کرخ
![]() بغداد کا پرانہ نقشہ (سنہ 150 - 300ھ) | |
عمومی معلومات | |
---|---|
ملک | عراق |
صوبہ | بغداد |
ادیان | اسلام |
مذہب | شیعہ |
سال تأسیس | 157ھ |
اماکن | |
زیارتگاہیں | مقبرہ نواب اربعہ |
مساجد | مسجد براثا |
کَرْخ بغداد کے پرانے محلوں میں سے ایک ہے جو چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں شیعوں کا مرکز تھا۔ یہ شہر 157ھ میں منصور عباسی کے حکم سے بغداد بازار کے طور پر تعمیر کیا گیا۔ چوتھی صدی ہجری میں آل بویہ کے عروج کے ساتھ، شیعہ مذہب بغداد میں پھیل گیا اور کرخ شیعوں کا اصلی مرکز بن گیا۔ کاظمین کا حرم اور کرخ میں ہشام بن حکم کی موثر موجودگی بغداد میں شیعیت کے پھیلاؤ کے دیگر عوامل سمجھے جاتے ہیں۔
مؤرخین کے مطابق آل بویہ کی حکومت کی حمایت سے شیعیت نے کرخ میں اس قدر طاقت حاصل کی کہ اس شہر میں پہلی بار عوامی سطح پر محرم کی مجالس اور عید غدیر کا جشن جیسے بعض شیعہ شعائر منعقد ہوئے۔
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں شیعہ اور کرخ کے اہل سنت کے درمیان شدید اختلافات ہوئے جس کے نتیجے میں شہر اور گھروں کو نقصان پہنچا۔ آخر کار سلجوقیوں کے کرخ پر حملہ کرنے کے بعد شیعہ علمی مرکز کرخ سے نجف منتقل ہوا۔
تعارف
کرخ بغداد کا ایک محلہ ہے جہاں چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں شیعیت کو عروج ملا۔[1] امام رضاؑ کی ایک حدیث میں کرخ کو بغداد کا سب سے محفوظ مقام بتایا گیا ہے۔[2] امام زمانہؑ کے غیبت صغری کے دوران نواب اربعہ نے بھی کرخ ہی کو شیعوں کا مرکز بنایا تھا۔[3]
کرخ بغداد کے مغربی حصے میں واقع تھا اور اس کے مقابلے میں بغداد کے مشرقی حصے میں رَصافہ نامی محلہ تھا جو اہل سنت کا مرکز تھا۔[4] کرخ نام کے بعض دیگر مقامات بھی ہیں جو کرخ بغداد کے ساتھ اشتباہ ہوسکتے ہیں: جیسے کرخ سامرا، کرخ جُدّان (یا جَدّان)، کرخِ خوزستان و کرخِ میسان وغیرہ۔[5]
تأسیس
کرخ شہر شروع میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک گاؤں تھا۔[6] مورخوں کا کہنا ہے کہ یہ شہر منصور عباسی کے حکم سے 157 ہجری میں تعمیر کیا گیا۔[7] اگرچہ چوتھی صدی ہجری کی جغرافیائی کتاب حدود العالم میں کرخ کی تعمیر کے آغاز کو مامون عباسی کے زمانے میں اور اس کی تکمیل کو معتصم کے زمانے میں قرار دیا ہے۔[8]
مؤرخین کے مطابق بغداد کے شہر بننے کے بعد منصور کے حکم سے بغداد کا بازار جب شہر سے باہر منتقل ہوا[9] تو تاجروں کے علاوہ قصاب جیسے چھوٹے تاجر بھی وہاں منتقل ہو گئے۔[10] اس لیے ان کے لیے ایک مسجد بنائی گئی تاکہ وہاں وہ لوگ اجتماع کر سکیں۔[11] آہستہ آہستہ کچھ لوگوں نے اپنے گھر بھی وہاں منتقل کر لیے۔[12] چوتھی صدی کے مؤرخ مقدسی کے مطابق کچھ عرصے کے بعد کرخ اس قدر آباد ہو گیا کہ اسے بغداد کا سب سے گنجان آباد علاقہ سمجھا جانے لگا۔[13]
شیعیت کا پھیلاؤ
چھٹی صدی کے مورخ ابن جوزی کا کہنا ہے کہ کرخ میں شیعہ مذہب 331 ہجری اس قدر پھیلنا شروع ہوا[14] کہ 361 ہجری تک اسے شیعہ مذہب کا مرکز سمجھا جانے لگا۔[15] بعض محققین کے مطابق کرخ چوتھی اور پانچویں صدی میں شیعہ ثقافتی مرکز تھا۔[16] چوتھی صدی میں آل بویہ کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی بغداد میں شیعہ تہذیب کو پروان چڑھنے کا موقع مل گیا اور شیعہ علماء نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل بیتؑ کی تعلیمات کو پھیلانا شروع کیا۔[17]
