بادشاہی عاشور خانہ

ویکی شیعہ سے
بادشاہی عاشور خانہ
بادشاہی عاشور خانہ کا اندرونی ہال
بادشاہی عاشور خانہ کا اندرونی ہال
ابتدائی معلومات
بانیسلطان محمدقلی قطب‌ شاہ کے حکم سے میر محمد مؤمن استرآبادی نے تعمیر کیا
تاسیسسنہ 1005ھ
استعمالامام حسینؑ کی عزاداری اور دیگر مذہی رسومات کے لئے
محل وقوعحیدر آباد ہندوستان
مشخصات
موجودہ حالتفعال
سہولیاتاندرونی ہال، صحن، نقارخانہ اور آبدارخانہ وغیرہ
معماری
تعمیر نو1178ھ، آصف‌ جاہ دوم


بادشاہی عاشور خانہ یا (عاشور خانہ پادشاہی) ہندوستان کے شہر حیدر آباد کے شیعہ تاریخی اور مذہبی عمارتوں میں سے ایک ہے جسے امام حسینؑ کی عزاداری منعقد کرانے کے لئے تعمیر کی گئی ہے۔ اس عمارت کو سنہ 1005ھ میں حیدر آباد کے شیعہ حاکم محمد قلی قطب‌ شاہ کے حکم سے میر محمد مؤمن استرآبادی نے تعمیر کیا ہے۔ اس عاشور خانہ کے مراسم خاص کر محرم کے پہلے عشرے کی مجالس میں خود حاکم قطب شاہ بھی اپنے وزراء کے ہمراہ شرکت کرتے تھے یہاں تک کہ حاکم قطب‌ شاہ مرثیہ‌ بھی پڑھتے تھے۔

حیدر آباد میں قطب‌ شاہیوں کی سلطنت کے اختتام اور گورکانیوں کی حکومت کے ساتھ بادشاہی عاشور خانہ کچھ مدت کے لئے زبوں حالی کا شکار رہا۔ اس کے بعد جب سلسلہ آصف‌ جاہی کے قیام کے ساتھ اس عمارت کی فعالیت دوبارہ شروع ہو گئی اور اس دور میں عمارت کے بعض حصوں کی توسیع بھی ہوئی۔ یہ عاشور خانہ برصغیر کے دیگر امام‌ باڑوں کی طرح شیعہ اور دیگر اسلامی مذاہب حتی غیر مسلموں کی عزاداری کے مراکز میں سے ہے۔

پادشاہی عاشور خانہ کو کاشی‌ کاری‌ اور کتیبوں کے ساتھ مزین کیا گیا ہے جن پر فارسی اشعار اور شیعہ ائمہ کے اسامی درج ہیں۔ اس عاشور خانہ میں چودہ معصومینؑ کے نام پر 14 عَلَم‌ بھی نصب ہیں۔ یہ عاشور خانہ ریاستی ادارہ آثار قدیمہ اور شیعہ اوقاف کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔

تأسیس

بادشاہی عاشور خانہ کی بنیاد سنہ 1005ھ[1] کو حیدر آباد کے شیعہ سلطنت قطب‌ شاہی کے حاکم محمد قلی قطب‌ شاہ کے حکم سے رکھی گئی۔[2] حیدر آباد شہر کا نقشہ چار منار، چار مسقف بازار ، چودہ ہزار دکانیں اور دولت خانہ جیسی عمارتوں پر مشتمل ہے من جملہ میں سے ایک بادشاہی عاشور خانہ[3] ہے جو سلسلہ قطب‌ شاہی کے ایرانی وزیر اعظم میر محمد مؤمن استرآبادی کی نگرانی میں سنہ 999ھ میں تأسیس کی گئی۔[4] بادشاہی عاشور خانہ کی تأسیس سے پہلے محرم کی عزاداری بے جاپور میں عادل‌ شاہی اور حیدر آباد میں قطب‌شاہیوں کے دیگر عاشور خانوں میں منعقد ہوتی تھی۔[5] یہ عاشور خانہ‌ قطب‌ شاہیوں کے دور میں انتہائی اہمیت کے ساتھ بنائی جانے والی اہم عمارتوں میں شامل ہے۔[6]

