حشد شعبی

ویکی شیعہ سے
(حشدالشعبی سے رجوع مکرر)
حشد شعبی
عمومی معلومات
ہیڈ کوارٹربغداد
سربراہفالح فیاض
نائب سربراہہادی عامری • ابو مہدی المہندس
کلیدی افرادنوری مالکی، ابو مہدی المہندس، ہادی العامری، قیس الخزعلی
ویب سائٹhttps://al-hashed.gov.iq


حَشْد شَعبی یا عوامی رضاکار فورس، عراق کی سکیورٹی سے مربوط ایک ملیشیا گروہ ہے جو عراقی فوج کے سپہ سالار کی زیر سرپرستی فوج کی مدد کرتا ہے۔ اس میں اکثر لوگ شیعہ ہیں۔ حشد شعبی ایسے ہنگامی حالات میں تشکیل پائی جب جون 2014ء کو داعش نے عراق پر حملہ کیا اور شیعہ مرجع تقلید، آیت اللہ سیستانی کے داعش کے خلاف فتوے نے اسے مزید مضبوط کردیا۔

حشد الشعبی چالیس سے زائد گروہوں پر مشتمل ایک لاکھ سے زیادہ افراد کا ایک نظامی گروہ ہے جس میں شیعہ،‌ سنی، عیسائی، عرب، ترکمن اور کُرد شامل ہیں۔ بدر برگیڈ، عصائب اہل الحق، کتائب حزب‌الله اور سرایا العتبات حشد الشعبی میں شامل بعض گروہ ہیں۔

داعش کے مقابلے میں حشد الشعبی بہت مؤثر تھی اور یہ گروہ داعش کے سقوط کے بعد داعش کے باقیماندہ اثرات کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی سرگرم رہا۔ عراق کے دیگر عسکری تنظیموں کی طرح حشد الشعبی کے دستور میں اسے سیاسی امور میں مداخلت سے منع کیا گیا ہے۔

امریکہ اور سعودی عرب نے حشد الشعبی کو منحل کرنے یا عراق کی فوج میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا اور امریکہ نے 2021ء کو عراق میں حشد شعبی کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ دوسری طرف سوریہ، ایران اور حزب اللہ لبنان حشد الشعبی کے حمایتی سمجھے جاتے ہیں۔ عراقی شیعہ عالم دین اور سیاسی رہنما مقتدی صدر بھی حشد الشعبی کا عراقی فوج میں شامل کرنے کے حق میں ہیں ان کے مقابلے میں مرجع تقلید سید کاظم حائری حشد الشعبی کو ایک مستقل ادارے کی شکل میں رکھنا عراق کی سلامتی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔

فالح فیاض حشد الشعبی کے سپاہ سالار اور ہادی عامری اس کے جانشین ہیں۔ ان سے پہلے ابومہدی مہندس جانشین تھے جو امریکہ کی طرف سے ہونے والے ایک فضائی حملے میں سپاہ پاسدار اسلامی ایران کی قدس برگیڈ کے میجر جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھ شہید ہوئے۔

اہمیت

حشد شعبی جسے عراق کی عوامی رضا کار فورس بھی کہا جاتا ہے،[1] ایک نظامی طاقت ہے جو عراق کے سکیورٹی ادارے سے وابستہ ہے،[2] اور عراق کے سپہ سالار (چیف آف آرمی سٹاف) کی زیر نگرانی فوج کی مدد کرتی ہے[3] جس میں زیادہ تر لوگ شیعہ ہیں۔[4] سنہ 2014 جون کو داعش کے عراق پر حملہ اور کے نتیجے میں عراق کی کابینہ کے بیانیے کے بعد ایک ہنگامی صورت میں حشد الشعبی وجود میں آئی۔[5] اور شیعہ مرجع تقلید، سید علی سیستانی کے 13 جون 2014 کو داعش کے خلاف فتوے کے بعد اسے مشروعیت ملی[6] اور مزید مضبوط ہوگئی۔[7]

