سلمان رشدی کے قتل کا حکم

ویکی شیعہ سے

سلمان رشدی کے قتل کا حکم سے مراد امام خمینی کا وہ تاریخی فتوا ہے جسے آپ نے شیطانی آیات نامی کتاب کے مصنف سلمان رشدی اور کتاب کے مضمون سے واقف ہونے کے باوجود اسے شائع کرنے والے ناشرین کے مرتد ہونے کے سلسلے میں جاری کیا تھا۔ یہ فتویٰ 14 فروری سنہ 1989ء کو جاری ہوا۔ اس حکم کو اسلام کے دفاع کے سلسلے میں شیعہ مراجع تقلید کی طاقت کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ تمام اسلامی مذاہب نے اس فتوے کی تائید کی۔ امام خمینیؒ کا یہ فتویٰ جاری ہونے کے بعد سلمان رشدی اپنے گھر سے فرار ہوکر لندن میں پناہ لی اور یہاں پولیس کی نگرانی میں پانچ مہینوں کے دوران 57 مرتبہ اپنی رہائش گاہ تبدیل کی۔

سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے فتوا صادر ہونے کے بعد ایران میں 15 فروری 1989ء کو عوامی سطح پر پورے ملک میں سوگ کا اعلان کیا گیا۔ ایرانی عوام نے مختلف مقامات، مساجد، امام بارگاہوں اور دیگر دینی مراکز میں شیطانی آیات نامی کتاب کی اشاعت پر اپنے غصے اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے امام خمینیؒ کے اس تاریخی حکم کی حمایت کی۔

مختلف ممالک کے مسلمانوں نے اپنے پیغامات اور احتجاجی جلوسوں کے ذریعے سلمان رشدی کے قتل کے فتوے کی حمایت کا اعلان کیا۔ 5 اگست سنہ 1989ء کو لبنانی جوان مصطفی مازح اور اسی سال ابراہیم عطائی نے سلمان رشدی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن اس کی سیکورٹی پر مامور ٹیم کے ہاتھوں وہ دونوں شہید ہوگئے۔ سنہ 2022ء میں ہادی مطر نامی ایک جوان نے نیویارک میں سلمان رشدی پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں اس کی دائیں آنکھ اندھی جبکہ ہاتھ کی انگلیاں بےحس ہوکر رہ گئیں۔

بعض فقہاء نے سلمان رشدی کو قتل کی سزا سنائے جانے کے مبنی کو توہین پیغمبر اکرمؐ اور اس کا مرتد فطری ہونا قرار دیا ہے۔

سلمان رشدی کی سزائے موت کا ماجرا اور اس کی اہمیت

سنہ 1988ء میں شیطانی آیات کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی جس میں اکثر مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق اسلام اور حضرت محمدؐ کی اہانت کی گئی تھی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر اور شیعہ مرجع تقلید امام خمینیؒ نے 14 فروری 1989ء کو ایک فتویٰ میں اس کتاب کے مصنف سلمان رشدی اور اس کتاب کے مضمون سے مطلع ناشرین کو موت کی سزا سنائی۔[1]

اس فتوا کا متن حسب ذیل ہے:

باسمہ تعالیٰ

إِنّا للَّه و إنّا إِلیهِ راجِعون۔ میں دنیا بھر کے غیور مسلمانوں کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن کے خلاف لکھی اور شائع ہونے والی کتاب "شیطانی آیات" کے مصنف اور اس کتاب کے مضمون سے مطلع ناشرین کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ میں غیرت مند مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ انہیں جہاں بھی پائے فوراً قتل کر ڈالیں تاکہ کوئی شخص مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرنے کی جرأت نہ کرے اور جو شخص ان کے قتل کرنے کی راہ میں مارا جائے وہ ان شاء اللہ شہید ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ اگر کسی کو کتاب کے مصنف تک رسائی حاصل ہے، لیکن اسے سزائے موت دینے کی طاقت نہیں رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ ایسے لوگوں کو متعارف کرائے تاکہ انہیں اپنے کیے کی سزا مل جائے۔ والسلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ۔ روح اللہ موسوی خمینی[2]

