قصیدہ میمیہ

ویکی شیعہ سے

قصیدہ میمیہ امام سجاد علیہ السلام کی مدحت میں پڑھا گیا ایک قصیدہ ہے جسے فرزدق نے مکہ میں ہشام بن عبد الملک کے سامنے کعبہ کے طواف کے دوران پڑھا تھا۔ اس قصیدے میں امام سجاد علیہ السلام کا مقام اور نسب، عصمت اور اخلاقی فضائل جیسے تقوا، ایفائے عہد، سخاوت و حلم بیان ہوئے ہیں۔ بعض تاریخی منابع میں کہا گیا ہے کہ یہ قصیدہ امام حسینؑ یا کسی اور کے لیے لکھا گیا ہے۔

فرزدق کے اس قصیدے کے اکثر مصرعے میم پر ختم ہوتے ہیں اس لئے قصیدہ میمیہ سے مشہور ہوا ہے۔ اس قصیدے کے بیت کی تعداد 2 سے 41 تک بیان ہوئی ہے۔ اس قصیدے کا ذکر قدیم شیعہ اور اہل سنت منابع میں ملتا ہے، جن میں شیخ مفید کی الاختصاص اور الارشاد، ابو الفراج اصفہانی کی اغانی، اصبہانی کی حلیۃ الاولیاء، اور مرزوقی کی شرح دیوان حماسہ قابل ذکر ہیں۔

فارسی شعرا میں سے جامی، وفا اور شاہ آبادی جیسے لوگوں نے فرزدق کے اس قصیدے کا منظوم ترجمہ کیا ہے جبکہ مرزوقی، استرآبادی اور تنکبانی نے اس کی تشریح کی ہے۔

تعارف اور اہمیت

قصیدہ میمیہ پہلی اور دوسری صدی ہجری کے شاعر فرزدق کا امام سجاد علیہ السلام کی شان میں لکھا ہوا ایک قصیدہ ہے جسے مکہ میں دسویں اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے سامنے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے پڑھا تھا۔[1] اس قصیدے میں فرزدق نے امام سجاد علیہ السلام کے نسب کی عظمت کا تذکرہ کیا ہے اور آپؑ کی عصمت اور اخلاقی فضائل میں تقوی، ایفائے عہد، سخاوت اور حلم کو بیان کیا ہے۔ اس قصیدہ کے اکثر بیت چونکہ میم کے حرف پر ختم ہوتے ہیں اس لیے اسے میمیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔[حوالہ درکار]


فرزدق کے اس قصیدے نے بعض شاعروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرایا ہے اور بعض نے اس پر تخمیس اور تضمین لگائی ہے؛ جیسے تَخمِیس قصیدۃ الفرزدق جسے محمد بن اسماعیل حلی (متوفی: 1247ھ) نے تحریر کیا ہے۔ تخمیس یعنی کسی کے شعر سے الہام لیتے ہوئے یا اس کے ایک دو بیت اور قافیہ ردیف سے استفادہ کرتے ہوئے شعر پڑھنا۔[2]

تیسری سے آٹھویں صدی تک کے قدیم مآخذ میں قصیدہ میمیہ کے ابیات کی تعداد 2 سے 41 تک بیان ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر مَحاسِن و مَساوِی بیہقی میں 14 بیت،[3] أَغانِی اصفہانی (تیسری اور چوتھی صدی ہجری) میں 21 بیت،[4] ابن خَلَکان (ساتویں صدی ہجری) کی وَفَیات ُ الاَعیان میں 27 بیت،[5] رجال کَشِی (پانچویں صدی ہجری)[6] اور حافظ مُزِی (آٹھویں صدی ہجری) کی تَہذِیب ُ الکمالِ[7] میں 28 بیت، الاِختِصاص شیخ مفید (چوتھی صدی ہجری)[8]اور روضۃ الواعظین نیشابوری، (پانچویں صدی ہجری)[9]میں 29 بیت اور مَناقب ابن شہر آشوب (چھٹی صدی ہجری)[10] میں 41 بیت ذکر ہوئے ہیں۔ دیوان فَرَزدَق جو 1984ء میں منتشر ہوا اس میں ابیات کی تعداد 27 بیان ہوئی ہے۔[11]

لکھنے کی وجہ

اس قصیدے کو لکھنے کے مقصد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ہشام بن عبد الملک کچھ شامیوں کے ساتھ حجر اسود کو چھونا چاہتا تھا؛ لیکن بِھیڑ کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہوسکا اور شامی اس کے گرد جمع ہوگئے۔ اس وقت امام سجاد علیہ السلام داخل ہوئے اور لوگوں نے ان کی تعظیم کے لیے راستہ کھول دیا اور امامؑ حجر اسود کو چھونے میں کامیاب ہو گئے۔ شامیوں میں سے کسی ایک شخص نے ہشام بن عبد الملک سے پوچھا کہ یہ کون ہے کہ لوگ اس کے لیے راستہ بنا رہے ہیں؟ ہشام نے اس خوف سے کہ کہیں لوگ امام سجادؑ کی طرف مائل نہ ہوں، کہا کہ میں اسے نہیں جانتا ہوں۔ فرزدق، جو وہاں موجود تھے، نے ایک قصیدہ کے ذریعے امام کا تعارف کرایا اور ہشام کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔[12]

فرزدق کی محرومی اور گرفتاری

فرزدق نے جب ہشام بن عبدالملک کے سامنے امام سجاد علیہ السلام کی تعریف میں قصیدہ پڑھا تو ہشام غصے میں آ گیا اور اس کی سرزنش کی۔ کہا جاتا ہے کہ ہشام ہر سال فرزدق کو 1000 دینار دیتا تھا لیکن اس سال اس نے یہ رقم روک دی اور انہیں عسفان کے علاقے (مکہ اور مدینہ کے درمیان) میں قید کر دیا۔[13]