مجلس عزا کی جگہ

بادشاہی عاشور خانہ اپنی تأسیس سے اب تک مذہبی تقریبات خاص کر امام حسینؑ کی عزاداری کے لئے استعمال کی جاتی رہی ہے۔[7] اس عاشور خانہ کی تأسیس سے پہلے قطب‌شاہیوں کے دور حکومت میں گُلکُندَہ اور حیدر آباد کے مسلمان اور غیر مسلم مختلف عاشور خانوں میں عزادرای منعقد کرتے تھے۔[8] حديقۃ السلاطین قطب‌ شاہی نامی کتاب جس میں عزاداری اور مذہبی اعیاد وغیرہ کے بارے میں مفصل گفتگو کی گئی ہے،[9] کے مطابق محمد قلی قطب‌ شاہ کے دور میں بادشاہی عاشور خانہ کی تأسیس سے عزاداری کی مجالس منظم اور پررونق طریقے سے منعقد ہونے لگی۔[10] ماہ محرم کی ابتداء سے ہی بادشاہ پورے شہر میں امام حسینؑ کی عزاداری میں سوگ منانے کا حکم دیتا تھا۔[11] من جملہ ان ایام کے آداب و رسوم میں موسیقی، تنباکو اور مشروبات کی خرید و فروخت نیز گوشت کے استعمال پر لگائی جانے والی پابندی کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔[12]

مجالس عزا میں بادشاہ اور ان کے درباریوں کی شرکت

بادشاہی عاشور خانہ کی مجالس عزا میں اس وقت کے بادشاہ محمد قلی قطب‌ شاہ اپنے وزاء اور امراء کے ساتھ کالے لباس میں شریک ہوتے تھے۔[13] بادشاہی عاشور خانہ میں محرم کے پہلے عشرے کی مجالس کو کتاب حدیقہ السلاطین قطب‌ شاہی میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔[14] اس کے مطابق اس عاشور خانہ کے صحن میں محرم کی پہلی رات سے دسویں رات تک ہر رات 1000 چراغ جلائے جاتے تھے جن کی مجموعی تعداد 10 هزار بن جاتی تھی۔[15] اس عاشور خانہ میں بھی دوسرے عاشور خانوں کی طرح ذکر مصائب کے مراسم منعقد ہوتی تھی جن میں ذاکرین مرثیہ‌ خوانی اور نوحہ خوانی کرتے تھے۔[16]

فعالیتوں کا سلسلہ

بادشاہی عاشور خانہ کے صحن میں عزاداری کی مجلس

بادشاہی عاشور خانہ ابتدائے تأسیس یعنی سنہ 1005ھ سے اب تک 400 سال[17] سے زیادہ کا عرصہ اپنی فعالیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس عاشور خانہ میں محرم الحرام کی پہلی رات سے شب عاشور تک شیعہ، اہل‌ سنت اور ہندو امام حسینؑ کی عزاداری منعقد کرتے ہیں۔[18] تاہم تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق حیدر آباد میں قطب‌ شاہیوں کی شیعہ حکومت کے زوال[19] اور دکن پر گورکانیوں کی سلطنت کے قیام اور اورنگ زیب کی حکومت کے دوران تقریبا 70 سال تک بادشاہی عاشور خانہ زبوں حالی کا شکار رہا۔[20] اس کے بعد آصف‌ جاہی شیعہ حکومت کے ساتھ اس عاشور خانے میں دوبارہ عزاداری میں رونق آگئی۔[21]

