آیت
آیت قرآن تشکیل دینے والی عبارت، جملہ ایسے جملے ہیں جو ایک مخصوص ترتیب سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں اور قرآن کے سوروں| کو وجود بخشتے ہیں۔ آیت کا لفظ اسی معنا میں استعمال ہوا ہے اور آیاتِ قرآن بینات یعنی واضح اور آشکار ہیں۔
قرآنی علوم کے ماہرین قرآن کی آیات کے متعلق مختلف ابحاث بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے آیات کی تعداد، قرآن کی ترتیب کے ساتھ آیات کی سازگاری یا ناسازگاری وغیرہ ہیں۔
اسی طرح آیت ایک اور معنا میں بھی استعمال ہوا ہے: ہر موجود کہ جو خدا کے وجود یا صفات خدا کی علامت ہو اسے آیت کہتے ہیں۔ اسی سے انبیاء کی طرف سے پیش کئے گئے معجزات کو آیت کہا جاتا ہے۔ اس معنا کے لحاظ سے قرآن کریم آیات اور علامات خدا کو آفاقی اور انفسی میں تقسیم کرتا ہے۔ پہلی قسم وجود انسان سے باہر کی علامات کے معنا میں ہے۔ دوسری قسم میں وجود انسان سے باہر کی وہ علامات ہیں جو انسان کو خدا کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔
لغوی اور اصطلاحی معنا
آیت علامت [1] یا واضح اور روشن کے معنا میں ہے۔[2]
اصطلاحی معنا میں آیت قرآن: قرآن کا ایک ایسا قطعہ جس کا شروع اور آخر ہو اور وہ سورت میں واقع ہو یا چند جملوں پر یا کچھ ظاہری اور تقدیری کلمات پر مشتمل مجموعہ ہے۔[3]
دوسرے الفاظ میں نشان اور علامت کے لغوی معنا سے ماخوذ شدہ لفظ آیت کا اصطلاحی معنا یہ ہے:
- کلمات، عبارتیں یا قرآن کے وہ جملے ہیں کہ جن سے سورتیں تشکیل پاتی ہیں اور ہر سورت میں ان کی تعداد مشخص اور توقیفی (شارع کی جانب سے معین شدہ) ہے۔ پس آیات قرآن یہ خدائے سبحان، یا معارف اعتقادی، احکام عملی یا خدا کے منظور نظر اصول اخلاقی پر دلالت کرتی ہیں[4]
آیتِ قرآن
آیت کا لفظ قرآن پاک میں مفرد، تثنیہ اور جمع کی صورت میں کل 383 مرتبہ آیا ہے[5] کہ جہاں اس کا معنائے اصلی علامت اور نشان ہے اور کبھی ان معانی: علامت (بقره: 248)، عبرت (یونس: 92)، معجزه (بقره: 12)، عجیب و عجیب امر (مؤمنون: 50)، برہان و دلیل (روم: 22)، میں استعمال ہوا ہے۔[6] قرآنی آیات کی شناخت توقیفی ہے[7] اور ان کی شناخت علم الہی کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ بعض حروف اور کلمات جیسے المص آیت ہیں لیکن دوسرے بعض الفاظ جیسے المر آیت نہیں ہیں۔[8]
پہلی اور آخری آیت
صحیح ترین و رائج ترین قول ہے کہ رسول اللہ پر پہلی نازل ہونے والی آیات سورۂ علق کی پہلی 5 آیات ہیں۔[9] لیکن آخری آیت یا آیات کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
آخری نازل ہونے والی آیات کے متعلق اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ آیت اکمال آخری نازل ہونے والی آیت ہے:
- الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ...﴿٣﴾ (ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور میں تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوں۔)[؟–؟]
یہ آیت رسول اللہ کے مکے سے واپسی پر حجۃ الوداع کے موقع پر غدیر خم میں نازل ہوئی کیونکہ سوره مائده جنگوں کے اختتام نیز کمال اور استقرار کے احکام کو بیان کرتی ہے خاص طور پر یہ آیت رسالت کے کام کی تکمیل کو بیان کرتی ہے اس وجہ سے مناسب ہے کہ یہی سورت اور یہی آیت آخری ہو۔[10]
مختصر ترین اور طویل ترین آیت