امام سجادؑ کی طرف سے فرزدق کی حمایت

چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے شیعہ علماء میں سے شیخ مفید اور سید مرتضی کے مطابق میں جب فرزدق کی محرومی اور گرفتاری کی خبر امام سجادؑ تک پہنچی تو آپ نے بارہ ہزار دینار بھیجے اور معافی مانگی اور فرمایا کہ اگر میرے پاس اس سے زیادہ رقم ہوتی تو میں آپ کو بھیج دیتا۔[14]

قطب راوندی کے مطابق، جب فرزدق کی قید کی مدت میں اضافہ ہوا اور ہشام نے اسے قتل کرنے کی دھمکی دی تو فرزدق نے امام سجادؑ سے ان کی رہائی کے لئے دعا کی درخواست کی۔ رہا ہونے کے بعد وہ امام علیہ السلام کے پاس گیے اور کہا کہ ہشام نے اس کا نام بیت المال کی لیسٹ سے نکال دیا ہے اور امام علیہ السلام نے اسے چالیس سال کے اخراجات کے برابر رقم دیا۔[15]

قصیدہ کا مآخذ

مشہور روایات اور قدیم شیعہ منابع جیسے إِختِصاص[16] اور إرشاد شیخ مفید،[17] أمالی سیدِ مرتضی[18] اور رجال نَجاشِی،[19] کے مطابق، فرزدق نے یہ اشعار امام سجاد علیہ السلام کے لیے پڑھے ہیں۔ البتہ بعض قدیم منابع مثلاً ابن اعثم (دوسری اور تیسری صدی ہجری) کی الفتوح، طبرانی (چوتھی قمری صدی) کی معجم الکبیر اور اربیلی (ساتویں صدی ہجری) کی کشف الغُمّہ میں بیان ہوا ہے کہ فرزدق نے یہ اشعار امام حسینؑ کے لیے پڑھا ہے۔[20] اور فاکہی (تیسری صدی ہجری) کی کتاب اخبار مکہ جیسے دیگر منابع کے مطابق یہ قصیدہ علی بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کی شان میں پڑھا ہے۔[21]

فرزدق کا قصیدہ میمیہ اہل سنت میں بھی نقل ہوا ہے؛ ان مصادر میں أَبُو الفَرَج اصفہانی (چوتھی صدی ہجری) کی أَغَانِی،[22] اصبہانی کی حِليَۃُالأَولِياء،[23] مرزوقی (پانچویں صدی ہجری) کی شرح دیوان حماسہ،[24] ابن عَسَاکر کی تاریخ دمشق[25] اور جُوزِی (چھٹی صدی ہجری) کی المُنتَظَم ،[26] ابن ِخَلَکَان کی وَفَیَاتُ الاَعیَان،[27] ابن ُالمَغَازِلِی (ساتویں صدی ہجری) کی مَنَاقِب[28] اور ابن کثیر (آٹھویں صدی ہجری) کی بِدَایَہ و نہایۂ[29] شامل ہیں۔

مضمون

فرزادق نے اپنی نظم میں امام سجاد علیہ السلام کو متعدد القابات کے ساتھ بیان کیا ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں:

قصیدہ کا متن

قصیدہ میمیہ
متن ترجمه
یَا سَائلِی: أیْنَ حَلَّ الْجُودُ وَ الْکَرَمُ *** عِنْدِی بَیَانٌ إذَا طُلَّابُهُ قَدِمُوا

اے جود و کرم، شرافت و بزرگی کے مرکز کے بارے میں سوال کرنے والے، اس کا واضح جواب میرے پاس ہے اگر سوال کرنے والے میرے پاس آیئں۔

2 هَذَا الَّذِی تَعْرِفُ الْبَطْحَاءُ وَطْأتَهُ *** وَ الْبَیْتُ یَعْرِفُهُ وَ الْحِلُّ وَ الْحَرَمُ

یہ وہ شخصیت ہے کہ جس کے نقش قدم کو مقدس بطحا پہچانتی ہے اور بیت اللہ اور حل و حرم سب ان کو جانتے پہچانتے ہیں

3 هَذَا ابْنُ خَیْرِ عِبَادِ اللهِ کُلِّهِمُ *** هَذَا التَّقِیُّ النَّقِیُّ الطَّاهِرُ الْعَلَمُ

یہ تو اس ذات گرامی کے لخت جگر ہیں جو اللہ کے تمام بندوں میں سب سے بہتر ہیں (یعنی حضور اکرمؐ) یہ پرہیزگار، تقوی والے، پاکیزہ، صاف ستھرے اور قوم(قریش) کے سردار ہیں۔

4 هَذَا الَّذِی أحْمَدُ الْمُخْتَارُ وَالِدُهُ *** صَلَّی عَلَیْهِ إلَهِی مَا جَرَی الْقَلَمُ

وہ ہیں، خدا کے منتخب کردہ رسول احمد مختارصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے والد ہیں، جن پر خدا ہمیشہ درود و سلام بھیجتا رہتا ہے

5 لَوْ یَعْلَمُ الرُّکْنُ مَنْ قَدْ جَاءَ یَلْثِمُهُ *** لَخَرَّ یَلْثِمُ مِنْهُ مَا وَطَی الْقَدَمُ

