بلغ العلی بکمالہ

ویکی شیعہ سے
بلغ العلی بکمالہ
کوائف شعر
شعر کا نامبلغ العلی بکمالہ
دوسرے اسامیکشف الدجی بجمالہ
شاعرسعدی شیرازی
موضوعمدح حضرت محمدؑ
زبانعربی
تاریختقریبا ساتویں صدی ہجری
تعداد ابیات2
مشہور اشعار
قصیدہ لامیہ ابوطالب تائیہ دعبل محتشم کا بارہ بند همائے رحمت بہشت کا ایک ٹکڑا اے اہل حرم با آل علی ہرکہ درافتاد ورافتاد مکن ای صبح طلوع ہا علی بشر کیف بشر


بَلَغَ العُلیٰ بِکَمالِہ، سعدی شیرازی کا ایک شعر ہے جس میں انہوں نے پیغمبر اسلامؐ کی مدح بیان کی ہے۔ یہ شعر دو بیت یا ایک‌ بیت کی شکل میں گلستان سعدی کے دیباچے میں عربی زبان میں آیا ہے۔ سعدی پہلے مصرع میں حضرت محمدؐ کو کمالات کے سب سے اعلی درجے کا حامل قرار دیتے ہیں جس نے اپنے جمال کے نور کے ذریعے تاریکیوں کو برطرف کیا ہے۔ دوسرے مصرع میں پیغمبر اکرمؐ کی تمام خصوصیات کو پسندیدہ شمار کرتے ہوئے آپؐ اور آپ کی آل پر درود بھیجتے ہیں۔

مذکورہ شعر کو سعدی کے ممتاز اشعار میں شمار کیا جاتا ہے اور اسے حضرت محمدؐ کے ساتھ ان کی دلی لگاؤ اور محبت کی نشانی قرار دی جاتی ہے۔ اسی طرح اس شعر اور اپنے دیگر اشعار میں اہل بیتؑ کو یاد کرنا سعدی کے شیعہ ہونے کی نشانی قرار دی جاتی ہے۔

شعر بلغ العلی کو ادبی آثار میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے جس کی بنا پر "بلغ العلی بکمالہ" کے عنوان سے مستقل کتابیں بھی تحریر کی گئی ہیں۔ یہ شعر پینٹنگز بورڈ، خوشخطی اور قالین پینلز وغیرہ پر بھی استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ سعدی کا یہ نظم عام لوگوں کی زبان پر بھی رائج ہے اور مسلمان مختلف مذہبی مراسم میں اسے پڑھتے ہیں۔

تعارف

بَلَغَ العُلیٰ بِکَمالِہِکَشَفَ الدُّجیٰ بِجَمالِہِ
حَسُنَت جَمیعُ خِصالِہِصَلُّوا عَلَیہِ وَ آلِہِ[1]

پیغمبر اسلامؐ کمال کے اعلی منزل پر فائز ہیں۔ تاریکیوں کو اپنے جمال کے نور سے برطرف کیا ہے۔ آپ تمام نیک خصوصیات کا حامل ہیں۔ خدا کا دورود و سلام ہو آپؐ اور آپ کی آلؑ پر۔[2]

شعر بلغ العلی سعدی شیرازی کی شاعری ہے جو کتاب گلستان کے دیباچے میں موجود ہے۔[3] کتاب گلستان کے بعض نسخوں میں یہ شعر ایک‌ بیت کی شکل میں پہلا بیت پہلا مصرع اور دوسرا بیت دوسرا مصرع کے طور پر درج ہے۔[4]

یہ شعر عربی زبان میں ہے لیکن سادہ عربی اشعار کا پڑھنا دوسرے زبان خاص کر فارسی اور اردو زبان والوں کے لئے ایک رائج امر ہے۔[5] "دُجیٰ" کا لفظ لغت میں تاریکی[6]یا تاریکیوں[7] کے معنی میں آیا ہے۔ لغت شناس دہخدا دوسرے مصرع سے حضرت محمدؐ کے جمال کے نور کی وجہ سے ظلمتوں کے برطرف ہونے کا معنا کیا ہے۔[8] البتہ بعض لغت دان "دُجی" سے پردہ مراد لیتے ہیں اور مذکورہ عبارت کا یوں معنا کرتے ہیں کہ حضرت محمدؐ کے جمال کی وجہ سے خوبصورتی کا پردہ ڈالا گیا۔[9]