حروف مقطعہ سے اغماض نظر کرتے ہوئے تعداد کلمات کے لحاظ سے سورہ رحمن کی مُدْهَامَّتَانِ(64)[؟–؟] مختصر ترین آیت ہے[11] اور تعداد حروف کے لحاظ سے سب سے چھوٹی آیت سورہ فجر کی پہلی والفجر یا سورہ عصر کی پہلی آیت وَالْعَصْرِ یا ان کی مانند دیگر آیات ہیں۔[12]
قرآن کریم کی طویل ترین آیت سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 282 ہے:
- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ (ترجمہ: آیت ہے جسے آیت دَین کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ تقریبا قرآن کے ایک صفحے پر مشتمل ہے۔)[؟–؟]
اقسامِ آیات
علما نے آیات قرآن کو مختلف لحاظ سے تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے بعض اقسام درج ذیل ہیں:
محکم و متشابہ
قرآن کی آیات محکمات اور متشابہات میں تقسیم ہوئی ہیں۔[13]علامہ طباطبائی کہتے ہیں:[14]
- محکمات ایسی آیات ہیں جن کا معنی روشن ہے نیز اس میں مقصود اور مراد معنا کا کسی دوسرے معنا سے اشتباہ نہیں ہوتا ہے۔ان آیات کے مجموعے پر ایمان اور ان پر عمل کرنا چاہئے. متشابہات ایسی آیات ہیں جن کا ظاہری معنا مقصود نہیں ہوتا اور تاویل شدہ ان کا واقعی معنا مراد ہوتا ہے نیز وہ خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ البتہ شیعہ علما کے عقیدے کے مطابق پیامبر(ص) اور آئمہ طاہرین (علیہم السلام) بھی اسے جانتے ہیں۔
علامہ طباطبائی کے مطابق اسی آیت کی بنا پر متشابہ آیات کی بازگشت آیات محکمات کی طرف ہوتی ہے۔ روایات سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ متشابہ آیات اپنے مدلول معنا کو بیان کرنے میں مستقل نہیں بلکہ محکمات کی طرف سے لوٹانے سے ان کا معنی واضح ہوجاتا ہے۔ اس بیان کی روشنی میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں ہے کہ جس سے مقصود معنا کو سمجھنا ممکن نہ ہو۔[15]
اکثر متشابہ آیات خدا کی صفات اور افعال سے متعلق ہیں کہ جنہیں آیات محکمات کی طرف لوٹایا جائے تو وہ متشابہات محکمات کا حصہ بن جاتی ہیں۔ متشابہ آیات کی تعداد 200 سے زیادہ تجاوز نہیں کرتی ہے۔[16]
دوسری تقسیمات
علوم قرآن کے ماہرین نے آیات کی متعدد جیسے آیات احکام، آیات استدراج، ناسخ و منسوخ کے لحاظ سے تقسیمات ذکر کی ہیں۔[17]
مشہور آیات
قرآن کی بعض آیات مختلف وجوہات کی بنا پر مخصوص نام اور عنوان سے مشہور ہو گئی ہیں کہ جن کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔ انہیں حفظ کرنا، لکھنا یا ان میں سے بعض کو اپنے ساتھ رکھنے کے متعلق احادیث یا اقوال لوگوں میں رائج ہیں جن میں سے بعض کا مستند ہے اور بعض کا مستند نہیں ہے۔
مخصوص نام کی آیات درج ذیل ہیں:
- آیت الکرسی (بقره /۲/۲۵۵-۲۵۷)
- آیت نور (نور/۲۴/۳۵)
- آیت شہادت (آل عمران /۳/۱۸)
- آیت افک (نور/۲۴/ ۱۲)
- آیت امانت (احزاب /۳۳/۷۲)
- آیت ملک (آل عمران / ۳/۲۶)
- آیت مباہلہ (آل عمران / ۳/۶۱)
- آیت تطہیر (احزاب /۳۳/۳۳)
- آیت سیف (توبہ /۹/۵)
- آیت تبلیغ (مائده/۵، ۶۷)
- آیت ولایت (مائده/۵، ۵۵)
- آیت حجاب (نور/۲۴، ۳۱)
- آیت اکمال (مائده، ۵)
- آیت ابتلا (بقره:۲، ۱۲۴)
- آیت صادقین (۱۱۹ توبہ/۹)
- آیت لیلۃ المبیت (۲۰۷ بقره/۲)
- آیت خیر البریہ (۷ بینہ /۹۸)
پیامبر(ص) اور اہل بیت (ع) کی روایات میں بعض عناوین اور نام مخصوص آیات کیلئے استعمال ہوئے ہیں جیسے: محکم ترین آیت: (سورہ نحل/۱۶، ۹۰)، جامع ترین یا سب سے زیاہ ڈرانے والی آیت: (سورہ زلزلہ/۹۹، ۷ و ۸).