محققین نے کرخ میں شیعیت مضبوط ہونے کے بہت سارے عوامل ذکر کئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- کرخ کے قریب قبرستان قریش میں حرم کاظمین کی موجودگی؛[18]
- نواب اربعہ کی موجودگی: غیبت صغری کے دور میں، نواب اربعہ جو شیعوں اور امام مہدی (عج) کے درمیان رابطہ کار تھے انہوں نے کرخ بغداد میں سکونت اختیار کر کے اسے شیعہ مرکز بننے اور شیعہ علما کا وہاں کی طرف ہجرت کرنے کا باعث بنے۔[19]
- مسجد براثا: بعض محققین کے مطابق چونکہ شیعہ اس مسجد کو مقدس سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے اس پر خصوصی توجہ دی اور وہاں اجتماع کرتے تھے۔[20]
- علوی نقیب: [21] نقیب کا بنیادی فرض بنی ہاشم کے سماجی، قانونی اور معاشی معاملات کو سنبھالنا تھا۔[22]
- آل بویہ حکومت کی حمایت:[23]
شیعہ مذہبی رسومات کا انعقاد
کہا گیا ہے کہ کرخ میں پہلی بار عاشورا کی عزاداری اور عید غدیر کے جشن کی طرح کچھ شیعہ مذہبی شعائر منعقد ہوئی۔[24] ساتویں صدی ہجری کے مورخ ابن اثیر کے مطابق 10 محرم سنہ 352 ہجری کو بغداد کے حاکم وقت معز الدولہ کے حکم سے کرخ کی دکانیں اور بازار بند کر دیے گئے، لوگوں نے سیاہ لباس پہنا، اور پورے شہر میں علنی طور پر نوحہ خوانی ہوئی۔ شیعہ طاقت کی وجہ سے اہل سنت ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔[25] اسی سال 18 ذوالحجہ کو معز الدولہ نے حکم دیا کہ عید غدیر خم کے موقع پر جشن اور خوشی کی تقریب منعقد کی جائے؛ اسی لئے شہر کو سجایا گیا اور دوسرے تہواروں کی طرح آگ جلائی گئی اور ڈھول اور ہارن بجائے گئے۔[26]
اہل سنت اور ترکوں کے ساتھ تنازعات
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے دوران کرخ میں شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تصادم[27] بعض اوقات آتش سوزی کا سبب بنتی تھی جس میں لوگ جاں بحق اور زخمی ہوتے تھے اور مکانات، دکانیں اور مساجد تباہ ہوتی تھیں۔[28] ابن اثیر کے مطابق 391 ہجری میں بغداد میں آل بویہ کے وزیر ابو نصر شاپور کے خلاف ترکوں نے بغاوت کی۔[29] ابو نصر بغداد سے فرار ہو گیا اور کرخ کے شیعوں اور ترکوں کے درمیان شدید لڑائی چھڑ گئی جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مارے گئے۔[30] اس واقعہ میں اہل سنت نے بھی ترکوں کی مدد کی۔[31] سنہ 441 ہجری میں کرخ کے لوگوں کو عاشورا کے دن عزاداری سے منع کیا گیا لیکن شیعوں نے اس ممانعت کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے عزاداری شروع کر دیا؛ جس کی وجہ سے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان ایک بڑا تنازعہ شروع ہو گیا اور بہت سے لوگ قتل اور زخمی ہوئے۔[32]
بتایا گیا ہے کہ بغداد کا ایک اہم محلہ "باب البصرہ" میں اس شہر کے متعصب حنبلی رہتے تھے اور ہمیشہ کرخ کے شیعہ محلے کے ساتھ مسلسل مقابلہ اور لڑائی میں مصروف رہتے تھے۔[33] ابن اثیر کے مطابق، متعدد جھڑپوں کے بعد، شیعوں نے کرخ کو اہل سنت حملوں سے بچانے کے لیے دیوار بنانے کا فیصلہ کیا۔[34] اہل سنت نے بھی جوابی کارروائی میں دیوار بنا کر اپنے علاقے کو الگ کر دیا، لیکن یہ دیواریں بھی ان کے درمیان تنازعات کو روک نہ سکیں۔[35] سنہ 445ھ میں جب شیعہ اور اہل سنت کے درمیان ایک بڑا تنازعہ شروع ہوا تو ترکوں نے کرخ بازار کو جلا دیا اور کرخ سے بہت سے لوگوں کو دوسرے محلوں میں منتقل کر دیا گیا۔[36]
