آیت لعان

ویکی شیعہ سے
(سورہ نور آیت نمبر 6 سے رجوع مکرر)
آیت لعان
آیت کی خصوصیات
آیت کا ناملعان
سورہنور
آیت نمبر6
پارہ18
صفحہ نمبر350
شان نزولہلال بن امیہ کی طرف سے اپنی بیوی پر زنا کے مرتکب ہونے کا دعوا
محل نزولمدینہ
موضوعلعان


آیہ لِعان سورہ نور کی آیت نمبر 6 کو کہا جاتا ہے جس میں لعان کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اپنے مدعا پر کوئی گواہ نہ رکھتا ہو تو قذف کی سزا (اسی کوڑے) سے بچنے کے لئے پانچ مرتبہ قسم کھاتے ہوئے اپنی بیوی پر لعن کرے گا؛ اس کے بعد بیوی بھی پانچ بار قسم کھاتے ہوئے اپنا دفاع کرے گی۔ اس حکم کے ذریعے شوہر سے بیوی پر زنا کی تہمت لگانے کی سزا ختم ہو جائے گی اور میاں بیوی ایک دوسرے سے جدا ہونگے اور آخر عمر تک ایک دوسرے پر حرام ہونگے۔

اس آیت کی شأن نزول کے بارے میں اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت ہلال بن امیہ نامی شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اس بات کا مدعی تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو کسی نا محرم شخص کے ساتھ زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے لیکن اپنے اس ادعا پر اس کے پاس کوئی گواہ موجود نہیں تھا۔

اس آیت سے مختلف مفاہیم نکالے جاتے ہیں؛ من جملہ یہ کہ اسلام انسانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت خاص کر خوتین کے حقوق پر بہت زیادہ تأکید کرتا ہے۔ بعض مفسرین لعان کو ایک طرح سے خدا کا فضل و کرم قرار دیتے ہیں جس کے ذریعے میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والی ایک مشکل کو برطرف کیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ ایک طرف شوہر اپنی بیوی کو عفت کے منافی عمل کا مرتکب ہوتے ہوئے دیکھنے کے باوجود گواہ نہ ہونے کی بنا پر خاموش رہنے پر مجبور نہیں ہے تو دوسری طرف بیوی کو بھی صرف شوہر کی تہمت پر سزا نہیں دی جائے گی بلکہ اسے بھی اپنے دفاع کا حق دیا گیا ہے۔

متن اور ترجمہ

وَ الَّذِینَ یرْمُونَ أَزْواجَہُمْ وَ لَمْ یکنْ لَہُمْ شُہَداءُ إِلَّا أَنْفُسُہُمْ فَشَہادَۃُ أَحَدِہِمْ أَرْبَعُ شَہاداتٍ بِاللہ إِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِینَ


اور جو (خاوند) اپنی بیویوں پر تہمت (زنا) لگائیں اور (ثبوت کیلئے) ان کے پاس خود ان کے سوا کوئی گواہ نہ ہو تو ان میں سے کسی کی گواہی اس طرح معتبر ہوگی کہ وہ چار مرتبہ خدا کی قسم کھائے کہ وہ (اپنے دعویٰ میں) سچا ہے۔ (سورہ نور، آیت نمبر 6)



مضامین

سورہ نور کی آیت نمبر 6 کو آیہ لعان،[1] آیہ مُلاعَنَہ یا آیہ تَلاعُن[2] کہا جاتا ہے۔ خدا اس سورت کی پانچویں آیت میں قذف کا حکم بیان کرنے کے بعد،[3] اس کے بعد والی آیت یعنی آیت نمبر 6 سے 9[4] یا 10[یادداشت 1] تک میں لعان کا حکم بیان کرتا ہے[5] اور ایک ظریف اور منظم راہ حل کے ذریعے موضوع کو جو کہ ایک قسم سے قذف کی سزا ہے،[6] کو عادلانہ طور پر بیان کیا ہے۔[7]

اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر عفت کے منافی کسی کام کی تہمت لگائے یا اپنی بیوی سے ہونے والی اولاد کو اپنی اولاد نہ مانے[8] اور دوسری طرف سے اپنے اس ادعا پر کوئی گواہ بھی نہ لا سکے،[9] تو اس پر قذف کی سزا یعنی اسی کوڑے مارے جائیں گے اور بیوی کے بارے میں اس کی تہمت کو نہیں سنی جائے گی۔[10] مذکوہ آیات کو قذف کے حکم پر تبصرہ جانا جاتا ہے؛[11] وہ اس طرح کہ شوہر جب اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے[12] اور یہ دعوا کرے کہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے اسے اس عمل کا مرتکب ہوتے ہوئے دیکھا ہے[13] لیکن اپنے ادعا پر اس کے پاس کوئی گواہ موجود نہ ہو،[14] یا شوہر اپنی بیوی سے ہونے والے بچے کو اپنی نسل ماننے سے انکار کرنے کی صورت میں،[15] قذف کی سزا سے بچنے کے لئے اپنی بیوی پر لعان کر سکتا ہے۔[16]

قرآن کریم نے ایک عمومی حکم کے ذریعے[17] لعان کی نوعیت بیان کی ہے؛ وہ اس طرح کہ شوہر حاکم اسلامی،[18] کے سامنے چار دفعہ عربی میں لعان کا صیغہ،[19] خدا کو گواہ بنا کر اپنی بات میں سچا ہونے کی قسم کھائے اور پانچویں مربتہ کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ اس کے بعد بیوی بھی اپنے دفاع میں خدا کو گواہ بنا کر چار مرتبہ شوہر کی بات کی تکذیب کرے اس کے بعد پانچویں مربتہ کہے گی کہ اگر میرا شوہر سچا ہو تو مچھ پر خدا کی لعنت اور غضب ہو۔[20]

آیت لعان کے بعض مفاہیم کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، مثالا لفظ عذاب سے مراد دنیوی عذاب لیا گیا ہے جسے بعض مفسرین قید اور زندانی کرنے[21] جبکہ بعض دوسرے مفسرین اس سے حد شرعی مراد لیتے ہیں۔[22]

شأن نزول

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ آیات لعان [23] کو غزوہ تبوک کی واپسی کے وقت نازل ہوئی ہے۔[24]

یہ آیات ای ایسے مسئلے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جسے ابتدائی طور پر رسول خداؐ کے ایک صحابی سعد بن عبادہ نے مطرح کیا تھا۔ انہوں نے پیغمبر اکرمؐ سے پوچھا کہ اگر اپنی بیوی کو کسی نا محرم کے ساتھ عفت کے منافی عمل کا مرتکب ہوتے ہوئے دیکھے تو شوہر کی کیا ذمہ داری ہے؟ کیونکہ اگر شوہر ثابت کرنا چاہے تو چار گواہ کی ضرورت ہے جو کہ میسر نہیں ہے اور اگر اسی وقت اپنی بیوی کو قتل کرے تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔

رسول خداؐ اس اعتراض پر ناراض ہو گئے؛ لیکن سعد بن عبادہ اور دیگر انصار نے خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ سے اس موضوع کے بارے میں اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد سعد بن عبادہ کے چچا زاد بھائی یعنی ہلال بن امیہ نے ادعا کیا کہ اس نے رات کے وقت اپنی بیوی کو کسی اور شخص کے ساتھ عفت کے منافی عمل کا مرتکب ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور ان کی باتوں کو سنا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے ہلال کو اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے اور چار گواہ پیش نہ کر سکنے پر قذف کی سزا جاری کرنے کا ارادہ کیا، اس وقت مذکورہ آیات نازل ہوئیں اور اس سلسلے میں ایک بہترین راہ حل پیش کیا۔[25] بعض مفسرین اسی شأن نزول کو مشہور کا قول قرار دیتے ہیں۔[26]

بعض دوسرے مفسرین ان آیات کی مذکورہ شأن نزول کے موضوع اور اشخاص کے نام کے بارے میں تھوڑا بہت اختلاف کا اظہار کرتے ہیں۔[27] مفسرین کے ایک گروہ نے ان آیات کی شأن نزول اور تفسیر کے بارے میں بہت ساری احادیث نقل کی ہیں۔[28]

