آیت استعاذه

ویکی شیعہ سے
آیت استعاذہ
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت استعاذہ
سورہسورہ نحل
آیت نمبر98
پارہ14
محل نزولمکہ
موضوعفقہی
مضمونقرآن کی تلاوت کے وقت خدا کی پناہ مانگنا
مربوط آیاتسورہ اعراف آیت 204


آیت اِستعاذہ سورہ نحل کی آیت نمبر 98 کو کہا جاتا ہے جس میں قرآن مجید کی تلاوت کے وقت شیطان کے وسوسے سے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ کسی قسم کی غلطی اور لغزش سے محفوظ رہ سکیں۔ استعاذہ پناہ مانگنے کو کہا جاتا ہے اور یہاں پناہ سے مراد دلی اور قبلی پناہ ہے یعنی انسان اپنے دل میں یہ احساس کرے کہ اس نے خدا کی پناہ مانگی ہے۔ "رجیم" مردود اور لعنت کے سزاوار کو کہا جاتا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان کو تعصب اور غرور کی وجہ سے خدا کی بارگاہ سے نکالا گیا تھا۔
فقہاء اس آیت سے استناد کرتے ہوئے قرآن کی تلاوت اور نماز میں قرأت کی ابتداء کے وقت "اَعوذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ" کہنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ بعض احادیث میں استعاذہ کے لئے بعض دوسری عبارات جیسے "أَعُوذُ بِاللَّہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیم‏" بھی نقل ہوئی ہیں۔

متن اور ترجمہ

سورہ نحل کی آیت نمبر 98 کہ جو آیت استعاذہ سے مشہور ہے،[1] میں قرآن مجید کی تلاوت کے وقت شیطان سے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسلمان اس آیت سے استناد کرتے ہوئے قرآن کی تلاوت اور اپنے روزمرہ زندگی کے امور کا آغاز استعاذہ سے کرتے ہیں۔

«فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ»


پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو مردود شیطان سے خدا کی پناہ مانگ لیا کریں۔![2]



سورہ نحل، آیہ 98


تفسیر

شیخ طبرسی (متوفی: 548ھ) کے مطابق استعاذہ خضوع و خشوع کے ساتھ نچلے درجے کی طرف سے اعلی درجے کی پناہ مانگنے کو کہا جاتا ہے۔ اس آیت میں استعاذہ سے مراد قرآن مجید کی تلاوت کے وقت شیطانی وسوسے سے خدا کی پناہ مانگنا ہے تاکہ کسی قسم کی لغزش اور غلطی سے محفوظ رہ سکیں۔[3] علامہ طباطبایی (سنہ 1281 - 1360 ہجری شمسی) اس پناہ کو قلبی اور دلی پناہ قرار دیتے ہیں؛[4] یعنی انسان اپنے دل میں یہ احساس کرے کہ اس نے خدا کی پناہ مانگی ہے تاکہ قرآن کو صحیح سمجھنے میں مانع چیزوں من جملہ شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکیں نہ یہ کہ صرف زبانی حد تک اعوذ بالله کہنا کافی ہو۔[5] البتہ زبان پر استعاذہ کے الفاظ کو ادا کرنا مقدمہ ہے اس قبلی اور دلی حالت کو ایجاد کرنے کے لئے۔[6]

بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں شیطان کو "رجیم" کی صفت کے ساتھ لانے کی وجہ انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ شیطان خدا کی نافرمانی اور تکبر کی وجہ سے خدا کی بارگاہ سے نکالا گیا تھا لھذا قرآن کی تلاوت کے وقت استکبار، غرور اور تعصب جیسی صفات سے خود کو پاک کریں تاکہ اس کا انجام شیطان مردود کے انجام کی طرح نہ ہو۔[7]

استعاذہ واجب ہے یا مستحب؟

علمائے اسلام مذکورہ آیت میں لفظ "اِستعذْ" فعل امر کو استحباب پر حمل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت "اَعوذُ بِاللَّہِ..." کہنا مستحب ہے۔[8] دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ مقدس اردبیلی (متوفی 993ھ) مذکورہ مورد میں اکثر علما کی طرف سے استعاذہ کے واجب نہ ہونے کے فتوے اور واجب ہونے پر کسی حدیث کے نہ ہونے کو مذکورہ آیت میں استعاذہ کے مستحب ہونے پر قرینہ قرار دیتے ہیں۔[9] ان تمام باتوں کے باوجود بعض علماء فعل امر (اِسْتَعِذ) کے ظہور کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن کی تلاوت کے وقت استعاذہ کے واجب ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔[10]
شیعہ فقہاء میں سے شیخ طوسی[11] (385-460ھ) اور علامہ حلی[12] (648-726ھ) اور اہل‌ سنت فقہاء مذکورہ آیت سے استناد کرتے ہوئے نماز کی پہلی رکعت میں (تکبیرۃ الاحرام کے بعد قرائت سے پہلے) "اَعوذُ بِاللَّہِ..." کہنے کو مستحب جانتے ہیں۔ منقول ہے کہ امامیہ فقہاء میں سے صرف ابوعلی، فرزند شیخ طوسی استعاذہ کے واجب ہونے کا نظریہ رکھتے تھے[13]، مالک بن انس فقط نوافل میں استعاذہ کو جائز سمجھتے تھے۔[14] نماز میں استعاذہ کے وقت اخفات (آہستہ پڑھنا) کی رعایت کرنا مستحب جانا گیا ہے۔[15]

