیفہ دوم نے اس سند کو حضرت فاطمہؑ سے چھین کر پھاڑ دیا۔ ایک اور نقل کے مطابق ابوبکر نے حضرت زہراؑ کے گواہوں کو رد کیا اور فدک واپس کرنے سے انکار کیا تو اس موقع پر حضرت فاطمہؑ نے مسجد نبوی کا رخ کیا اور وہاں پر ایک مفصل خطبہ دیا جو خطبہ فدکیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں آپؑ نے خلافت کو غصب کئے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے انبیاء کے ارث نہ چھوڑنے پر مبنی ابوبکر کی بات کو سراسر قرآنی آیات کی خلاف ورزی قرار دیا اور اس مقدمے کو قیامت کے دن خدا کی عدالت پر موکول کیا۔ اس واقعے کے بعد حضرت زہراؑ ابوبکر اور عمر سے ناراض ہوئیں اور اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد فدک مختلف خلفا کے ہاتھوں پھرتا رہا۔ اس درمیان عمر بن عبدالعزیز اور مأمون عباسی نے فدک یا اس کی درآمد کو حضرت فاطمہؑ کی اولاد کو دے دیا۔ اگرچہ ان کے بعد کے خلیفوں نے دوبارہ چھین لیا۔
اس واقعے کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سید محمد باقر صدر کی کتاب فدک فی التاریخ سر فہرست ہے جس کا اردو میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔
فدک اور اس کی اہمیت
تاریخ فدک | |
---|---|
شعبان سنہ 6ھ | امام علیؑ کا فدک پر حملہ[1] |
صفر سنہ 7ھ | فتح خیبر[2] |
صفر یا ربیع الاول سنہ 7ھ | یہودیوں کی طرف سے فدک کا پیغمبر اکرمؐ کو دے دینا |
سنہ 7ھ | فدک کا حضرت فاطمہ زہراؑ کو بخش دینا |
ربیع الاول سنہ11ق | ابوبکر کے حکم سے فدک پر قبضہ |
تقریبا 30ھ | عثمان کی طرف سے فدک کو مروان کو دے دینا [3] |
سنہ 40ھ | معاویہ کی طرف سے مروان، عمرو بن عثمان اور یزید میں تقسیم کرنا[4] |
تقریبا 100ھ | عمر بن عبدالعزیز کے توسط سے حضرت فاطمہ کی اولاد کی ملکیت میں آنا |
سنہ 101ھ | یزید بن عبدالملک کے توسط سے دوبارہ غصب ہونا |
تقریبا سنہ ۱۳۲ سے ۱۳۶ تک | سفاح کے توسط سے دوباہ لوٹایا جانا[5] |
تقریبا سنہ 140 ھ | منصور عباسی کے توسط سے دوبارہ غصب ہونا[6] |
تقریبا 160ھ | مہدی عباسی کے حکم سے دوبارہ واپس لوٹایا جانا[7] |
تقریبا 170 ھ | ہادی عباسی کے توسط سے دوبارہ غصب ہونا |
سنہ 210ھ | مامون عباسی کے توسط سے دوبارہ لوٹایا جانا [8] |
(۲۳۲-۲۴۷) | متوکل عباسی کے توسط سے دوبارہ غصب ہونا[9] |
سنہ 248ھ | منتصر عباسی کے توسط سے دوبارہ لوٹایا جانا[10] |
فدک، خیبر کے نزدیک[11] مدینہ سے تقریبا 200 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک زرخیز علاقہ تھا[12] جہاں یہودی آباد تھے[13] فدک سرسبز و شادات باغات اور نخلستان پر مشتمل تھا۔[14] پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد فدک کی ملکیت پر اختلاف ہوا، خلفا نے اسے بیت المال کا قرار دیا اور حضرت فاطمہؑ نے اس کی مالکیت کی دفاع میں خطبہ فدکیہ دیا۔ شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ فدک خلفاء کے ہاتھوں غصب ہوا اور اسے حضرت زہراؑ کی مظلومیت کی نشانی سمجھتے ہیں۔
فدک فاطمہ کو ہدیہ دینا
فدک پیغمبر اکرمؐ کے دور میں جنگ کے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آیا تھا۔[15] اسی لئے آنحضرتؐ نے اسے حضرت فاطمہ کو دیدیا۔ مسلم علما آیہ فئی [یادداشت 1] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگ کے بغیر ہاتھ آنے والی زمین پیغمبر اکرمؐ کی ہے۔[16]
