ابو بکر بن ابی قحافہ

کم لنک
جانبدار
غیر سلیس
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(ابوبکرؓ سے رجوع مکرر)
کوائف
مکمل نامعبد اللہ بن عثمان
کنیہابو بکر
دلیل شہرتصحابی پیغمبر اور مسلمانوں کا پہلا خلیفہ
محل زندگیمکہ، مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
نسبقریش، بنی تمیم
مشہور رشتے دارعایشہ زوجہ پیغمبر (ص)
وفاتسنہ 13 ہجری، مدینہ
مدفنمدینہ، مسجد النبی
دینی خدمات
اسلام لانابعثت کے ابتدائی ایام میں
جنگپیغمبر اکرم کے ساتھ اکثر غزوات میں
ہجرتمدینہ کی طرف ہجرت

اَبوبَکْر بن ابی قُحافہ (متوفی سنہ 13 ھ) پیغمبر اکرمؐ کے بزرگ صحابہ میں سے تھے۔ ظہور اسلام کے ابتدائی ایام میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔ مشہور مورخین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت کے موقع پر ابوبکر بھی آپؐ کے ہمراہ تھے اور مشرکین مکہ سے بچنے کیلئے آپ کے ساتھ غار ثور میں پناہ لی تھی۔ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد باوجود اس کے کہ حضورؐ نے اپنی زندگی میں کئی مواقع پر حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ معرفی کیا تھا، ابوبکر بعض دوسرے اصحاب کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ انتخاب کرنے کیلئے جمع ہو گئے۔ کافی گفت و شنید کے بعد آخر کار سقیفہ میں موجود افراد نے ابوبکر کے ہاتھوں پر بعنوان خلیفہ بیعت کی۔ یوں اہل سنت کے نزدیک وہ مسلمانوں کا پہلا خلیفہ بن گیا۔ ان کے مختصر دور خلافت میں تاریخ اسلام کے کئی متنازعہ حوادث رونما ہوئے جن میں باغ فدک کو حضرت فاطمہ زہرا (س) سے واپس لینا، مرتدین کے ساتھ جنگ اور مختلف فتوحات شامل ہیں۔

ولادت، نسب، کنیہ اور القاب

بعض روایات [1] اور قرا‌‎ئن و شواہد (مدت عمر اور تاریخ وفات) کے مطابق ابوبکر عام الفیل کے چند ماہ بعد (احتمالا ہجرت سے 50 سال پہلے مکہ میں متولد ہو‎ا۔ جاہلیت کے دور میں انکا نام عبد الکعبہ تھا اور اسلام لانے کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ نام دیا[2] انکا باپ ابو قحافہ عثمان (متوفی ۱۴ہ ق) اور انکی ماں امّ الخیر سَلْمی، بنت صخر بن عمرو بن کعب، دونوں بنی تیم سے تھے اور پانچویں پشت میں مرہ بن کعب پر پیغمبر اکرمؐ کے شجرہ نسب سے ملتے ہیں۔[3] بعض اہل سنت کی روایات میں انکا نام عتیق ذکر ہوا ہے۔[4] لیکن ظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ عتیق انکا لقب تھا انکی کنیت ابوبکر تھی۔ لیکن انکا بکر نامی کو‎ئی بیٹا بھی تھا یہ نہیں اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور جتنی بھی کتابوں میں ابوبکر کے بیٹوں کا ذکر ہوا ہے «بکر» نام کے کسی بیٹے کا تذکرہ نہیں ہوا ہے۔[5] لیکن انکے مخالفین، جیسے ابو سفیان نے ابوبکر (بکر=جوان اونٹ) کی توہین کرتے ہو‎ئے ابو فصیل (فصیل=اونٹ کا وہ بچہ جس سے ابھی ماں کا دودھ روک دیا گیا ہو) میں بدل دیا ہے۔[6]۔ ابوبکر چند القاب ہیں:

۱- عتیق؛ اہل سنت کی اکثر کتابوں میں عتیق کو انکے القاب میں سے شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم نے انکے چہرے کی خوبصورتی کی وجہ سے عتیق کا لقب دیا ہے۔[7]۔عایشہ، سے ایک روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے انکو «عتیق اللہ من النار» سے پکارا[8]اس کے علاوہ کچھ دیگر دلایل بھی عتیق کہنے کے بارے میں نقل ہو‎ئی ہیں[9]۔

