صاحب فخ

ویکی شیعہ سے

حسین‌ بن علی‌ بن حسن‌ بن حسن بن حسن بن علیؑ ان کی کنیت ابو عبد اللہ اور صاحب فخ کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ اس قیام اور تحریک کے قائد ہیں جو اسی نام سے سنہ 169 ہجری میں ہادی عباسی کے خلاف مکہ کے قریب سرزمین فخ میں شروع ہوئی۔

ولادت اور نسب

حسین بن علی یا صاحب فخ بوقت شہادت 41 سالہ تھے اور اس حساب سے ان کا سنۂ ولادت سنہ 128 ہجری ہے۔ ان کے والد علی بن حسن نہایت متقی اور عبادت گذار تھے اور علیُ الخیر اور علیُ الاغرّ (نیک) کے عنوان سے شہرت رکھتے تھے۔ ان کی والدہ زینب بنت عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی (ع) تھیں جو محمد نفس زکیہ اور قتیل باخمرا کی ہمشیرہ تھیں۔ یہ میاں بیوی بہت زیادہ تقوی اور عبادت کی بنا پر زوج صالح (نیک جوڑا) کے عنوان سے مشہور تھے۔[1]۔[2]۔[3] علی بن حسن نفس زکیہ کے قیام کے بعد، علویوں کے ایک گروہ کے ہمراہ منصور عباسی کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور کچھ ہی عرصہ بعد قیدخانے میں وفات پاگئے۔[4]

سیاسی فعالیت

سنہ 169 ہجری قمری سے قبل، حسین بن علی کی سیاسی فعالیت کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ بعض روایات کے مطابق، شیعیان کوفہ کی ایک جماعت نے ان کے قیام سے کچھ عرصہ قبل ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ علاوہ ازیں، انھوں نے مکہ اور مدینہ کے عوام کو بھی دعوت دی کہ ان کے ساتھ بیعت کریں اور اپنے بعض داعی خراسان اور جبل (یا جمیل؟ گیلان) روانہ کئے۔[5]۔[6]۔[7]۔[8]

ان روایات کی صحت و سقم سے قطع نظر، بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید حسین بن علی سنہ 169 ہجری قمری سے قبل بھی سیاسی میدان میں فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں؛ جیسے:

  • ان کا تعلق ایسے خاندان سے تھا جو عباسیوں کے خلاف تحریکوں کے حوالے سے پس منظر رکھتا تھا؛
  • مہدی عباسی کے زمانے میں انہیں بغداد میں بلوایا گیا کیونکہ عباسی خلافت ان کے اقدامات اور ان کی فعالیت سے فکرمند تھی؛
  • ہادی عباسی اور اس کے والی نے مدینہ میں علویوں کے ساتھ سخت رویہ اپنایا؛
  • حسین بن علی پر الزام لگایا گیا کہ وہ امارت کی خواہش رکھتے ہیں؛
  • اور آخرکار، قیام فخ کے دوران حسین بن علی کا موقف اور اقدامات۔[9]۔[10]۔[11]۔[12] حتی،
  • ایک روایت کے مطابق حسین نے سنہ 169 ہجری میں اپنے قیام سے قبل بھی ایک بار قیام کیا تھا۔[13]

واقعۂ فخ کے بعد عباسیوں کے اقدامات

صاحب فخ کے بعد مدینہ کے والی عمری نے حسین بن علی اور ان کے خاندان کے بعض افراد کے گھروں اور نخلستانوں کو نذر آتش کیا اور ان کے بعض دیگر نخلستانوں اور اموال کو ضبط کیا۔ موسی بن عیسی عباسی بھی مدینہ پہنچا اور لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور انہیں آل ابی طالب اور حسین اور ان کے ساتھیوں کی اعلانیہ بدگوئی پر مجبور کیا۔[14]۔[15] ہادی عباسی کے رد عمل کے بارے میں بھی متضاد روایات دستیاب ہیں:

بعض روایات میں کہا گیا ہے اس واقعے کے اسیروں اور جنگ میں کوتاہی کرنے والے عباسی امراء کے ساتھ سنگ دلانہ سلوک روا رکھا؛ مثال کے طور پر اس نے قاسم بن محمد بن عبداللہ علوی کو اسیر کیا اور ان کے اعضاء جسمانی کو آری کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا؛ اور موسی بن عیسی عباسی پر غضبناک ہوا اور اس کے اموال و املاک کو ضبط کر لیا کیونکہ اس نے حسن بن محمد بن عبداللہ کو قتل کردیا تھا اور اس کو گرفتار نہیں کیا تھا۔ خلیفہ کے غصے کا سبب یہ تھا کہ وہ خود حسن بن محمد مقدر کا فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔

دوسری طرف سے، بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ ہادی نے ان افراد پر لعنت ملامت کی جنہوں نے حسین بن علی کا سر قلم کرکے اس کو سامنے پیش کیا تھا اور کہا کہ حسین آل خاندان رسول (ع) کی ایک فرد تھے، وہ ترک و دیلم کے کوئی باغی نہ تھے۔ چنانچہ اس نے کہا: ان افراد کی کم از کم سزا یہ ہے کہ انہیں انعام و اکرام سے محروم کیا جائے۔[16]۔[17]۔[18]۔[19]

حسین صاحب فخ کی خصوصیات

مکہ میں محلۂ شہداء (صاحب فخ کا مقام شہادت اور مدفن)

حسین بن علی بلیغ اور سخنور تھے۔ زہد، تقوی، تعبد، تہجد و شجاعت، فقراء کی نسبت سخاوت اور محتاجوں کی دستگیری پر ان کی بہت زیادہ تمجید و تعریف ہوئی ہے۔[20]۔[21]۔[22] شیخ طوسی نے[23] انہیں امام صادق(ع) کے اصحاب کے زمرے میں گردانا ہے۔ وہ شہادت کے وقت 41 یا 57 سالہ تھے اور انھوں نے اپنی بعد کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔[24]۔[25]۔[26]

تاریخ تشیّع میں واقعۂ فخ

حادثۂ فخ تاریخ تشیع علوی تحریکوں کے تلخ ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں: "یہ واقعہ اہل بیت (ع) کے لئے واقعۂ کربلا کے بعد، سب سے بڑی آزمائش تھا۔ علاوہ ازیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ علیہم السلام سے منقولہ بہت سی احادیث اور ان کی شہادت پر کہے گئے مرثیے، اس دعوی کی دلیل ہیں۔[27]۔[28]۔[29]۔[30]۔[31]۔[32] منقول ہے کہ امام کاظم علیہ السلام شہدائے فخ کو یاد کرکے گریہ و بکاء کرتے تھے اور خداوند متعال سے ان کے قاتلوں کے لئے موت اور عذاب شدید کی التجا کرتے تھے اور آپ (ع) نے فخ میں شہادت پانے والے علویوں کے ایتام، اطفال اور بیواؤں کی کفالت اپنے ہاتھ میں لی۔[33]۔[34]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص174، 364۔
  2. ناطق بالحق، الافادة فی تاریخ الائمة السادة، ص26۔
  3. مُحلی، الحدائق‌ الوردیة فی مناقب ائمة الزیدیة، ج1، ص317۔
  4. رجوع کریں: ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص176۔عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، ص66۔محلی، الحدائق‌ الوردیۃ فی مناقب ائمة الزیدیہ، ج1، ص317۔
  5. رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص193۔
  6. بلعمی، تاریخ نامہ طبری، ج2، ص1177ـ 1178۔
  7. حسنی، اخبار الحسین بن علی‌ الفخی و ...، ص284۔
  8. قس آملی، تتمة مصابیح ابی‌ العباس‌ الحسنی، ص468۔
  9. رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص200۔
  10. رازی، اخبار فخ و ...، ص153ـ 154۔
  11. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص372۔
  12. آملی، تتمہ مصابیح ابی‌ العباس‌ الحسنی، ص465ـ 467۔
  13. رجوع کریں: ابن‌ تغری بردی، النجوم‌الزاہرة ...، ج2، ص59۔
  14. رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص200۔
  15. ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص381ـ 382۔
  16. رجوع کریں: طبری، تاریخ، ج8، ص198، 200، 203۔
  17. رازی، اخبار فخ و...، ص159ـ 160۔
  18. مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص186۔
  19. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص379، 381۔
  20. رجوع کریں: ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص368ـ 371، 380۔
  21. ناطق بالحق، الافادة فی تاریخ الائمة السادة، ص26۔
  22. آملی، تتمة مصابیح ابی‌ العباس‌ الحسنی، ص465ـ 469۔
  23. طوسی، رجال الطوسی، ص 182۔
  24. بخاری، سرّ السلسلة العلویہ، ص15۔
  25. ناطق بالحق، الافادة فی تاریخ الائمة السادة، ص28۔ ص66۔
  26. فخر رازی، اخبار فخ و...، ص22۔
  27. رجوع کریں: بخاری، سرّ السلسلة العلویہ، ص14ـ 15۔
  28. مسعودی، مروج الذهب، ج4، ص186۔
  29. ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص366ـ 367، 384ـ 385۔
  30. آملی، تتمة مصابیح ابی‌ العباس الحسنی، ص463ـ 464، 473ـ 474، 486۔
  31. محلی، الحدائق‌ الوردیہ فی مناقب ائمة الزیدیہ، ج1، ص327ـ 328۔
  32. یاقوت حموی، معجم البلدان، ج4 ص238۔
  33. امینی، بطل فخ، ص136ـ 137۔
  34. نیز رجوع کریں: ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص380۔