شاعر

شعر بلغ العلی سعدی شیرازی کا ایک خوبصورت کلام ہے[10] جس میں رسول خداؐ کے ساتھ ان کے قلبی لگاؤ اور عشق و محبت کا اندازہ ہوتا ہے؛[11] یہاں تک کہ بعض ان دو اشعار کو حضرت محمدؐ کی تعریف میں بہترین اور بے نظیر اشعار قرار دیتے ہیں۔[12] بعض مورخین مربوطہ آیات اور روایات کی روشنی میں اس بات کے معتقد ہیں کہ سعدی نے ان دو اشعار کے ذریعے پیغمبر اسلامؐ کی مختصر عبارت میں بہترین تعریف کی ہے۔[13] اس شعر کے آخر میں سعدی حضرت محمدؑ کی اہل بیتؑ کا نام لیتے ہیں جو ان کے دوسرے اشعار میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔[14] بعض اس بات کو سعدی کے مذہب تشیع کی طرف مائل ہونے کی نشانی قرار دیتے ہیں۔[15]

اہمیت اور رد عمل

شعر بلغ العلی کو دوسرے ادبی اور ہنری آثار میں بہت زیادہ پذیرائی ملی ہے جس کا نتیجہ ادبی متون، ہنری آثار اور عمومی ادب میں دیکھا جا سکتا ہے:

ادبی متون میں

یہ شعر بسا اوقات بعض ایرانی شاعروں جیسی ریحان‌ اللہ نخعی گلپایگانی (1318–1412ھ)[16] اور محمد تقی کرمانی ملقب بہ مظفر و یا مولوی کرمانی (متوفی 1215ھ)[17] کے اشعار اور قصائد میں استعمال ہوا ہے۔ بعض غیر ملکی شاعروں جیسے پاکستانی شاعر ظفرعلی‌ خان (1873–1956ء) نے بھی اس شعر کو اپنے اشعار میں استعمال کیا ہے۔[18] اسی طرح سعدی کے انداز شاعری کو دیکھتے ہوئے دوسرے شعراء [19] نے بھی رسول خداؐ کی تعریف میں "بلغ العلی" کی طرح اشعار کہنا شروع کئے ہیں۔[20] یہ شعر نثری متون میں بھی پیغمبر اسلامؐ [21] اور ائمہ معصومینؑ کی توصیف[22] کی ہیں۔ بعض مصنفین نے اپنی تصنفوں کا عنوان ہی "بلغ العلی بکمالہ" رکھا ہے۔[23]

ہنری آثار میں

ہنری آثار میں بھی شعر بلغ العلی کا اثر نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے، مختلف پینٹرز اورخطاطوں نے اس شعر کے مضمون پر اپنا ہنری اثر ایجاد کئے ہیں اور اس سلسلے میں سنہ1298ھ میں تحریر کردہ میرزا محمد رضا کلہر[24] اور اسماعیل جلایر[25] کی خطاطی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ یہ شعر خط نستعلیق میں مختلف قالیچوں پر لکھ کر پندرہویں صدی ہجری کے آغاز کی مناسبت سے ہونے والے مقابلوں میں بھی پیش کی گئی ہیں۔[26] اسی طرح شعر بلغ العلی بعض تاریخی آثار کے دیواروں پر بھی منقوش ہیں۔[27]