آخرکار سنہ 447ھ میں سلجوقیوں کا پہلا بادشاہ کرخ پہنچا اور اس شہر کے دار العلم لائبریری کو کتابوں کے ساتھ نذر آتش کردیا اور سب جل کر راکھ ہوگئے۔[37] سنہ 449ھ میں کرخ میں شیخ طوسی کے گھر پر حملہ اور ان کے درس و تدریس کے وسائل کو جلا دیا گیا۔[38] شیخ طوسی نے نجف کی طرف ہجرت کی اور وہاں حوزہ علمیہ نجف کی بنیاد رکھی،[39] اور ان کی ہجرت کے ساتھ ہی بغداد کی عقلیت پسند کلامی مکتب زوال پذیر ہوا۔[40]
مذہبی اور ثقافتی مراکز

مسجد براثا
بَراثا یا بُراثا، کرخ میں شیعوں کی ایک مقدس مسجد ہے، بعض روایات کے مطابق امام علیؑ جب جنگ نہروان سے واپس آئے تو اس مسجد میں ٹھہرے جہاں ان سے بعض کرامات ظاہر ہوئے۔ اسی طرح اس جگہ کو بعض انبیاءؑ کی عبادت گاہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ تیسری صدی کے اواخر اور چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں مسجد براثا بغداد میں شیعوں کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی، جو مذہبی رسومات کے علاوہ، شیعہ احادیث کی نشر و اشاعت کے لیے ایک موزوں جگہ بن گئی۔[41]
نواب اربعہ کے مزارات
کرخ میں نواب اربعہ کے مزارات واقع ہیں؛ جہاں عثمان بن سعید درب جبلہ مسجد،[42] (موجودہ شورجہ بازار)[43]) محمد بن عثمان کرخ میں اپنے گھر،[44] (جو اب شیخ خلانی محلہ کے نام سے جانا جاتا ہے[45]) حسین بن روح نوبختی کرخ کے نوبختیہ محلے میں[46] اور علی بن محمد سمری خَلَنجی محلے میں سپرد خاک ہوئے۔[47]
حوالہ جات
- ↑ احمدی، «کرخ بغداد، پایگاہ تشیع در سدہ ہای چہارم و پنجم ہجری»، ص8۔
- ↑ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج2، ص371۔
- ↑ حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہء، 1385شمسی، ص149۔
- ↑ یعقوبی، شیعیان بغداد، 1385شمسی، ص30-32۔
- ↑ اصفہانی، «کرخ در قلمرو تاریخ»، ص141 و 142۔
- ↑ دینوری، الاخبار الطوال، 1373شمسی، ص379۔
- ↑ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج1، ص98۔
- ↑ حدود العالم، 1362شمسی، ص154۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج7، ص653؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج1، ص99؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج4، ص448۔
- ↑ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج1، ص99۔
- ↑ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج1، ص100۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج7، ص653۔
- ↑ مقدسی، احسن التقاسیم، 1411ھ، ص120۔
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج14، ص27۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج8، ص619۔
- ↑ احمدی، «کرخ بغداد، پایگاہ تشیع در سدہ ہای چہارم و پنجم ہجری»، ص21۔
- ↑ احمدی، «کرخ بغداد، پایگاہ تشیع در سدہ ہای چہارم و پنجم ہجری»، ص21۔
- ↑ جاویدان، «کرخ مرکز تشیع در بغداد»، ص131؛ احمدی، «کرخ بغداد، پایگاہ تشیع در سدہ ہای چہارم و پنجم ہجری»، ص20۔
- ↑ یعقوبی، شیعیان بغداد، 1385شمسی، ص38۔
- ↑ احمدی، «کرخ بغداد، پایگاہ تشیع در سدہ ہای چہارم و پنجم ہجری»، ص20۔