اگر حجر اسود کو معلوم ہو جائے کہ کون اسکا بوسہ لینے آرہا ہے تو بلا اختیار خود کو زمین پر گرا کر ان کے قدموں کا بوسہ لیتا

6 هَذَا عَلِیٌّ رَسُولُ اللهِ وَالِدُهُ *** أمْسَتْ بِنُورِ هُدَاهُ تَهْتَدِی الامَمُ

یہ علیؑ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے والد ہیں۔ ان کی ہدایات سے امتیں ہدایت یافتہ ہوتی ہیں۔

7 هَذَا الَّذِی عَمُّهُ الطَّیَّارُ جَعْفَرٌ *** وَ الْمَقْتُولُ حَمْزَةُ لَیْثٌ حُبُّهُ قَسَمُ

جناب جعفر طیار اور جناب سید الشہداء حمزہ ان کے چچا ہیں۔ یہ وہ شیر الٰہی ہیں کہ بہادر اور دلیر جن کی قسم کھاتے ہیں۔

8 هَذَا ابْنُ سَیِّدَةِ النِّسْوَانِ فَاطِمَةِ *** وَ ابْنُ الْوَصِیِّ الَّذِی فِی سَیْفِهِ نِقَمُ

یہ عورتوں کی سردار فاطمہ زہرا کے فرزند ہیں اور وصی پیغمبر کے فرزند ہیں جن کی تلوار میں (مشرکین و کافرین کی) موت چھپی ہوتی ہے۔

9 إذَا رَأتْهُ قُرَیْشٌ قَالَ قَائلُهَا *** إلَی مَکَارِمِ هَذَا یَنْتَهِی الْکَرَمُ

جب ان کو قبیلہ قریش کے لوگ دیکھتے ہیں تو ان کو دیکھ کر اعتراف کرتے ہیں کہ شرافتیں اور بزرگیاں ان کی ذات پر ختم ہوتی ہیں۔

10 یَکَادُ یُمْسِکُهُ عِرْفَانَ رَاحَتِهِ *** رُکْنُ الْحَطِیمِ إذَا مَا جَاءَ یَسْتَلِمُ

جب وہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے آتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ حجر اسود ان کی خوش بو پہچان کر ان کا ہاتھ پکڑ لے گا۔

11 وَ لَیْسَ قَوْلُکَ: مَنْ هَذَا؟ بِضَائِرِهِ *** الْعُرْبُ تَعْرِفُ مَنْ أنْکَرْتَ وَ الْعَجَمُ

(اے ہشام) تیرا یہ کہنا کہ ’یہ کون ہیں‘ اس سے ان کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ جس کو تو نہیں پہچانتا اس کو عرب و عجم پہچانتے ہیں۔

12 یُنْمَی إلَی ذُرْوَةِ الْعِزِّ الَّتِی قَصُرَتْ *** عَنْ نَیْلِهَا عَرَبُ الإسْلَامِ وَ الْعَجَمُ

یہ عزت و بزرگ کے اس اوجِ کمال پر فائز ہیں جس کے حصول سے اسلام کے عرب و عجم قاصر ہیں۔

13 یُغْضِی حَیَاءً وَ یُغْضَی مِنْ مَهَابَتِهِ *** فَمَا یُکَلَّمُ إلَّا حِینَ یَبْتَسِمُ

وہ حیا سے آنکھیں جھکائے رکھتے ہیں، لوگ ان کی ہیبت سے نظر اٹھاکر انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ ان سے گفتگو بس اس وقت ممکن ہے جب ان کے لبوں پر مسکراہٹ ہو۔

14 یَنْجَابُ نُورُ الدُّجَی عَنْ نُورِ غُرَّتِهِ *** کَالشَّمْسِ یَنْجَابُ عَنْ إشْرَاقِهَا الظُّلَمُ

ان کی پیشانی کے نور سے تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ جس طرح آفتاب اندھیروں کو دور کر دیتا ہے۔

15 بِکَفِّهِ خَیْزُرَانٌ رِیحُهُ عَبِقٌ *** مِنْ کَفِّ أرْوَعَ فِی عِرْنِینِهِ شَمَمُ

ان کے ہاتھ میں ایک عصا ہے جو عمدہ خوشبو والا ہے، یہ عصا ایسے عمدہ اور بہترین شخص کے ہاتھ میں ہے جو بلند ناک والا ہے۔(یعنی عزت و شرف والا ہے)

16 مَا قَالَ: لَا، قَطُّ إلَّا فِی تَشَهُّدِهِ *** لَوْلَا التَّشَهُّدُ کَانَتْ لَاؤهُ نَعَمُ

وہ اس قدر سخی ہیں اگر تشہد میں ’لا‘ (نہیں) ہوتا تو ان کی زبان مبارک سے کبھی ’لا‘ نہ جاری نہ ہوتا۔

17 مُشْتَقَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللهِ نَبْعَتُهُ *** طَابَتْ عَنَاصِرُهُ وَ الْخِیمُ وَ الشِّیَمُ

ان کی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات اقدس ہے۔ پاک و پاکیزہ اخلاق و کردار اور بہترین عادات و اطوار۔

18 حَمَّالُ أثْقَالِ أقْوَامٍ إذَا فُدِحُوا *** حُلْوُ الشَّمَائلِ تَحْلُو عِنْدَهُ نَعَمُ

قوم کی ہدایت کا بار گراں کاندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں، جس کو اٹھانے سے پہاڑ انکار کرتے ہیں۔

19 إنْ قَالَ قَالَ بِمَا یَهْوَی جَمِیعُهُمُ *** وَ إنْ تَکَلَّمَ یَوْماً زَانَهُ الْکَلِمُ