تاسیس

عراق کے وزیر اعظم نوری مالکی اور اس کی کابینہ نے 10 جون کو دہشتگردوں کے مقابلے کے لئے عراقی عوام سے رضاکار فورس میں شمولیت کی درخواست کیا۔[8] یہ بیانیہ ایسے وقت میں جاری ہوا جب عراق کے مغرب، شمال اور مرکزی علاقوں پر داعش کا قبضہ ہوا تھا اور بغداد بھی داعش کے نشانے پر تھا۔[9]

سید علی سیستانی کا جہاد کفائی کا فتوا

داعش کی دھمکی اور اس کے مقابلے میں عراقی حکومت کی طرف سے جاری کردہ بیان میں قوم کو رضاکار فورس میں شمولیت کی درخواست کی اور اس کے تین دن[10] بعد عراق کے شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سید علی سیستانی نے 13 جون 2014ء کو داعش سے مقابلہ کرنے کو واجب کفائی قرار دیتے ہوئے فتوا جاری کیا۔[11] حشد الشعبی کی مشروعیت[12] اور لوگوں کا اس میں شمولیت کے لئے اس فتوے کو بہت موثر قرار دیا گیا[13] بعض نے تو اس حد تک کہا کہ حشد الشعبی سید علی سیستانی کے فتوے کے بعد ہی تشکیل پائی۔[14]

قانونی حیثیت

26 نومبر 2016ء کو عراقی مجلس شورا (پارلیمنٹ) میں «تنظیم حشد شعبی» کا قانون پاس ہونے کے بعد عراق کی ایک عسکری وینگ بن گئی اور چیف آف آرمی سٹاف کے زیر نظر آگئی۔ اس کے نتیجے میں حشد شعبی اور دیگر عسکری فورس سب برابر ہیں اور حشد الشعبی کے لئے دیگر فوج کی طرح سیاسی سرگرمیاں ممنوع ہیں۔[15]

تنظیمی ڈھانچہ

حشد شعبی مختلف عسکری گروہوں سے تشکیل پائی ہے جن کی تعداد 42[16] سے 68 گروہ[17] بتائی گئی ہے۔ حشد الشعبی کے رضاکار کی تعداد بھی ساٹھ ہزار[18] ایک لاکھ ساٹھ ہزار تک بتائی گئی ہے؛[19] البتہ عراقی پارلیمنٹ نے بجٹ میں صرف ایک لاکھ دس ہزار افراد کو رسمیت دی ہے۔[20]

ستمبر 2021ء کو بعض نے حشد الشعبی رضاکاروں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار ذکر کیا ہے جن میں سے نوے ہزار شیعہ عرب، تیس ہزار سنی عرب، سات ہزار ترکمن اور تین ہزار افراد کو مسیحی ہیں۔[21] البتہ کردیوں کا بھی حشد الشعبی میں شامل ہونے کا ذکر ہوا ہے۔[22]

بعض محققین نے حشد شعبی کو ان کی وفاداری کے تحت تین گروہ میں تقسیم کیا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کے چاہنے والے، سید علی سیستانی یا مقتدی صدر کے چاہنے والے۔[23]

فالح فیاض فورس کے کمانڈر ان چیف اور ہادی عمری ان کے جانشین ہیں۔ ان سے پہلے ابو مہدی مہندس نائب تھے جو 3 جنوری 2020ء کو امریکہ کی طرف سے ہونے والے ایک دہشتگردانہ فضائی حملے میں سپاہ پاسدار اسلامی ایران کی قدس برگیڈ کے میجر جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھ شہید ہوئے۔[24]

حشد الشعبی کے قانون کے مطابق اس کے چیف کمانڈر کے لئے دیگر افواج کی طرح وزیر اعظم قومی اسمبلی کو تجویز دیتا ہے اور عوامی نمائندے منتخب کرتے ہیں۔[25] البتہ 17 ستمبر 2019 کو ایک عدالتی آرڈیننس کے تحت وقت کے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے یہ اختیار حشد الشعبی کے کمانڈر کو دے دیا کہ وہ ان کی طرف سے دیگر کمانڈرز اور سپہ سالاروں کو انتخاب کرے اور آرمی چیف سے ان کی تائید لے۔[26]