اہمیت

امام خمینی کی طرف سے سلمان رشدی کے قتل کے حکم کو ایک تاریخی حکم اور اسلام مخالف سازشوں کے مقابلے میں شیعہ مراجع تقلید کی طاقت، فہم و شعور اور اسلامی مقدسات کے دفاع کی طاقت کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔[3] تمام اسلامی مذاہب کی جانب سے اس فتوا کی حمایت کا اعلان ہوا۔[4] (ہندوستان) دہلی کے اہل سنت امام جماعت سید عبد اللہ بخاری نے اسے امام خمینی کی علمی فضیلت اور آپ کی غیر معمولی ذہانت کا مظہر قرار دیا۔ شام کے اس وقت کے مفتی اعظم "احمد کفتارو" نے بھی 1 مارچ سنہ 1989ء کو ایک فتویٰ جاری کیا جس میں رشدی پر مقدمہ چلانے اور اسے سزائے موت سنانے کی ضرورت پر زور دیا۔[5] آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مطابق، امام خمینی کا یہ حکم شیطانی آیات کی کتاب کی حمایت کرنے والے مغربی مستکبرین کے لیے ایک جوابی اور سخت دھچکا تھا، جس نے انہیں اپنا دفاع کرنے پر مجبور کیا اور ان کے حوصلے پست کر دیے۔[6] لبنان میں سید محمد حسین فضل اللہ نے بھی اس فتوے کو استکباری دنیا اور مغرب کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا۔[7]

سلمان رشدی کی سزائے موت کی فقہی بنیادیں

بعض فقہاء نے سلمان رشدی کے قتل کے فیصلے کا ماخذ فقہی احکام کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ سید ہادی خسروشاہی کے مطابق، سلمان رشدی کی سزائے موت پیغمبر اکرمؐ کی توہین اور مرتد کی سزا ہے[8] جس پر تمام اسلامی مذاہب کے علماء متفق ہیں۔[9] موسوی اردبیلی نے اس فتویٰ کی وضاحت کرتے ہوئے سلمان رشدی کو ایک مرتد فطری قرار دیا جس کی توبہ اسلام کے نقطہ نظر سے قابل قبول نہیں ہے۔[10]

سلمان رشدی کا رد عمل

اس تاریخی فتوے کی وجہ سے پوری دنیائے اسلام میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی، 18 فروری سنہ 1989ء کو سلمان رشدی نے اپنے مستقبل کے خطرے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک بیانیہ جاری کیا جس میں مسلمانوں سے اپنے اقدام کے سلسلے میں معذرت چاہی۔[11] اس نے اپنے خلاف فتوا جاری ہونے کے بعد اپنے گھر سے فرار ہوکر برطانیہ کے شہر لندن میں پناہ لی اور صرف پانچ مہینوں میں پولیس کی نگرانی میں 57 مرتبہ اپنی رہائش تبدیل کی۔[12] سلمان رشدی نے انگریزی اخبار "ڈیلی میل" کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران اپنی سزائے موت سننے کے بعد اپنے احساسات کے بارے میں کہا: "میں کوئی اچھا احساس نہیں کررہا ہوں، مجھے لگا کہ میں ایک مردہ آدمی ہوں... میرے لیے ذاتی محافظ کے بغیر گھومنا پھرنا، خریداری کے لیے جانا، اپنے خاندان والوں سے ملنا، ہوائی جہاز میں سفر کرنا اور یہ سب کچھ اس وقت ناممکن تھا۔"[13]

ایران اور بین الاقوامی سطح امام خمینی کے فتوے پر رد عمل

امام خمینی کا فتوا صادر ہونے کے بعد لبنان میں سلمان رشدی کے خلاف مسلمانوں کا احتجاجی مظاہرہ

سلمان رشدی کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد ایران اور دیگر ممالک میں وسیع سطح پر رد عمل دیکھنے کو ملا:

ایران میں رد عمل

سلمان رشدی واجب القتل قرار پانے کے بعد ایران کی اس وقت کی حکومت نے امام خمینیؒ کے حکم کے مطابق 15 فروری سنہ 1989ء کو ایران میں عوامی سطح پر سوگ منانے کا اعلان کیا۔ عوام نے مختلف مقامات پر اسلام کے خلاف شیطانی آیات کی کتاب کی اشاعت پر اپنے غصے اور نفرت کا اظہار کیا اور مساجد و امام بارگاہوں کے باہر جلوس نکال کر امام خمینی کے حکم کی حمایت کی۔[14]