استعاذہ کے الفاظ

استعاذہ کے لئے مختلف الفاظ اور عبارات ذکر کی گئی ہیں؛[16] علامہ مجلسی (1037-1110ھ) "اَعوذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ" اور "أَعُوذُ بِاللَّہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیم‏" کو سب سے زیادہ مشہور الفاظ قرار دیتے ہیں۔[17]بعض احادیث میں استعاذہ کے لئے ان کے علاوہ اور الفاظ اور عبارات بھی بیان کی گئی ہیں؛ من جملہ ان میں: "أَسْتَعِیذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیم‏"، [18] "أَعُوذُ بِاللَّہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ‏، وَ أَعُوذُ بِاللَّہِ أَنْ یَحْضُرُونِ‏"[19] اور "أعوذ بِاللہ مِن الشیطان الرجیم إن اللہ ہُوَ الْفَتّٰاحُ الْعَلِیمُ" شامل ہیں۔[20]
اگرچہ آیت استعاذہ میں "إِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاستَعِذ بِاللہ..." (جب بھی قرآن پڑھے تو خدا کی پناہ مانگو) کی عبارت آئی ہے لیکن اس سے مراد یہ لی گئی ہے کہ جب بھی قرآن پڑھنے کا ارادہ کرو تو "اعوذ باللہ..." کہو؛[21] جس طرح آیت "إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاۃِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ" (جب نماز پڑھے تو اپنے چہرے کو (وضو کے لئے) دھویا کرو) سے مراد یہ ہے کہ جب بھی نماز پڑھنے کا ارادہ هو تو وضو کر لیا کرو۔[22]

حوالہ جات

  1. ابن‌عاشور، التحریر و التنویر، مؤسسہ التاریخ‏، ج13، ص222۔
  2. سورہ نحل، آیہ 98، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  3. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج6، ص593۔
  4. طباطبائی‏، المیزان، 1417ھ، ج12، ص343-344۔
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج11، ص397۔
  6. طباطبائی‏، المیزان، 1417ق، ج12، ص343-344۔
  7. نجفی خمینی، تفسیر آسان، 1398ھ، ج9، ص292۔
  8. ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج6، ص593؛ سیوطی، 1394ھ، الاتقان، ج1، ص364؛ عبد، المیزان فی أحکام تجوید القرآن، 2005ء، ص37۔
  9. اردبیلی، زبدۃ البیان، المکتبۃ الجعفریۃ، ص92-93۔
  10. سیوطی، الاتقان، 1394ھ، ج1، ص364؛ عبد، المیزان فی أحکام تجوید القرآن، 2005م، ص37۔
  11. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج1، ص324۔
  12. علامہ حلّی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج3، ص307۔
  13. شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج1، ص174۔
  14. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج1، ص324؛ حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، دار إحیاء التراث العربی، ج2، ص399۔
  15. حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، دار إحیاء التراث العربی، ج7، ص235۔
  16. مجلسی، بحار الانوار، 1410ھ، ج82، ص5۔
  17. مجلسی، بحار الانوار، 1410ق، ج82، ص5۔
  18. کلینی، الکافی، ج8، ص175۔
  19. حمیری، قرب الإسناد، 1413ھ، ص124۔
  20. فیض کاشانی، الوافی، 1406ھ، ج8، ص1156۔
  21. جعفری، کوثر، 1376ش، ج6، ص213۔
  22. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج6، ص593۔

مآخذ

  • ابن‌عاشور، محمد بن طاہر، التحریر و التنویر، بیروت، مؤسسہ التاریخ‏، چاپ اول‏، بی‌تا۔
  • اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃ البیان فی أحکام القرآن، تصحیح: محمدباقر بہبودی، تہران، المکتبۃ الجعفریۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، چاپ اول، بی‌تا۔
  • ‏جعفری، یعقوب، کوثر، قم، ہجرت، چاپ اول، 1376ہجری شمسی۔
  • حسینی عاملی، سید جواد، مفتاح الکرامۃ فی شرح قواعد العلاّمۃ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول، بی تا۔
  • حمیری، عبداللہ بن جعفر، قرب الإسناد، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، قم، چاپ اول، 1413ق۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق: محمد أبو الفضل إبراہیم، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1394ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الإمامیۃ، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ دوم، 1417ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، تصحیح علی خراسانی، علی، سید جواد شہرستانی، مہدی طہ نجف، مجتبی عراقی، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ اول، 1407ھ۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمدجواد بلاغی‏، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • عبد، فریال زکریا، المیزان فی أحکام تجوید القرآن، قاہرہ، دارالإیمان، 2005ء۔
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، قم، چاپ اول، 1414ھ۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام أمیر المؤمنین علی(ع)، چاپ اول، 1406ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الطبع و النشر، چاپ اول، 1410ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • نجفی خمینی، محمدجواد، تفسیر آسان، انتشارات اسلامیۃ، تہران، چاپ اول، 1398ھ۔