حشد شعبی کے بعض گروہ درج ذیل ہیں:

  • سازمان بدر (شاخه نظامی)
  • عصائب اهل الحق
  • کتائب حزب‌الله
  • سرایا الخراسانی
  • کتائب ابوالفضل العباس
  • سرایا العتبات
  • لواء علی الاکبر[27]
  • کتائب سیدالشہداء[28]
  • سرایا السلام (جیش المهدیِ سابق)[یادداشت 1]
  • سرایا الجهاد
  • سرایا العقیدة
  • سرایا الشوری[29]
  • قوات الشهید الصدر
  • حرکة‌ النجباء[30]

فعالیتیں

یوں تو داعش کے مقابلے میں حشد الشعبی کا کردار اہم بتایا جاتا ہے؛[31] لیکن سامرا اور آمرلی جیسے شہروں کا محاصرہ توڑنے اور جُرف الصَّخر، تِکریت، بَیْجی اور صوبہ دَیالی کو آزاد کرنے میں بڑا کردار تھا۔[32] حشد شعبی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق، 2015ء کے آخر تک داعش کو عراق کے 19 شہروں سے نکال دیا ہے اور شہروں کے مابین 52 مواصلاتی راستوں میں امن قائم کیا ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق حشد شعبی نے 17500 کلومیٹر مربع (داعش کے زیر قبضہ رقبے کا ایک تہائی حصہ) کو داعش سے آزاد کرایا ہے۔[33]

داعش کے سقوط کے بعد حشد شعبی، صلاح‌ الدین، دیالی، کرکوک، نینوا اور الانبار جیسے بغداد کے بعض علاقوں سے داعش کے آثار مٹانے میں مصروف ہوئی۔[34] اسی طرح حشد شعبی رفاہ عامہ[35] سڑکوں کی تعمیر،[36] صحرا کی آباد کاری،[37] مذہبی اجتماعات میں سکیورٹی کی فراہمی[38] بالخصوص مشی اربعین کی سکیورٹی[39] اور سیلاب جیسے حادثات کو کنٹرول[40] کرنے میں سرگرم ہے۔

حشد شعبی کے بارے میں دیگر ممالک کا موقف

امریکہ کے وقت کے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسون نے حشد شعبی کا قانون قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے ایک سال بعد اسے ایرانی ملیشیا قرار دیتے ہوئے[41] اسے منحل کرنے یا اس کو فوج میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔[42] بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ حشد شعبی سے امریکہ کی مخالفت کی وجہ سپاہ بدر، عصائب اہل الحق اور کتائب حزب اللہ جیسے گروہوں کا حشد الشعبی میں شامل ہونا ہے کیونکہ یہ گروہ عراق میں امریکی فوجی مداخلت کے مخالف ہیں اور امریکہ کی فوج کا عراق سے نکل جانے کے خواہاں ہیں۔[43] [یادداشت 2]

بعض دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی مخالفت کی وجہ حشد شعبی کے بعض گروہوں کا ایران اور سید علی سیستانی سے نزدیک ہونا اور ان کا عراق کے انتخابات میں موثر واقع ہونے کا خوف ہے۔[44] اس وقت کے سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے بھی جون 2016ء میں حشد الشعبی کو مذہبی اختلافات کا باعث قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔[45]