مثال کے طور پر پیغمبر (ص) نے فرمایا: عظیم ترین آیت آیت الکرسی ہے.
- اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (۲۵۵) بقرہ
امام علی (ع) سے منقول ہے کہ امیدوار ترین آیت سورہ ضحی کی آیت نمبر ۵ ہے:[18]
- وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ
ترتیبِ آیات
قرآن کی آیات کی ترتیب و نظم میں قرآن کے محققین کے درمیان دو قول موجود ہیں۔اکثراہل سنت اور شیعہ کی رائے یہ ہے کہ جبرائیل کے توسط سے رسول اللہ کو ہدایت کی جاتی اور آپ کے دستور سے سورتوں میں آیات کا مقام معین اور مشخص ہوتا تھا۔ اس بنا پر موجودہ ترتیب توقیفی ہے یعنی اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل جائز نہیں ہے۔[19] اس کے برعکس دوسرا گروہ اس کا معتقد ہے کہ ممکن ہے کہ قرآن میں آیات کی ترتیب رسول اللہ کے زمانے میں مرتب ہوئی ہو لیکن ان کے بعد نظم و ترتیب میں اصحاب کا اجتہاد ،ذوق اور سلیقے کا کردار ہے۔ علامہ طباطبائی کے مطابق حضرت ابو بکر کے زمانے میں قرآن کی جمع آوری کو بیان کرنے والی روایات اسی کی تائید کرتی ہیں کہ اصحاب کا اجتہاد آیات کی ترتیب میں دخالت رکھتا ہے ۔اگر اسے قبول کر لیں کہ تمام آیات دستور رسول خدا سے مرتب ہوئیں تو اس کا یہ معنا نہیں ہے کہ جو کچھ اصحاب نے ترتیب دیا یہ وہی رسول اللہ کے زمانے میں ترتیب دیا گیا تھا ... اور موجودہ ترتیب اور رسول اللہ کے زمانے کی ترتیب کے ایک ہونے پر جو اجماع کا ادعا کیا گیا ہے وہ اجماع منقول ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے۔[20]
تعدادِ آیات
آیات قرآن کی تعداد میں اختلاف ہے ۔اس اختلاف کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ تلاوت کے موقع پر ہر آیت پر وقف کرتے تھے اس سے واضح ہو جاتا کہ یہاں ایک آیت تمام ہو گئی لیکن پھر اپنی بات کی تکمیل کیلئے اور گفتگو کو ربط دینے کیلئے دوسری آیت کو اس کے ساتھ ملاتے جس سے بعض اوقات سننے والا یہ سمجھتا کہ یہاں فاصلہ اور وقف نہیں ہے تو وہ دو آیات کو ایک آیت سمجھ لیتا۔ اس وجہ سے روایات میں وصل اور وقف کے مقامات میں اختلاف پیدا ہوا ہے اور اسی وجہ سے آیات کی تعداد میں مختلف اقوال پیدا ہوئے ہیں:
- مکتب کوفی: ۶۲۳۶ آیتیں۔
- مدنی: (دو تعداد بیان ہوئی ہیں) ۶۰۰۰ و ۶۲۱۴ آیتیں۔
- بصری: ۶۲۰۴ آیتیں۔
- شامی: ۶۲۲۵ آیتیں۔
کوفیوں کی بیان کی گئی تعداد چونکہ حضرت علی سے منسوب ہے اس وجہ سے محققین کے نزدیک واقعیت کے زیادہ قریب ہے ۔موجودہ قرآن کی تعداد آیات کوفی مکتب کے مطابق ہے۔
علامہ طباطبائی کے مطابق مذکورہ تعداد پر خبر متواتر یا معتبر خبر موجود نہیں ہے کہ جس کی بنا پر اس پر اعتماد کیا جائے پس اس پر اعتقاد رکھنا بھی کوئی ضروری یا لازم نہیں ہے؛ بلکہ ممکن ہے ان اقوال میں سے کسی ایک قول کو تحقیق کی بنا پر قبول یا رد کیا جائے۔[21]