شیعہ مفسرین اور بعض اہل سنت محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب آیت "وَآتِ ذَا الْقُرْبَیٰ حَقَّه (ترجمہ: اور دیکھو قرابتداروں کو اس کا حق دے دو)[17] نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمؐ نے فدک حضرت فاطمہؑ کو بخش دیا۔[18] اہل سنت علماء میں سے جلالالدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنثور،[19] متقی ہندی نے اپنی کتاب کنز العُمال،[20] ثعلبی نے تفسیر الکشف و البیان، حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل[21]، قُندوزی نے ینابیع المودۃ[22] اور بہت سی دوسری کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ [23]
فدک کا امامت سے رابطہ
شیعہ فقیہ حسین علی منتظری متوفای 1388ش کا کہنا ہے کہ فدک امامت کی نشانی ہے اسے فاطمہ کو دینے کا مطلب یہ تھا کہ امامت کے گھر درآمد کا کوئی ذریعہ رہے۔ اسی طرح باغ فدک پیغمبر اکرمؐ نے فاطمہ کو دیا، امام علیؑ کو نہیں تاکہ آسانی سے چھینا نہ جاسکے۔[24] اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کسی حدیث سے استناد ہوا ہے[25] جس میں هارون عباسی، امام کاظمؑ سے فدک کا حدود اربعہ معین کرنے کی درخواست کرتا ہے تو امام نے بنو عباس کی حکومت کا حدود[26] بلکہ اس سے کچھ زیادہ بھی بتایا۔ ہارون نے یہی کہا پھر تو ہمیں کچھ نہیں بچتا ہے۔[27] اسی طرح اُماَیمن حضرت فاطمہ سے نقل کرتی ہیں کہ فاطمہؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے درخواست کی کہ فدک انکو ہبہ کیا جائے تاکہ مستقبل میں پیش آنے والی ضروریات اس کے ذریعے سے دور کی جاسکیں۔[28]
فدک کا چھیننا اور فاطمہؑ کی طرف سے عدالت کا مطالبہ
فدک پیغمبرؐ کے وصال تک حضرت فاطمہؑ کی ملکیت میں تھا اور آپؑ کی طرف سے مختلف افراد اس زمین پر وکیل یا مزدور کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔[29]جب ابوبکر خلافت کے منصب پر پہنچا تو اس نے اعلان کیا کہ فدک کسی کی ذاتی ملکیت نہیں؛ لہذا اسے حکومت کے قبضے میں لے آیا۔[30] اسی طرح عمر[31] اور عثمان[32] کے دور خلافت میں بھی فدک اہل بیت پیغمبرؐ کی ملکیت میں نہیں آیا۔
حضرت فاطمہؑ کا دعوائے ملکیت
امام علیؑ کی اقتصادی طاقت سے خوف فدک چھیننے کا باعث بنا کیونکہ امام علیؑ میں رہبری اور قیادت کے شرائط میں سے علم، تقوی، درخشان ماضی اور پیغمبر اکرمؐ سے قرابت نیز پیغمبر اکرمؐ کی آپ کے بارے کئے جانے والے نصائح ناقابل انکار تھے اسی لئے امامؑ سے اس منصب کا چھیننا ممکن نہیں تھا اسی لئے امام علیؑ اور ان کی خاندان کو کمزور کرنے کے لئے فدک آپ کی ملکیت سے خارج کیا اور خاندان پیغمبرؐ کو اپنی حکومت کا محتاج بنایا۔ یہ بات خلیفہ دوم کی ابوبکر سے ہونے والی گفتگو سے عیاں ہے۔ انھوں نے ابوبکر سے کہا: عوام دنیا کی غلام ہے اور دنیا کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے؛ تم علیؑ سے خمس اور غنیمت کو چھین لو، جب لوگ انھیں تنگدست دیکھیں گے تو تمہاری طرف آجائیں گے۔
جعفر سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص205-206
فدک پر قبضہ ہونے کے بعد حضرت فاطمہؑ نے ابوبکر سے فدک کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ابوبکر نے کہا: میں نے پیغمبر اکرمؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ان کے بعد ان کا مال مسلمانوں کو ملتا ہے ان سے کوئی ارث نہیں ملتا۔[33] حضرت فاطمہؑ نے جواب دیا: "میرے والد گرامی نے یہ زمین مجھے بخش دی تھی"۔ ابوبکر نے حضرت فاطمہؑ سے اس بات پر گواہ طلب کیا۔ اس موقع پر حضرت فاطمہؑ نے حضرت علیؑ، ام ایمن اور پیغمبر اکرمؐ کے ایک غلام کو بطور گواہ پیش کیا۔ref>فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506.