شام کے صدر بشار اسد نے 3 مارچ 2022ء کو حشد شعبی کے کمانڈر سے ملاقات کی جس میں دہشتگردوں کے حامی ممالک سے مقابلہ کرنے کی تاکید ہوئی۔[46] حشد الشعبی کے نائب صدر کے مطابق عراق کو داعش سے آزاد کرنے کے بعد 16 نومبر کو سوریہ کے صدر بشار اسد نے حشد شعبی کو سوریہ میں داعش خلاف محاذ پر جنگ کرنے کے لئے آنے کی دعوت دی۔[47] آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی «قومی حکمت مومنٹ» کے سربراہ سید عمار حکیم سے گفتگو کرتے ہوئے حشد شعبی کو عراق کا سرمایہ قرار دیا اور ان کی حمایت کی تاکید کی۔[48] 19 اگست 2021ء کو حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصرالله نے حشد شعبی کی حمایت، عراق میں قیام امن کے لئے لازمی قرار دیا۔[49]

حشد شعبی کے ٹھکانوں پر امریکی حملہ

29 دسمبر 2019ء کو امریکہ نے الانبار اور عراق و سوریہ کی سرحد پر حشد الشعبی کے ٹھکانے پر حملہ کیا جس میں 25 اہلکار مارے گئے۔ امریکہ کے وزیر دفاع نے ان حملوں کو حشد شعبی کا امریکی اڈوں پر کئے جانے والے حملوں کا جواب قرار دیا۔[50] جبکہ حشد شعبی نے امریکی اڈوں پر کئے جانے والے حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔[51] 8 جون 2021ء کو ایک بار پھر سے امریکہ نے عراق اور سوریہ کی سرحد پر حشد الشعبی کے ٹھکانے کو اپنے حملوں سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چار اہلکار مارے گئے۔ امریکہ نے ان حملوں کو ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی طرف سے عراق میں امریکی افراد اور ان کی تاسیسات پر کئے جانے والے ڈرون حملوں کا جواب قرار دیا۔[52] امریکی حملوں میں مارے جانے والے افراد کے بارے میں حشد الشعبی کا کہنا تھا کہ یہ لوگ عراق میں غیر ملکی فوج کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں میں شریک نہیں تھے۔[53]

حشد شعبی کے بارے میں عراقیوں کا موقف

عراق کے شیعہ عالم دین اور سیاسی رہنما مقتدی صدر نے بھی 2016ء میں حشد الشعبی کو عراقی فوج میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا[54] اور 2021ء میں سیاست اور تجارت سے بےدخل رہنے کا مطالبہ کیا۔[55] ان کے مقابلے میں شیعہ مرجع تقلید سید کاظم حائری حشد شعبی کو ایک مستقل گروہ سمجھتے ہیں جو کسی بھی طرح سے دوسری فوج میں ضم نہیں ہوسکتا ہے اور عرق کی امنیت کے لئے اس کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔[56]

نجف میں مرجع تقلید آیت اللہ بشیر نجفی نے حشد الشعبی کو عراق اور مرجعیت کا بازو قرار دیا؛[57] ساتھ ہی وہ اور محمد اسحاق فیاض نے حشد شعبی کو سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی۔[58]

بعض دیگر تجزیہ نگار بیرونی دھمکیوں اور دہشتگردوں سے مقابلے کے لئے حشد شعبی کے وجود کو ضروری سمجھتے ہیں۔[59] اسی طرح قومی حکمت مومنٹ (National Wisdom Movement) کے سربراہ سید عمار حکیم نے حشد شعبی کو عراقی سٹرٹیجی کے لئے ضروری قرار دیا اور اس کے انحلال یا فوج میں ادغام کرنے کی مخالفت کی البتہ سیاسی افراد سے جوڑنے پر تنقید کی۔[60] حشد شعبی کے سربراہ فالح فیاض نے سیاسی امور میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو رد کیا ہے۔[61]

الزامات

فَلّوجہ کی آزادی کے لئے کئے جانے والے آپریشن کے بعد بین الاقوامی تنظیم برائے عفو عام (Amnesty International) نے حشد شعبی پر فلوجہ کے 650 افراد کو اغوا کرنے کا الزام لگایا۔[62] شیخ الازہر احمد طیب نے تکریت آزادی آپریشن کے دوران حشد شعبی پر اہل سنت کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام لگایا۔[63] جبکہ اہل سنت عالم دین خالد عبد الوہاب اَلْملا کی سربراہی میں جماعت علماء العراق،[64] اور نجف کے مرجع تقلید شیخ بشیر نجفی[65] نے شیخ الازہر کے الزام کو رد کرتے ہوئے کہا کہ حشد شعبی میں شیعہ اور سنی سب شریک ہیں۔