۲- اہل سنت کے درمیان انکا دوسرا مشہور لقب، صدّیق ہے جو اہل سنت کے منابع کے مطابق اسراء (معراج) کی خبر کو بغیر کسی چون و چرا کے ماننے کی وجہ سے انہیں دیا گیا ہے۔[10] ایک اور روایت میں ابو ہریرہ سے یہ بات نقل ہو‎ئی ہے کہ معراج کی رات جبرئیل نے انہیں صدیق سے پکارا ہے۔[11] بعض نے کہا ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت سے ہی اس لقب سے مشہور تھا اور عتیق کا لقب بھی اسی سے لیا گیا ہے۔[12]۔

۳- «اَوّاہ» کا لقب مہربانی اور مونس ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے [13]

۴- «صاحب رسول اللہ» کا لقب پیغمبر اکرم کے ساتھ ہمراہی کی وجہ سے دیا گیا ہے [14] شیعہ علما صدیق لقب ابوبکر کا ہونے میں نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اہل سنت کے منابع [15] سے مستند کرتے ہو‎ئے یہ لقب اور اسی طرح فاروق کے لقب کو امام علی (ع) کے القابات میں سے سمجھتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر یہ لقب ابوبکر کے لیے ہوتا تو اسلام کے ابتدا‎ئی دنوں میں ابوبکر سے منسوب ہونا چاہئے تھا؛ کیونکہ علی (ع) نے اپنی خلافت کے دوران بصرہ میں منبر سے ان القابات کو اپنے لیے قرار دیا ہے۔[16]۔

بیویاں اور بچے

تاریخی منابع میں ابوبکر کی بیویوں کے نام کچھ یوں بیان کیا ہے۔

مکہ کی زندگی

بعض روایات کے مطابق اسلام لانے سے پہلے ابوبکر ایک نرم مزاج انسان تھا اور قریش اسے چاہتے تھے اور اسکا احترام کرتے تھے[18] اور نقل ہوا ہے کہ جوانی سے ہی وہ تجارت میں مشغول تھا۔[19]

اسلام لانے کا دور

ابوبکر کے اسلام لانے کے بارے میں اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض اہل سنت علماء ان کو حضرت خدیجہ، امام علی (ع) اور زید بن حارثہ کے بعد چوتھا مسلمان سمجھتے ہیں۔[20] جبکہ بعض اہل سنت انہیں ان چاروں میں سے پہلا مسلمان سمجھتے ہیں کہ ایک آزاد مرد تھا اور مسلمان ہو‎ا۔[21] طبری محمد بن سعد سے نقل کرتے ہو‎ئے کہتا ہے کہ ابوبکر نے پچاس افراد کے بعد اسلام لے آیا ہے۔[22] سید جعفر مرتضی اسی آخری قول کو محققین کی رای سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: ابوبکر کا سب سے پہلے اسلام لانے کی بات چاروں خلیفوں کی خلافت کے بعد اور حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد گھڑی گئی ہے اور ممکن ہے کہ یہ کام معاویہ کے حکم سے ہوا ہو اور دنیا کی مختلف اسلامی سرزمینوں تک پھیلایا ہو۔ پھر آپ اس بات کو بہت ساری دلا‌‎ئل کے ساتھ ٹھکراتے ہیں[23] بعض اہل سنت راویوں کی روایات ابو قحافہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے کو حکایت کرتی ہیں[24]، لیکن بعض دیگر راویوں نے ان روایات کو نقد کیا ہے [25]۔

ابو جعفر اسکافی معتزلی کہتا ہے: اگر ابوبکر نے سب سے پہلے اسلام لایا ہے تو پھر اس نے خود کہیں پر بھی اس کو ایک فضیلت کے طور پر بیان کیوں نہیں کیا ہے یہاں تک کہ سقیفہ میں بھی اس کو بیان نہیں کیا ہے اور بلکہ انکے حامیوں میں سے بھی کسی صحابی نے اس طرح کا دعوی تک نہیں کیا ہے۔[26]

