سلطنت خداداد میسور

ویکی شیعہ سے

سلطنت خداداد میسور جنوبی ہندوستان میں اٹھارویں صدی عیسوی کو ٹیپوسلطان کے والد حیدر علی کی قائم کردہ حکومت کو کہا جاتا ہے۔ مغل حکمرانی زوال کا شکار ہوتے ہوئے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں مستقل حکومتیں قائم ہوئیں، اور بہت سارے علاقوں کو برطانیہ نے اپنے قبضے میں لیا۔ حیدر علی نے بھی میسور کے راجہ کو ہٹا کر اپنی حکومت قائم کی۔ سلطنت خداداد میسور نے برطانوی استعمار کا سخت مقابلہ کیا اسی وجہ سے ٹیپو سلطان کی لاش پر برطانوی جرنیل یہی کہتا ہے «آج کے بعد ہندوستان ہمارا ہے۔» حیدر علی اور ٹیپو سلطان اس سلطنت کے حکمران رہے۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے ساتھ یہ سلطنت بھی ختم ہوگئی۔

تاریخچہ

مغلیہ حکومت 1500 سے 1700 تک ہندوستان پر حاکم رہی۔ سنہ 1625ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں آئی اور 1707 میں مغلیہ حکمران اورنگزیب کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ زوال کا شکار ہوئی جس کے نتیجے میں مختلف خودمختار ریاستیں وجود میں آئیں۔[1] فرانس اور برطانیہ نے بھی اپنی توجہ تجارت سے بڑھ کر سیاست کی طرف دینا شروع کردیا اور 1751ء میں انگریزوں نے ارکاٹ پر قبضہ کیا اور نظام حیدرآباد بھی انگریزوں کے ماتحت آگیا اور میسور کے علاوہ مدراس اور حیدرآباد وغیرہ بھی ان کے قبضے میں آگئے۔[2] مقامی ریاستیں آزادانہ حیثیت اختیار کرتی گئیں یہ آزاد ریاستیں آپس میں لڑنے میں مصروف ہوئیں اور ایسے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے مختلف علاقوں پر قبضہ جمایا۔ ایسے دور میں حیدرعلی اور ٹیپو سلطان منظر عام پر آگئے۔[3]

سنہ 1761ء میں جنوبی ہند میں سلطنت خداداد کا قیام عمل میں آیا[4] سنہ 1171ھ کو حیدر علی نے میسور کے حالات اپنے کنٹرول میں لیا اور راجہ کو گوشہ نشین کردیا۔[5] امور مملکت سنبھالنے کے بعد آپ نے مقامی راجاوؤں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سرحدوں کو توسیع دی اور «صوبہ سرا»، «بالاپور»، «بدنور» اور بعض دیگر علاقوں پر قبضہ کیا[6] اور اپنی سلطنت کو 33 گاؤں سے بڑھا کر 80 ہزار مربع میل پر پھیلا دیا۔[7] جس کی سرحدیں جنوب میں کیرلا سے چین تک پہنچی اور شہرت ملک سے نکل کر یورپ تک پھیل گئی۔[8]

«بدنور» کو «حیدرنگر» نام دے کر دارالحکومت قرار دیا اور اپنے نام کا سکہ رائج کیا۔[9]

جنہوں نے قدم قدم پر انگریزوں کے لئے رکاوٹیں کھڑی کی اور بارہا انگریزوں کو شکست دی۔ ان کی قائم کردہ حکومت کو سلطنت خداداد میسور کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت 1761ء سے1799 تک جاری رہی۔[حوالہ درکار] (میسور شہر ریاست کرناٹک میں واقع مشہور شہر ہے جو مملکت خداداد کا پایتخت تھا۔[10])

سلطنت خداداد کے زوال میں ٹیپو سلطان کی رحمدلی اور ان کے وزراء اور افسران کی خیانت موثر تھی۔ ٹیپو سلطان سے غدادری کرنے والے افراد میں سلطنت خداداد کے وزیر اعظم میر صادق اور ان کے ساتھ میر معین الدین(ٹیپو کا خسر اور رشتہ میں مامو اور فوج کا سپہ سالار)، میر قمرالدین، غلام علی لنگڑا اور پورنیا پنڈت وغیرہ شامل تھے ان کے علاوہ ایاز خان(حیدر علی کا لے پالک اور بدنور کا گورنر)، محمد قاسم خان، میر مہدی علی(سلطان کا وزیر)، راجہ خان(ٹیپو کا ذاتی ملازم) اور بعض دیگر افراد کے نام قابل ذکر ہیں۔[حوالہ درکار]