ایران کی اس وقت کی قانون ساز اسلامی کونسل نے فوری طور پر دو شرائط کے ساتھ برطانیہ کے ساتھ مکمل طور پر تعلقات منقطع کرنے کی منظوری دے دی اور کونسل کے 170 نمائندوں نے ایک خط پر دستخط کرتے ہوئے بین المجالس کانفرنس کو شیطانی آیات کی کتاب شائع کرنے والوں کے ساتھ اس گھناؤنے فعل کے رد عمل میں مناسب سلوک کرنے کی درخواست کی۔[15] 16 فروری سنہ 1989ء کو "انجمن 15 خرداد" کے سربراہ حسن صانعی نے سلمان رشدی کے ایرانی قاتل کے لیے 20 ملین تومان اور غیر ملکی قاتل کے لیے 10 لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس انعام کی رقم میں کئی گنا اضافہ کیا گیا۔ ستمبر 2013ء میں انعام کی رقم ساڑھے تین ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔[16]

بین الاقوامی سطح پر رد عمل

امام خمینی کی جانب سے سلمان رشدی کو واجب القتل قرار دینے کے بعد پوری دنیا میں اس فتوا پر رد عمل سامنے آیا۔[17] امام خمینی کے فتوا کوعالمی سطح پر کوریج ملنے کے بعد سلمان رشدی، اس کے حامیوں اور اس کتاب کو شائع کرنے والے پبلشر کو دھمکیاں ملنے لگیں اور کئی مقامات پر ان پر حملے کیے گئے۔[18] مختلف ممالک جیسے انگلینڈ، ملائیشیا، اٹلی، فرانس، گینیا، ترکی، ارجنٹائن، سوڈان، آسٹریلیا، ہانگ کانگ، ڈنمارک، کینیڈا، اسپین اور فن لینڈ کے مسلمان اور امریکن مسلم یونین، "جبل عامل" علماء بورڈ، سری لنکا مسلم کانگریس، یوگنڈا کی اسلامی کونسل، سپریم کونسل نائیجیریا کے اسلامی امور نے بیانات جاری کرکے سلمان رشدی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔ نیز ریلی نکال کر رشدی کے قتل کے فتوے کی حمایت کا اعلان کیا۔[19]

الجزائر میں شیطانی آیات کے خلاف "مغرب کا شیطان" نامی کتاب شائع ہوئی۔ اس کتاب میں سلمان رشدی کی سزائے موت کی عکاسی کرتے ہوئے امام خمینی کی تعریف و تمجید کی گئی۔[20]

ہندوستان، جنوبی افریقہ، تنزانیہ، ملائیشیا، مصر اور سعودی عرب میںسلمان رشدی کی کتاب کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی۔ انگلینڈ میں شیطانی آیات کی کتاب شائع کرنےوالے پینگوئن پبلشنگ ہاؤس نے اپنے حفاظتی اقدامات میں اضافہ کر دیا۔ اس کے علاوہ امریکہ اور انگلینڈ جیسے ممالک میں اس کتاب کے کچھ پبلشرز کے دفاتر پر حملہ کیا گیا۔[21] چین نے بھی 19 اگست 1989ء کو شیطانی آیات کی اشاعت پر پابندی عائد کردی۔[22]

مصطفی مازح کی تصویر، یہ پہلا شخص ہے جس نے امام خمینی کے حکم کی تعمیل کے لیے قدم اٹھایا

دوسری طرف اس وقت کے امریکہ کے صدر جارج بش نے 22 فروری 1989ءکو سلمان رشدی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ایران کی طرف سے اس کی موت کی دھمکی کو امریکی مفادات کے خلاف خطرہ قرار دیا۔[23] انگلستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ جیفری ہوو نے رشدی کی سزائے موت کے اعلان اور اس کے اثرات کے بارے میں بات کی جس میں برطانوی حکومت کے اسلام کے لیے احترام کے موقف کو تبدیل کرنے اور شیطانی آیات کی کتاب سے علیحدگی کے بارے میں بات کی گئی۔[24] یورپی مشترکہ منڈی کے بارہ رکن ممالک نے ایران سے اپنے سفیروں یا سفارتی امور کے سربراہان کو اپنے وطن واپس بلا لیا اور ان ممالک کے اعلیٰ عہدے داروں کا ایران سے رابطہ اور ایران کی طرف سفر منسوخ کر دیا۔[25] امریکی حکومت نے سرکاری طور پر سوویت یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ امام خمینی کے فتوا کی مذمت کرے؛ لیکن اس وقت سوویت یونین کے وزیر خارجہ شوار دنادزہ نے جواب میں کہا کہ مغرب کو ایران کی اقدار کا احترام کرنا چاہیے۔[26]