</ref> ایک اور قول کے مطابق حضرت علیؑ، ام ایمن اور امام حسنؑ و امام حسین ؑ [34] گواہ بنے۔ ابوبکر نے حضرت زہراؑ کے مدعا کو قبول کر کے بطور سند ایک تحریری لکھ دیا تاکہ بعد میں کوئی اور اس پر قبضہ نہ کر سکے۔ حضرت فاطمہؑ جب مجلس سے باہر تشریف لے گئیں عمر بن خطاب نے اس کاغذ کو آپ کے ہاتھ سے چھین کر پھاڑ دیا۔ [35] اہل سنت کے بعض مصادر کے مطابق ابوبکر نے حضرت فاطمہ کے گواہوں کو قبول نہیں کیا اور گواہ کے طور پر دو مردوں کو پیش کرنے کا کہا۔[36] ابن ابی الحدید کہتے ہیں: "میں نے بغداد کے معروف استاد ابن فارقی سے سوال کیا کہ کیا حضرت فاطمہؑ فدک کے حوالے سے سچ کہہ رہی تھیں؟ ابن فارقی نے کہا: ہاں! میں نے پوچھا: تو پھر ابوبکر نے کیوں فدک آپ کو نہیں دیا؟ اس نے کہا: اگر ایسا کرتا تو کل خلافت بھی اپنے شوہر کا ہونے کا مطالبہ کرتی اس وقت ابوبکر اس کی بات ٹھکرا نہیں سکتے کیونکہ فدک کے متعلق آپؑ کی بات گواہ کے بغیر مان گئے تھے"۔ ابن ابی الحدید آگے کہتا ہے: "اگرچہ ابن فارقی نے یہ بات مذاق میں کہہ دی لیکن اس کی بات بالکل صحیح تھی"[37]
کتاب الاختصاص میں امام صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق فدک کے غصب ہونے پر حضرت زہرا کے اعتراض کے دوران محسن بن علیؑ کے سقط ہونے کو ذکر کیا ہے۔[38] لیکن تاریخی مصادر میں کہا جاتا ہے کہ جب حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ ہوا تو اس وقت محسن بن علیؑ سقط ہوئے۔[39]
انبیا کے ارث نہ چھوڑنے پر ابوبکر کا استدلال
کہا جاتا ہے کہ جب حضرت فاطمہؑ نے فدک پر اپنی ملکیت کا دعوی کیا تو ابوبکر نے کہا: "میں نے پیغمبر اکرمؐ سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ہم انبیاء کسی چیز کو ارث کے طور پر نہیں چھوڑتے اور جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔[40]
اس کے مقابلے میں حضرت زہراؑ نے خطبہ میں آپ نے قرآن کی بعض آیتوں کی طرف اشارہ کیا جن میں انبیاء کے ارث چھوڑے جانے کا تذکرہ ملتا ہے[41] اور ابوبکر کی اس بات کو قرآنی آیات کے مخالف قرار دیا۔[42] شیعہ علما کا کہنا ہے کہ اس بات کو ابوبکر کے علاوہ کسی اور صحابی نے نقل نہیں کیا ہے۔[43]
کہا جاتا ہے کہ جب عثمان خلافت پر پہنچے تو عایشہ اور حفصہ ان کے پاس گئیں اور خلیفہ اول کے زمانے سے انہیں ملنے والے حقوق کا مطالبہ کرنے لگیں۔ اس پر عثمان نے کہا خدا کی قسم ایسی کوئی چیز تمہیں نہیں دوں گا۔ کیا تم دونوں وہی نہیں ہو جنہوں نے اپنے والد کے ہاں یہ گواہی دی تھی کہ انبیاء کسی چیز کو ارث نہیں چھوڑتے۔ ایک دن میراث نہ چھوڑنے کی گواہی دیتی ہو اور ایک دن پیغمبرؐ کی میراث مانگتی ہو؟[44]
خطبہ فدکیہ
جب حضرت فاطمہؑ کو فدک پر اپنی مالکیت ثابت کرنے کیلئے چلائے جانے والے مقدمے میں ابوبکر کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا تو آپ نے مسجد نبوی میں جاکر صحابہ کے بھرے مجمع میں ایک خطبہ دیا جو خطبہ فدکیہ کے نام سے مشہور ہے۔[45] اس خطبے میں خلافت کو غصب کرنے کا ذکر کیا اور پیغمبر اکرمؐ کا ارث نہ چھوڑنے کے حوالے سے ابوبکر کی بات کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ وہ کس قانون کے تحت مجھے اپنے بابا کے ارث سے محروم کررہا ہے؟! کیا قرآن کی کسی آیت میں ایسا کہا گیا ہے؟! اس کے بعد ابوبکر کو قیامت کے دن خدا کی عدالت پر موکول کرتے ہوئے اصحاب سے سوال کیا کہ کیوں ان مظالم پر سکوت اختیار کرتے ہو؟ حضرت فاطمہؑ نے واضح طور پر فرمایا کہ جو کچھ انھوں (ابوبکر اور ان کے حامی) نے انجام دیا ہے وہ سراسر عہد و پیمان کی خلاف ورزی ہے۔ خطبہ کے آخر میں ان کے اس برے کام کی پستی اور ذلت کو ابدی اور ان کے انجام کو دوزخ قرار دیا۔[46]