عام لوگوں کی ادبیات میں

شعر بلغ العلی عام لوگوں کی ادبیات میں بھی داخل ہوا ہے؛[28] یہ شعر رسول خداؐ کی ولادت کے ایام[29] اور حتی محرم گے ایام[30] میں بعض جگہوں پر پڑھے جاتے ہیں۔ عام لوگوں کے علاوہ درویش حضرات بھی مخصوص انداز میں اس شعر کو پڑھتے ہیں۔[31] اس شعر کی شہرت ایران سے باہر دوسرے ملکوں تک بھی پہنچ گئی ہے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ کشمیری لوگ اپنی مساجد میں اس شعر کو بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔[32]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. سعدی، گلستان سعدی، 1374ش، ص9۔
  2. «گردہمایی دوستداران ماہنامۀ حافظ»، ص118۔
  3. سعدی، گلستان سعدی، 1374ہجری شمسی، ص9
  4. جلالی، «سعدی در زنجیرۀ شاعران عروضی»، ص190۔
  5. ابن فوطی، مجمع الآداب، تحقیق محمد کاظم، 1374ہجری شمسی، ج5، ص248، پاورقی ش1۔
  6. جوہری، الصحاح، 1956م، ج6، ص2334۔
  7. فراہیدی، العین، 1410ق، ج6، ص168؛ تہذیب اللغہ،1421ق، ج11، ص111۔
  8. دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، 1377، ذیل واژہ کشف، ج12، ص18365۔
  9. «گردہمایی دوستداران ماہنامۀ حافظ»، ص118۔
  10. حسینی فسایی، فارسنامہ ناصری، 1382ش، ص1169-1170۔
  11. بلخاری، «نسبت میان عقل و عشق از منظر سعدی»، ص35۔
  12. بلخاری، «نسبت میان عقل و عشق از منظر سعدی»، ص35۔
  13. یزدان‌پرست، «شمیم علوی در گلستان سعدی»، ص42۔
  14. سعدی، بوستان سعدی، 1372ش، ص209؛ ہمو، کلیات، 1385ش، ص1071۔
  15. واعظی منفرد، «پیوندہای تشیع و ادبیات فارسی در قرن ہفتم و ہشتم: بررسی نقادانہ نشانہ‌ہای تشیع در آثار سعدی و حافظ»، ص129-130۔
  16. شریف رازی، گنجینہ دانشمندان، 1352ہجری شمسی، ص583 – 585۔
  17. ہدایت، مجمع الفصحاء، 1382ش، ج2، ص1367-1374۔
  18. مرادآبادی، «مولانا ظفرعلی خان»، ص72-73۔
  19. عرشی پاکستانی، «حکیم طغرایی»، ص494۔
  20. خلیلی جہان‌تیغ و دیگران، «تحلیل پارودی در خارستان ادیب قاسمی کرمانی»، ص68-69۔
  21. نصیری، دستور شہریاران، 1373ہجری شمسی، ص297؛ میرخواند، روضہ الصفا، 1270ھ، ص229۔
  22. مراغہ‌ای، سیاحتنامہ ابراہیم بیگ، 1385ش، ص53-54۔
  23. آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، 1430ھ، ج12، ص327-328۔
  24. بختیار، «آثار خوشنویسی در گنجینہ کتابخانہ مرکزی»، ص66۔
  25. حسینی، «بنیان‌ہای مدرنیسم در ایران»، ص23-24؛ معیرالممالک، «رجال عصر ناصری»، ص172۔
  26. یغمایی، «آغاز پانزدہمین قرن بعثت»، ص420 – 421۔
  27. جعفرنژاد، «نقش آیکونوگرافی در تکایا و سقانفار (سقاخانہ) مازندران»، ص94۔
  28. صافی، «مقام سعدی در سند»، ص230-231۔
  29. صافی، «مقام سعدی در سند»، ص230-231۔
  30. احمدی ری‌شہری و شنبہ زادہ، «موسیقی بوشہر در مراسم نوحہ‌خوانی و سینہ‌زنی»، ص20۔
  31. الصراف، «الدرویش»، ص90۔
  32. نیازمند، «نفوذ زبان فارسی در زبان کشمیری»، ص845۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمد محسن، طبقات اعلام الشیعہ، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، 1430ھ۔
  • ابن فوطی، عبدالرزاق بن احمد، مجمع الآداب فی معجم الالقاب، تحقیق محمد کاظم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1374ہجری شمسی۔
  • احمدی ری‌شہری، عبدالحسین و سعید شنبہ زادہ، «موسیقی بوشہر در مراسم نوحہ خوانی و سینہ زنی»، در مجلہ مقام موسیقایی، شمارہ 20، بہار 1382ہجری شمسی۔
  • ازہری، محمد بن احمد، تہذیب اللغہ، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، 1421ھ۔
  • بختیار، مظفر، «آثار خوشنویسی در گنجینہ کتابخانہ مرکزی»، در مجلہ تحقیقات کتابداری و اطلاع رسانی دانشگاہی، شمارہ 11، اسفند 1366ہجری شمسی۔
  • بلخاری، حسن، «نسبت میان عقل و عشق از منظر سعدی»، در مجلہ سعدی‌شناسی، شمارہ 4، پاییز 1396ہجری شمسی۔