اسلامی فقہ میں لعان کا مسئلہ

اسلامی فقہ میں لفظ لعن[29]اور میاں بیوی کے درمیان مکالمہ[30] اور قسم[31] کی مناسبت سے اس مسئلے کو لعان سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے حکم کے منباء کو مذکورہ آیات قرار دیتے ہیں۔[32] فقہی کتابوں میں لعان کو ایک قسم کا مباہلہ[33] قرار دیتے ہیں جس میں مخصوص شرائط کے تحت میاں بیوی ایک دوسرے پر لعن اور نفرین کرتے ہیں[34]جس کے نتیجے میں میاں بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔[35] شوہر سے حد قذف اور بیوی سے حد زنا ختم ہو جاتا ہے[36] اور میاں بیوی صیغہ طلاق کے بغیر[37] ایک دوسرے سے جدا اور آخر عمر تک ایک دوسرے پر حرام ہو جاتے ہیں۔[38] شیعہ نقطہ نگاہ سے لعان میں میاں بیوی کی جدائی اور مفارقت کے لئے حاکم شرع کے حکم کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔[39] تہمت لگانے والے شخص یعنی شوہر کے لئے مسلمان، بالغ، عاقل اور آزاد[40] ہونا شرط ہے اسی طرح لعان کے جاری کرنے کے لئے بھی مختلف شرائط ذکر کئے گئے ہیں جن میں عقد دائم اور بیوی کے ساتھ مباشرت واقع ہونا شامل ہیں۔[41]

پیغامات اور نتائج

بعض مفسرین اس آیت سے مختلف پیغام نکالتے ہیں مثلا محسن قرائتی اپنی کتاب تفسیر نور میں اس آیت کے بعض پیغامات اور نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

  • اسلام ہمیشہ انسان کی عزت اور آبرو کی حفاظت کو مورد توجہ قرار دیتا ہے اور چار دفعہ قسم کھلانا اور ایک دفعہ لعنت بھیجوانا لوگوں کو رسوا ہونے سے بچانے کے لئے ہے؛
  • اسلام عورتوں کے حقوق کا حامی اور ضامن ہے؛
  • بیوی کی زنا کو ثابت کرنے کے لئے چار قسم اور ایک لعنت چار گواہ کے طور پر مورد قبول ہے؛
  • خدا کے قوانین اور مقررات لوگوں کے فائدے میں ہیں؛
  • اسلام کے کیفری قوانین کا سرچشمہ اور منباء حکمت الہی ہے۔[42]

بعض دوسرے مفسرین قرآن میں لعان کی نوعیت اور حکم کے بیان کو اسلام میں لعان کی مشروعیت پر دلیل قرار دیتے ہیں جو شریعت اسلام کا حُسن ہے۔[43]

آیت اللہ مکارم شیرازی سورہ نور کی آیت نمبر 10 سے اسنتاد کرتے ہوئے لعان کو ایک طرح سے خدا کا فضل و کرم قرار دیتے ہیں جس کی ذریعے میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والے ایک اہم مسئلے کو بہترین طریقے کے ساتھ حل و فصل کیا جاتا ہے؛ کیونکہ لعان کے ہوتے ہوئے ایک طرف شوہر اس بات پر مجبور نہیں ہوگا کہ بیوی کی طرف سے عفت کے منافی عمل کا مشاہدہ کرنے کے باوجود اسے ثابت کرنے کے لئے گواہ نہ ہونے کی بنا پر خاموشی اور زلت اختیار کرے؛ دوسری طرف سے شوہر کی طرف سے تہمت لگاتے ہی بیوی پر حد اور سزا جاری نہیں ہوگی بلکہ اسے بھی اپنا دفاع کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔[44]

طبرسی کتاب مجمع البیان میں دوسروں سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت کو خدا کے رحیم، توبہ قبول کرنے والا اور حکیم ہونے کی نشانی قرار دیتے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسانوں کو سزا دینے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور زنا جیسے قبیح عمل کے ذریعے انسانوں کو رسوا اور ذلیل نہیں کرتا۔[45]