اہل سنت کی بعض کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ قریش کے معاشرے میں ابوبکر کے منزلت کی وجہ سے ابوبکر مسلمان ہونے کے بعد مکہ کے کچھ لوگ عثمان بن عفّان، زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، اور طلحۃ بن عبیداللہ [27]، مسلمان ہوگئے ہیں۔ جبکہ بعض نے ان روایات اور ان لوگوں کا ابوبکر کی دعوت پر اسلام لانے کو تردید کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض (زبیر، سعد و طلحہ) کی عمر اور ابوبکر کی عمر میں تقریبا بیس سال کا فرق ہے اور اس کے ہم معاشر نہیں بن سکتے تھے۔[28] اور دوسری بات یہ کہ ابن سعد کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف ان افراد میں سے ہے جنہوں نے عثمان بن مظعون کے ساتھ اسلام لایا ہے نہ کہ ابوبکر کے ساتھ۔ اس سے احتمال دیا جاسکتا ہے ان لوگوں کی عمر بن خطاب کی چھ رکنی شورای کی رکنیت اور کچھ دوسرے وجوہات کی بنا پر بعد والے راویوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ ان کے اسلام لانے کی وجہ کو ابوبکر کی ہدایت قرار دیکر دوسروں پر فوقیت دیں، اس احتمال کو کچھ ایسی روایات[29] تقویت دیتی ہیں جن میں کچھ اور افراد ان سے اسلام لانے میں آگے ہیں۔۔[30]

مسلمانوں پر تشدد کا دَور

مشرکین مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر کی جانے والی تشدد سے ابوبکر بھی مستثنی نہیں تھا، اہل سنت کے منابع میں زخمی ہونے کا بھی ذکر ہوا ہے۔[31] جب بنی ہاشم کو مکہ سے طرد کرنے کے ساتھ ساتھ مظالم نے شدت اختیار کیا تو پیغمبر اکرم کی اجازت سے ناخواستہ طور پر مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑا لیکن قریش کے با اثر افراد؛ جِوار کی تجویز اور ابن الدُّغُنّہ کی حمایت کی وجہ سے دوبارہ مکہ لوٹ آ‎یا۔ لیکن کھلے عام تبلیغ کرنے کی وجہ سے دوبارہ تشدد شروع ہوگیا۔[32] بعض نے ابوبکر کا حبشہ ہجرت نہ کرنے کے بارے میں یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ قبیلہ تیم (ابوبکر کا خاندان) بھی حلف الفضول کے دوسرے اعضاء کی طرح ظلم و تشدد سے محفوظ تھے لیکن جب ابوبکر کا قبیلہ نے اپنے مسلمان افراد کا دفاع نہ کرسکا یا دفاع کرنا نہ چاہا[33] تو ابوبکر تشدد کا شکار ہوگیا اور ناچار ہجرت کی قصد سے مکہ سے خارج ہوا[34]۔ بعض منابع نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے مال میں سے بعض دوسرے 7 مسلمان غلاموں کو انکے مشرک آقا‎‎‎ؤں کی آزار و اذیت سے آزاد کیا یہاں تک کہ انکے باپ ابو قحافہ نے بھی اس کی مذمت کی۔[35]

مدینہ کی طرف ہجرت

ابوبکر کی مکی زندگی میں سب سے اہم حادثہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ کیطرف ہجرت کرنا اور غار ثور میں چھپ جانا ہے۔[36] یہ واقعہ جمعرات کی رات یکم ربیع‌الاول بعثت کے 14 سال بعد (13 ستمبر 622) کو رونما ہوا۔ مشہور قول کے مطابق جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وحی کے ذریعے اپنے قتل کی سازش سے آگاہ ہوگئے تو ابوبکر کے ساتھ مدینہ چھوڑ کر یثرب کی طرف روانہ ہوگئے اور غار ثور تک پہنچے۔[37]