تناسب آیات
تناسب آیات ایک سورے کی آیات کے ایک مجموعے کے درمیان تناسب یا سیاق کی وحدت کے معنا میں ہے کہ جس پر مفسروں کا اتفاق ہوتا ہے یا ایک سورت کی آیات کے مجموعے کا ایک ہدف کی طرف یا متعدد اہداف کی طرف راہنمائی کرنا تناسب سے مقصود ہے اور ان تک پہنچنے کے بعد سورہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ سورے کا چھوٹا ہونا اور طویل ہونا اسی سبب کی طرف لوٹتا ہے۔[22]
آیات کی ترتیب کو توقیفی سمجھنے والے اس مناسبت کے کشف کی بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں۔ مسلمان مفسروں میں آیات اور سوروں کے درمیان ربط و مناسبت پر زیادہ توجہ کرنے والے فضل بن حسن طبرسی (متوفی 548 ھ) ہیں کہ جو ہر سورہ کے آغاز میں اس کے پہلے سورے سے ربط کو بیان کرتے ہیں اور تفسیر میں نظم کے عنوان سے ہر آیت کی پہلی اور بعد کی آیات سے مناسبت بیان کرتے ہیں۔ دیگر مفسروں نے اس امر کی جانب کم توجہ کی ہے۔ ان میں سے زمخشری کی الکشّاف، فخر رازی کی التفسیر الکبیر، آلوسی کی روح المعانی، محمّد رشید رضا کی تفسیر المنار اور شیخ محمود شلتوت کی تفسیر القرآن الکریم کا نام لیا جا سکتا ہے۔
دوسرے بعض مفسرین تناسب آیات کے عقیدے کے باوجود کہتے ہیں:
- قرآن کوئی فنّی اور درسی کتاب نہیں کہ جو فصول اور مخصوص نظم تالیف رکھتی ہو اگرچہ آیات کے درمیان شناخت اور پہچان ایک اچھی چیز ہے۔ لیکن یہ مناسبت ارتباط کی بنیاد پر اجزا کے درمیان ہونی چاہئے کہ جن کا اول و آخر آپس میں مرتبط ہو۔ پس اس بنا پر کلام خدا کے درمیان نا مناسب ربط ہونے کی نسبت نہیں دی جانی چاہئے۔[23]
علامہ طباطبائی کے مطابق چہ بسا ممکن ہے کہ چند آیات جملۂ معترضہ کی صورت میں ایک سیاق کی آیات کے درمیان آ جائیں کہ جو کسی دوسرے مطلب کو بیان کر رہی ہوں لہذا اس بنا پر آیات کے درمیان آیات کے درمیان تناسب اور ارتباط کو پیدا کرنے کی زحمت ضروری نہیں نیز اس تناسب کے حتمی ہونے پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے مگر ایک جگہ پر نازل ہونے والی سورتوں کی آیات میں ارتباط اور تناسب واضح ہے۔[24]
دیگر معانی
آیت کیلئے ایک عام معنا بیان ہوا ہے جس کے مطابق آیات الہی ایسے امور ہیں جو خالق کے وجود کے ساتھ قدرت، حکمت ، عظمت اور اس کی دیگر صفات عُلیا کی گواہی دیتے ہیں۔ اس لئے تمام خالقین کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے تمام موجودات کیلئے اس استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم اکثر مقامات میں آفرینشِ جہان کی تخلیق کے بعد فرماتا ہے: إِنَّ فی ذلک لآیات[25]
قرآن پاک میں معجزہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا اس کی جگہ آیت اور بینہ ذکر ہوا ہے۔[26] اور «معجزه» کی اصطلاح عام طور پر متکلمین استعمال کرتے ہیں۔[27]