  • جعفرنژاد، سیدرضا و سید حسین جعفرنژاد، «نقش آیکونوگرافی در تکایا و سقانفار (سقاخانہ) مازندران»، در مجلہ تحقیقات جدید در علوم انسانی، سال سوم، شمارہ 25، تابستان 1396۔
  • جلالی، محمد امیر، «سعدی در زنجیرۀ شاعران عروضی: بررسی انتقادی اوزان کلیات سعدی بر مبنای متون چاپی و نسخ خطی بہ ہمراہ بحثی دربارۀ شاعران عروضی تاریخ شعر پارسی»، در مجلہ مطالعات زبانی و بلاغی، سال 10، شمارہ 20، پاییز و زمستان 98۔
  • جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح (تاج اللغہ و صحاح العربیہ)، بیروت،‌ دار العلم للملایین، 1956ء۔
  • حسینی فسایی، حسن، فارسنامہ ناصری، تہران، امیرکبیر، چاپ سوم، 1382ہجری شمسی۔
  • حسینی، مہدی، «بنیان‌ہای مدرنیسم در ایران»، در مجلہ کتاب ماہ ہنر، شمارہ 89 و 90، بہمن و اسفند 1384ہجری شمسی۔
  • خلیلی جہان‌تیغ، مریم و محمدرضا حیدری و محمد بارانی، «تحلیل پارودی در خارستان ادیب قاسمی کرمانی»، در مجلہ مطالعات زبانی و بلاغی، شمارہ 21، بہار و تابستان 1399ہجری شمسی۔
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامہ دہخدا، تہران، موسسہ انتشارات و چاپ دانشگاہ تہران، چاپ دوم، 1377ہجری شمسی۔
  • رازی، محمد شریف، گنجینہ دانشمندان، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، 1352ہجری شمسی۔
  • سعدی، مصلح‌الدین، بوستان سعدی، تہران، ققنوس، چاپ چہارم، 1372ہجری شمسی۔
  • سعدی، مصلح‌الدین، کلیات سعدی، تہران، ہرمس، 1385ہجری شمسی۔
  • سعدی، مصلح‌الدین، گلستان سعدی، تہران، موسسہ فرہنگی زین‌العابدین محبی، 1374ہجری شمسی۔
  • سعیدی، سید غلامرضا، «بزرگترین مرد تاریخ جہان»، در مجلہ مکتب تشیع، شمارہ 1، 1338ہجری شمسی۔
  • صافی، قاسم، «مقام سعدی در سند»، در مجلہ آینہ میراث، سال ششم، شمارہ 40، بہار 1387ہجری شمسی۔
  • الصراف، احمد حامد، «الدرویش»، در مجلہ لغۃ العرب، سال ششم، شمارہ 2، صفر 1347ھ۔
  • طاہر، رحیم، «بررسی نظیرہ‌گویی و استقبال خلّاقانۀ شہریار از غزل‌ہای حافظ»، در مجلہ مطالعات شہریار پژوہی، سال سوم، شمارہ 12، بہار 1396ہجری شمسی۔
  • عرشی پاکستانی، محمدحسین، «حکیم طغرایی»، در مجلہ وحید، شمارہ 184، مرداد 1352ہجری شمسی۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، قم، نشر ہجرت، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • «گردہمایی دوستداران ماہنامۀ حافظ»، در مجلہ حافظ، شمارہ 22، دی 1384ہجری شمسی۔
  • مراد آبادی، راغب، «مولانا ظفرعلی خان»، در مجلہ ہلال، شمارہ 38، فروردین 1341ہجری شمسی۔
  • مراغہ‌ای، زین العابدین، سیاحتنامہ ابراہیم بیگ، تہران، آگہ، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
  • معیرالممالک، دوست‌علی، «رجال عصر ناصری»، در مجلہ یغما، شمارہ 108، تیر 1336ہجری شمسی۔
  • میرخواند، محمد بن خواند شاہ، روضہ الصفا، تہران،‌ دار الطباعہ خاصہ جدیدہ، 1270ھ۔
  • واعظی منفرد، سجاد، «پیوندہای تشیع و ادبیات فارسی در قرن ہفتم و ہشتم: بررسی نقادانہ نشانہ‌ہای تشیع در آثار سعدی و حافظ»، در مجلہ پژوہشنامہ امامیہ، شمارہ 15، بہار و تابستان 1401ہجری شمسی۔
  • نصیری، محمد ابراہیم، دستور شہریاران، تہران، بنیاد موقوفات دکتر محمود افشار، 1373ہجری شمسی۔
  • نیازمند، محمدصدیق، «نفوذ زبان فارسی در زبان کشمیری: لغات و ترکیبات فارسی رایج در زبان کشمیری»، در مجلہ ایران‌شناسی، سال 11، شمارہ 4، زمستان 1378ہجری شمسی۔
  • ہدایت، رضا قلی، مجمع الفصحاء، تہران، امیرکبیر، چاپ دوم، 1382ہجری شمسی۔
  • یزدان پرست، حمید، «شمیم علوی در گلستان سعدی»، در مجلہ اطلاعات حکمت و معرفت، سال ششم، شمارہ 6، مہر 1390ہجری شمسی۔
  • یغمایی، حبیب، «آغاز پانزدہمین قرن بعثت»، در مجلہ یغما، شمارہ 242، آبان 1347ہجری شمسی۔