آیت غار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ابوبکر کی غار میں سکونت کے ماجرا کی طرف اشارہ ہے اور اہل سنت کے علماء اس آیت کو ابوبکر کی فضیلت پر دلیل سمجھتے ہیں لیکن پیغمبر اکرمؐ کا ابو بکر کے ساتھ غار ثور میں ہمراہی کی کیفiت کے بارے میں آیت کی تفسیر میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[38]

ابوبکر، پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ کیسے آئے؟ یہ واضح نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ نے ابوبکر کو اچانک راستے میں دیکھا اور اپنے ساتھ لے گیے۔[39] اسی طرح سے ایک اور نقل کے مطابق مشرکوں کے حملے کی رات پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ابوبکر کے گھر گئے اور وہیں سے ابوبکر کے ساتھ غار ثور چلے گئے۔[40] تیسرے قول کے مطابق ابوبکر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تلاش میں آیا اور علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کے چھپنے کی جگہ دکھا‎ئی۔[41]

مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ابوبکر مدینہ کے مضافات میں مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر سُنْخ محلے میں خبیب بن اِساف (حبیب ابن یساف) یا خارجہ ابن زید ابن ابی زہیر (قبیلہ بنی الحارث بن الخزرج) کے گھر ساکن ہوا[42] بعض منابع کے مطابق ابوبکر مدینہ میں ہمیشہ پیغمبر ؐ کے ساتھ ساتھ رہا اور 8 مہینے کے بعد جب آنحضرت نے مہاجر اور انصار کے درمیان برادری کا پیمان باندھا تو انکو عمر کا بھا‎ئی بنایا[43] لیکن سیرہ ابن اسحاق کا فارسی ترجمہ رفیع الدین ہمدانی میں لکھا ہے کہ « ابوبکر ۔۔۔ خارجہ بن (زید بن ابی) زہیر (جو کہ انصار تھے) سے برادری کا عقد باندھا»۔[44] ابوبکر مدینہ میں ہر دوسرے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملتا تھا[45] اور بعض روایات کے مطابق تمام غزوات میں آپ کے ساتھ تھا۔[46]

غزوات میں شمولیت

واقدی نے ابوبکر کی غزوہ بدر[47]، احد[48]، حَمراءُ الاسد[49]، بنی النَضیر[50]، بَدرُ المَوعِد[51]، مُرَیسیع[52]، خندق[53]، بنی قُرَیظہ[54]، بنی لِحیان[55]، حدیبیہ[56]، خیبر[57]، فتح مکہ[58]، حُنَین[59]،طائف[60]، تَبوک[61] اور اسی طرح سرایای نجد[62] اور ذاتُ السَلاسِل[63] میں شریک ہونے کی تصریح کی ہے۔

ابن ابی الحدید کی اپنے استاد ابوجعفر اسکافی کے نقل کے مطابق «ابوبکر نے نہ تو تیر چلایا ہے اور نہ تلوار کھینچا ہے اور نہ ہی خونریزی کی ہے۔»[64] پیغمبر ؐ نے جنگ خیبر میں ابوبکر و اسی طرح عمر بن خطاب کو خیبر فتح کرنے کے لیے بھیجا لیکن قلعہ خیبر فتح کرنے میں ناکام رہے پھر رسول خدا نے فرمایا: کل میں پرچم کو ایسے شخص کے ہاتھ دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اسکے رسول ان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے ہاتھوں خیبر فتح ہوگا۔ پھر امام علی علیہ السلام کو بلایا اور عَلم آپ کے ہاتھوں تھما دیا اور امام علی علیہ السلام نے خیبر کا قلعہ فتح کیا۔[65] پیغمبر اکرم نے اپنی عمر کے آخری ایام میں رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ایک فوج تیار کی جس میں ابوبکر کی طرح جانی پہچانی شخصیات موجود ہونے کے باوجود فوج کی کمانڈ اسامہ بن زید کے حوالے کیا۔[66]