اگر وہ لبوں کو جنبش دیں تو سب ان کی بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو فصاحت و بلاغت کی زینت ہے۔

20 هَذَا ابْنُ فَاطِمَةٍ إنْ کُنْتَ جَاهِلَهُ *** بِجَدِّهِ أنْبِیَاءُ اللهِ قَدْ خُتِمُوا

اگر تو انہیں نہیں جانتا تو جان لو یہ فرزند فاطمہؑ ہیں۔ انہیں کے جد پر نبوت و رسالت کا اختتام ہوا۔

21 اللهُ فَضَّلَهُ قِدْماً وَ شَرَّفَهُ *** جَرَى بِذَاكَ لَهُ فِى لَوْحِهِ الْقَلَمُ

خدا نے ان کو اولین و آخرین پر فضیلت و شرف عطا کیا ہے۔ لوح محفوظ کے قلم نے ان کے بارے میں یہی تحریر کیا ہے۔

22 مَنْ جَدُّهُ دَانَ فَضْلُ الانْبِيَاءِ لَهُ * وَ فَضْلُ امَّتِهِ دَانَتْ لَهَا الامَمُ

یہ وہ ہیں جن کے جد کے فضائل کے سامنے تمام انبیاء علیہم السلام کے فضائل ہیچ ہیں۔ ان کے جد کی امت کو بھی تمام انبیاء علیہم السلام کی امت پر فضیلت حاصل ہے۔

23 عَمَّ الْبَرِيَّةَ بِالإحْسَانِ وَ انْقَشَعَتْ *** عَنْهَا الْعِمَايَةُ وَ الإمْلَاقُ وَ الظُّلَمُ

ان کی بخشش و عطا ساری مخلوقات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ ضلالت، گرسنگی اور تاریکی ان سے کوسوں دور ہے۔

24 كِلْتَا يَدَيْهِ غِيَاثٌ عَمَّ نَفْعُهُمَا *** يُسْتَوْكَفَانِ وَ لَا يَعْرُوهُمَا عَدَمُ

ان کے دونوں ہاتھ خدا کے ابر رحمت کی طرح ہیں جس سے ہر ایک فیضیاب ہو رہا ہے۔ عدم و محرومی کا یہاں گذر نہیں ہے۔

25 سَهْلُ الْخَلِيقَةِ لَا تُخْشَى بَوَادِرُهُ *** يَزِينُهُ خَصْلَتَانِ: الْحِلْمُ وَ الْكَرَمُ

ایسے نرم و نیک ہیں کہ سختی کا گذر نہیں ہے۔ انہوں نے بردباری اور شرافت کو زینت دی ہے۔

26 لَا يُخْلِفُ الْوَعْدَ مَيْمُوناً نَقِيبَتُهُ *** رَحْبُ الْفِنَاءِ أرِيبٌ حِينَ يُعْتَرَمُ

یہ اس قدر با برکت ہیں کہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے ہیں۔ ان کی بارگاہ ہر ایک کے لئے پناہ گاہ ہے۔

27 مِنْ مَعْشَرٍ حَبُّهُمْ دِينٌ وَ بُغْضُهُمُ *** كُفْرٌ وَ قُرْبُهُمُ مَنْجًى وَ مُعْتَصَمُ

یہ اس بزرگ خاندان کے فرزند ہیں جن کی محبت دین، جن کی دشمنی کفر اور جن سے قربت نجات اور سعادت کا سبب ہے۔

28 يُسْتَدْفَعُ السُّوءُ وَ الْبَلْوَى بِحُبِّهِمُ *** وَ يُسْتَزَادُ بِهِ الإحْسَانُ وَ النِّعَمُ

ان کی محبت و ولایت سے ہر فتنہ و شر دور ہوتا ہے۔ اور ان کے ذریعے احسان و کرم میں اضافہ ہوتا ہے۔

29 مُقَدَّمٌ بَعْدَ ذِكْرِ اللهِ ذِكْرُهُمْ *** فِى كُلِّ فَرْضٍ وَ مَخْتُومٌ بِهِ الْكَلِمُ

خدا کے ذکر کے بعد انہی کا ذکر سب سے مقدم ہے، اسی کے ذریعے آغاز ہوتا ہے اور اسی پر گفتگو ختم ہوتی ہے۔

30 إنْ عُدَّ أهْلُ التُّقَى كَانُوا أئمَّتَهُم *** أوْ قِيلَ: مَنْ خَيْرُ أهْلِ الارْضِ قِيلَ: هُمُ

اگر پرہیزگاروں کا تذکرہ ہو تو یہ پرہیزگاروں کے سردار ہیں۔ اگر دریافت کیا جائے ساری دنیا میں سب سے بہترین کون تو بس ان کا نام لیا جائیگا۔

31 لَا يَسْتَطِيعُ جَوَادٌ بُعْدَ غَايَتِهِمْ *** وَ لَا يُدَانِيهِمُ قَوْمٌ وَ إنْ كَرُمُوا

ان کی سخاوت کے بعد کسی سخی کی سخاوت کا ذکر نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی قوم کے شریف اور بزرگ ان کے ہم رتبہ نہیں ہیں۔

32 هُمُ الْغُيُوثُ إذَا مَا أزْمَةٌ أزَمَتْ *** وَالاسْدُ اسْدُ الشَّرَى وَ الْبَأسُ مُحْتَدِمُ

قحط کے زمانہ میں یہ باران رحمت ہیں۔ اور جب جنگ کی آگ بھڑک اٹھے تو یہ مرد میدان ہیں۔

