الصلاۃ خیر من النوم

ویکی شیعہ سے

الصَّلاَۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، «نماز نیند سے بہتر ہے» کے معنی میں ایک جملہ جسے اہل‌ سنت صبح کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد دو مرتبہ کہتے ہیں۔ اکثر اہل‌ سنت فقہاء بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے صبح کی اذان میں اس جملے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں امامیہ فقہاء کا اجماع ہے کہ اذان میں اس جملے کو ادا کرنا جائز نہیں ہے اور اگر تشریع کی قصد سے ادا کرے تو بدعت اور حرام ہے۔ ان کے مطابق اذان میں اس جملے کی مشروعیت اور جواز پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

«الصلاۃ خیر من النوم» کا جملہ کس وقت اور کس کے ذریعے اذان میں اضافہ ہوا، اس بارے میں اہل‌ سنت بعض حدیثی منابع میں مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض میں آیا ہے کہ اسے بلال نے صبح کی اذان میں اضافہ کیا اور پیغمبر اکرمؐ نے اس کی تائید کی۔ بعض دوسری احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے اسے ابو مَحْذورہ کو تعلیم دیا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ پہلی دفعہ مسجد قبا کے مؤذن سعد بن عائذ نے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد عمر بن خطاب کی خلافت کے دوران اس کی بنیاد رکھی۔ کتاب الموطأ میں مالک بن انس سے منقول ایک حدیث کے مطابق یہ جملہ عمر بن خطاب کی خلافت کے دوران ان کی تأیید سے اذان میں اضافہ ہوا۔

اذان میں "الصلاۃ خیر من النوم" کہنے کو تثویب بھی کہا جاتا ہے۔ فقہاء کی اصطلاح میں تثویب کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن اذان میں «حی علی الصلاۃ؛ نماز کی طرف جلدی کرو» کہنے کے ذریعے لوگوں کو نماز کی طرف دعوت دینے کے بعد، دوسری مرتبہ «الصلاۃ خیر من النوم» کہنے کے ذریعے دوبارہ لوگوں کو نماز کی طرف بلائے۔ البتہ کہا جاتا ہے کہ تثویب کا ایک عمومی معنی بھی ہے جس کے مطابق اذان و اقامہ کے درمیان "الصلاۃَ، رَحِمَکُمُ اللہُ، الصلاۃَ" کہنا یا صبح کی نماز میں اذان و اقامہ کے درمیان حَیَّ عَلَی الصَّلاۃِ اور حَیَّ عَلَی الفَلاح کہنے کو تثویب کہا جاتا ہے۔

مفہوم اور اہمیت

الصَّلاَۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، «نماز نیند سے بہتر ہے» کے معنی میں ایک جملہ ہے جسے اہل‌ سنت صبح کی اذان میں «حیّ علی الفلاح» کے بعد دو مرتبہ پڑھتے ہیں۔[1] صبح کی اذان میں اس جملے کی ادائیگی کو تثویب کہا جاتا ہے۔[2] تثویب کے معنی نماز کی طرف دوبارہ دعوت دینے کے ہیں؛ اس صورت میں کہ جب مؤذن نے «حی علی الصلاۃ؛ نماز کی طرف جلدی کرو»، کے ذریعے لوگوں کو نماز کی طرف دعوت دینے کی بعد «الصلاۃ خیر من النوم» کے ذریعے دوبارہ لوگوں کو نماز کی طرف دعوت دے رہا ہے۔[3]

بعض کہتے ہیں کہ اذان و اقامہ کے درمیان «الصلاۃَ، رَحِمَکُمُ اللہُ، الصلاۃَ» کہنا بھی ایک طرح سے نماز کی طرف لوگوں کو دوبارہ بلانا ہے اسی بنا پر اسے بھی تثویب کے مصادیق میں شمار کئے جاتی ہیں۔[4] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ کوفہ کے بعض حنفی علماء نماز صبح کی اذان و اقامہ کے درمیان «حَیَّ عَلَی الصَّلاۃِ» اور «حَیَّ عَلَی الفَلاح» کہنے کو بھی تکرار مکررات اور تثویب قرار دیتے ہیں۔[5]

فقہی کتابوں میں نماز کی بحث میں[6] اور اسی طرح شیعہ اور اہل سنت کے درمیان کلامی مباحث میں بھی اس جملے کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔[7]