بادشاہی عاشور خانہ کی ظاہری خصوصیات

کتاب مآثر دکن اشاعت 1924ء میں بادشاہی عاشور خانہ کی تصویر

کتاب مآثر دکن کے مطابق بادشاہی عاشور خانہ کی پرانی عمارت صرف ایک داخلی ہال پر مشتمل تھی[22] اور اس کی تأسیس کی ابتداء سے چودہ معصومینؑ کے نام پر اس عاشور خانہ میں 14 عَلَم نصب تھے۔[23] سنہ 1098ھ کو گورکانی سلطنت کے حکمران اورنگ زیب کے ہاتھوں حیدرآباد کی فتح کے بعد [24] مذہبی تعصبات کی بنا پر اس عاشور خانہ کو گھوڑوں کے اصطبل کے طور پر استعمال کیا گیا[25] اس دوران عمارت کا ایک حصہ ویران ہوا۔[26] لیکن حیدر آباد پر آصف‌ جاہی سلطنت میں آصف‌ جاہ دوم (میر نظام علی خان بہادر) کے دور میں سنہ 1765ء کو اس تاریخی عمارت کی دوبارہ تعمیر نو کی گئی[27] انہوں نے اس عمارت میں باہر کے صحن اور لکڑیوں کے ستونوں سمیت باب فیض عالمیان کے نام سے ایک دروازے کا اضافہ کیا۔[28] اسی طرح سنہ 1250ھ کو عاشور خانہ کی عمارت کی تزئین اور رنگ کاری کی گئی۔[29] پرانی عمارت کی آصفیہ دور کی چھت کو محفوظ رکھا گیا۔[30] اگرچہ یہ عمارت تاریخی حوالے سے لکہنو کے دیگر امام باڑوں سے قدیمی‌ ہے لیکن اس کے باوجود اس کے کاشی کاری محفوظ ہیں۔[31]

عمارت کے مختلف گوشے

بادشاہی عاشور خانہ کے متعدد گوشے ہیں جن میں نیاز خانہ، نقار خانہ، سرائے خانہ، آبدار خانہ، لنگر خانہ، مکان مجاور اور دفتر مجاور قابل ذکر ہیں۔[32]

کاشی‌ کاری‌ اور کتیبے

بادشاہی عاشور خانہ کی کاشی کاری اور ابو المظفر عبد اللہ قطب‌ شاہ ہفتم کا نام

بادشاہی عاشور خانہ کی کاشی‌ کاری‌ ایرانی طرز تعمیر پر سنہ 1020ھ میں انجام پائی ہے۔[33] کتاب مآثر دکن کے مطابق جس میں اس عمارت کے کتیبوں کے بارے میں مفصل رپورٹ پیش کی گئی ہے، سلطان محمد قلی قطب‌ شاہ کا نام محراب کے اوپر ایک کتیبے پر درج ہے۔[34] اسی طرح ان کے پوتے سلطان عبدا للہ قطب‌ شاہ ہفتم کا نام ابو المظفر کی کنیت کے ساتھ عمارت کے مختلف حصوں پر درج ہے۔[35] دوسری کاشی‌ کاریوں پر خط طغرا میں مختلف کتیبے درج ہے جن میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

  • عمارت کی شمالی اور جنوبی دیورا کے کتیبوں پر «اللہم صل علی النبی و الوصی و البتول فاطمہ و السبطین و السجاد و الباقر و الصادق و الکاظم و الرضا و التقی و النقی و العسکری و المہدی و السلام علیہم» درج ہے۔[36]
  • دوسرے دالان کے مغربی دیورا کے کتیبے پر درج ذیل عبارت شعر کی صورت میں درج ہے:
چون نظام الملک آصف منزلتکردہ از بہر حسین تو قیر او
آصف نظام الملک ایک باوقار شخص ہیںجنہیں امام حسین کی بدولت عزت ملی ہے
ہست این قدسی مکان آن امامکہ بفرقان آمدہ تطہیر او
اس مکان کی عزت اس امام کی بدولت ہےجن کی تطہیر کی گواہی قرآن میں آئی ہے
گفت ہاتف سال تاریخش چنینکردہ آصف جاہ ما تعمیر او
ہاتف نے اس عمارت کی تاسیس کی تاریخ بتائی ہے جسے عزت مآب آصف نے تعمیر کی ہے
سنہ 1178ھ[37]