مونوگراف

حشد الشعبی کے بارے میں فارسی میں لکھی گئی ایک کتاب

حشد شعبی کے بارے میں مختلف زبانوں میں مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض جو عربی، انگریزی اور فارسی میں لکھی جانے والے کتابیں درج ذیل ہیں: تأثیرات حشدالشعبی عراق بر سیاست‌های راهبردی ایران،[66] سایہ روشن حشد شعبی،[67] حشد الشعبی[68] فارسی میں لکھی ہوئی کتابیں ہیں الحشدُ الشَّعبی: الاستراتیجیةُ الامریکیة وَ الْحشد الشعبی فی العراق،[69] الجیوشُ الْموازیة: میلیشیاتُ الْحشد الشعبی فی العراق،[70] و الحشدُ الشعبی اَلرِّهانُ الْاخیر،[71] عربی زبان میں حشد الشعبی کے بارے میں لکھی گئی ہیں اسی طرح «Iraqi Security Forces and Popular Mobilization Forces : Orders of Battle؛»[72] و «The Popular Mobilization Forces and Iraq's future؛ »[73] انگریزی میں لکھی گئی کتابیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

نوٹ

  1. بعض کا کہنا ہے کہ سرایا السلام حشد الشعبی میں شامل نہیں ہے اگرچہ داعش کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دیا ہے۔(کاطع ناهض، «انضمام الحشد الشعبی الی المؤسسة العسکریة»، ص۴۴۱.)
  2. کتائب حزب‌الله اور عصائب اہل الحق، 2003ء میں حشد شعبی کی تشکیل اور امریکی فوج کی عراق میں داخل ہونے کے بعد امریکی فوج کے خلاف عسکری کاروائیوں میں شریک تھے۔ (ناصر، «الحشد الشعبی فی المنظور الامیرکی»، ص۱۱۵.)