سورہ برائت کی تبلیغ کا واقعہ

ابوبکر کی ذمہ داریوں میں سے متنازعہ ذمہ داری نویں ہجری کو حج کی سرپرستی اور سورہ برائت کی تبلیغ کرنا ہے ابن اسحاق کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے جنگ تبوک نویں ہجری ذی الحجہ کے مہینے میں ابوبکر کو حج کا سرپرست بنا کر مکہ روانہ کیا اور انکے مدینہ سے جانے کے بعد سورہ برا‎ئت نازل ہو‎ئی اور پیغمبر اکرم نے یہ کہہ کر کہ: ‎‎‎« صرف میرے ہی خاندان کا کو‎ئی شخص اس پیغام کو میری طرف سے پہنچا‎ئے گا» علی علیہ السلام کو اپنی اونٹ دیکر اس پیغام کو پہنچانے کے لیے مکہ بھیجا۔[67] مفسرین اور مورخین کے مابین موسم حج میں پڑھے گئےآیات کی تعداد، آیات پڑھنے کا محل، نازل ہونے کا وقت، ابوبکر کی حج سرپرستی سے معزول ہونا اور علی علیہ السلام کو انکی جگہ منصوب کرنے میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔[68]

جیش اسامہ کا واقعہ

ابوبکر، عمر، ابوعُبَیدہ جَرّاح و بعض دیگر جلیل القدر اصحاب کو پیغمبر اکرم کی حیات مبارک کے میں آخری سپاہ اسامہ میں شرکت اور مؤتہ شام کی طرف جانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔[69] واقدی [70] اور ابن سعد[71]کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے حجة الوداع کے بعد ابھی صفر کے چار دن باقی رہتے تھے بروز پیر روم کے ساتھ جنگ کا حکم دیا اور اگلے دن اسامہ کو بلایا اور لشکر کی سربراہی اسے سپرد کیا۔[72]لیکن پیغمبر اکرم کی تاکید اور اصرار کے باوجود لشکر نے حرکت نہیں کیا شروع میں اسامہ کی کم عمری کو بعض اصحاب نے بہانہ بنایا اور پھر سفر کے ساز و سامان مہیا کرنے کا بہانہ اور آخر میں پیغمبر کی بیماری شدید ہونے کی خبر اسامہ تک پہنچنا اور انکا مدینہ لوٹنا باعث بنا کہ ابوبکر، عمر اور بعض دیگر افراد پیغمبر اکرم کے صریح فرمان کے باوجود جُرف کے کیمپ سے واپس مدینہ آیے۔[73]

پیغمبر اکرم کی آخری عمر میں نماز جماعت کا واقعہ

جب پیغمبر اکرم کوشش کر رہے تھے کہ اسامہ کی فوج شام کی طرف روانہ ہوجا‌‎ئے اس وقت آپ کی بیماری اتنی شدید ہوگئی تھی کہ بلال نے آذان دیا لیکن آپ کے بدن میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ مسجد جاکر نماز پڑھا‎ئیں اس لیے اپنی جگہ کسی اور کو نماز پڑھانے کے لیے بھیجنا چاہا۔ لیکن یہ نماز کیسے اور کس کی امامت میں پڑھی گئی، پیغمبر اکرم کی امامت کے بغیر کتنی نمازیں پڑھیں گئیں، اور کیا ایک نماز بھی پوری طرح ابوبکر کی اقتدا‎ء میں پڑھی گئی یا نہیں، اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔۔[74] ایک روایت میں آیا ہے کہ جس دن پیغمبر اکرم سخت مریض تھے تو آپ نے فرمایا:«کسی کو بھیجدو اور علی کو میرے پاس بلا‎‎‎ؤ» تو عایشہ نے تجویز پیش کی کہ کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا جا‎ئے اور حفصہ نے کہا کہ کسی کو عمر کے پاس بھیجا جا‎ئے اسطرح سب پیغمبر اکرم کے پاس جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا: چلے جا‎‎‎ؤ، اگر تمہاری ضرورت ہوتی تو تمہیں بلا لیتا[75]۔ روایات میں موجود تمام اختلافات کے باوجود، نقل ہوا ہے کہ ابوبکر مسجد میں جاکر پیغمبر کی جگہ نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ لیکن اس نماز کی مخالفت میں پیغمبر اکرم کا عکس العمل بہت اختلاف کے ساتھ روایات میں ذکر ہوا ہے۔ عایشہ سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ جب ابوبکر نماز کی حالت میں تھا اسی وقت پیغمبر اکرم کی طبیعت کچھ ٹھیک ہوگئی تو آپ کھڑے ہوگئے اور دو آدمی کا سہارا لیتے ہو‎ئے مسجد پہنچے جبکہ آپ کے پا‎‎‎ؤں زمین پر کھینچے جارہے تھے، اور جیسے ہی ابوبکر نے آپ کی آمد کا احساس کیا تو اپنی جگہ سے ہٹ گیا لیکن پیغمبر اکرم نے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا جس جگہ پر ہو وہی کھڑے رہو۔ اور پھر پیغمبر اکرم، ابوبکر کے با‎ئیں طرف آکر بیٹھ گئے اور اس طرح پیغبمر اکرم نے بیٹھ کر اور ابوبکر نے کھڑے ہوکر نماز بجا لایا اور ابوبکر نے پیغمبر اکرم کی اقتدا میں نماز پڑھی اور لوگوں نے ابوبکر کی اقتداء کی۔[76]جبکہ بعض اہل سنت کے علماء، ابوبکر کی عظمت کو بڑھانے اور ابوبکر کو خلافت کیلیے دوسروں پرفوقیت دینے کے لیے اس حد تک آگے گئے ہیں کہ کہتے ہیں اس نماز میں پیغمبر اکرم نے ابوبکر کی اقتداء کی۔[77] اور یہ بات اہل سنت کے بعض بزرگ علماء کرام کو بھی ناگوار گزری کہ حنبلی مذہب کے بزرگ مفسر اور فقیہ ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزی، (۵۱۱-۵۹۷ق، ص۱۱۱۷-۱۲۰۱م) کو آفة اصحاب الحدیث کے نام سے اس بات کے رد میں ایک کتاب لکھنا پڑی۔[78]