سلطنت میسور کے آس پاس کی حکومتیں

مرہٹہ

مرہٹہ ایک زراعت پیشہ قوم تھی جو جنوبی ہند میں احمدنگر کی نظام شاہی اور بیجاپور کی عادل شاہی حکومت کے سلاطین کے پاس فوجی ملازمت کرتے تھے(سیرت 64-65) جب میسور میں سلطنت خداداد کا قیام عمل میں آیا تو بحثیت ایک ہندو قوم ایک اسلامی سلطنت سے اپنے وجود کو خطرہ محسوس کیا اور سلطنت خداداد کے ساتھ مستقل بھی جنگیں لڑی اور انگریزوں کے ساتھ ملکر بھی اینگلو میسور جنگوں میں سے پہلی اور تیسری جنگ میں سلطنت خداداد کے خلاف انگریزوں کے اتحادی بنے۔[11]

نظام دکن

اسے مملکت آصفیہ یا سلطنت حیدرآباد بھی کہا جاتا تھا سترہویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے ہندوستان کی مختلف مسلم حکومتوں پر قبضہ کیا جس میں احمدنگر کی نظام شاہی، بیجاپور کی عادل شاہی اور بیدر کی برید شاہی شامل تھی۔ ان سب کو ملاکر ایک بڑا صوبہ دکن کے نام سے قائم کیا۔[12] اورنگزیب کی وفات کے بعد صوبے کا گورنر قمرالدین المعروف نظام الملک نے سنہ 1724ء میں خودمختاری کا اعلان کر کے حیدرآباد کو دارالحکومت منتخب کیا۔ اور مغل بادشاہ نے اسے تسلیم کرتے ہوئے آصف جاہ کا خطاب دیا اور حکومت کو مملکت آصفیہ کہلائی۔ یعنی خودمختاری کے ساتھ ساتھ مغلوں کی بالادستی بھی تسلیم کر لی۔[13] آصف جاہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے ناصر جنگ اور مظفر جنگ میں تنازعہ کھڑا ہوگیا اور 1750ء میں فرانسیسیوں کی مدد سے حیدرآباد پر قبضہ کرلیا۔ 1756ء میں آصف جاہ کے بیٹے نظام علی نے اقتدار سنبھالا۔ سنہ 1761ء مرہٹوں نے دکن کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا۔جب سنہ 1761ء میں احمدشاہ ابدالی مرہٹوں سے برسر پیکار تھے، نظام کے بھائی بصالت جنگ نے مرہٹوں کے ہاتھوں مقبوضہ صوبہ سرا کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے میسوری افواج کے سپہ سالار حیدر علی سے مدد طلب کی اور انہوں نے فتح کے بعد سرا کا نواب بنائے جانے کی شرط پر قبول کی اور حسب وعدہ بصالت جنگ کی سفارش پر دہلی کے مغل بادشاہ نے حیدرعلی کے لئے سرا کی نوابی لکھ دی اور نواب حیدر علی کہلانے لگے۔[14]اسی دوران میسور میں حکومت خداداد کا قیام عمل میں آیا۔ اور حیدر علی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے احساس خطر کرتے ہوئےنظام ان کے خلاف انگریزوں کے اتحادی بن گئے۔ جس کے نتیجے میں سات لاکھ روپے کے عوض کرناٹک کا ایک وسیع علاقہ انگریزوں کے حوالے کردیا۔ میسور کے خلاف لڑی جانے والی انگریزوں کی چار جنگوں میں سے تین میں نظام نے سلطنت خداداد کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا اور ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اس کی رہی سہی خودمختاری بھی ختم کردی۔[15]

نواب ارکاٹ

میسور کے آس پاس نواب محمد علی کی حکومت بھی تھی جسے نواب کرناٹک اور بھی کہتے ہیں۔ سترہویں صدی عیسوی میں مغلوں نے اس علاقے کو فتح کر کے اس کا نام کرناٹک رکھا جو اس زمانے میں سرا کے مقابلے میں ایک پورا صوبہ تھا۔ سنہ 1711ء تک سرا اور ارکاٹ کا ایک ہی گورنر ہوا کرتا تھا لیکن اس کے دونوں کے الگ الگ گورنر مقرر ہوئے۔ لیکن سعادت اللہ خان نے دکن کے نظام الملک کی مدد سے دوبارہ سرا کی گورنری پر بھی قبضہ کرلیا۔ سنہ 1743ء میں انوار الدین نے ارکاٹ سلطنت پر قبضہ کیا لیکن سنہ 1749ء میں وہ مارا گیا اور اس کا بیٹا محمد علی حکومت کا دعویدار نکلا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد کی امید سے ایک بڑا علاقہ محمد علی نے انگریزوں کے قبضے میں دیدیا اور یوں یہ نواب بھی ہمیشہ کے لئے انگریزوں کا حلیف بن گیا اور سلطنت خداداد کے خلاف انگریزوں کی جنگوں میں بالواسطہ شریک رہا۔

