محمود شلتوت

ویکی شیعہ سے
شیخ شلتوت
کوائف
مکمل ناممحمود شلتوت
تاریخ ولادت1893ء
آبائی شہربحیرہ
رہائشقاہرہ
تاریخ وفات1963ء
علمی معلومات
مادر علمیاسکندریہ
تالیفاتتفسیر القرآن الکریم، مقارنۃ المذاہب فی الفقہ، الاسلام عقیدۃ و الشریعۃ و ...
خدمات
سیاسیسنہ 1919ء کو مصر کے عوامی انقلاب میں شرکت، ایران میں 15 خرداد کے واقعہ اور ایرانی حکومت کی جانب سے اسرائیل کو قبول کرنے کی مزمت
سماجیتأسیس دارالتقریب بین المذاہب الاسلامی، شیعہ علماء کے ساتھ رابطہ، مذہب شیعہ کے مطابق عمل جائز ہونے کا فتوا


محمود شَلْتوت (1310-1383ھشیخ شلتوت کے نام سے معروف مصر کے اہل سنت عالم، مفسر اور جامعۃ الازہر کے اساتذہ میں سے تھے۔ وہ تقریب مذاہب اسلامی کے حامی اور دار التقریب بین المذاہب اسلامی کے بانیوں میں سے تھے۔ انہوں نے شیعہ مذہب کے مطابق عمل جائز ہونے کا فتوا بھی جاری کیا تھا۔ فقہ مقارن کی تدریس اور شیعہ علماء کے ساتھ رابطہ ان کے تقریب بین مذاہب کے لئے اٹھائے گئے دیگر اقدامات میں سے ہیں۔

سنہ 1919ء کو مصر کے عوامی انقلاب میں شرکت، ایران میں 15 خرداد کے واقعے کی مزمت اور سنہ 1947ء کو ایرانی حکومت کی جانب سے اسرائیلی حکومت قبول کرنے کی مزمت ان کے سیاسی موقف میں شمار ہوتے ہیں۔

زندگی‌ نامہ

محمود شلتوت اہل سنت کی حنفی مسلک تھے[1] اور آپ سنہ 1310 ہجری بمطابق 1893ء کو مصر کے شہر بحیرہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اسکندریہ یونیورسٹی سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور 25 سال کی عمر میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی یونیورسٹی میں استاد کے فرائض انجام دینے لگے۔[2] مصر میں سنہ 1919ء کی عوامی انقلاب میں انہوں نے مقالات اور تقریروں کے ذریعے اس عوامی تحریک کی حمایت کی۔[3] سنہ 1346ھ کو جامعۃ الازہر کے چانسلر شیخ مصطفی المراغی کی دعوت پر اس یونیورسٹی میں بھی تدریس کے شعبے سے منسلک ہوئے؛ لیکن دربار مصر کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے جب المراغی نے جامعۃ الازہر سے استعفی دیا تو شیخ شلتوت نے بھی اس یونیورسٹی کو خیرباد کہا اور شرعی محاکم میں وکالت کے کام میں مشغول ہو گئے۔ سنہ 1355ھ میں شیخ مصطفی المراغی کے جامعۃ الازہر میں دوبارہ آمد کے بعد شیخ شلتوت کو بھی دوبارہ تدریس کے لئے بلایا گیا۔ سنہ 1377ھ کو مصر کے صدر کی جانب سے انہیں جامعۃ الازہر کا چانسلر منتخب کیا گیا[4] اور 1383ھ میں اپنی وفات تک قاہرہ میں اسی منصب پر باقی رہے۔[5]

تقریب مذاہب کے لئے کئے گئے اقدامات

شیعہ فقہ کی پیروی سے متعلق شیخ شلتوت کا فتوا

"مکتب جعفری جو مذہب امامی اثنا عشری کے نام سے معروف ہے، ایسا مکتب فکر ہے جس کی پیروی شرعا اہل سنت کے مذاہب کی پیروی کی طرح جائز ہے۔ بہتر ہے مسلمانوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے اور کسی خاص مکتب فکر کے ساتھ ناحق تعصب اور نا انصافی سے پرہیز کرنا چاہئے۔"

بی‌ آزار شیرازی، ہمبستگی مذاہب اسلامی، ۱۳۷۷ش، ص۳۴۴

شیخ شلتوت کی طرف سے اسلامی مذاہب کے مابین تقریب اور وحدت کے لئے انجام پانے والے بعض کام درج ذیل ہیں:

  1. دار التقریب بین المذاہب الاسلامی کی تأسیس: شیخ شلتوت نے شیخ مصطفی المراغی، محمد تقی قمی، مصطفی عبد الرزاق اور عبد المجید سلیم کے ساتھ مل کر اسلامی مذاہب کے درمیان تقریب کی خاطر سنہ 1367ھ میں قاہرہ میں جماعت تقریب مذاہب اسلامی کی بنیاد رکھی۔[6]
  2. شیعہ مکتب فکر کے مطابق عمل کے جائز ہونے کا فتوا: شیخ شلتوت نے 17 ربیع‌ الاول سنہ 1378ھ کو مختلف اسلامی مذاہب کے نمائندوں کی موجودگی میں شیعہ مذہب کے مطابق عمل جائز ہونے کا فتوا دیا۔[7] انہوں نے شیعہ اثنا عشری اور زیدیہ مذہب کو دیگر اسلامی مکاتب کے برابر قرار دینے کے سوال کے جواب میں کہا: اسلام کسی خاص مکتب فکر کی پیروی میں منحصر نہیں ہے اور ایک مکتب سے دوسرے مکاتب میں منتقل ہو سکتے ہیں۔[8]
  3. شیعہ علماء کے ساتھ رابطہ: شیخ شلتوت شیعہ اور اہل سنت میں قربت پیدا کرنے کے لئے شیعہ علماء کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا۔ آیت اللہ بروجردی کے ساتھ خط و کتابت، ایران کا سفر اور آیت‌اللہ بروجردی سے ملاقات اور قدس کانفرنس میں نماز جماعت میں محمد حسین کاشف الغطا کی اقتداء من جملہ ان اقدامات میں سے تھے۔[9]
  4. فقہ مقارن کی تدریس: شیخ شلتوت نے مختلف اسلامی مذاہب کا فقہی میدان میں مطالعہ اور تحقیق کی خاطر جامعۃ الازہر میں فقہ مقارن کی تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا۔[10] شیخ شلتوت کے تقریب مذاہب کے سلسلے میں اٹھائے گئے دیگر اقدامات میں مجلہ رسالۃ الاسلام کی اشاعت،[11] شیعہ تفسیر مجمع البیان پر مقدمہ اور جامعۃ الازہر میں عاشورا کے مراسم کا قیام ہے۔[12]
  5. تکفیر کی مخالفت: شیخ شلتوت اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کی تکفیر کے مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اسلامی مذاہب کی بھلائی اسی میں ہے کہ ایک دوسرے کے پیروکاروں کو مشرک کہنے اور ان کی تکفیر، مذہبی مشایخ کی توہین اور مذہبی پیشواؤں کے مزارات کو بت قرار دینے کے بجائے عوام الناس کو ایک دوسرے کے بارے میں آگاہ کرنا چاہئے۔[13]

سیاسی موقف

شیخ شلتوت سیاسی حالات خاص کر اسلامی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں حساس تھے اور ان کے بارے میں ان کا خصوصی سیاسی موقف تھا من جملہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • قیام 15 خرداد کے بارے میں مذمتی بیان: شیخ شلتوت نے ایران میں سنہ 1342 ش کے قیام میں حکومت کی جانب سے امام خمینی کو گرفتار کرنے اور بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے خلاف بیان دیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک خط کے ذریعے مسلمانوں سے ایران کے مجاہد علماء کی حمایت کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح انہوں نے محمد رضا شاہ کو ٹلگراف کے ذریعے مذہبی روحانی پیشواؤں کی ہتک حرمت سے پرہیز کرنے کی تلقین کی۔[14]
  • اسرائیل کو قبول کرنے کی مخالفت: شیخ شلتوت نے ایرانی حکومت کی جانب سے سنہ 1326 ش میں اسرائیل کو قبول کرنے کی مذمت کی اور آیت اللہ بروجردی اور آیت اللہ سید محسن حکیم کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعے رضا شاہ کے اس اقدام کی مذمت کی۔[15]

علمی آثار

شیخ شلتوت تفسیر، فقہ اور دیگر علوم میں مختلف کتابیں کے مالک تھے جن میں سے بعض اہم کتابیں درج ذیل ہیں:

  1. ‌تفسیر القرآن الکریم: 14 سال کے عرصے میں مجلہ رسالۃ الإسلام میں شایع ہونے والے مقالات کو کتاب کی شکل دی گئی ہے۔ اس کتاب میں تفسیر کے قدیمی طریقہ کار کی توصیف کے ضمن میں زمان و مکان کے تقاضوں کو مد نظر رکھا گیا ہے اور اسلامی مذاہب کے درمیان قربت پیدا کرنا اور ان کو متحد کرنا اس کے دیگر اہداف میں سے ہیں۔ یہ کتاب سنہ 1370ش کو مجمع التقریب بین المذاہب الاسلامیۃ کے توسط سے شایع ہوئی ہے۔[16]
  2. مقارنۃ المذاہب فی الفقہ: فقہ مقارن کے بارے میں لکھی گئی اس کتاب میں ہر فقہی مسئلے میں مختلف اسلامی مذاہب کے نظریات کو بیان کرتے کے ساتھ زمان و مکان کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب نظریہ پیش کیا ہے۔[17]