شیعوں کا نظریہ

شیعہ علماء کرام نے پیغمبر اکرم کی بیماری کے دوران ابوبکر کی نماز پر کئی جہات سے اعتراض کیا ہے۔

  1. اگرچہ عایشہ سے اس موضوع پر منقول احادیث پر تقریبا اتفاق ہے لیکن یہ روایت تواتر تک نہیں پہنچتی ہے اور اس لیے کسی بھی مورد میں اس کے ذریعے سے دلیل قا‎ئم نہیں کرسکتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی احتمال دیا جاسکتا ہے کہ اس روایت میں عایشہ نے اپنی نفع میں بات کی ہو۔
  2. سیرت لکھنے والے اور مورخین کے اجماع کے مطابق[79]، ابوبکر ان دنوں پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق مدینہ کے بجا‎ئے جرف کے کیمپ میں اسامہ کی لشکر میں ہونا چاہیے تھا اسی لیے جو نماز مدینہ میں اگر اس نے پڑھا‎ئی ہے تو وہ پیغمبر اکرم کے حکم سے نہیں تھی اور چند شواہد بھی اس بات کی تا‎ئید کرتی ہیں۔

الف) اس روایت کے مطابق کہ جس میں علی علیہ السلام کو بلانے کا حکم دیا تھا لیکن کسی نے آپ کی بات نہیں سنی اور ان کے بجا‎ئے ابوبکر، عمر اور عباس حاضر کئے جاتے ہیں۔[80] ب) پیغمبر اکرم ناتوان اور نحیف ہونے کے باوجود دو آدمی (علی(ع) اور فضل بن عباس) کے سہارے سے مسجد میں حاضر ہوکر خود نماز پڑھانا۔[81]

ان تمام باتوں کے باوجود شیعہ علماء کے مطابق اگر آنحضرت کی بیماری کے وقت، ابوبکر کی نماز سے متعلق روایات کو صحیح مان لی جا‎ئیں تو بھی یہ ابوبکر کی فضیلت اور برتری کی دلیل نہیں بن سکتیں چونکہ اس سے پہلے بھی آپ نے دوسرے کئی اصحاب ابوعبیدہ جراح، عمرو عاص، خالد بن ولید، اسامہ بن زید اورعلی علیہ السلام کو کئی بار نماز پڑھانے پر مامور کیا تھا اور ایک بار خود ابوبکر کو بھی مامور کیا تھا کہ لوگوں کو نماز پڑھا‎ئے۔ [82]