متعلقہ مقالات

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دایرہ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1426ھ، ج‌1، ص188۔
  2. خراسانی، آیہ‌ہای نامدار، 1388ہجری شمسی، ص113۔
  3. بروجردی، تفسیر جامع، 1366ہجری شمسی، ج4، ص473۔
  4. ابن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج3، ص184؛ قرشی، قاموس قرآن، 1412ھ، ج‌6، ص195۔
  5. قمی، تفسیر القمی، 1363ہجری شمسی، ج2، ص98؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج7، ص410۔
  6. جزایری، ایسر التفاسیر، 1416ھ، ج3، ص550۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج14، ص383۔
  8. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ہجری شمسی، ج5، ص400۔
  9. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج14، ص90۔
  10. طوسی، التبیان، بیروت، ج7، ص412؛ امین، تفسیر مخزن العرفان، بی‌تا، ج9، ص79۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج14، ص380۔
  12. ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج7، ص68؛ سمرقندی، بحر العلوم، 1416ھ، ج2، ص497۔
  13. فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ھ، ج‌2، ص790۔
  14. قطب، فی ظلال القرآن، 1425ھ، ج4، ص2492؛ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1390ھ، ج15، ص82۔
  15. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ہجری شمسی، ج5، ص400۔
  16. قطب راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج2، ص203۔
  17. ابن عربی، احکام القرآن، 1408ھ، ج3، ص1340۔
  18. طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، 1412ھ، ج3، ص96۔
  19. شکوری، تفسیر شریف لاہیجی، 1373ہجری شمسی، ج3، ص263۔
  20. طوسی، التبیان، بیروت، ج7، ص412؛ سمرقندی، بحر العلوم، 1416ھ، ج2، ص498؛ دینوری، الواضح، 1424ھ، ج2، ص63، طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج7، ص202؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج3، ص215؛ قرشی، قاموس قرآن، 1412ھ، ج‌6، ص195۔
  21. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج9، ص303۔
  22. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ہجری شمسی، ج5، ص401۔
  23. خراسانی، ادوار فقہ، 1417ھ، ج‌1، ص317۔‌
  24. قمی، تفسیر القمی، 1363ہجری شمسی، ج2، ص98۔
  25. ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج7، ص68؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج18، ص65؛ ابن عطیہ، المحرر الوجیز، 1422ھ، ج4، ص165؛ ابن عربی، احکام القرآن، 1408ھ، ج3، ص1340؛ سمرقندی، بحرالعلوم، 1416ھ، ج2، ص497۔
  26. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج9، ص302؛ ثعالبی، تفسیر الثعالبی، 1418ھ، ج4، ص173۔
  27. ابن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج3، ص184؛ قمی، تفسیر القمی، 1363ھ، ج2، ص98؛ فراء، معانی القرآن، 1980م، ج2، ص246؛ ماتریدی، تأویلات أہل السنۃ، 1426ھ، ج7، ص521-522؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج7، ص200؛ قرشی، قاموس قرآن، 1412ھ، ج‌6، ص196۔‌
  28. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج3، ص420؛ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج5، ص21؛ بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1415ھ، ج4، ص49؛ قمی مشہدی، تفسیر کنز الدقائھ، 1368ہجری شمسی، ج9، ص253۔
  29. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج14، ص381۔
  30. شکوری، تفسیر شریف لاہیجی، 1373ہجری شمسی، ج3، ص263۔
  31. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج15، ص82۔
  32. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ہجری شمسی، ج5، ص400۔
  33. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ہجری شمسی، ج5، ص400؛ مطہری، فقہ و حقوھ، قم، ج‌20، ص107۔
  34. جمعی از مولفان، مجلہ فقہ اہل‌بیتؑ، قم، ج‌31، ص216‌؛ امامی، حقوق مدنی، تہران، ج‌4، ص330۔
  35. امامی، حقوق مدنی، تہران، ج‌4، ص330۔
  36. بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ھ، ج4، ص100؛ ابن عطیہ، الوجیز، 1422ھ، ج2، ص757؛ قمی مشہدی، تفسیر کنز الدقائھ، 1368ہجری شمسی، ج9، ص253۔
  37. شکوری، تفسیر شریف لاہیجی، 1373ہجری شمسی، ج3، ص263۔
  38. طوسی، التبیان، بیروت، ج7، ص413؛ مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ہجری شمسی، ج5، ص400۔
  39. فاضل مقداد، کنز العرفان، ترجمہ، 1373ہجری شمسی، ج‌2، ص793۔‌
  40. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج3، ص215۔
  41. طوسی، التبیان، بیروت، ج7، ص412؛ فاضل مقداد، کنز العرفان، ترجمہ، 1373ہجری شمسی، ج‌2، ص793۔‌
  42. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج6، ص150۔
  43. جزایری، ایسر التفاسیر، 1416ھ، ج3، ص551۔
  44. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج14، ص382۔
  45. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج7، ص203۔