الاسلام عقیدۃ و الشریعۃ، من توجیہات الاسلام، الفتاوی، من ہدی القرآن، المسئولیۃ المدنیۃ، الجنائیۃ فی الشریعۃ الاسلامیۃ اور فقہ القرآن و السنۃ ان کے دیگر آثار میں سے ہیں۔[18]

مونوگرافی

شیخ محمود شلتوت کے بارے میں بعض کتابیں لکھی گئی ہیں:

  • کتاب شیخ محمود شلتوت طلایہ‌ دار تقریب، تحریر عبدالکریم بی‌ آزار شیرازی یہ کتاب مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کےتوسط سے سنہ 1367ش کو منتشر ہوئی ہے۔
  • شیخ محمود شلتوت آیت شجاعت، تحریر علی احمدی اس کتاب کو بھی مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی نے سنہ 1383ش میں منتشر کی ہے۔

حوالہ حات

  1. خبرگزاری رسا، «آشنایی با زندگینامه شیخ تقریب، شیخ شلتوت و صدور فتوای تاریخی».
  2. سلہب، الشیخ محمود شلتوت، ۲۰۰۸م، ص۲۱۔
  3. سلہب، الشیخ محمود شلتوت، ۲۰۰۸م، ص۲۱۔
  4. احمدی، شیخ محمود شلتوت آیت شجاعت، ۱۳۸۳ش، ص۱۹-۳۰۔
  5. سلہب، الشیخ محمود شلتوت، ۲۰۰۸م، ص۲۳۔
  6. خسرو شاہی، سرگذشت تقریب، ۱۳۸۹ش، ص۳۳-۳۷۔
  7. سلہب، الشیخ محمود شلتوت، ۲۰۰۸م، ص۱۵۴۔
  8. بی‌ آزار شیرازی، ہمبستگی مذاہب اسلامی، ۱۳۷۷ش، ص۳۴۴۔
  9. احمدی، شیخ محمود شلتوت، ۱۳۸۳ش، ص۷۵-۷۸۔
  10. احمدی، شیخ محمود شلتوت آیت شجاعت، ۱۳۸۳ش، ص۸۵۔
  11. سلہب، الشیخ محمود شلتوت، ۲۰۰۸م، ص۹۳۔
  12. احمدی، شیخ محمود شلتوت آیت شجاعت، ۱۳۸۳ش، ص۳۰، ۹۰۔
  13. بی‌ آزار شیرازی، شیخ محمود شلتوت طلایہ دار تقریب، ۱۳۸۵ش، ص۳۰-۳۱۔
  14. احمدی، شیخ محمود شلتوت آیت شجاعت، ۱۳۸۳ش، ص۳۷-۴۲۔
  15. احمدی، شیخ محمود شلتوت آیت شجاعت، ۱۳۸۳ش، ص۴۲-۴۸۔
  16. کریمی، «شخصیت علمی شیخ شلتوت و روش تفسیری وی»، ص۳۷، ص۳۸۔
  17. احمدی، شیخ محمود شلتوت آیت شجاعت، ۱۳۸۳ش، ص۱۱۰۔
  18. سلہب، شیخ محمود شلتوت، ۲۰۰۸م، ص۵۷-۷۱۔

مآخذ

  • احمدی، علی، شیخ محمود شلتوت آیت شجاعت، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، ۱۳۸۳ شمسی ہجری۔
  • بی‌ آزار شیرازی، عبد الکریم، ہمبستگی مذاہب اسلامی (مقالات دار التقریب)، تہران، سازمان فرہنگ و ارتباطات اسلامی، ۱۳۷۷ شمسی ہجری۔
  • بی‌ آزار شیرازی، عبد الکریم، محمود شلتوت طلایہ دار تقریب عقائد ۔۔۔، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، ۱۳۸۵ شمسی ہجری۔
  • خسرو شاہی، سید ہادی، سرگذشت تقریب، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، ۱۳۸۹شمسی ہجری۔
  • سلہب، حسن، الشیخ محمود شلتوت قراءۃ فی تجربۃ الاصلاح و الوحدۃ الاسلامیۃ، بیروت، ۲۰۰۸ ء۔
  • کریمی، محمود، «شخصیت علمی شیخ شلتوت و روش تفسیری وی»، در مجلہ مطالعات قرآن و حدیث، تہران، دانشگاہ امام صادق(ع)، سال اول، شمارہ دوم، ۱۳۸۷ شمسی ہجری۔