33 يَأبَى لَهُمْ أنْ يَحِلَّ الذَّمُّ سَاحَتَهُمْ *** خِيمٌ كَرِيمٌ وَ أيْدٍ بِالنَّدَى هُضُمُ

پستیاں ان کی بارگاہ میں قدم نہیں رکھ سکتیں۔ ایسے بزرگ ہیں جن کا دست کرم بارش کی طرح ہمیشہ فیض پہنچاتا رہتا ہے۔

34 لَا يَقْبِضُ الْعُسْرُ بَسْطاً مِنْ أكُفِّهِمُ *** سِيَّانِ ذَلِكَ إنْ أثْرَوْا وَ إنْ عَدِمُوا

تنگدستی نے کبھی بھی ان کے وجود کو متاثر نہیں کیا۔ مال کا ہونا یا نہ ہونا ان کے لئے برابر ہے۔ (یعنی ان کے پاس مال ہو یا نہ ہو اس سے ان کے سخاوت پر کوئی فرق نہیں پڑتا)

35 أىُّ الْقَبَائلِ لَيْسَتْ فِى رِقَابِهِمُ *** لِاوَّلِيَّةِ هَذَا أوْ لَهُ نِعَمُ

وہ کون سا خاندان اور قبیلہ ہے جو ان کی غلامی میں نہیں ہے اور ان کی اولیت اور تقدم کی وجہ سے یا پھر ان کے احسانات کی وجہ سے۔

36 مَنْ يَعْرِفِ اللهَ يَعْرِفْ أوَّلِيَّةَ ذَا *** فَالدِّينُ مِنْ بَيْتِ هَذَا نَالَهُ الامَمُ

جو خدا کو پہچانتا ہے وہ ان کی اولیت اور تقدیم کو بھی جانتا ہے۔ لوگوں نے انہیں کے بیت الشرف سے دین اور ہدایت حاصل کی ہے۔

37 بُيُوتُهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ يُسْتَضَاءُ بِهَا *** فِى النَّائبَاتِ وَ عِنْد الْحُكْمِ إنْ حَكَمُوا

قریش میں صرف ان کا گھرانہ ہے جہاں لوگوں کی مشکلات حل ہوتی ہیں۔ اسی گھر میں صحیح اور حقیقی فیصلے کئے جاتے ہیں۔

38 فَجَدُّهُ مِنْ قُرَيْشٍ فِى ارُومَتِهَا *** مُحَمَّدٌ وَ عَلِىٌّ بَعْدَهُ عَلَمُ

ان کے جد بزرگوار حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بعد دوسرے جد بزرگوار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ہیں جو امام اور پرچم ہدایت ہیں۔

39 بَدْرٌ لَهُ شَاهِدٌ وَ الشِّعْبُ مِنْ احُدٍ *** وَ الْخَنْدَقَانِ وَ يَوْمُ الْفَتْحِ قَدْ عَلِمُوا

ان کی بہادری، قربانی اور خلوص پر جنگ بدر، احد کی گھاٹی، جنگ خندق، فتح مکہ سب گواہ ہیں۔

40 وَ خَيْبَرٌ وَ حُنَيْنٌ يَشْهَدَانِ لَهُ *** وَ فِى قُرَيْضَةَ يَوْمٌ صَيْلَمٌ قَتَمُ

خیبر و حنین ان کی عظمتوں کا قصیدہ پڑھتے ہیں۔ جنگ بنی قریض اور جنگ تبوک ان کے مدح خواں ہیں۔

41 مَوَاطِنٌ قَدْ عَلَتْ فِى كُلِّ نَائِبَةٍ *** عَلَى الصَّحَابَةِ لَمْ أكْتُمْ كَمَا كَتَمُوا.[36]

یہ عہدے اور منصب ایسے دلخراش اور خوفناک مناظر تھے جنہیں کھولنے اور فتح کا راستہ تلاش کرنے میں صحابہ ناکام رہے اور یہ ایک حقیقت ہے جس کو میں چھپا نہیں رہا، جس طرح سے انہوں نے چھپایا تھا۔[37]

ترجمہ و شروحات

قصیدہ میمیہ کے مختلف ترجمے اور شروحات لکھی گئی ہیں؛ ان میں عبدالرحمن بن احمد جامی (نویں صدی ہجری کے مشہور شاعر)،[38] سید ظفرخان جوہری استروشنی،[39] ابوالقاسم وفا (وفات: 1261ھ)،[40] عبدالکریم محرابی ایروانی (1310-1382ش) ہیں[41] اور نور اللہ شاہ آبادی نے[42] اس کا فارسی میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔ نیز جامی،[43] استرآبادی (گیارہویں اور بارہویں صدی ہجری)،[44] محمد بن سلیمان تنکبانی (1234-1302ھ)،[45] محمد بن ابراہیم بن علی بن یوسف السبیتی العاملی (تیرہویں صدی ہجری)،[46] عبد الحسین فاضل گروسی (1295-1324 ہجری)، [47] مصطفی بن محمد خوئی (13ویں صدی)،[48] ابوالحسن تنکابانی (14ویں صدی)،[49] صابر شوشتری،[50] اور گودینی [51] نے اس قصیدے پر مستقل شرحیں لکھی ہے۔ بعض شارحین نے ایک کتاب میں فرزادق کے بعض مصرعوں کو ذکر کیا ہے؛ مثال کے طور پر، مرزوقی (متوفی: 421 ہجری) نے دیوان الحماسہ طائی پر شرح لکھتے ہوئے قصیدہ میمیہ کے بعض مصرعوں کی بھی تشریح کی ہے۔[52]