- ↑ یعقوبی، شیعیان بغداد، 1385شمسی، ص39۔
- ↑ الہی زادہ، سیروسی، «کارکرد علم انساب در تبیین حیات اجتماعی طالبیان عہد سلجوقی»، ص133۔
- ↑ یعقوبی، شیعیان بغداد، 1385شمسی، ص40۔
- ↑ احمدی، «کرخ بغداد، پایگاہ تشیع در سدہ ہای چہارم و پنجم ہجری»، ص27۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج8، ص549۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج8، ص549 و 550۔
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج15، ص125۔
- ↑ برای نمونہ ر.ک: ابن جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج13، ص199 و 349، ج14، ص215 و 227 و 281، ج15، ص125 و 175۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج9، ص168۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج9، ص168۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج9، ص168۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج9، ص651۔
- ↑ جعفریان، اطلس الشیعۃ، ص340-343۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج9، ص651۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج9، ص651۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج9، ص594۔
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۱، ص۵۳۴.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج16، ص16۔
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، 1430ھ، ج2،ص162۔
- ↑ عابدی، مکتب کلامی قم، 1384شمسی، ص41۔
- ↑ صادقی، «براثا»، در دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔
- ↑ اصفہانی، «کرخ در قلمرو تاریخ»، ص156 و 157۔
- ↑ گروہی از نویسندگان، رہ توشہ عتبات عالیات، 1391شمسی، ص367۔
- ↑ اصفہانی، «کرخ در قلمرو تاریخ»، ص156۔
- ↑ گروہی از نویسندگان، رہ توشہ عتبات عالیات، 1391شمسی، ص367۔
- ↑ اصفہانی، «کرخ در قلمرو تاریخ»، ص157۔
- ↑ طوسی، الغیبۃ، ص1411ھ، 396۔
مآخذ
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، طبقات اعلام الشیعہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1430ھ۔
- ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
- ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
- ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1412ھ۔
- ابن طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1409ھ۔
- ابن ندیم، محمد بن اسحاق، الفہرست، بیروت، دار المعرفۃ، 1417ھ۔
- احمدی، محمد قاسم، «کرخ بغداد، پایگاہ تشیع در سدہ ہای چہارم و پنجم ہجری»، در مجلہ تاریخ اسلام در آینہ پژوہش، شمارہ 28، تابستان 1388ہجری شمسی۔
- اصفہانی، عبد اللہ، «کرخ در قلمرو تاریخ»، در مجلہ فرہنگ زیارت، شمارہ 17، زمستان 1392ہجری شمسی۔
- الصلابی، علی محمد، دولۃ السلاجقۃ و بروز مشروع اسلامی لمقاومۃ التغلغل الباطنی و الغزو الصلیبی، قاہرہ، موسسہ إقرأ، 1427ھ۔
- الہی زادہ، محمد حسن، سیروسی، راضیہ، «کارکرد علم انساب در تبیین حیات اجتماعی طالبیان عہد سلجوقی»، در مجلہ تاریخ فرہنگ و تمدن اسلامی، شمارہ 20، تابستان 1392ہجری شمسی۔
- امین، حسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
- جاویدان، محمد علی، «کرخ مرکز تشیع در بغداد»، در مجلہ وقف میراث جاودان، شمارہ 25 و 26، بہار و تابستان 1378ہجری شمسی۔
