تسبیح (سبحہ)
دعا و مناجات |
تَسْبیح، (عربی میں: مَسْبَحہ یا سُبْحَہ)، ان دانوں کو کہا جاتا ہے جو ایک دھاگے میں پیروئے جاتے ہیں تاکہ ذکر کی گنتی یاد رکھنے کے لیے آسان ہوسکے۔ بہت سارے ادیان میں ذکر کی گنتی کے لیے تسبیح استعمال کرتے ہیں۔
شیعوں کے عقیدے کے مطابق حضرت زہراؑ، اسلام میں تسبیح استعمال کرنے والی پہلی شخصیت ہیں۔ شیعوں کے ہاں تسبیح تربت امام حسینؑ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ تسبیح کا سب سے مشہور استعمال، نماز کے بعد تسبیحات حضرت زہراؑ کا ورد کرنا ہے۔ اس کے علاوہ استخارہ کے لیے بھی تسبیح کو استعمال کیا جاتا ہے۔ تسبیح کی سائز، دانے اور رنگ مختلف ہوتے ہیں اور مقدس مقامات سے لائے جانے والے تحائف میں سے ایک تسبیح ہے۔
تاریخی آئینے میں
تسبیح، براعظم ایشیاء کی ایجادات میں سے ہے، لیکن یہ نہیں معلوم کہ کس ملک کے لوگوں نے اسے ایجاد کیا ہے۔[1]قدیم تمدنوں میں تسبیح، گنتی کرنے، دنوں کی شمارش اور ۔۔۔۔ کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ قدیم چین میں لوگ دھاگے پر مختلف گرہ لگا کر تسبیح کے طور پر استعمال کرتے تھے۔[2] اور مرکزی افریقہ کی خواتین اپنے حمل کے دنوں کو دھاگے پر گرہیں لگا کر حساب کرتی تھی۔[3]
قدیم معاشرے جیسے یونان، روم، مصر اور ہندوستان میں تسبیح کو جشن کے دن اور رسومات کی یاددہانی کے لیے استعمال کرتے تھے، یا طلسم، تعویذ، فال لینے، زینت اور کسی رسم کے خاص مرحلے میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ وقت کے گزرنے اور سماجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تسبیح کا استعمال کم ہوتا گیا اور صرف دینی اور مذہبی استعمال باقی رہ گیا۔
ادیان
دنیا کے تمام بڑے دین میں تسبیح کا استعمال مرسوم تھا۔ تسبیح کے استعمال بارے میں سب سے قدیمی تحریری سند ہندوؤں کی ادبی آئین ہے جس میں برہمنوں کا تسبیح استعمال کرنے کے بارے میں ذکر ہے۔[4]بودائی آئین میں ہر ہر بودائی کے ہاتھ میں تسبیح کا ہونا، کسی کل کے ساتھ اس کا جز اور ایک دانہ کا دوسرے دانے کے ہمراہ باہم رابطہ تشکیل دینے کے متراف ہے اور یہ سلسلہ آخر بودا تک جا پہنچتا ہے اور اس سے متصل کرتا ہے۔[5]
یہودیوں کے ہاں تسبیح کے 32 یا 99 دانے ہوتے ہیں جسے ایسٹر کے تہوار میں ہاتھ میں لیتے ہیں۔[6]
مسیحی اکثر گروہوں اور فرقوں میں تسبیح ذکر پڑھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور صرف پروٹسٹنٹ، تسبیح کو اس کام میں استعمال کرنے کے مخالف ہیں۔
اسلام میں تسبیح
ایگناز گولڈزیہر (Ignác Goldziher) کی نظر کے مطابق تسبیح ہندوستان کے بودائیوں سے اسلام میں آیا ہے۔[7]بعض کا کہنا ہے کہ تسبیح، مسیحی نسطوریت سے اسلام میں آئی ہے۔[8]
تسبیح کے ذریعے دعا اور ذکر کی گنتی وہابیوں کے علاوہ باقی مسلمانوں میں مرسوم ہے۔ اور تسبیح کے ذریعے ذکر یا دعا کی شمارش کرنا وہابیوں کے ہاں دین میں بدعت شمار ہوتی ہے اور تسبیح کے بجائے ہاتھ کی انگلیوں سے استفادہ کرتے ہیں۔[9]
اہل سنت
اہل سنت کے ہاں تسبیح کے استعمال کے بارے میں مختلف روایاتی پائی جاتی ہیں: اہل سنت کی احادیث کی بعض کتابوں میں مسلمانوں کے لیے تسبیح اپنے ساتھ رکھنے کی تاکید ہوئی ہے اور پیغمبر اکرمؐ کا تسبیح گھومانے کا بھی اشارہ ہوا ہے۔[10] لیکن پیغمبر اکرمؐ سے منقول بعض اہل سنت کی روایات میں ذکر کی گنتی کے لیے تسبیح استعمال کرنے کی مذمت بھی ہوئی ہے۔[11]
شیعہ