امامیہ کے نزدیک "الصلاۃ خیر النوم" کا بدعت ہونا

امامیہ فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اذان میں «الصلاۃ خیر من النوم» کہنا جائز نہیں ہے اور تشریع کے قصد سے اگر کہا جائے تو بدعت اور حرام ہے۔[8] فقہائے امامیہ اس بات کے قائل ہیں کہ اذان میں اس جملے کی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لئے کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔[9] البتہ بعض شیعہ حدیثی منابع میں شیعہ ائمہ سے کچھ احادیث نقل ہوئی ہیں جن سے اذان میں تثویب کے جائز ہونے کا عندیہ ملتا ہے،[10] لیکن ان احادیث کو شاذ قرار دی گئی ہیں۔[11] اور یہ احادیث اذان میں تثویب کو جائز قرار نہ دینے والی احادیث کے ساتھ معارض ہیں،[12]اس بنا پر فقہاء ان سے اعراض کرتے ہیں اور انہیں تقیہ پر حمل کرتے ہیں۔[13]

کہا جاتا ہے کہ امامیہ فقہاء کے درمیان اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر تثویب «الصلاۃ خیر من النوم» کہنا لوگوں کو نماز کے وقت کی طرف متنبہ کرنے یا تقیہ کی بنا پر کہا جائے تو جائز ہے؛[14] لیکن اگر تشریع کی نیت سے کہا جائے تو اس کے جائز ہونے اور نہ ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔۔[15] فاضل ہندی[16] اور فیض کاشانی[17] تثویب کو مکروہ جبکہ صاحب‌ جواہر[18] اور کاشف الغطاء[19] اسے حرام سمجھتے ہیں۔

کاشف‌الغطاء اذان میں تثویب یا «الصلاۃ خیر من النوم» کہنے کو سرے سے بدعت‌ اور حرمت ذاتی کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی صورت میں یہ جائز نہیں ہے۔[20]

اہل سنت کے یہاں الصلاۃ خیر النوم کی مشروعیت

مشہور اہل‌ سنت فقہاء صبح کی اذان میں «حی علی الفلاح» کے بعد «الصلاۃ خیر من النوم» کہنا مستحب سمجھتے ہیں۔[21] البتہ کہا جاتا ہے کہ محمد بن ادریس شافعی ایک جگہے پر اس کے استحباب اور دوسری جگہ اس کے مکروہ ہونے کا قائل ہے۔[22] بعض حنفی فقہاء صبح کی اذان کے ختم ہونے کے بعد الصلواۃ خیر من النوم کہنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔[23]

مشہور اہل‌ سنت فقہاء کے نزدیک تثویب یا «الصلاۃ خیر من النوم» کہنا صرف صبح کی اذان تک مختص ہے۔[24]

اہل‌ سنت کی علامت

اذان میں «الصلاۃ خیر من النوم» کہنا طول تاریخ میں ایک طرح سے اہل‌ سنت کی علامت یا ان کا نعرہ شمار ہوتا چلا آرہا ہے؛ یہاں تک کہ اہل سنت حکومتوں میں حاکموں کی جانب سے باقاعدہ طور پر اذان میں اس جملے کو کہنے کا حکم دیا جاتا تھا۔[25] مثلا کتاب سیرہ حلبی میں نقل ہوا ہے کہ بغداد میں آل بویہ کی حکومت کے دوران اذان میں حی علی خیر العمل کہا جاتا تھا یہاں تک کہ سلجوقیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد سنہ 448ھ سے اذان میں حی علی خیر العمل کہنا ممنوع قرار دیا گیا اور اس کی جگہ اذان میں «الصلاۃ خیر من النوم» کہنے کا حکم دیا گیا[26]

اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کب اور کس نے اضافہ کیا

اذان میں «الصلاۃ خیر من النوم» کا جملہ کب اور کس نے اضافہ کیا اس سلسلے میں مورخین کے درمیان اختلاف‌ پایا جاتا ہے:

عمر خطاب کے دور خلافت میں

سید علی شہرستانی اپنی کتاب میں «الصلاۃ خیر من النوم فی الاذان» کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ شیعوں کے تین عمدہ فرقوں یعنی امامیہ، اسماعیلیہ اور زیدیہ کے علماء اس بات پر تأکید کرتے ہیں کہ «الصلاۃ خیر من النوم» کا جملہ اذان میں عمر بن خطاب کے دور خلافت میں خود ان کے توسط سے اضافہ ہوا۔[27] مالک بن انس نے بھی کتاب الموطأ میں ایک حدیث نقل کیا ہے جس کے مطابق مؤذن عمر بن خطاب کے پاس انہیں صبح کی نماز کی خبر دینے گیا لیکن انہیں نیند کی حالت میں پایا تو مؤذن کہا: «الصلاۃ خیر من النوم»، اس کے بعد عمر نے اس جملے کو صبح کی اذان میں اضافہ کرنے کا حکم دیا۔[28] اسی طرح بعض کہتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے اذان میں سے حی علی خیر العمل کو حذف کر کے اس کی جگہ «الصلاۃ خیر من النوم» کہنے کا حکم دینے والا عمر ابن خطاب تھا۔[29]