طباعت و نشر

قصیدہ میمیہ مختلف ادوار میں بغیر ترجمہ یا ترجمہ و تشریح کے ساتھ شائع ہوا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

  • القصیدة المیمیہ فی مدح علی بن الحسین(ع)، تصحیح ابوالحسن تبریزی زنوزی و علی اصغر بن عبدالجبار اصفہانی سمیرمی، بی نا، تہران، 1272ق[53]
  • اصفہانی سمیرمی، علی اصغر بن عبدالجبار، القصیدة المیمیہ فی مدح علی بن الحسین (ع)، نشر کارخانہ اللہ قلی خان، تہران، 1273ھ۔[54]
  • القصیدة المیمیہ فی مدح علی بن الحسین (ع)، بی نا، ایران، 1274ھ۔[55]
  • القصیدة المیمیہ فی مدح علی بن الحسین(ع)، بی نا، تہران، 1282ھ۔[56]
  • القصیدة المیمیہ فی مدح علی بن الحسین (ع)، بی نا، تہران، 1315ھ۔[57]
  • محلاتی حائری، علی، القصیدة المیمیہ فی مدح علی بن الحسین(ع)، بی نا، بمبئی، 1318ھ۔[58]
  • القصیدة المیمیہ فی مدح علی بن الحسین (ع)، نشر کریمی، لاہور، 1339-1340ھ۔[59]

حوالہ جات

  1. انصاری، «وفاداری، بازآفرینی یا آفرینش ادبی در ترجمہ شعر (بررسی مقابلہ ای شعر جامی و شعر فرزدق در مدح امام سجاد(ع))»، در مجلہ پژوہش ہای ترجمہ در زبان و ادبیات عربی، ص145.
  2. درایتی، فہرستگان نسخہ ہای خطی ایران، 1392ش، ج25، ص283.
  3. بیہقی، المحاسن و المساوی، 1420ق، ص161.
  4. اصفہانی، الاغانی، 1415ق، ج21، ص246.
  5. ابن خلکان، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، 1364ش، ج6، ص95.
  6. کشی، رجال الكشي - إختيار معرفۃ الرجال، 1409ق، ص129.
  7. حافظ مزی، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، 1406ق، ج20، ص401.
  8. مفید، الإختصاص، 1413ق، ص191.
  9. فَتَّال نیشابوری، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، 1375ش، ج1، ص199.
  10. ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ق‏، ج4، ص168.
  11. فرزدق، دیوان الفرزدق، 1984م، ج2، ص178.
  12. مفید، الإختصاص، 1413ق، ص191
  13. مفید، الإختصاص، 1413ق، ص193؛ سید مرتضی، أمالی، 1998م، ج‏1، ص69.
  14. مفید، الإختصاص، 1413ق، ص193؛ سید مرتضی، أمالی، 1998م، ج‏1، ص69.
  15. راوندی، الخرائج و الجرائح‏، 1409ق، ج‏1، ص267.
  16. مفید، الإختصاص، 1413ق، ص191.
  17. مفید، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد، 1413ق، ج‏2، ص150.
  18. سید مرتضی، أمالي المرتضى، 1998م، ج‏1، ص67.
  19. طوسی، رجال الكشي - إختيار معرفۃ الرجال، 1409ق، ص130.
  20. ابن اعثم، الفتوح، 1411ق، ج5، ص72؛ طبرانی، المعجم الكبير، بی تا، ج3، ص101؛ اربلی، كشف الغمۃ في معرفۃ الأئمۃ، ج‏2، ص43.
  21. فاکہی، أخبار مکۃ في قدیم الدہر و حدیثہ، 1424ق، ج2، ص178.
  22. اصفہانی، الاغانی، 1415ق، ج21، ص246
  23. اصبہانی، حليۃ الأولياء وطبقات الأصفياء، 1394ق، ج3، ص139.
  24. مرزوقی، شرح دیوان الحماسہ، 1424ق، ص 1134.
  25. ابن عساکر، تاريخ دمشق، 1415ق، ج41، ص400.
  26. جوزی، المنتظم في تاريخ الأمم والملوك، 1412ق، ج6، ص331.
  27. ابن خلکان، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، 1364ش، ج6، ص95.
  28. ابن المغازلی، مناقب أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ، 1424ق، ص311.
  29. ابن کثیر، البدايۃ و النہايۃ، 1407ق، ج12، ص491.
  30. متن قصیده، بیت۳ تا ۱۸- ۲۰-۲۴.
  31. متن قصیده، بیت۳.
  32. متن قصیده، بیت۱۹ و ۳۲.
  33. متن قصیده، بیت۲۵-۲۶-۳۰.
  34. متن قصیده، بیت۲۷.
  35. متن قصیده، بیت۳۸-۴۰.
  36. ابن شهر آشوب، مناقب آل‌أبی‌طالب عليهم‌السلام، 1379ق، ج‏4، ص169.
  37. قادری بدایونی، قصیدہ میمیہ مدحت امام زین العابدین، ص 39
  38. مدرس تبریزی، ریحانة الادب فی تراجم المعروفین بالکنیه او اللقب، 1369ش، ج1، ص387.
  39. جوهری استروشنی، «شرح منظوم بر قبساتی از قصیده فرزدق» در وبگاه گیسوم.
  40. درایتی، فهرستگان نسخه‌های خطی ایران، 1392ش، ج25، ص283.
  41. بی نا، «ترجمه منظوم قصیده سجادیه فرزدق به زبان فارسی»، در درگاه موسسه و بنیاد بین المللی صحیفه سجادیه.
  42. شاه‌آبادی، «قصیده میمیه (فرزدق) در مدح امام علی ابن الحسین زین‌العابدین (ع)» در وبگاه خانه‌کتاب و ادبیات ایران.
  43. انوار، «ترجمه منثور و منظوم و شرح قصیده میمیه فرزدق شاعر نامبردار دوره اسلامی در مدح امام علی بن الحسین ملقب به زین العابدین و سید الساجدین»، 1358ش، ص308.
  44. درایتی، فهرستگان نسخه‌های خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303؛ موسسه تحقیقات رایانه ای قائمیه اصفهان، بانک جامع فهرست الفبایی نسخ خطی جهان، 1401ش، ج17، ص10678-10679؛ حسینی، التراث العربی المخطوط فی مكتبات ایران العامة، 1388ش، ج14، ص399.
  45. درایتی، فهرستگان نسخه‌های خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303.
  46. آقابزرگ تهرانی، الذریعه الی تصانیف الشیعه، 1403ق، ج14، ص14.
  47. درایتی، فهرستگان نسخه‌های خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303.
  48. درایتی، فهرستگان نسخه‌های خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303.
  49. امین، حسن، مستدرکات اعیان الشیعه، 1408ق، ج3، ص8.
  50. صابر شوشتری، شرح قصیده الفرزدق و تخامیسها، 1373ش، در وبگاه کتابخانه مرکزی دانشگاه فردوسی مشهد.
  51. گودینی، بررسی، شرح و تحلیل قصیده‌ی فرزدق، 1395ش.
  52. مرزوقی، شرح دیوان الحماسه، 1424ق، ص 1134.
  53. درایتی، فہرستگان نسخہ ہای خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303
  54. درایتی، فہرستگان نسخہ ہای خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303
  55. درایتی، فہرستگان نسخہ ہای خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303
  56. درایتی، فہرستگان نسخہ ہای خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303
  57. درایتی، فہرستگان نسخہ ہای خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303
  58. درایتی، فہرستگان نسخہ ہای خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303
  59. درایتی، فہرستگان نسخہ ہای خطی ایران، 1392ش، ج25، ص303