میسور کی وجہ تسمیہ

میسور کا پرانا نام مہیش کنورو بتایا جاتا ہے جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور مہیش کے معنی بھینس اور کنورو کے معنی شہر کے ہیں۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہاں پہلے کثرت سے بھینسیں پائی جاتی تھیں اس وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے اور پھر بگڑ کر میسور بن گیا ہے۔[16] اس وقت میسور ہندوستان میں صوبہ نہیں بلکہ ایک شہر اور ضلع کا نام ہے[17] شہر میسور میں تقریبا ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔[18]

میسور میں اسلام

میسور میں عرب تاجروں کے ذریعے اسلام پہنچا۔ پہلی صدی ہجری میں ہی حجاز و یمن سے تجارتی قافلے پہنچے جن کا سلسلہ اسلام سے پہلے بھی تھا۔[19] یہاں پر وجے نگر کی ہندو سلطنت تھی اور اس کے قریب میں مسلم ریاستوں میں سب سے مضبوط بیجاپور کی عادل شاہی حکومت تھی۔ وجے نگر کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ متعصب اور ظالم حکمران تھا جس نے مسلمانوں پر بڑا ظلم کیا جس کی وجہ سے مسلم سلاطین سمجھ گئے کہ یہ شکست اور فتح کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے وجود و عدم کا مسئلہ ہے سب متحد ہوئے اور سنہ 1565ء میں وجے نگر کی حکومت کو شکست دی[20] سنہ 1687 میں جب مغل حکمران اورنگزیب کا یہاں قبضہ ہوا تو میسور بھی اس کے قبضے میں آگی[21]ا

سلطنت خداداد کے قیام کے وقت میسور کے حالات

سنہ 1761ء میں جب نواب حیدرعلی خان نے حکومت سنبھالی تو اس وقت میسور کی حکومت 33 گاوں پر مشتمل سلطنت مغلیہ کی باج گذار تھی، ایک مخصوص طبقہ خوشحال تھا، غلامی کا رواج تھا، ہندو عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی، مندروں میں انسانی بھینٹ چڑھائی جاتی تھیں، عورتیں نیم عریان ہوکر بازاروں میں گھومتی تھیں،ایک ہندو عورت کے چار شوہر ہوتے تھے، منشیات عام تھا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی توحید خالص سے دور خرافات اور بدعتوں کے مرتکب تھے اور کسی اجنبی کے لئے ہندو اور مسلمان میں تفریق دشوار تھا۔[22]

حوالہ جات

  1. ندوی، الیاس، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، 1999ء، ص 58 تا62
  2. ندوی، الیاس، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، 1999ء، ص 58 تا62
  3. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص26۔
  4. ندوی، الیاس، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، 1999ء، ص 58
  5. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص75
  6. ملاحظہ کریں: کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص78-96
  7. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص23۔
  8. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص58
  9. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص264
  10. کریمی ندوی، چند ایام ٹیپو سلطان کے ریار میں،2017ء، ص23۔
  11. ندوی، الیاس، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، 1999ء، ص65 تا66
  12. ندوی، الیاس، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، 1999ء، ص65 تا66
  13. ندوی، الیاس، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، 1999ء، ص65 تا66
  14. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص-105-104۔
  15. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص-68-66۔
  16. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص72۔
  17. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص72۔
  18. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص72۔
  19. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص75۔
  20. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص76-83۔
  21. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص84۔
  22. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص84-85۔

مآخذ

  • ساموئل سٹرنڈبرگ،Tipu Sultan (The Tiger of Mysore) ٹیپو سلطان(شیر میسور) ، مترجم: محمد زاہد ملک، علم و عرفان پبلشرز لاہور، بی تا۔
  • سید محمد واضح رشید حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو، 1433ھ2011ء.
  • سید میر حسین علی کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء
  • ندوی، الیاس، سیرت ٹیپو سلطان، کاکوری آفسٹ پریس لکھنؤ 1420ھ، 1999ء۔
  • کریمی ندوی، چند ایام ٹیپو سلطان کے ریار میں، الاسلام اکیڈمی کرناٹک، سنہ 2017۔