حوالہ جات

  1. «حشد الشعبی‌ها چه افرادی هستند؟»، خبرگزاری میزان.
  2. سلومی،‌ «تضحیة الذات لدی منتسبی الحشد العشبی العراقی»، ص۲۴۱.
  3. بریسم، «اسباب تطوع الشباب فی الحشد الشعبی»، ص۶۲۱.
  4. خشان، «الحشد الشعبی دراسة فی الجیوبولیتیک النقدیة»، ص۴۸۶.
  5. ناصر، «الحشد الشعبی فی المنظور الامیرکی»، ص۱۱۶.
  6. «سیستانی در صدد برچیدن بساط حشد شعبی از زیر پای شبه‌نظامیان عراقی»، خبرگزای ایندیپندنت فارسی.
  7. حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص۱۰۸.
  8. ناصر، «الحشد الشعبی فی المنظور الامیرکی»، ص۱۱۶.
  9. حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص۱۰۸.
  10. حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص۱۰۸.
  11. کاطع ناهض، «انضمام الحشد الشعبی الی المؤسسة العسکریة»، ص۴۳۷.
  12. «سیستانی در صدد برچیدن بساط حشد شعبی از زیر پای شبه‌نظامیان عراقی»، خبرگزای ایندیپندنت فارسی.
  13. ناصر، «الحشد الشعبی فی المنظور الامیرکی»، ص۱۱۶؛ حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص۱۰۸.
  14. برای نمونه نگاه کنید به حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص۱۰۸؛ کاطع ناهض، «انضمام الحشد الشعبی الی المؤسسة العسکریة»، ص۴۳۷.
  15. حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص۱۰۸.
  16. کاطع ناهض، «انضمام الحشد الشعبی الی المؤسسة العسکریة»، ص۴۴۰.
  17. «الحشد الشعبی فی العراق.. قوة عسکریة و سیاسیة»، خبرگزاری الجزیرة.
  18. حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص۱۰۸.
  19. منصور و عبدالجبار، الحشد الشعبی و مستقبل العراق، ۲۰۱۷م، ص۲۰.
  20. منصور و عبدالجبار، الحشد الشعبی و مستقبل العراق، ۲۰۱۷م، ص۲۰.
  21. خشان، «الحشد الشعبی دراسة فی الجیوبولیتیک النقدیة»، ص۴۸۶.
  22. ساختار حشد شعبی عراق؛ مهمترین گروه‌های تشکیل دهنده آن، سایت خبرگزاری تسنیم.
  23. منصور و عبدالجبار، الحشد الشعبی و مستقبل العراق، ۲۰۱۷م، ص۷.
  24. درباره ابومهدی المهندس، خبرگزاری جمهوری اسلامی (ایرنا).
  25. آزاد، «الگوی تشکیل و تحدید حشد شعبی در عراق»، ص۸۹.
  26. آزاد، «الگوی تشکیل و تحدید حشد شعبی در عراق»، ص۹۶.
  27. منصور و عبدالجبار، الحشد الشعبی و مستقبل العراق، ۲۰۱۷م، ص۲۱ و ۲۲.
  28. کاطع ناهض، «انضمام الحشد الشعبی الی المؤسسة العسکریة»، ص۴۴۱.
  29. منصور و عبدالجبار، الحشد الشعبی و مستقبل العراق، ۲۰۱۷م، ص۲۳ و ۲۴.
  30. ساختار حشد شعبی عراق؛ مهمترین گروه‌های تشکیل‌دهنده آن، خبرگزاری تسنیم.
  31. منصور و عبدالجبار، الحشد الشعبی و مستقبل العراق، ۲۰۱۷م، ص۷.
  32. حلفی، «حشد الشعبی بسیج مردمی عراق»، ص۴۸.
  33. پایگاه اینترنتی الحشد الشعبی۔
  34. «آغاز عملیات امنیتی حشد الشعبی در دیالی»، خبرگزاری دانشجویان ایران (ایسنا).
  35. «تنفیذ حملة خدمیة فی مقام الإمام السجاد(ع)»، سایت رسمی حشد شعبی.
  36. برای نمونه نگاه کنید به «اللواء ۲۸ بالحشد یستجیب لمناشدة خدمیة فی شمال خانقین»، سایت رسمی حشد شعبی.
  37. «الحشد الشعبي يحصي عدد قواته وجرحاه ويؤكد على الضرورة الملحة لبقائه»، وکالة الانباء العراقیة.
  38. برای نمونه نگاه کنید به «طرح ویژه امنیتی حشد شعبی عراق برای اعیاد مذهبی»، خبرگزاری مهر؛ «طرح امنیتی حشد شعبی برای مراسم سالروز شهادت امام علی(ع) در نجف اشرف»، خبرگزاری تسنیم.
  39. «الحشد الشعبي يحبط مخططاً لاستهداف الأمن خلال زيارة الأربعين»، المیادین.