شیعوں کے عقیدے کے مطابق حضرت زہراؑ، اسلام میں تسبیح استعمال کرنے والی پہلی شخصیت ہیں۔ آپ نے اونی دھاگہ پر 34 گرہیں لگا رکھی تھیں اور نماز کے بعد تسبیحات حضرت زہراؑ پڑھنے کے لیے اس کو استعمال کرتی تھیں اور اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ کے چچا حضرت حمزہ کے مزار کی قبر سے مٹی کی تسبیح بنائی گئی۔ حضرت زہراؑ کی پیروی کرتے ہوئے شیعہ بھی تبرک کے طور پر امام حسینؑ کے مقتل کی تربت سے تسبیح بناتے ہیں جو تسبیح تربت یا «تسبیح کربلا» سے مشہور ہے۔[12]
ساخت
دانوں کی تعداد
اکثر تسبیح کے 100 دانے ہوتے ہیں اور مسلمان اور شیعہ انہیں اللہ تعالی کے سو ناموں کی نشانی یا تسبیحات حضرت زہراؑ کی یادگار قرار دیتے ہیں۔
بعض 25، 33، 34 اور 1000 دانوں کی تسبیح بھی استعمال ہوتی ہے۔ 1000 دانوں والی تسبیح بعض صوفی اور درویشوں سے مخصوص ہے جو میت کو دفن کرتے وقت ذکر پڑھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس میں اس تسبیح کو تین مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ذکر پڑھتے ہوئے ختم کرتے ہیں اور یوں کل 3000 مرتبہ یہ ذکر پڑھتے ہیں۔[13]
مختلف حصے
ہر تسبیح چند حصوں پر مشتمل ہوتی ہے:
- تسبیح کے سر پر دھاگہ یا کسی اور چیز کا ایک حصہ جو تسبیح کا سر سمجھا جاتا ہے۔ بعض تسبیح کا یہ حصہ نفیس اور چاندی کا بنا ہوتا ہے۔
- دوسرا حصہ تسبیح کا سب سے لمبا اور بڑا دانہ ہوتا ہے جو تسبیح کے دونوں سروں کو جوڑ کر اس کے اوپر آتا ہے۔ مختلف علاقوں میں اس کے مختلف نام ہیں۔[14]
- چھوٹے دو دانے: جو تسبیح کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اس چھوٹے دانے سے دونوں سروں کی طرف 33 عدد دانے ہوتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان بھی 33 ہوتے ہیں۔[15]
100 عدد کی تسبیح تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے دو حصوں میں 33 عدد اور ایک میں 34 عدد ہوتے ہیں۔[16] لیکن آج کل جو تسبیح بنائی جاتی ہے اس کے ہر حصے میں 33 دانے اور درمیان کے دو چھوٹے دانے ملائیں تو 101 عدد بنتے ہیں۔
مادہ
تسبیح مختلف مواد سے بنتی ہے۔
- مٹی کی تسبیح جیسا کہ خاک کربلا اور دیگر ائمہ کی ضریح کی مٹی سے بنائی جاتی ہے۔
- معدنی اور قیمتی پتھروں سے بنائی جاتی ہے جیسے؛ عقیق، زہر مہرہ، یاقوت، مروارید، زمرد، فیروزہ، لاجورد وغیرہ سے بنتی ہے؛ ان میں سے مشہور تسبیح، تسبیح «شاد مقصود» یا «شاہ مقصود» ہے جو قندہار افغانستان کے معدنیات میں سے ایک خاص پتھر سے بنائی جاتی ہے۔ اور یہ پتھر بہت نایاب ہے۔ یمن میں عقیق کی تسبیح بنائی جاتی ہے جو یمانی تسبیح سے مشہور ہے۔
- لکڑی، میوہ و بعض میوہ دار درخت کے دانوں سے، جیسے آبنوس، شمشاد، یسر و خرما.
- بعض حیوانات جیسے؛ہرن، اونٹ اور ہاتھی کی ہڈی اور سینگ سے،
- کرسٹال، شیشہ اور پلاستیک.[17]
غیر فارمیٹ متن یہاں داخل کریں
عقیدہ
تسبیح کے بارے میں عوام کے درمیان بعض عقیدے بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے بہت ساروں کی اسلامی سنت اور تشیع کے ہاں تائید نہیں ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر بعض علاقوں میں تبرک کے لئے بنائے جانے والوں کھانوں پر تسبیح کا نقشہ بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح کربلا کی تربت کی تسبیح پھیراتے ہوئے ذکر پڑھتے ہوئے اللہ سے قبولیت کی دعا مانگتے ہیں۔
بعض علاقوں میں تسبیح کا دھاگہ کٹ کر دانے بکھر جانے کو دعا مستجاب ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔ جبکہ بعض اس کو پریشانی سے تعبیر کرتے ہیں۔
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ دیکھیں ERE, X/847
- ↑ دیکھیں ERE, X/847
- ↑ دیکھیں ERE, X/847-848
- ↑ دیکھیں ERE, X/847
- ↑ نک ERE, X/847
- ↑ نک ERE, X/855
- ↑ دیکھیںEI2, IX/741؛ نیز: ERE, X/852k
- ↑ علایی، ص۲۹
- ↑ حداد عادل، دانشنامہ جہان اسلام، ذیل مدخل «تسبیح».