اصطلاحی اور لغوی معنا کے درمیان مناسبت یہ ہے کہ ایک طرف آیات قرآنی معجزہ ہیں چونکہ کوئی اس کی مانند نہیں لا سکتا ہے اس کے لانے والے کی علامت صدق کی جہت سے یہ اہل ذکر کیلئے مایہ عبرت، دلیل و برہان پر مشتمل کہ جو انسانوں کیلئے یدایت اور علم ہے نیز علم، حکمت اور قدرت اور سائر صفات الہی کی بیان گر ہے۔[28]
کسی چیز کا آیت ہونا مختلف جہات اور اعتبار کے لحاظ سے فرق کرتا ہے اور شدت و ضعف کو قبول کرتا ہے۔ مثلا قرآن کا کچھ حصہ بشر کے مثل لانے سے عاجز ہونے کی بنا پر خدا کی آیت ہے۔احکام اور الہی ذمہ داریاں (واجبات و مستحبات ...) تقوا کے حصول اور قرب الہی کا سبب ہونے کی جہت سے آیات الہی ہیں۔ خارجی اور عینی موجودات اپنے وجود اور خصوصیات کے لحاظ سے وجود خدا پر دلالت کرتے ہیں وہ اس لحاظ سے آیات الہی ہیں۔ انبیا اور اولیائے الہی اپنے قول و عمل میں لوگوں کی ہدایت کرنے کے لحاظ سے آیات الہی ہیں۔ جیسا کہ امام صادق اور امام رضا علیہما السلام سے: وَعلامات وبِالنَّجمِ هُمْ یهْتَدُون کے بارے میں سوال ہوا آپ نے ارشاد فرمایا:
- نجم سے رسول خدا (صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور علامات سے آئمہ(ع) مراد ہیں۔[29] انبیا کے معجزات اور غیر معمولی افعال کو خاص طور پر آیت کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ واضح اور روشن تر قدرت اور عظمت الہی اور انبیا کے ادعائے نبوت کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں۔[30]
تشریعی اور تکوینی آیات
آیات الہی کو ابتدائی طور پر تشریعی اور تکوینی دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
قرآن کریم و دیگر آسمانی کتابیں آیات تشریعی ہیں۔[31] البتہ بعض آیات قرآنی آیات تکوینی کی بیانگر بھی ہیں۔ جبکہ بعضی آیات معارف اعتقادی، احکام عملی اور اخلاقیات پر مشتمل ہیں کہ جو تقرب خدا حاصل کرنے کا مایہ ہیں۔[32]
آیات تکوینی امور عینی اور خارجی امور سے متعلق ہیں جو وجود خارجی کے لحاظ سے توحید ذاتی، توحید خالقی، اور خدا کے صفات کمالیہ سے متصف ہونے اور اسکی ذات کے نقص و تنزیہ کی پاکیزگی پر دلالت کرتی ہیں[33] آیات الہی کی یہ قسم بھی دو: عادی و خارق العاده، میں تقسیم ہوتی ہے۔ آیات تکوینی عادی جہان کے تمام ہونے والی اشیا کو شامل ہے لیکن خارق العاده (غیر معمولی) غیر عادی اور خارجی امور اور انبیا کے معجزات کو شامل ہے۔[34]
آفاقی و انفسی آیات
خدا کی شناخت اور پہچان کے عام طور پر دو راہ موجود ہیں:
- انسان کا اپنے جسم و جان کی آیات میں غور و فکر کرنا انہیں آیات انفسی کہتے ہیں۔
- انسانی وجود سے باہر کی آیات الہی میں غور و فکر کرنا، انہیں آیات آفاقی کہا جاتا ہے۔[35]