- جباری، محمد رضا، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمہ(ع)، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1382ہجری شمسی۔
- جعفریان، اطلس الشیعۃ جعفری، محمد مہدی، سید رضی، تہران، طرح نو، 1375ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، اطلس الشیعۃ؛ دراسۃ للجغرافیۃ الدینیۃ للتشیع، تعریب: نصیر الکعبی؛ سیف علی، المرکز الأکادیمی للأبحاث، 2013ء۔
- حدود العالم، بہ کوشش منوچہر ستودہ، تہران، کتابخانہ طہوری، 1362ہجری شمسی۔
- حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ترجمہ سید محمدتقی آیت اللہی، تہران، امیرکبیر، 1385ہجری شمسی۔
- حسین زادہ شانہ چی، حسن، اوضاع سیاسی، اجتماعی و فرہنگی شیعہ در عصر غیبت صغری، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
- خضری، احمد رضا، تشیع در تاریخ، قم، دفتر نشر معارف، 1393ہجری شمسی۔
- خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی، تاریخ بغداد و ذیولہ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1417ھ۔
- دینوری، ابن قتیبہ، الاخبار الطوال، قم، منشورات الشریف الرضی، 1373ہجری شمسی۔
- رضوانی، علی اصغر، غیبت صغری، قم، مسجد مقدس جمکران، 1386ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، موسسۃ الامام الصادق(ع)، 1418ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تہران، اسلامیہ، 1395ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافۃ، 1414ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، قم، دار المعارف الاسلامیۃ، 1411ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، نجف، الشریف الرضی، بی تا۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، بیروت، موسسۃ فقہ الشیعۃ، 1411ھ۔
- صادقی، مریم، «براثا»، در دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1381ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
- طہماسبی، ساسان، «کرخ در دورہ آل بویہ»، در مجلہ تاریخ اسلام، شمارہ 13، تابستان 1382ہجری شمسی۔
- عطائی نظری، حمید، «نگاہی بہ ادوار و مکاتب کلامی امامیہ در قرون میانی»، در مجلہ آینہ پژوہش، شمارہ 171، مرداد و شہریور 1397ہجری شمسی۔
- گروہی از نویسندگان، رہ توشہ عتبات عالیات، تہران، مشعر، 1391ہجری شمسی۔
- محمدنیا سماکوش، مرتضی، «کتابخانہ شاپور اولین کتابخانہ و دار العلم شیعہ»، در مجلہ کتاب ماہ کلیات، شمارہ 152، مرداد 1389ہجری شمسی۔
- مفيد، محمد بن محمد، الأمالی، تحقیق علی اكبر غفاری، قم، کنگرۀ شيخ مفيد، 1413ھ۔
- مقدسی، محمد بن احمد، احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم، قاہرہ، مکتبۃ مدبولی، 1411ھ۔
- موحد ابطحی، رضیہ سادات، نقش شیعیان در ساختار حکومت عباسیان از خلافت ناصر تا سقوط بغداد، قم، شیعہ شناسی، 1392ہجری شمسی۔
- موسوی، سید حسن، و نوراللہ کسایی، «پژوہشی پیرامون زندگی سیاسی و فرہنگی نواب اربعہ»، در مجلہ دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی دانشگاہ تہران، شمارہ 38، تابستان 1378ہجری شمسی۔
- یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، 1995ء۔
- یعقوبی، محمدطاہر، شیعیان بغداد، قم، شیعہ شناسی، 1385ہجری شمسی۔