تاحیات حضرت فاطمہ کی ناراضگی
اہل سنت کی صحاح ستہ میں سے صحیح بخاری میں منقول ایک روایت کے مطابق حضرت فاطمهؑ، ابوبکر و عمر سے ناراض ہوئی اور شہادت تک ان سے ناراض تھی۔[47][یادداشت 2] بعض دیگر روایات بھی اسی مضمون کے ساتھ اہل سنت سے نقل ہوئی ہیں۔[48] کہا جاتا ہے کہ ابوبکر اور عمر نے حضرت فاطمہؑ کو راضی کرنے کیلئے ان سے ملنے کا اردہ کیا لیکن حضرت فاطمہ نے ان سے ملنے سے انکار کیا۔ آخر کار انہوں نے امام علیؑ کو واسطہ قرار دے کر حضرت فاطمہؑ سے ملاقات کیا۔ اس ملاقات میں حضرت زہراؑ نے حدیث بضعہ جو حضرت زہراؑ کی شان میں بیان ہوئی تھی، کی طرف اشارہ کیا اور ان سے راضی نہیں ہوئی۔[49]
امام علیؑ کا موقف
بحار الانوار کی ایک روایت کے مطابق فدک پر قبضہ ہونے کے بعد امام علیؑ نے مسجد میں آکر ابوبکر پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ کیوں فاطمہؑ کو اس چیز سے منع کرتے ہو جسے پیغمبر اکرمؐ نے انہیں بخش دیا تھا۔ اس پر ابوبکر نے عادل گواہ طلب کیا تو امام علیؑ نے فرمایا جو چیز کسی کے قبضے میں ہو اس سے گواہ طلب نہیں کیا جاتا بلکہ گواہ پیش کرنا اس شخص کی ذمہ داری ہے جو اس چیز پر اپنی ملکیت کا دعوا کرتا ہے، فاطمہ کیوں گواہ لے آئے جبکہ فدک پہلے ہی سے ان کے قبضے میں تھا۔[50] امام علیؑ نے اس مقام پر آیۂ تطہیر کی تلاوت فرمائی اور ابوبکر سے اقرار لیا کہ یہ آیت امامؑ اور اس کے خاندان کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اس کے بعد امام نے پوچھا اگر دو شخص کہے کہ فاطمہؑ گناہ کا مرتکب ہوئی ہے، تو کیا کرو گے؟ اس پر ابوبکر نے کہا اگر ایسا ہوا تو میں فاطمہؑ پر حد جاری کروں گا۔ امام علیؑ نے فرمایا اگر ایسا کیا تو تم نے خدا کی گواہی پر مخلوق کی گواہی کو ترجیح دیا اور ایسا کرنے والا کافر ہے۔ اس وقت لوگوں نے فریاد بلند کیا اور وہاں سے پراکندہ ہوگئے۔[51]الاحتجاج طبرسی میں منقول ہے کہ امام علیؑ نے ابوبکر کے نام ایک خط لکھا اور تہدید آمیز لہجے میں خلافت اور فدک کے غصب کے بارے میں اس کی سرزنش کی۔[52]
فدک امام علیؑ کے اپنے دور حکومت میں بھی مخالفوں کے پاس ہی رہا اگرچہ امام علیؑ سابقہ خلفاء کے اس اقدام کو غصب سمجھتے تھے۔ اور اس کی عدالت کو اللہ تعالی پر موکول کیا۔[53] اس حوالے سے امام علیؑ نے کوئی عملی اقدام کیوں نہیں کیا اس بارے میں مصادر حدیث میں بعض روایتیں نقل ہوئی ہیں؛ امام علیؑ خود ایک خطبے میں فرماتے ہیں کہ اگر میں فدک کی ملکیت فاطمہؑ کو لوٹا دینے کا حکم دے دیتا، [یادداشت 3] تو خدا کی قسم لوگ مجھ سے دور ہو جاتے۔[54] اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ امام صادقؑ نے فرمایا: امام علیؑ نے اس مسئلے میں پیغمبر اکرمؐ کی پیروی کی ہے۔ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے فتح مکہ کے موقع پر ایک ایسے گھر کو جو اس سے پہلے آپ سے زبردستی ظالمانہ طریقے سے چھینا گیا تھا، کو واپس نہیں لیا تھا۔[55]
عثمان بن حنیف کو لکھے گئے ایک خط میں امام علیؑ فدک اور اس کے بارے میں ہونے والے فیصلے کے بارے میں فرماتے ہیں: "اس نیلے آسمان کے نیچے صرف فدک ہمارے قبضے میں تھا۔ بعض نے اس پر بخل کیا جبکہ ایک گروہ نے سخاوتمندانہ طریقے سے اس سے ہاتھ اٹھایا۔ بہترین فیصلہ کرنے والا خدا ہی ہے ہمیں فدک اور امثال فدک سے کیا سروکار جبکہ کل کو سب نے قبر میں ہی جانا ہے۔"[56]
فدک چھیننے اور مطالبہ کرنے کے اسباب