قرآن و حدیث میں غور و فکر اور تدبر کے بارے میں خاص طور پر آیات انفسی میں زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ...(٥٣) آفاقی اور انفسی آیات کے مصادیق اور موارد کے متعلق مختلف اقوال بیان ہوئے ہیں۔[36]؛ جیسے آسمانوں، سمندروں، صحراؤں، حیوانات اور موجودات کے اندر تامل وحدت حق کے سالک کو آشنا کرتا ہے۔
آیات انفسی ایسی آیات ہیں کہ جو انسان کی ذات کے اندر موجود ہیں جو اسکے اعضا اور قوائے انسان کی پیچیدگیوں سے تعلق رکھتی ہیں[37] یا تجرد نفس اور اسکے عجائب میں غور وفکر کرنا ہے۔
روایات میں معرفتِ آفاقی کی اہمیت اور خاص طور پر آیات انفسی کی جانب زیادہ تاکید بیان ہوئی ہے۔ پیامبر اکرم (ص) فرمایا: من عرف نفسه فقد عرف ربه جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔[38] [39]
امام علی(ع) نے ایک اور بیان کے ذریعے آیات آفاقی سے وجود خدا پر دلیل قائم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
- پس تم سورج اور چاند میں فکر کرو، شجر و گیاه، آب و سنگ، شب و روز کے اختلاف، دریاؤں کے پھوٹنے، پہاڑوں کی کثرت اور ان کی بلند چوٹیوں، مختلف لغات، زبانوں میں اختلاف کہ یہ سب پروردگار کی واضح نشانیوں میں سے ہیں۔ پس وائے ہو اس پر جو تقدیر مقرر کرنے والے کو قبول نہیں کرتا اور تدبیر کرنے والے کا انکار کرتا ہے۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ جڑی بوٹیوں کی مانند ہیں اور ان کی صورتوں میں اختلاف کا کوئی خالق نہیں ہے، وہ چیز جس کا وہ دعوی کرتے ہیں اس پر کوئی دلیل و حجت نہیں ہے کیا عمارت کسی بنانے والے کے بغیر موجود ہو سکتی ہے؟[40]
فلسفے اور علم عرفان میں آیات آفاقی اور انفسی سے تمسک کرنا محل بحث واقع ہوا ہے۔[41]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ البرہان فی علوم القرآن]]، ج۱، ص۳۶۳
- ↑ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ القرآن، ص ۳۴.
- ↑ سیوطی، الاتقان، ج ۱، ص ۱۴۵
- ↑ طباطبائی، المیزان، ج ۱۸، ص ۱۵۹
- ↑ عبدالباقی، المعجم المفہرس، صص ۱۰۳- ۱۰۸
- ↑ المعجم الوسیط، ج۱، ص۲۵؛ [[مناہل العرفان فی علوم القرآن، ج۱، ص۳۳۸؛ البرہان فی علوم القرآن، ج۱، ص۲۶۶
- ↑ غرائب القرآن و رغائب الفرقان، ج۱، ص۶۶
- ↑ مناہل العرفان، ج۱، ص۳۳۹
- ↑ اکثر تفسیروں میں ان آیات کا ذیل دیکھیں
- ↑ تاریخ قرآن، ص۴۶
- ↑ التحریر و التنویر، ج۱، ص۷۷
- ↑ الاتقان، ج۲، ص۳۵۷
- ↑ آل عمران/۳، ۷
- ↑ طباطبائی، المیزان، ج۳، ص۳۲ ـ ۴۳
- ↑ طباطبائی، قرآن در اسلام، ص ۳۷
- ↑ تمہید، ج۳، ص۱۴
- ↑ الاتقان، ج۱، ص۱۰
- ↑ الاتقان، ج۲، ص۳۵۳
- ↑ الاتقان، ج۱، ص۱۳۲
- ↑ طباطبائی، المیزان، ج ۱۲، ص ۱۲۷ـ۱۲۹
- ↑ طباطبائی، المیزان، ج ۱۳، ص ۲۳۲
- ↑ تمہید، ج۵، ص۲۳۹
- ↑ شیخ عز الدین منقول از: الاتقان، ج۲، ص۲۳۴
- ↑ طباطبائی ،المیزان، ج۴، ص۳۵۹
- ↑ قرآن شناسی، ج۱، ص۳۳
- ↑ مجموعہ آثار، ج۲، ص۱۶۱; راه شناسی، ص۸۲