- ↑ نسایی، ج۳، ص۷۴؛ ابوداوود، ج۵، ص۳۰۹؛ سیوطی، ج۲، ص۱۳۹-۱۴۵؛ EI2، ۳
- ↑ ترمذی، ج۵، ص۵۲۱؛ ابوداوود، ج۲، ص۱۷۰
- ↑ مجلسی، ج۸۲، ص۳۳۳، ۳۴۱؛ بہار عجم، ج۱، ص۲۴۵؛ علایی، ص۲۹-۳۰؛ خاقانی، ص۳۶۰
- ↑ تریمینگام، ص۲۰۱-۲۰۲
- ↑ لغت نامہ، ذیل شیخک
- ↑ لغت نامہ، ذیل امام و عدسی
- ↑ علایی، ص۳۳-۳۱
- ↑ علایی، ص۳۱-۳۳؛ دائرة المعارف، ج۴، ص۲۴۲
مآخذ
- ابوداوود سجستانی، سلیمان، السنن، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
- ابونواس، دیوان، بیروت، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۲م؛ ہمان، بہ کوشش احمد عبدالمجید غزالی، بیروت، دارالکتاب العربی.
- اسدیان خرم آبادی، محمد و دیگران، باورہا و دانستہہا در لرستان و ایلام، تہران، ۱۳۵۸ش.
- آنندراج، محمدپادشاہ، بہ کوشش محمد دبیرسیاقی، تہران، ۱۳۳۶ش.
- بلک، جرمی و آنتونی گرین، فرہنگ نامۂ خدایان، دیوان و نمادہای بین النہرین باستان، ترجمۂ پیمان متین، تہران، ۱۳۸۳ش.
- بلوکباشی، علی، آیین بہ خاک سپردن مردہ و سوگواری آن، پیام نوین، تہران، ۱۳۴۴ش، س ۷، شم ۹.
- بہار عجم، لالہ تیک چند بہار، لکہنو، ۱۳۳۴ق.
- ترمذی، محمد، السنن، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
- چہرۂ خراسان، مشہد، ۱۳۵۱ش؛ حافظ، دیوان، بہ کوشش رشید عیوضی و اکبر بہروز، تہران، ۱۳۵۶ش.
- خاقانی، بدیل، دیوان، بہ کوشش ضیاءالدین سجادی، تہران، ۱۳۶۸ش.
- خفاجی، احمد، شفاء الغلیل، بہ کوشش محمد بدرالدین نعسانی، قاہرہ، ۱۳۲۵ق.
- دائرة المعارف تشیع، تہران، ۱۳۸۱ش.
- رضایی، جمال، بیرجندنامہ، بہ کوشش محمود رفیعی، تہران، ۱۳۸۱ش.
- سلمان ساوجی، کلیات، بہ کوشش عباسعلی وفایی، تہران، ۱۳۷۶ش.
- سیوطی، الحاوی للفتاوی، بیروت، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸م.
- شکورزادہ، ابراہیم، عقاید و رسوم مردم خراسان، تہران، ۱۳۶۳ش.
- عطار، محمد، دیوان، بہ کوشش تقی تفضلی، تہران، ۱۳۶۲ش.
- علایی، علی اکبر، داستان پیدایش تسبیح و اقسام آن، ہنر و مردم، تہران، ۱۳۴۳ش، شم ۲۸.
- قزوینی، محمد، تسبیح بہ معنی سبحہ صحیح و فصیح است، یادگار، تہران، ۱۳۲۴ش، س ۲، شم ۵.
- کتیرایی، محمود، از خشت تا خشت، تہران، ۱۳۴۸ش.
- لغت نامۂ دہخدا.
- ماسہ، ہانری، معتقدات و آداب ایرانی، ترجمۂ مہدی روشن ضمیر، تبریز، ۱۳۵۵ش.
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
- نسایی، احمد، السنن، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
- نظامی گنجوی، مخزن الاسرار، بہ کوشش وحید دستگردی، تہران، ۱۳۱۳ش.
- ہالیستر، جان نورمن، تشیع در ہند، ترجمۂ آزرمیدخت مشایخ فریدنی، تہران، ۱۳۷۲ش.
- ہدایت، رضاقلی، انجمن آرای ناصری، تہران، ۱۲۸۸ش.
- ہمایونی، صادق، فرہنگ مردم سروستان، تہران، ۱۳۷۱ش.
- EI2.
- ERE; Trimingham, J.S., The Sufi Orders in Islam, London, 1973.