سید محمد باقر صدر اپنی کتاب فدک فی التاریخ میں لکھتے ہیں کہ فدک کا مطالبہ صرف ایک مالی اور ذاتی مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ حاکم وقت کی مخالفت اور اس حاکمیت کی بنیادوں یعنی سقیفه کا نامشروع اور ناجائز ہونے کا اعلان تھا۔[57] آپ فدک کے مطالبے کو حاکمیت کے خلاف تحریک فاطمی کا آغاز اور امامت و ولایت کے دفاع کے مراحل میں سے ایک سمجھتے ہیں۔[58]
سید جعفر شہیدی(متوفی: 2010ء) معاصر مورخ معتقد ہیں کہ فدک کے مطالبے سے حضرت زہراؑ کا مقصد صرف کھجور کے چند درخت اپنی ملکیت میں لینا نہیں تھا، بلکہ آپؑ پیغمبر اکرمؐ کی سنت کو زندہ اور عدالت برقرار رکھنا چاہتی تھیں نیز اسلامی معاشرے میں سر اٹھانے والی خطرناک بیماریوں اور اقربا جیسی زمانہ جاہلیت کی رسم و رواج وغیرہ سے احساس نگرانی کر رہی تھیں۔[59]
شیعہ مرجع تقلید آیتالله مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ خلفا نے فدک چھین لیا تاکہ امام علیؑ اور ان کے خاندان کے پاس اقتصادی درآمد کا کوئی ذریعہ نہ رہے۔[60] انھوں نے امام صادق(ع) کی ایک روایت سے استناد کیا ہے[61] جس کے مطابق ابوبکر خلافت پر پہنچنے کے بعد عمر نے ان سے کہا کہ علی اور اہل بیت سے فئی اور فدک کا خمس لے لیں، کیونکہ اس طرح کرنے سے علی کے پیروکار علی کو چھوڑ کر ابوبکر کی سمت آئیں گے۔[62]
فرزندان فاطمہ کو فدک کی واپسی
بنی امیہ اور بنی عباس کے دور خلافت میں بھی فدک خلفا کے قبضے میں رہا لیکن مختصر عرصے کے لئے حضرت فاطمہ کی اولاد کے پاس واپس پہنچا ہے۔
- عمر بن عبدالعزیز کے دور میں،[63]
- سفاح عباسی کے دور میں؛[64]
- مہدی عباسی کے دور میں،[65] البتہ بعض مآخذ کے مطابق امام کاظمؑ نے مہدی عباسی سے فدک کا مطالبہ کیا تو مہدی عباسی نے واپس دینے سے انکار کیا۔[66]
- مأمون عباسی کے دور خلافت میں،[67] مامون کے بعد متوکل عباسی نے فدک کو اپنی پہلی حالت پر واپس لے آیا۔[68] مجلسی کوپائی نے اپنی کتاب فدک از غصب تا تخریب نامی کتاب میں لکھا ہے کہ اکثر تاریخی مآخذوں میں متوکل عباسی کے بعد فدک کے واقعے کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔[69]
دِعبِل خُزاعی (متوف 246ھ) نے فدک، اولادِ فاطمہ کو واپس ملنے پر ایک شعر کیا جسے کا پہلا مصرع یہ ہے:
|
شیعہ عالم دین محمد حسین اصفہانی اپنے اشعار کے دیوان میں فدک کے حوالے سے یوں فرماتے ہیں:
|
مونوگراف
فدک کے بارے میں لکھی جانے والی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:
- فَدَک فِی التّاریخ سید محمدباقر صدر کی عربی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے جس میں واقعہ فدک کو تحلیلی صورت میں لکھا ہے۔ اس کتاب کو ذیشان حیدر جوادی نے "فدک (تاریخ کی روشنی میں)" کے عنوان سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
- فدک و العَوالی اَو الحَوائِط السَّبعۃ فی الکتابِ و السّنۃ و التّاریخ و الأدب، تالیف سید محمدباقر حسینی جلالی (زادہ 1945ء): اس کتاب میں فدک کا تاریخچہ، محل وقوع، واقعہ فدک اور اس بارے میں اس واقعہ سے مربوط کلامی اور حدیثی مباحث کو بیان کیا ہے۔[72]
- فدک از غصب تا تخریب، اثر غلام حسین مجلسی کوپائی: یہ کتاب 2009ء کو 290 صفحوں پر منشر ہوئی۔[73] اس کتاب میں اکبر ہاشمی رفسنجانی اور ان کے ہمراہ وفد کا فدک جانے کا بھی ذکر آیا ہے۔[74]
- السقیفه و الفدک، مؤلف: ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوهری بصری تحقیق: محمدهادی امینی، تهران، مکتبة النینوی الحدیثه، 1401ھ۔