ایک اور قول کی بنا پر پہلی مرتبہ مسجد قبا کے مؤذن سعد بن عائذ نے عمر بن خطاب کی خلافت کے دور میں اس بدعت کی بنیاد رکھی۔[30] البتہ امام کاظمؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ «الصلاۃ خیر من النوم» بنی‌ امیہ کے دور میں اذان میں اضافہ ہوا۔[31]

پیغمبر اکرمؐ کے دور میں

جملہ "الصلواۃ خیر من النوم" کا حیات پیغمبر اکرمؐ میں اذان میں داخل ہونے اور نہ ہونے کے حوالے سے اہل سنت حدیثی منابع میں مختلف اور متعارض احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض احادیث میں آیا ہے کہ ایک دن بلال پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں آیا تاکہ آپؐ کو صبح کی نماز کی خبر دے لیکن آپ کو نیند کی حالت میں پایا جس پر بلال نے بلند آواز میں کہنا شروع کیا: «الصلاۃ خیر من النوم»۔ اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے صبح کی اذان میں اس جملے کو ادا کرنے کی تائید اور حکم صادر ہوا۔[32] اسی طرح بعض دوسری احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ابو مَحْذورہ کو اس کی تعلیم دی۔[33]

آیت اللہ جعفر سبحانی کے مطابق اذان میں «الصلاۃ خیر من النوم» کے اضافہ ہونے کی نوعیت کے بارے میں اہل‌ سنت منابع میں نقل ہونے والی احادیث ایک دوسرے کی ساتھ معارض‌ ہیں اس بنا پر ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ ان میں استحباب اور بدعت یعنی حرام ہونے کے بارے میں شک و تردید ہے اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اس جملے کو اذان میں کہنے سے اجتناب کیا جانا چاہئے تاکہ اگر مستحب ہو تو اس کے ترک کرنے پر کوئی عذاب نہیں ہے لیکن اگر بدعت اور حرام ہو تو اس کے انجام دینے پر عقاب اور سزا ہوگی۔.[34]

بعض اہل سنت علماء نیز اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ «الصلاۃ خیر من النوم» کا جملہ اذان میں پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں داخل نہیں تھا بلکہ آپؐ کی رحلت کے بعد اس بدعت کا اضافہ کیا گیا ہے۔[35]

مونوگرافی

اذان میں «الصلاۃ خیر من النوم» کی مشروعیت کے بارے میں مختلف کتابیں تحریر کی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • کتاب «الصلاۃ خیر من النوم فی الاذان» عربی میں سید علی شہرستانی کی تحریر ہے۔ یہ کتاب سنہ 1433ھ کو انتشارات «الرافد» کے توسط سے بغداد میں شایع ہوئی ہے۔[36]
  • کتاب «مسألۃ، الصلاۃ خیر من النوم» مجمع جہانی اہل‌بیتؑ کے اعتراض کا جواب دینے والی کمیتی کے توسط سے تحریر کی گئی ہے جس کے 24ویں جلد میں «فی رحاب اہل البیتؑ» کے عنوان سے مجمع جہانی اہل‌ بیت نے مرتب کر کے شایع کی ہے۔[37] یہ کتاب فارسی زبان میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔

حوالہ جات

  1. جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1404ھ، ج2، ص360 و ج11، ص176؛ سرخسی، المبسوط، دار المعرفۃ، ج1، ص130.
  2. جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1404ھ، ج2، ص360.
  3. زبیدی، تاج العروس، ذیل واژہ «تثویب».
  4. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: ابن‌منظور، لسان العرب، ذیل واژہ «تثویب».
  5. جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1404ھ، ج2، ص361.
  6. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: ابن‌رشد، بدایۃ المجتہد، 1425ھ، ج1، ص89؛ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج7، ص418.
  7. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدھ، 1982م، ص351.
  8. شیخ طوسی، الخلاف، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج1، ص287؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج9، ص113.
  9. سید مرتضی، مسائل الناصریات، 1417ھ، ص184؛ شیخ طوسی، الخلاف، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج1، ص287.
  10. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج5، ص427.
  11. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج1، ص190.
  12. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج5، ص426.
  13. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج1، ص190؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج9، ص116؛ جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ، 1423ھ، ج8، ص111.
  14. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج7، ص421؛ جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ، 1423ھ، ج8، ص111.
  15. جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ، 1423ھ، ج8، ص111.
  16. فاضل ہندی، کشف اللثام، موسسۃ النشر السلامی، ج3، ص385.
  17. فیض کاشانی، مفاتیح الشرایع، 1401ھ، ج1، ص118.
  18. نجفی،جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج9، ص116.
  19. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج3، ص146.
  20. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج3، ص146.
  21. ابن‌رشد، بدایۃ المجتہد، 1425ھ، ج1، ص89.
  22. شیخ طوسی، الخلاف، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج1، ص286.
  23. جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1404ھ، ج2، ص360.
  24. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: سرخسی، المبسوط، دار المعرفۃ، ج1، ص130؛ شوکانی، نیل الاوطار، 1413ھ، ج2، ص46؛ شربینی، مغنی المحتاج، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص136.
  25. شہرستانی، الأذان بین الأصالۃ والتحریف، 1426ھ، ص343.
  26. حلبی، السیرۃ الحلبیہ، دارالکتب العلمیہ، ج2، ص136.
  27. شہرستانی، الصلاۃ خیر من النوم، ص150.
  28. مالک بن انس، الموطأ، 1406ھ، ج1، ص72.
  29. یحیی بن حسین، الأحکام (فقہ المذہب الزیدی)، 1410ھ، ج1، ص84.
  30. عبدالرزاھ، المصنف، 1403ھ، ج1، ص474.
  31. نوری، مستدرک الوسائل، مؤسسہ آل البیتؑ، ج4، ص44.
  32. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: ابن‌ماجہ، سنن ابن‌ماجہ، دار إحیاء الکتب العربیۃ، ج1، ص237؛ دارمی، سنن دارمی، 1412ھ، ج2، ص762.
  33. نمونہ کی لئے ملاحظہ کریں: بیہقی، السنن الکبری، 1424ھ، ج1، ص622.
  34. سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386ہجری شمسی، ص385.
  35. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں:خوارزمی، جامع المسانید، 1419ھ، ج1، ص296؛ ابن‌حزم، المحلی، دار الفکر، ج2، ص194؛ عبدالرزاھ، المصنف، 1403ھ، ج1، ص474.
  36. شہرستانی، الصلاۃ خیر من النوم فی الاذان، 1433ھ، ص2-3.
  37. مجمع جہانی اہل‌بیتؑ، مسألۃ، الصلاۃ خیر من النوم، 1426ھ، ص4.

مآخذ

  • ابن‌حزم، علی بن احمد، المحلی بالآثار، بیروت، دار الفکر، بی‌تا.
  • ابن‌رشد، أبو الولید محمد بن أحمد، بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد، قاہرہ، دار الحدیث، 1425ھ۔
  • ابن‌ماجہ، أبو عبد اللہ محمد بن یزید، سنن ابن‌ماجہ، بیروت، دار إحیاء الکتب العربیۃ، بی‌تا.
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار الصادر، 1414ھ۔
  • بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ فی أحکام العترۃ الطاہرۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا.
  • بیہقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1424ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، کویت، دارالسلاسل، 1404ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ، قم، دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، 1423ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیتؑ، 1416ھ۔
  • خوارزمی، محمد بن محمود، جامع المسانید، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1419ھ۔
  • دارمی، عبد اللہ بن عبد الرحمن، سنن دارمی، عربستان سعودی، دار المغنی، 1412ھ۔
  • زبیدی، مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دار الفکر، بی‌تا.
  • سبحانی، جعفر، سیمای عقاید شیعہ، تہران، نشر مشعر، 1386ہجری شمسی۔
  • سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفۃ، 1414ھ۔
  • شربینی، شمس الدین، مغنی المحتاج إلی معرفۃ معانی ألفاظ المنہاج، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • شوکانی، محمد بن علی، نیل الاوطار، قاہرہ، دار الحدیث، 1413ھ۔
  • شہرستانی، سیدعلی، الصلاۃ خیر من النوم فی الاذان، بغداد، منشورات الرافد، 1433ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، بی‌تا.
  • عبدالرزاھ، أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام، المصنف، ہند، المجلس العلمی، 1403ھ۔
  • علامہ حلی، یوسف بن حسن، نہج الحق و کشف الصدھ، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، چاپ اول، 1982م.
  • فاضل ہندی، محمد بن حسن، کشف اللثام و الإبہام عن قواعد الأحکام، قم، موسسۃ النشر السلامی، بی‌تا.
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، مفاتیح الشرایع، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ‌مرعشی نجفی، 1401ھ۔
  • کاشف الغطاء، شیخ جعفر، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغرّاء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1422ھ۔
  • مالک بن انس، الموطأ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1406ھ۔
  • مجمع جہانی اہل‌بیتؑ، مسألۃ، الصلاۃ خیر من النوم، قم، مجمع جہانی اہل بیتؑ، 1426ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • نوری، حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، مؤسسہ آل البیتؑ، بی‌تا.
  • یحیی ین حسین، الأحکام فی الحلال والحرام (فقہ المذہب الزیدی)، بی‌جا، بی‌نا، 1410ھ۔