- ↑ مجموعہ آثار، ج۲، ص۱۶۱; ایضاح المراد، ص۳۸۱، پاورقی
- ↑ مناہل العرفان فی علوم القرآن، ج۱، ص۳۳۹
- ↑ کلینی،اصول کافی، ج۱، ص۲۰۷؛ طباطبائی، المیزان، ج۱، ص۲۵۰
- ↑ قرآن شناسی، ج۱، ص۳۳
- ↑ قرآن شناسی، ج۱، ص۳۳
- ↑ طباطبائی، المیزان، ج۱۸، ص۱۵۹
- ↑ طباطبائی، المیزان، ج۱۸، ص۱۵۸
- ↑ قرآن شناسی، ج۱، ص۳۴
- ↑ تفسیر نمونہ، ج۱۸، ص۳۲۸
- ↑ برای نمونہ نک: جامع البیان، ج۱۱، ص۴ ; مجمع البیان، ج۹، ص۲۹ ; المیزان، ج۱۷، ص۴۰۵
- ↑ المیزان، ج۱۸، ص۴۰۵
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج۲، ص۳۲ ; غرر الحکم، ص۲۳۲
- ↑ برای تفاسیر این حدیث نک: مصابیح الانوار، ج۱، ص۲۰۴، و الالهیات فی مدرسة أهل البیت(ع)، ص
- ↑ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۸۵
- ↑ الأسفار الأربعہ، ج۷، ص۱۴ ; اسرار الآیات، ص۱۶؛ الأسفار الأربعہ، ج۷، ص۱۴
مآخذ
- قرآن کریم.
- آلوسی، محمود، روح المعانی، قاہره، ادارة الطباعہ المنیریہ، جم.
- ابن درید، جمہرة اللغہ، ج۱، ص۱۹۲.
- ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغہ.
- امرؤالقیس، دیوان، بیروت، ۱۹۵۸م.
- بستانی ف؛ جوہرجی، عدنان، «رأی فی تحدید عصر الراغب الاصفہانی»، مجلہ المجمع اللغہ العربیہ، دمشق، ۱۹۸۶م، ۶۱ (۱) /۱۹۱-۲۰۰.
- جوہری، اسماعیل، صحاح اللغہ.
- حاجی خلیفہ، کشف الظنون، استانبول، ۱۹۳۱م.
- خلیل بن احمد، کتاب العین، مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم، ۱۴۰۵ق، ج۸، ص۴۴۱.
- راغب اصفہانی، حسین، معجم مفردات الفاظ القرآن.
- رضا، محمد رشید، المنار، بیروت، دارالمعرفہ، جم.
- زبیدی، تاج العروس، ذیل آیت.
- زرکشی، محمد، البرہان فی علوم القرآن، محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، ۱۹۷۲م، ج۱، ص۳۵-۵۲.
- سیوطی، الاتقان، محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، ۱۹۶۷م، ج۱، ص۲۲۵-۲۳۳، ج۳، ص۳۶۹-۳۸۹.
- شیخو، لویس، شعراء النصرانیہ قبل الاسلام، بیروت، دارالمشرق.
- صدر المتألہین، اسرار الآیات، مصحّح: محمد خواجوی، انجمن اسلامی حکمت و فلسفہ ایران، تہران، ۱۳۶۰ش.
- طباطبائی، محمد حسین، قرآن در اسلام، بوستان کتاب قم.
- طباطبائی، محمد حسین، المیزان، بیروت، ۱۳۹۳ق.
- طبرسی، فضل، مجمع البیان، صیدا، ۱۳۳۳ق، جم.
- عبد الباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس، قاہره، ۱۳۶۴ق.
- عروة بن الورد، دیوان، بیروت، ۱۹۸۰م.
- فخر الدین رازی، محمد، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، جم.
- فیروز آبادی، محمد، القاموس المحیط، ذیل آیت.
- مصباح یزدی، محمد تقی، قرآن شناسی، تحقیق: محمود رجبی.
- مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن المجید، تہران، ۱۳۶۰ش، ج۱، ص۱۷۲-۱۷۴.
- تفسیر التحریر و التنویر.
- تمہید فی علوم القرآن.