بادشاہی عاشور خانہ کے اخراجات

بادشاہی عاشور خانہ کی پہلی عمارت کو سلطان محمد قلی قطب‌ شاہ نے 66 ہزار روپیہ میں تعمیر کرایا تھا۔[38] نواب میر نظام علی خان بہادر غفران‌مآب نے عاشور خانہ کے لئے 12 ہزار روپیہ سالانہ مقرر کیا[39] ان کے بعد نواب سکندرجاہ بہادر مغفرت‌ منزل نے اس پر 2 ہزار روپیہ اضافہ کیا۔[40] کتاب مآثر دکن کے مطابق یہ عمارت کم از کم سنہ 1924ء تک حکومتی بجٹ پر چلتی تھی۔[41] اب بھی یہ عاشور خانہ ریاستی ادارہ آثار قدیمہ اور شیعہ اوقاف کی نگرانی فعالیت انجام دے رہا ہے۔[42]

حوالہ جات

  1. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص10
  2. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص10؛ عباسی، «عاشورخانہ»، ص794؛ کرمی، نگاہی بہ تاریخ حیدرآباد دکن، 1373ہجری شمسی، ص85
  3. صادقی علوی، «دوران طلایی حکومت قطب‌شاہیان»، ص155
  4. صادقی علوی، «دوران طلایی حکومت قطب‌شاہیان»، ص155
  5. عباسی، «عاشورخانہ»، ص794؛ صادقی علوی، «گذری بر منابع تاریخی عصر قطب‌شاہیان»، ص149
  6. عباسی، «عاشورخانہ»، ص794؛ صادقی علوی، «گذری بر منابع تاریخی عصر قطب‌شاہیان»، ص149
  7. «حیدرآباد دکن ہندوستان میں عزاداری کا ایک قدیمی مرکز»، سایت شیعہ خبریں
  8. ضابط، «نقش ایرانیان در ترویج عزاداری در شبہ قارہ ہندوستان»، ص102؛ معصومی، «ہندوان و ایین‌ہای محرم در دکن»، ص175
  9. صاعدی شیرازی، حدیقہ السلاطین قطب‌شاہی، 1961م، ص49-57
  10. صاعدی شیرازی، حدیقہ السلاطین قطب‌شاہی، 1961م، ص49-57
  11. صاعدی شیرازی، حدیقہ السلاطین قطب‌شاہی، 1961م، ص49
  12. صاعدی شیرازی، حدیقہ السلاطین قطب‌شاہی، 1961م، ص49
  13. صاعدی شیرازی، حدیقہ السلاطین قطب‌شاہی، 1961م، ص49و56
  14. صاعدی شیرازی، حدیقہ السلاطین قطب‌شاہی، 1961م، ص49-57
  15. صاعدی شیرازی، حدیقہ السلاطین قطب‌شاہی، 1961م، ص50
  16. صاعدی شیرازی، حدیقہ السلاطین قطب‌شاہی، 1961م، ص49-57
  17. «حیدرآباد دکن ہندوستان میں عزاداری کا ایک قدیمی مرکز»، سایت شیعہ خبریں
  18. ضابط، «نقش ایرانیان در ترویج عزاداری در شبہ قارہ ہندوستان»، ص102؛ معصومی، «ہندوان و ایین‌ہای محرم در دکن»، ص175
  19. «حیدرآباد دکن ہندوستان میں عزاداری کا ایک قدیمی مرکز»، سایت شیعہ خبریں
  20. «حیدرآباد دکن ہندوستان میں عزاداری کا ایک قدیمی مرکز»، سایت شیعہ خبریں
  21. «حیدرآباد دکن ہندوستان میں عزاداری کا ایک قدیمی مرکز»، سایت شیعہ خبریں
  22. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص12
  23. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص12
  24. Green, "Auspicious Foundations: The Patronage of Sufi Institutions in the Late Mughal and Early Asaf Jah Deccan", p74
  25. Green, "Auspicious Foundations: The Patronage of Sufi Institutions in the Late Mughal and Early Asaf Jah Deccan", p74
  26. Green, "Auspicious Foundations: The Patronage of Sufi Institutions in the Late Mughal and Early Asaf Jah Deccan", p74
  27. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص13؛ عباسی، «عاشورخانہ»، ص794؛ Green, "Auspicious Foundations: The Patronage of Sufi Institutions in the Late Mughal and Early Asaf Jah Deccan", p74
  28. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص13؛ عباسی، «عاشورخانہ»، ص794
  29. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص13
  30. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص12
  31. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص13
  32. Chatterjee, "Badshahi Ashurkhana", sia photography site
  33. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص12
  34. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص12
  35. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص12
  36. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص11
  37. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص11
  38. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص12
  39. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص13
  40. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص13
  41. بلگرامی، مآثر دکن، 1924م، ص10
  42. سید مبشر، «مقبرہ سیدانی ماں، بادشاہی عاشور خانہ اور شیخ پیٹ سرائے کی تزئین نو کا فیصلہ»، سایت روزنامہ منصف حیدرآباد