نوٹ

  1. «وَ الْخامِسَۃُ أَنَّ لَعْنَتَ اللہ عَلَیہِ إِنْ کانَ مِنَ الْکاذِبِینَ (7) وَ یدْرَؤُا عَنْہَا الْعَذابَ أَنْ تَشْہَدَ أَرْبَعَ شَہاداتٍ بِاللہ إِنَّہُ لَمِنَ الْکاذِبِینَ (8) وَ الْخامِسَۃَ أَنَّ غَضَبَ اللہِ عَلَیہا إِنْ کانَ مِنَ الصَّادِقِینَ (9) وَ لَوْ لا فَضْلُ اللہِ عَلَیکمْ وَ رَحْمَتُہُ وَ أَنَّ اللہَ تَوَّابٌ حَکیمٌ(10)؛ اور پانچویں مرتبہ یوں کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے دعویٰ میں) جھوٹا ہے۔ (7) اور اس عورت سے یہ صورت شرعی حد کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ (خاوند) جھوٹا ہے۔ (8) اور پانچویں بار یوں قسم کھائے کہ اس پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ (مرد) سچا ہے۔ (9) اگر اللہ کا فضل و کرم اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ (بات نہ ہوتی) کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، بڑا حکمت والا ہے (تو اس الزام تراشی کا انجام بڑا دردناک ہوتا)۔ (10)

مآخذ

  • ابن سلیمان، مقاتل، تفسیر مقاتل بن سلیمان، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1423ھ۔
  • ابن عربی، محمد بن عبداللہ، احکام القرآن، 1408ھ، بیروت، دارالجیل، 1408ھ۔
  • ابن‌عطیہ، عبدالحق بن غالب، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1422ھ۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • امامی، سیدحسن، حقوق مدنی، تہران، انتشارات اسلامیۃ، بی‌تا۔
  • امین، نصرت بیگم، تفسیر مخزن العرفان در علوم قرآن، بی‌نا، بی‌جا، بی‌تا۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، موسسۃ البعثۃ، 1415ھ۔
  • بروجردی، محمدابراہیم، تفسیر جامع، تہران، کتابخانہ صدر، چاپ ششم، 1366ہجری شمسی۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • ثعالبی، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر الثعالبی المسمی بالجواہر الحسان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • جزایری، ابوبکر جابر، ایسر التفاسیر لکلام العلی الکبیر، مدینہ، مکتبۃ العلوم و الحکم، 1416ھ۔
  • جمعی از پژوہشگران، زیر نظر سیدمحمود ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیتؑ، قم، موسسہ دائرہ المعارف فقہ اسلامی، 1426ھ۔
  • جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل‌بیتؑ، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیتؑ، بی‌تا۔
  • خراسانی، محمود بن عبدالسلام تربتی شہابی، ادوار فقہ، تہران، سازمان چاپ و انتشارات، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • دینوری، عبداللہ بن محمد، الواضح فی تفسیر القرآن الکریم، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1424ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • سمرقندی، نصر بن محمد، تفسیر السمرقندی المسمی بحر العلوم، بیروت، دارالفکر، 1416ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ العظمی مرعشی نجفی(رہ)، 1404ھ۔
  • شکوری، محمد بن علی، تفسیر شریف لاہیجی، تہران، دفتر نشر داد، 1373ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، قم، حوزہ علمیہ قم، مرکز مدیریت، 1412ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1412ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، تہران، مرتضوی، 1373ہجری شمسی۔
  • فراء، یحیی بن زیاد، معانی القرآن، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ دوم، 1980م۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، تفسیر الصافی، تہران، مکتبۃ الصدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • قرائتی، محسن، قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، 1388ہجری شمسی۔
  • قرشی، سیدعلی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، 1412ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن ہبہ‌اللہ، فقہ القرآن، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ العظمی مرعشی نجفی(رہ)، چاپ دوم، 1405ھ۔
  • قطب، سید، فی ظلال القرآن، بیروت، دارالشروق، چاپ سی و پنجم، 1425ھ۔
  • قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1363ہجری شمسی۔
  • ماتریدی، محمد بن محمد، تأویلات أہل السنۃ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، منشورات محمد علی بیضون، 1426ھ۔
  • مطہری، شہید مرتضی، فقہ و حقوق (مجموعہ آثار)، قم، بی‌تا۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