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، تحقیق: احمد حسینی اشکوری، بیروت، دارالاضواء، 1403ھ۔
  • أبو الفرج الإصفہانی، على بن الحسين، الاغانی، بیروت، دار إحياء التراث العربي، چاپ اول، 1415ھ۔
  • ابن‌ المغازلی، علی بن محمد، مناقب أمير المؤمنين علي بن أبی‌طالب رضي اللہ عنہ، تحقیق: محمدباقر بہبودی، بیروت، دارالاضواء، 1424ھ۔
  • ابن‌ حيون، نعمان بن محمد مغربى‏، شرح الأخبار في فضائل الأئمۃ الأطہار عليہم السلام‏، تحقیق و تصحیح محمدحسين حسينى جلالى، جامعہ مدرسين‏، چاپ اول، 1409ھ۔
  • ابن‌ خلکان، احمد بن محمد، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، قم، الشریف الرضی، 1364ہجری شمسی۔
  • ابن‌ شہر آشوب مازندرانى، محمد بن على، مناقب آل أبي طالب عليہم السلام‏، قم، علامہ‏، چاپ اول، 1379ھ۔
  • ابن‌ طرار، الجليس الصالح الكافي والأنيس الناصح الشافي، أبو الفرج المعافى بن زكريا بن يحيى الجريرى النہرواني، المحقق: عبد الكريم سامي الجندي، بيروت، دار الكتب العلميۃ، الطبعۃ الأولى، 1426ھ۔
  • ابن‌ عساکر، أبو القاسم علي بن الحسن بن ہبۃ اللہ(571ق)،، تاريخ دمشق، المحقق: عمرو بن غرامۃ العمروي، دار الفكر للطباعۃ والنشر والتوزيع، 1415ھ۔
  • ابن‌ کثیر، أبو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقى، البدايۃ و النہايۃ، بيروت، دار الفكر، 1407ھ۔
  • ابن‌ میمون بغدادی، محمد بن مبارک، منتہی الطلب فی اشعار العرب، تحقیق: محمد نبیل طریفی، بیروت، دار صادر، 1999ء۔
  • اربلى، على بن عيسى، كشف الغمۃ في معرفۃ الأئمۃ‏، تحقیق و تصحیح سید ہاشم رسولى محلاتى، تبریز، بنى ہاشمى، چاپ اول، 1381ھ۔
  • استرآبادی، محمدشفیع بن محمدعلی، شرح قصیدہ میمیہ فرزدق، 1075ھ۔
  • اصبہانی، أبو نعيم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مہران الأصبہاني، حليۃ الأولياء وطبقات الأصفياء، الناشر: السعادۃ - بجوار محافظۃ مصر، 1394ھ۔
  • السمعاني التميمي الحنفي ثم الشافعي، أبو المظفر منصور بن محمد بن عبد الجبار ابن أحمد، تفسير القرآن، المحقق: ياسر بن إبراہيم وغنيم بن عباس بن غنيم، الریاض، دار الوطن، الطبعۃ الأولى، 1418ھ۔
  • الكوفى، أبو محمد أحمد بن اعثم(314ق)، كتاب الفتوح، تحقيق: علی شيرى، بيروت، دارالأضواء، ط الأولى، 1411ھ۔
  • المرزوقي الأصفہاني، أبو على أحمد بن محمد بن الحسن، شرح ديوان الحماسۃ، المحقق: غريد الشيخ، بیروت، دار الكتب العلميۃ، الطبعۃ الأولى، 1424ھ۔
  • امین، حسن، مستدرکات اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1408ھ۔
  • انوار، امیرمحمود، «ترجمہ منثور و منظوم و شرح قصیدہ میمیہ فرزدق شاعر نامبردار دورہ اسلامی در مدح امام علی بن الحسین ملقب بہ زین العابدین و سید الساجدین» در مجلہ دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی دانشگاہ تہران، سال24، شمارہ 3 و 4، 1358ہجری شمسی۔
  • بیہقی، ابراہیم بن محمد، المحاسن و المساوی، محشی: علی عدنان، بیروت، دار الکتب العلميۃ، 1420ھ۔
  • جوزی، جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد(المتوفى: 597ہـ)، المنتظم في تاريخ الأمم والملوك، المحقق: محمد عبد القادر عطا، مصطفى عبد القادر عطا، بیروت، دار الكتب العلميۃ، الطبعۃ الأولى، 1412ھ۔
  • جوہری استروشنی، سید زفرخان، «شرح منظوم بر قبساتی از قصیدہ فرزدق»، قم، سازمان حوزہ‌ہا و مدارس‌علمیہ خارج از کشور، چاپ اول، 1378ہجری شمسی۔
