سید ابو القاسم خوانساری ریاضی

ویکی شیعہ سے
سید ابوالقاسم خوانساری ریاضی
کوائف
مکمل نامسید ابو القاسم بن محمود خوانساری
نسبخاندان خوانساری • امام کاظم(ع)
تاریخ ولادتسنہ 1309ھ
آبائی شہرخوانسار
رہائشگلگت
تاریخ وفات1380ھ، 10 جنوری سنہ 1963ء
مدفنگلگت، پاکستان
نامور اقرباءابوتراب خوانساری
علمی معلومات
مادر علمینجف اشرف خوانسار
اساتذہابوتراب خوانساری • آقا ضیاء عراقی
شاگردسید محمد حسین طباطبائی
اجازہ روایت ازابوتراب خوانساری، سید حسن صدر اور سید ابوالحسن اصفہانی
تالیفاتاعجاز المہندسین • رسالۃ الجبر و المقابلۃ • رسالۃ قابلیۃ تقسیم الاعداد • رسالہ‌ہای متعدد دیگر در ریاضیات • حاشیہ بر مستدرک الوسائل
خدمات


سید ابوالقاسم بن محمود خوانساری ریاضی (1309-1380ھ) چودہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین تھے۔ دینی علوم میں تبحر رکھنے کے ساتھ ساتھ حساب، ہندسہ اور الجبرا پر بھی خاصی مہارت رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ کے قلمی آثار بھی موجود ہیں۔ سید ابو القاسم خوانساری نے ابوتراب خوانساری اور آقا ضیاء عراقی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ آپ نے ابوتراب خوانساری، سید حسن صدر اور سید ابوالحسن اصفہانی سے اجازہ اجتہاد اور روایت حاصل کیا. علامہ طباطبایی آپ کےشاگرد تھے. آپ سید ابوالحسن اصفہانی کے حکم پر تبلیغ کی غرض سے پاکستان گئے اور گلگت میں وفات پائے اور وہیں دفن ہوئے۔

سوانح حیات

سید ابوالقاسم خوانساری ریاضی سنہ 1891ء بمطابق 14 شوال سنہ 1309ھ بروز بدھ کو ایران کے شہر خوانسار میں پیدا ہوئے۔[1] آپ کے والد محمود خوانساری کا شمار بھی خوانساری خاندان کے علما میں ہوتا تھا۔ خوانساری خاندان کا سلسلہ نسب محب اللہ بن قاسم سے ملتا ہے اور ان کا نسب سات واسطوں سے صالح قصیر سے جاملتا ہے، نتیجتا سید ابو القاسم خوانساری سلسلہ نسب میں امام کاظم(ع) سے جاملتا ہے۔ اس خاندان کے اکثر علما ایران کے شہر خوانسار میں جبکہ دیگر کچھ علما گلپائگان اور اصفہان اور کچھ علما عراق اور ہندوستان میں رہائش پذیر تھے۔[2] سید ابوالقاسم اعلی تعلیم کے حصول کے لئے نجف اشرف گئے۔ گلگت کا علاقہ نگر کے راجہ میر سکندر خان نے آیت اللہ ابو الحسن اصفہانی سے ایک مبلغ کی درخواست کی[3] جس پر سید ابو الحسن اصفہانی کے حکم سے سنہ 1936ء میں کشمیر کے راستے سے پاکستان کے شہر گلگت گئے[4] جہاں لوگوں کو معارف اہل بیت سے روشناس کرایا۔[5] میر سکندر خان کی وفات کے بعد آپ نے نگر میں انتہائی تنگدستی کے ایام گزارے اور وہاں سے گلگت شہر چلے گئے۔[6]آپ کی قبر گلگت شہر میں مجنی محلہ میں واقع ہے۔[7]

علمی فعالیتیں

سید ابو القاسم خوانساری نے فقہ و اصول کے دروس خارج کو اپنے چچا ابو تراب خوانساری اور ضیاء الدین عراقی کے پاس پڑھا۔ ابو تراب خوانساری، سید حسن صدر اور سید ابو الحسن اصفہانی سے اجتہاد اور روایت حاصل کیا۔ آپ دینی علوم میں کافی مہارت رکھتے تھے اور علم حساب، ہندسہ اور الجبرا میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے۔ ان موضوعات سے متعلق آپ کے قلمی آثار موجود ہیں۔علامہ سید محمد حسین طباطبائی آپ کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔[یادداشت 1] [8]

ہجرت اور وفات

کہا جاتا ہے کہ «نگر» گلگت کے راجہ نے سید ابو الحسن اصفہانی سے تقاضا کیا کہ ایک فقیہ کو گلگت بھیجے جو وہاں پر دینی احکام کا اجرا کرسکے۔[9] آیت اللہ اصفہانی کے حکم پر سید ابوالقاسم خوانساری نے تبلیغ دین کے لیے پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ پاکستان کے شمال میں گلگت شہر میں سکونت اختیار کی۔ ایک عرصہ تبلیغ دین اور لوگوں کو تعلیمات محمد و آل محمدؑ سے روشناس کرانے کے بعد سنہ 1380ھ میں شہر گلگت میں وفات پاگئے۔ آپ کے جسد خاکی کو گلگت میں ہی دفن کیا گیا اور جائے دفن پر ایک مقبرہ بنایا گیا.[10]

بعض نے آپ کی تاریخ وفات اور 10 جنوری سنہ 1963 قرار دیا ہے۔[11]