  40. برای نمونه نگاه کنید به «بالانفو کرافک: هذا ما شارکت به الهندسة العسکریة للحشد فی المحافظات الجنوبیة لاحتواء أزمة السیول والفیضانات (نسخه بایگانی‌شده)»، سایت رسمی حشد شعبی.
  41. «الجبیر: بحثنا مع تیلرسون خطر إیران و أزمة قطر»، خبرگزاری العربیة.
  42. حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص۱۱۱.
  43. ناصر، «الحشد الشعبی فی المنظور الامیرکی»، ص۱۱۸ تا
  44. حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص۱۱۱ و ۱۱۲.
  45. «هل تمنع السعودية مقاتلي الحشد الشعبي من أداء الحج؟»، خبرگزاری الحرة.
  46. «الأسد يبحث مع رئيس الحشد الشعبي القضايا الأمنية المشتركة»، المیادین.
  47. «هادي العامري: الحشد الشعبي تلقى دعوة من الأسد للدخول إلى سوريا»، شبكة روداوو الإعلامية.
  48. «خامنئی لقادة الشیعی: لا تثقوا بالامیرکیین»، المرکز اللبنانی للابحاث و الاستشارات.
  49. «السيد نصر الله: الحشد الشعبي الضمانة الحقيقية للعراق في مواجهة داعش والتكفيريين»، تودی نیوز.
  50. «۲۵ قتیلا و۵۱ جریحا بالهجوم الأمریکی علی مواقع لالحشد الشعبی العراقی»، خبرگزرای روسیا الیوم (RT Arabic)؛ «تبدیل تاریخ از میلادی به شمسی»، سایت باحساب.
  51. «American Airstrikes Rally Iraqis Against U.S»، The New York Times.
  52. «القصف الأمریکی: غارات أمریکیة فی العراق وسوریا»، خبرگزاری BBC عربی.
  53. «العراق یدین الهجوم الأمریکی علی مواقع للحشد الشعبی»، وکالة الأناضول.
  54. «مقتدی صدر: حشد شعبی با ارتش عراق ادغام شود»، خبرگزاری ایلنا.
  55. شهسواری، «باز تازه صدر: تمامی نمایندگان نزدیک به مقتدی صدر در پارلمان عراق استعفا دادند»، ص۴.
  56. «بیان سماحة السید الحائری یعلن فیه عدم الاستمرار فی التصدی للمرجعیة بسبب المرض والتقدم فی العمر»، سایت رسمی سید کاظم حسینی حائری.
  57. «المرجع النجفي: الحشد الشعبي ذراع العراق والمرجعية وبهم يعز الإسلام والوطن»، خبرگزاری شفقنا.
  58. «تأکید آیات عظام نجفی و فیاض بر وحدت بیشتر گروههای مقاومت اسلامی عراق و دوری آنها از سیاست»، خبرگزاری شفقنا.
  59. حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص۱۱۷.
  60. «در برابر انحلال حشد الشعبی می‌ایستیم»، خبرگزاری دانشجویان ایران (ایسنا).
  61. «فالح الفیاض: حشد شعبی در بحث‌های سیاسی دخالت نمی‌کند»، خبرگزاری شفقنا.
  62. «Amnesty demands Iraq reveal fate of nearly 650 missing men and boys»، Middle East Eye.
  63. «العراق .. المرجع النجفي ينتقد موقف الازهر من الحشد الشعبي»، وکالة انباء التقریب.
  64. «العراق .. المرجع النجفي ينتقد موقف الازهر من الحشد الشعبي»، وکالة انباء التقریب.
  65. «جماعة علماء العراق لالازهر: الحشد الشعبي يتألف من شيعة و سنة»، وکالة تسنیم الدولیة للانباء.
  66. «کتاب‌شناسی تأثیرات حشدالشعبی عراق بر سیاست‌های راهبردی ایران»، سازمان کتابخانه‌ها، موزه‌ها و مرکز اسناد آستان قدس رضوی.
  67. گوهری مقدم و عرب، «جایگاه الحشدالشعبی در امنیت ملی عراق و نحوه بازنمایی رسانه‌های غربی-سعودی از آن»،‌ ص۱۵۲.
  68. «کتاب‌شناسی حشد الشعبی»، سازمان اسناد و کتابخانه ملی جمهوری اسلامی ایران.
  69. «کتاب‌شناسی الحشد الشعبی»، مکتبة نور.
  70. «کتاب‌شناسی الجیوش الموازیة»، worldcat.
  71. «معرفی الحشد الشعبی الرهان الاخیر»، خبرگزاری المستقبل العراقی.
  72. «Iraqi Security Forces and Popular Mobilization Forces»، worldcat.
  73. «The Popular Mobilization Forces and Iraq's future»،‌ worldcat.

مآخذ