مآخذ

  • «حیدرآباد دکن ہندوستان میں عزاداری کا ایک قدیمی مرکز»، سایت: شیعہ خبریں، تاربخ درج مطلب: 13 جولایی 2024م۔
  • بلگرامی آصفجاہی، علی‌اصغر، مآثر دکن، دارالطبع جامعہ عثمانیہ سرکار عالی، حیدرآباد، 1924م۔
  • خان‌ترین، غلام امام، تاریخ رشید الدین خانی و بر حاشیہ تاریخ خورشید جاہی، مطبع ریاض ہند، علی گڈہ، 1270ھ، 1853م
  • سید مبشر، «مقبرہ سیدانی ماں، بادشاہی عاشور خانہ اور شیخ پیٹ سرائے کی تزئین نو کا فیصلہ»، سایت روزنامہ منصف حیدرآباد، تاریخ درج مطلب: 20 می 2023
  • صادقی علوی، محمود، «گذری بر منابع تاریخی عصر قطب‌شاہیان»، در مجلہ نامہ تاریخ پژوہان، شمارہ 10، 1386ہجری شمسی،
  • صادقی علوی، محمود، «دوران طلایی حکومت قطب‌شاہیان»، در مجلہ تاریخ اسلام، شمارہ 33، 1387ہجری شمسی،
  • صاعدی شیرازی، میرزا نظام‌الدین احمد بن عبداللہ، حدیقہ السلاطین قطب‌شاہی، تصحیح علی‌اصغر بلگرامی، مجلس اشاعت تاریخ و تمدن، دکن، 1961م۔
  • ضابط ، حیدررضا، «نقش ایرانیان در ترویج عزاداری در شبہ قارہ ہندوستان»، در مجلہ مشکات، شمارہ 77، 1381ہجری شمسی،
  • عباسی، محمد، «عاشورخانہ»، دانشنامہ جہان اسلام، ج31، 1400ہجری شمسی،
  • کرمی، مجتبی، نگاہی بہ تاریخ حیدرآباد دکن ، موسسہ چاپ و انتشارات وزارت امور خارجہ، تہران، 1373ہجری شمسی،
  • معصومی، محسن، «ہندوان و ایین‌ہای محرم در دکن»، در مجلہ تاریخ و تمدن اسلامی، شمارہ 16، 1391ہجری شمسی،
  • Chatterjee, Saurabh, "Badshahi Ashurkhana"
  • Green, Nile, "Auspicious Foundations: The Patronage of Sufi Institutions in the Late Mughal and Early Asaf Jah Deccan", South Asian Studies, Volume 20, 2004