  • حافظ مزی، یوسف بن عبدالرحمن، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، بیروت، موسسہ الرسالہ، 1406ھ۔
  • حسینی، احمد، التراث العربی المخطوط فی مكتبات ایران العامۃ، قم، دلیل ما، 1388ہجری شمسی۔
  • حصری، إبراہيم بن علی بن تميم الأنصاری، أبو إسحاق الحُصری القيروانی، زہر الآداب و ثمر الالباب، تحقیق: محمدزکی مبارک، بیروت، دار الجیل، بی‌تا.
  • درایتی، مصطفی، فہرستگان نسخہ‌ہای خطی ایران، تہران، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران، 1392ہجری شمسی۔
  • راوندی، سعيد بن ہبۃ اللہ قطب الدين، الخرائج و الجرائح‏، محقق/مصحح: مؤسسۃ الإمام المہدى عليہ السلام‏، قم، مؤسسہ امام مہدى عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف‏، چاپ اول، 1409ھ۔
  • سبط‌ ابن‌ جوزی، شمس‌ الدین ابو المظفر یوسف بن قزاوغلی بن عبداللہ بغدادی، تذكرۃ الخواص، قم، منشورات الشريف الرضى، چاپ اول، 1418ھ۔
  • شاہ‌آبادی، نوراللہ، «قصیدہ میمیہ (فرزدق) در مدح امام علی ابن الحسین زین العابدین (ع)»، تہران، عارف کامل، چاپ اول، 1381ہجری شمسی۔
  • صابر شوشتری، سلطان علی، شرح قصیدہ الفرزدق و تخامیسہا، قم، نشر مدبن، 1373ہجری شمسی۔
  • طبرانی، سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، المعجم الكبير، المحقق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، القاہرۃ، دار النشر: مكتبۃ ابن تيميۃ، بی‌تا.
  • علم الہدى، على بن حسين‏، أمالي المرتضى‏، محقق / مصحح: ابراہيم، محمد ابوالفضل‏، قاہرہ‏، دار الفكر العربي‏، چاپ اول، 1998ء۔
  • فاکہی، ابو عبداللہ محمد بن اسحاق، أخبار مکۃ في قدیم الدہر و حدیثہ، تحقیق: عبدالملک ابن دہیش، مکہ، مکتبہ الاسدی، 1424ھ۔
  • فتال نيشابورى، محمد بن احمد، روضۃ الواعظين و بصيرۃ المتعظين، قم، انتشارات رضى‏، چاپ اول، 1375ہجری شمسی۔
  • فرزدق، ہمام بن غالب، دیوان الفرزدق، بیروت، دار بیروت، 1984ء۔
  • قادری بدایونی، سید الحق محمد عاصم، ترجمہ قصیدہ میمیہ مدحت امام زین العابدین، لاہور، دار الاسلام، 2018ء۔
  • كشى، محمد بن عمر، إختيار معرفۃ الرجال، محقق / مصحح: محمد بن الحسن طوسى و حسن مصطفوى، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، چاپ اول، 1409ھ۔
  • گودینی، محمدجواد، بررسی، شرح و تحلیل قصیدہ‌ی فرزدق، تہران، نشر نظری، 1395ہجری شمسی۔
  • محرابی ایروانی، عبد الکریم، «ترجمہ منظوم قصیدہ سجادیہ فرزدق بہ زبان فارسی».
  • مدرس تبریزی، محمد علی، ریحانۃ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، تہران، کتابفروشی خیام، چاپ سوم، 1369ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن محمد، الإختصاص، محقق/مصحح: علی‌اکبر غفارى و محمود محرمی زرندی، الموتمر العالمى لالفيۃ الشيخ المفيد، چاپ اول، 1413ھ۔
  • مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد، محقق/مصحح: مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام، قم، كنگرہ شيخ مفيد، چاپ اول، 1413ھ۔
  • موسسہ تحقیقات رایانہ ای قائمیہ اصفہان، بانک جامع فہرست الفبایی نسخ خطی جہان، اصفہان، موسسہ تحقیقات رایانہ ای قائمیہ اصفہان، چاپ اول، 1401ہجری شمسی۔
  • نصاری، نرگس، «وفاداری، بازآفرینی یا آفرینش ادبی در ترجمۃ شعر (بررسی مقابلہ‌ای شعر جامی و شعر فرزدق در مدح امام سجاد(ع))»، در مجلہ پژوہش‌ہای ترجمہ در زبان و ادبیات عربی، شمارہ 18، 1397ہجری شمسی۔