- فدک در فراز و نشیب: پژوهشی در مورد فدک در پاسخ به یک دانشور سنی: اثر علی حسینی میلانی، قم، الحقایق، 1386ہجری شمسی۔
- فدک و بازتابهای تاریخی و سیاسی آن اثر علیاکبر حسنی، قم، کنگره هزاره شیخ مفید، 1372ہجری شمسی۔
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ طبری، تاريخ الأمم و الملوك، [بیتا]، ج۲، ص۶۴۲
- ↑ ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج۲، ص۳۴۱
- ↑ مقريزي، إمتاع الأسماع، ج۱۳، ص۱۴۹
- ↑ ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص۲۱۶
- ↑ علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق، ص۳۵۷.
- ↑ محسن امين، أعيان الشيعۃ، ج۱، ص۳۱۸
- ↑ علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق، ص۳۵۷.
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، ج۱، ص۳۷
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، ج۱، ص۳۸
- ↑ ابن اثير، الكامل في التاريخ، ج۷، ص۱۱۶
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج4، ص238
- ↑ google maps
- ↑ بلادی، معجم معالم الحجاز، 1431ھ، ج2، ص206 و 205 و ج7، ص23؛ سبحانی، «حوادث سال هفتم هجرت: سرگذشت فدک»، ص14.
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ھ، ج4، ص238؛ ابن منظور، لسانالعرب، 1410ھ، ج10، ص437.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص15.
- ↑ ملاحظہ کریں: فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج29، ص506؛طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج19، ص203.
- ↑ سورہ اسراء: آیت 26.
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص219.
- ↑ سیوطی، الدر المنثور، بیروت، ج2، ص158 و ج5، ص273.
- ↑ متقی ہندی، کنز العُمال، [بیتا]، ج2، ص158 و ج3، ص767.
- ↑ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، مؤسسۃ الطبع و النشر، ج1، ص439 و 441.
- ↑ قندوزی، ینابیع المودۃ، 1422ھ، ج1، ص138 و 359.
- ↑ حسینی جلالی، کتاب فدک و العوالی، 1426ھ، ص146ـ149.
- ↑ منتظری، خطبه حضرت فاطمه زهرا(س) و ماجرای فدک، 1386شمسی، ص393.
- ↑ منتظری، خطبه حضرت فاطمه زهرا(س) و ماجرای فدک، 1386شمسی، ص394.
- ↑ قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، 1429ھ، ص472.
- ↑ ابنشهرآشوب، مناقب آل ابیطالب، 1379ھ، ج4، ص320-324.
- ↑ شیخ مفید، اختصاص، 1413ھ، ص184.
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص90؛ سید جعفر مرتضی، الصحیح، 1426ھ، ج18، ص241.
- ↑ کلینی، اصول کافی، 1369شمسی، ج1، ص543؛ شیخ مفید، المقنعۃ، 1410ھ، ص289 و 290.
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956م، ج1، ص36.
- ↑ ابن قتیبہ، المعارف، ص84؛ تاریخ ابو الفدا، ج1، ص168؛ سنن بیہقی، ج6، ص301؛ العقد الفرید، ج5، ص33؛ شرح نہج البلاغہ، ج1، ص198؛ الغدیر، ج8، ص238-236، بہ نقل از: شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا، 1362شمسی، ص116.
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956م، ص40 و 41.
- ↑ ایجی، المواقف، 1997م، ج3، ص608.
- ↑ کلینی، اصول کافی، 1369شمسی، ج1، ص543. حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1971ء، ج3، ص512.
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956م، ج1، ص35.
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج16، ص284.
- ↑ شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص185.
- ↑ ملاحظہ کریں: مسعودی، اثبات الوصیة، 1426ھ، ص146.
- ↑ بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج4، ص79.