ایک لبنانی جوان مصطفیٰ مازح[27] اور ابراہیم عطائی[28] نے سنہ 1989ء میں سلمان رشدی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن رشدی کی سیکورٹی ٹیم کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ سلمان رشدی پر 12 اگست سنہ 2022ء کو نیویارک میں نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے ایک جوان نے سلمان رشدی کی تقریر کے دوران اس پر چاقو سے حملہ کیا اور اس کی گردن کو زخمی کردیا ۔[29] سلمان رشدی کا حملہ آور، ہادی مطر ایک 24 سالہ جوان تھا، جس نے اس حملے میں اس کی دائیں آنکھ کو اندھا کر دیا۔ ہادی مطر کے حملے سے رشدی کی انگلیاں بے حس ہوکر رہ گئیں۔[30]

حوالہ جات

  1. خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج21، بخش2، ص263۔
  2. خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج21، بخش2، ص263۔
  3. «صدور حکم ارتداد سلمان رشدی، برگی از پاسداری و دفاع امام خمینی از مقدسات و آرمان های مسلمین است»، سایت امام خمینی۔
  4. «فتوایی که هر ساله خرج روی دست انگلیس می‌گذارد»، سایت تابناک۔
  5. «فتوایی که هر ساله خرج روی دست انگلیس می‌گذارد»، سایت تابناک۔
  6. «عکس‌العمل امام همه‌ آنها را غافلگیر کرد»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت الله خامنه‌ای۔
  7. «فتوایی که هر ساله خرج روی دست انگلیس می‌گذارد»، سایت تابناک۔
  8. خسرو شاهی، آیات شیطانی و اسلام‌ستیزی غرب، 1398شمسی، ص121۔
  9. خسرو شاهی، آیات شیطانی و اسلام‌ستیزی غرب، 1398شمسی، ص114 و 118۔
  10. واعظ زاده خراسانی، «سمینار مقدماتی تبیین حکم امام(ره) درباره نویسنده کتاب آیات شیطانی»، ص4۔
  11. مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، آیات شیطانی؛ بارزترین جلوه دشمنی استکبار جهانی با اسلام ناب محمدی، 1388شمسی، ص12۔
  12. «مبانی فقهی حکم ارتداد سلمان رشدی نویسنده آیات شیطانی»، خبرگزاری مهر۔
  13. «فتوایی که هر ساله خرج روی دست انگلیس می‌گذارد»، سایت تابناک۔
  14. «حکم ارتداد و اعدام سلمان رشدی»، سایت امام خمینی؛ مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، آیات شیطانی؛ بارزترین جلوه دشمنی استکبار جهانی با اسلام ناب محمدی، 1388شمسی، ص45 - 46۔
  15. مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، آیات شیطانی؛ بارزترین جلوه دشمنی استکبار جهانی با اسلام ناب محمدی، 1388ش، ص45۔
  16. خارکوهی، «تاملی بر توطئه آیات شیطانی و واکنش‌های جهانی آن»، ص212۔
  17. «تأکید بر اجرای حکم تاریخی امام خمینی(ره) درباره‌ی سلمان رشدی»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت الله خامنه‌ای۔
  18. خارکوهی، «تاملی بر توطئه آیات شیطانی و واکنش‌های جهانی آن»، ص209 ـ 210۔
  19. «تیری که بر هدف خواهد نشست»، سایت آیت‌الله خامنه‌ای۔
  20. «قضیه آیات شیطانی و فتوای تاریخی امام»، سایت انقلاب اسلامی۔
  21. «تیری که بر هدف خواهد نشست»، سایت آیت‌الله خامنه‌ای۔
  22. مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، آیات شیطانی؛ بارزترین جلوه دشمنی استکبار جهانی با اسلام ناب محمدی، 1388شمسی، ص50۔
  23. مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، آیات شیطانی؛ بارزترین جلوه دشمنی استکبار جهانی با اسلام ناب محمدی، 1388شمسی، ص47۔
  24. خارکوهی، «تاملی بر توطئه آیات شیطانی و واکنش‌های جهانی آن»، ص216۔
  25. مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، آیات شیطانی؛ بارزترین جلوه دشمنی استکبار جهانی با اسلام ناب محمدی، 1388شمسی، ص47۔
  26. خارکوهی، «تاملی بر توطئه آیات شیطانی و واکنش‌های جهانی آن»، ص215 ـ 216۔
  27. «تیری که بر هدف خواهد نشست»، سایت آیت‌الله خامنه‌ای۔
  28. «سلمان رشدی و کتاب آیات شیطانی»، وبسایت راسخون۔
  29. «حمله به سلمان رشدی در آمریکا»، خبرگزاری تسنیم؛ «حمله با چاقو به سلمان رشدی»، خبرگزاری یورو نیوز۔
  30. «چشمِ راست «سلمان رشدی»، کور شد»، خبرگزاری مهر۔

مآخذ