مآخذ

  • علی بن بلال آملی، تتمہ مصابیح ابی العباس الحسنی، در «احمد بن ابراهیم حسنی، المصابیح»، چاپ عبد الله‌ بن عبدالله حوثی، صنعاء 1423 هجری قمری/ 2002 عیسوی۔
  • ابن تغری بردی، النجوم الزاهرة فی ملوک مصر والقاهرة، قاہره 1348ـ 1392 هجری قمری /1929ـ1972 عیسوی۔
  • ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، چاپ احمد صقر، بیروت 1408 هجری قمری /1987 عیسوی۔
  • محمد هادی امینی، بطل فخ، بیروت 1993 عیسوی۔
  • ابو‌ نصر سہل بن عبدالله بخاری، سرّ السلسلة العلویہ، چاپ محمد صادق بحر العلوم، نجف 1381 ہجری قمری/ 1962 عیسوی۔
  • عاتق‌ بن غیث بلادی، معجم‌ معالم الحجاز، مکہ 1398ـ 1402 هجری قمری / 1978ـ 1982 عیسوی۔
  • بلعمی، تاریخ نامہ طبری، چاپ محمد روشن، تہران 1366 هجری شمسی۔
  • احمد بن ابراهیم حسنی، اخبار الحسین بن علی‌ الفخی و یحیی و ادریس ابنَیْ عبدالله من کتاب‌المصابیح در «احمدبن سہل رازی، اخبار فخّ»، چاپ ماهر جرّار، بیروت 1995 عیسوی۔
  • احمد بن سہل رازی، اخبار فخ و خبر یحیی‌ بن عبدالله و اخیہ ادریس‌ بن عبدالله، چاپ ماہر جرّار، بیروت 1995 عیسوی۔
  • طبری، تاریخ (بیروت)۔
  • محمد بن حسن طوسی، رجال الطوسی، چاپ جواد قیومی اصفہانی، قم 1415 هجری قمری۔
  • علی بن محمد عمری، المجدی فی انساب‌ الطالبیین، چاپ احمد مہدوی دامغانی، قم 1409 هجری قمری.
  • العیون ‌و الحدائق فی اخبار الحقائق، چاپ دخویہ، لیدن 1871 عیسوی۔
  • محمد بن عمر فخر رازی، الشجرة المبارکہ فی انساب‌ الطالبیہ، چاپ مہدی رجایی، قم 1409 ہجری قمری۔
  • کلینی، کافی۔
  • حمید بن احمد محلی، الحدائق‌ الوردیۃ فی مناقب ائمة الزیدیہ، چاپ مرتضی‌ بن زید محطوری حسنی، صنعاء 1423 ہجری قمری/ 2002 عیسوی۔
  • مسعودی، مروج الذهب، ط (بیروت).
  • ناطق بالحق، یحیی بن حسین هارونی، الافادة فی تاریخ الائمہ السادة، چاپ محمد کاظم رحمتی، تہران 1387 هجری شمسی۔
  • ياقوت بن عبد الله الحموي الرومي البغدادي، معجم البلدان، دار إحياء التراث العربي بيروت - لبنان، 1399 هجری قمری/ 1979 عیسوی۔
  • یعقوبی، تاریخ.

بیرونی روابط