- ↑ ملاحظہ کریں: سوره نمل، آیه 16؛ سوره مریم، آیه 5و6.
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص107و108.
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، 1380شمسی، ص242.
- ↑ طبری، المسترشد، 1415ھ، ص597؛ حلبی، تقریب المعارف، 1404ھ، ص286.
- ↑ اربلی، كشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، 1421ھ، ج1، ص353-364
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص107و108.
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج4، ص79.
- ↑ ملاحظہ کریں: مسلم، صحیح مسلم،دار احیاء التراث، ج3، ص1380.
- ↑ ابنقتیبه، الامامة و السیاسة، 1382ھ، ج1، ص31.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، [بیتا]، ج29، ص124.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، [بیتا]، ج29، ص124.
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص95.
- ↑ استادی، «فدک»، ص391-392؛ ابنابیالحدید، شرح نهج البلاغه، 1404ھ، ج16، ص208.
- ↑ کلینی، الکافی، 1363شمسی، ج8، ص59.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص396.
- ↑ ابن ابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، 1387ھ، ج16، ص208.
- ↑ صدر، فدک فی التاریخ، 1415ھ، ص63-66.
- ↑ صدر، فدک فی التاریخ،1415ھ، ص113-117.
- ↑ شہیدی، علی از زبان علی، 1377شمسی، ص37.
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امیرالمؤمنین، 1386شمسی، ج10، ص202.
- ↑ ملاحظہ کریں: علامه مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج29، ص194.
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امیرالمؤمنین، 1386شمسی، ج10، ص202.
- ↑ ابنعساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج45، ص178 و 179؛ بلاذری، فتوح البلدان، 1956م، ص41؛ کاتب بغدادی، الخراج و صناعۃ الکتابۃ، 1981م، ص259 و 260
- ↑ علامه حلی، نهج الحق، 1982م، ص357.
- ↑ علامه حلی، نهج الحق، 1982م، ص357.
- ↑ طوسی، تهذیب الاحکام، 1407ھ، ج4، ص149.
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956م، ج1، ص37 و 38.
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956م، ج1، ص38.
- ↑ مجلسی کوپائی، فدک از غصب تا تخریب، 1388شمسی، ص139.
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج4، ص239.
- ↑ غروی اصفهانی، دیوان کمپانی، 1397شمسی، ص46.
- ↑ «دغدغہ فاطمه(س) نجات میراث نبوت بود/ نگاهی تاریخی بہ خطبہ فاطمی»، خبرگزاری مهر.
- ↑ ملاحظہ کریں: مجلسی کوپائی، فدک از غصب تا تخریب، 1388شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب.
- ↑ ملاحظہ کریں: مجلسی کوپائی، فدک از غصب تا تخریب، 1388شمسی، ص247.
نوٹ
- ↑ وَمَا أَفَاءَ اللَّـه عَلَىٰ رَسُولِه مِنْهمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْه مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَـٰكِنَّ اللَّـه يُسَلِّطُ رُسُلَه عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـه عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٦﴾ مَّا أَفَاءَ اللَّـه عَلَىٰ رَسُولِه مِنْ أَهلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـه وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوه وَمَا نَهاكُمْ عَنْه فَانتَهوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـه ۖ إِنَّ اللَّـه شَدِيدُ الْعِقَابِ اور خدا نے جو کچھ ان کی طرف سے مال غنیمت اپنے رسول کو دلوایا ہے جس کے لئے تم نے گھوڑے یا اونٹ کے ذریعہ کوئی دوڑ دھوپ نہیں کی ہے.... لیکن اللہ اپنے رسولوں کو غلبہ عنایت کرتا ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے (6) تو کچھ بھی اللہ نے اہل قریہ کی طرف سے اپنے رسول کو دلوایا ہے وہ سب اللہ ,رسول اور رسول کے قرابتدار, ایتام, مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے تاکہ سارا مال صرف مالداروں کے درمیان گھوم پھر کر نہ رہ جائے اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے
- ↑ فَغَضِبَتْ فَاطِمَۃ بِنْتُ رَسُولِ اللَّہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ، فَہجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ، فَلَمْ تَزَلْ مُہاجِرَتَہ حَتَّى تُوُفِّيَتْ؛ (بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج4، ص79)
- ↑ امام علیؑ نے اس حظبے میں گذشتہ خلفاء کی 27 بدعتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میں ان بدعتوں کو پیغمبر اکرم کی سنت میں بدل دوں تو تمام لوگ مجھ سے دور ہو جاتے۔ (مجلسی، فدک از غصب تا تخریب، 1388شمسی، ص145)
مآخذ
- ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، کتابخانہ آیتاللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
- ابناثیر، علی بن ابیکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار الصادر، 1385ھ۔
- ابنشہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالب، قم، نشر علامہ، 1379ھ۔
- ابنعساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، 1415ھ۔
- ابنہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، بیروت، دار المعرفۃ، [بیتا].
- اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، قم، رضی، چاپ اول، 1421ھ۔
- استادی، رضا، «فدک»، در دانشنامہ امام علی علیہالسلام، زیر نظر علیاکبر رشاد، تہران، مرکز نشر آثار پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1380ہجری شمسی۔
- امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف، 1403ھ۔
- ایجی، عبدالرحمن بن احمد، کتاب المواقف، تحقیق عبدالرحمن عمیرۃ، بیروت، دار الجیل، 1997م.
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری (الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اللہ(ص) و سننہ و أیامہ)، تحقیق محمد زہیر بن ناصر، بیروت، دار طوق النجاۃ، چاپ اول، 1422ھ۔
- بلادی، عاتق بن غیث، معجم معالم الحجاز، مکہ، مؤسسۃ الریان، 1431ھ،
- بَلاذُری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، تحقیق صلاحالدین المنجد، قاہرہ، مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، 1956ء۔
- جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، مشعر، چاپ سوم، 1384ہجری شمسی۔
- حاکم حسکانی، عبیداللہ بن احمد، شواہد التنزیل، مؤسسۃ النشر الطبع و النشر، [بیتا].
- حسینی جلالی، محمدباقر، فدک و العوالی او الحوایط السبعہ فی الکتاب و السنۃ و التاریخ و الادب، مشہد، دبیرخانہ کنگرہ میراث علمی و معنوی حضرت زہرا(س)، 1426ھ۔
- حلبی، ابوالصلاح تقی بن نجم، تقریب المعارف، تحقیق و تصحیح فارس تبریزیان (الحسون)، قم، الہادی، چاپ اول، 1404ھ۔
- حلبی، علی بن ابراہیم، السیرۃ الحلبیہ، تحقیق عبداللہ محمد خلیلی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1971ء۔
- سبحانی، جعفر، «حوادث سال ہفتم ہجرت: سرگذشت فدک»، مجلہ مکتب اسلام، سال نہم، شمارہ 4، اسفند 1346ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، فروغ ولایت: تاریخ تحلیلی زندگانی امیر مؤمنان علی(ع)، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ ششم، 1380ہجری شمسی۔
- سیوطی، جلالالدین، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر، بیتا.
- شہیدی، سید جعفر، علی از زبان علی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح علیاکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، [بیتا].
- صدر، محمدباقر، فدک فی التاریخ، تحقیق عبدالجبار شرارہ،، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، الطبعۃ الاولى، 1415ھ/1994ء۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، 1417ھ۔
- طبرسی، احمد بن علی، الأحتجاج علی أہل اللجاج، تحقیق محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، المسترشد فی إمامۃ علی بن أبیطالب علیہالسلام، بہ تحقیق و تصحیح احمد محمودی، قم، کوشانپور، چاپ اول، 1415ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بہ تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ط الثانیۃ، 1387ق/1967ء۔
- طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، بہ تصحیح حسن موسوی خرسان، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، قم، دارالحدیث، 1426ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، 1982ء۔
- غروی اصفہانی، محمدحسین، دیوان کمپانی، دارالکتب الاسلامیہ، 1397شمسی،
- فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
- قرشی، باقر شریف، حیاۃ الإمام موسی بن جعفر(ع)، تحقیق مہدی باقر قرشی، مہر دلدار، 1429ھ۔
- قطب راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسۃ الامام المہدی(عج)، 1409ھ۔
- قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودہ، قم، دار الاسوۃ، 1422ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علیاکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1363ہجری شمسی۔
- متقی ہندی، کنز العمال، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، [بیتا].
- مجلسی کوپائی، غلامحسین، فدک از غصب تا تخریب، قم، دلیل ما، 1388ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار أحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ، قم، انصاریان، 1384ہجری شمسی۔
- مقریزی، تقیالدین، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1420ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، پيام امام امير المومنين(ع)، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
- منتظری، حسینعلی، خطبہ حضرت فاطمہ زہرا(س) و ماجرای فدک، قم، مؤسسہ فرہنگی خرد آوا، چاپ پنجم، 1386ہجری شمسی۔
- یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دارصادر، چاپ دوم، 1995ء۔
- «دغدغہ فاطمہ(س) نجات میراث نبوت بود/ نگاہی تاریخی بہ خطبہ فاطمی»، خبرگزاری مہر، درج مطلب 9 بہمن 1398شمسی، مشاہدہ 4 تیر 1402ہجری شمسی۔