علمی آثار

ابوالقاسم خوانساری ریاضی کا اپنا ایک کتابخانہ تھا جس میں شاندار کتابیں موجود تھیں۔انہوں نے 30 سے زیادہ کتابیں تالیف کیں ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • اعجاز المہندسین، او الہندسة التی لا یحتاج الی الفرجار (پرگار)
  • رسالۃ الجبر و المقابلۃ
  • رسالۃ قابلیۃ تقسیم الاعداد
  • رسالۃ فی استخراج نہایۃ الخطأ الکعب
  • رسالہ ہای متعدد دیگر در ریاضیات
  • اعتقادات، یا تاریخ تمدن
  • سیاحات المتفکرین فی آراء الملحدین و المتدینین یا دین بی‌نزاع
  • منظومہ‌ای بدون الف بہ فارسی
  • حاشیہ بر مستدرک الوسائل[میرزا حسین نوری
  • فقہ اور اصول کے مختلف کتابچے۔[12]


نوٹ

  1. مرحوم سید حسین بادکوبی تعلیم و تربیت پر بے حد توجہ دیتے تھے، میرے طرز فکر میں استدلالی پہلو اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے میرے اندر فلسفانہ ذوق کو مزید تقویت بخشی۔ ساتھ ہی ریاضیات کی تعلیم حاصل کرنے کا حکم فرمایا۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ریاضی میں خاصی مہارت رکھنے والے استاد سید ابو القاسم خوانساری کے حلقہ درس میں شرکت کرنا شروع کیا اور ان کے پاس حساب استدلالی کا ایک دورہ مکمل کیا اسی طرح ہندسہ(Solid geometry) (ٹھوس جیومیٹری) اور استدلالی الجبرا کا ایک دورہ بھی ان کے پاس پڑھا۔(زندگی‌نامہ خودنوشت علامہ طباطبائی)

حوالہ جات

  1. قم، حضرت آیت اللہ العظمٰی سید ابوالقاسم خوانساری ریاضی (گلگت) کا 54واں یوم وفات پورے عقیدت و احترام کیساتھ منایا گیا
  2. موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص84-90؛ روضاتی، 1332شمسی، ص11-14.
  3. سعیدی، تاریخ تشیع و عوامل گسترش آن درگلگت و بلتستان، 1400ش، ص138
  4. قم، حضرت آیت اللہ العظمٰی سید ابوالقاسم خوانساری ریاضی (گلگت) کا 54واں یوم وفات پورے عقیدت و احترام کیساتھ منایا گیا
  5. سعیدی، تاریخ تشیع و عوامل گسترش آن درگلگت و بلتستان، 1400ش، ص138
  6. انجم، اسلام گلگت میں، ص74
  7. انجم، اسلام گلگت میں، ص74
  8. نشریہ گلستان قرآن، وابستہ بہ موسسہ نمايشگاہ‌ہای فرہنگی ايران آذر 1381شمسی۔ شمارہ 136
  9. حضرت آیت اللہ العظمٰی سید ابوالقاسم خوانساری ریاضی (گلگت) کا 54واں یوم وفات پورے عقیدت و احترام کیساتھ منایا گی، اسلام ٹائمز
  10. آقابزرگ طہرانی، طبقات، نقبا، قسم1، ص64، قسم2، ص645؛ موسوی اصفہانی، ج2، ص26؛ موسوی خوانساری، مقدمہ روضاتی، ص191.
  11. قم، حضرت آیت اللہ العظمٰی سید ابوالقاسم خوانساری ریاضی (گلگت) کا 54واں یوم وفات پورے عقیدت و احترام کیساتھ منایا گیا
  12. آقابزرگ طہرانی، الذریعۃ، ج3، ص384، ج5، ص87، ج6، ص33، ج11، ص65، ج17، ص2، ج21، ص391،399، ج23، ص103؛ موسوی خوانساری، مقدمہ روضاتی، ص191-193.

مآخذ

  • ماخذ مقالہ: بر گرفتہ از مقالہ خاندان خوانساری در دانشنامہ جہان اسلام، ج16، صص377-383.
  • آقابزرگ طہرانی، الذریعۃ الی التصانیف الشیعۃ، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت، 1403ھ/1893ء.
  • آقا بزرگ طہرانی، طبقات اعلام الشیعۃ، نقباء البشر، فی القرن الرابع عشر، محمد، مشہد، قسم1-،1404ھ۔.
  • قم، حضرت آیت اللہ العظمٰی سید ابوالقاسم خوانساری ریاضی (گلگت) کا 54واں یوم وفات پورے عقیدت و احترام کیساتھ منایا گیا، اسلام ٹائمز، تاریخ درج: 6 فروری 2017، تاریخ اخذ:5 جنوری 2024ء۔
  • موسوی اصفہانی، محمدمہدی، احسن الودیعة فی ترجمۃ اشہر مشاہیر مجتہدی الشیعۃ، او، تتمیم روضات الجنات، بغداد، 1384ھ۔.
  • روضاتی، محمدعلی، زندگانی حضرت آیت اللہ چہار سوقی، حاوی شرح حال بیش از یکصد نفر رجال قرون اخیرہ، اصفہان، 1332شمسی۔
  • سعیدی، فرمان علی، تاریخ تشیع و عوامل گسترش آن درگلگت و بلتستان، قم دار التہذیب، 1400 ہجری شمسی۔
  • انجم، غلام حسین، اسلام گلگت میں، 2004ء