سقیفہ

شیعہ محدثین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ 28 صفر سنہ گیارہ ہجری قمری بروز پیر رحلت فرما گئے اور یہ خبر اس وقت کے محدود مدینے میں ایک دم سے پھیل گئی اور شاید بعض لوگوں نے تو جب بیماری میں شدت آگئی تھی، اور اسی بیماری کی وجہ سے رحلت کا احتمال دیتے ہو‎ئے انہی دنوں سے حکومت اپنے ہاتھ لینے کیلیے دل میں کچھ نیتیں کی تھیں، تقریبا اس خبر کے سننے کے فورا بعد جس وقت امام علی(ع)، فضل بن عباس اور دیگر چند لوگ آپ کو غسل دینے میں مصروف تھے تو اقدامات شروع کئے سعد بن عبادہ، خزرجیوں کے سربراہ بیماری اور بخار کی حالت میں (اوس و خزرج) کے انصار کے ایک گروہ کے درمیان سقیفہ بنی ساعدہ میں بیٹھا تھا اور ایک شخص اس کی ترجمانی کرتا ہوا انصار کی فضیلت اور مہاجروں پر انکی برتری کے گن گاتا تھا۔

سقیفہ میں کیا ہوا اور کونسی باتیں رد و بدل ہوگئیں اس بارے میں روایات مشہور ہیں۔ منابع میں تصریح ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر کا انتخاب بڑی بحث و جدل کے بعد ہوا ہے یہاں تک کہ انصار میں سے حباب بن منذر نے مہاجروں پر تلوار کھینچی اور سعد بن عبادہ جو تقریبا خود پیروں تلے دبا جارہا تھا اور عمر کی داڑھی پکڑ کر کھینچ رہا تھا۔[83]اس کے بعد مہاجروں سے وابستہ قبیلہ بنی اسلم مکہ میں داخل ہو‎ا اور ابوبکر کی بیعت کی اور اسی قبیلے نے مدینہ کے لوگوں کی بیعت کو آسان کردیا۔[84] عمر [85]سے روایت ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر کی بیعت ایک جلدپنی اور بے سابقہ کام تھا کہ اللہ تعالی نے اس کے شر سے لوگوں کو بچایا۔[86]

شیخ مفید نے اس کامیابی کی علت کو بہت ہی مختصر چند جملوں میں یوں خلاصہ کیا ہے: علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے تجہیز و تدفین کے کاموں میں مشغول ہونا، بنی ہاشم کا پیغمبر کی رحلت کی وجہ سے مغموم، اور میدان سے دور ہونا، انصار کا باہمی اختلاف، «طلقا اور مؤلفہ قلوبہم» کا اس کام کو مؤخر کرنے سے انکار۔[87]

خلافت کا آغاز

سقیفہ کے حادثے کے ایک دن بعد ابوبکر مسجد گیا اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد کہا: « اے لوگوں میں آپ میں سے بہترین نہیں ہوں اس کے باوجود تم پر ولایت ملی ہے۔ میرے اچھے کاموں میں مدد کریں اور اگر غلط راستے پر چلا تو میری ہدایت کریں۔۔۔۔۔ آپ میں سے کمزور شخص میرے پاس کمزور ہے اور ان شاء اللہ اس تک اسکا حق پہنچا دونگا۔ اور آپ میں سے قدرتمند شخص میرے پاس کمزور ہے ان شاء اللہ اس سے حق لونگا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کو کو‎ئی بھی کم اہمیت نہ سمجھے، جو بھی قوم جہاد کو اہمیت نہ دے گی اللہ تعالی انہیں خوار کرے گا۔۔۔۔ جب تک میں اللہ اور اسکے رسول کی پیروی کرونگا میری اطاعت کریں اور جب اللہ اور اس کے رسول کے فرمان سے دور ہوا تو تم لوگوں پر اطاعت کا حق نہیں رکھتا۔ نماز پڑھیں اللہ تم پر رحمت کرے گا۔۔»[88]

ایک اور خطبے میں حمد و ثنا کے بعد کہتا ہے:

«اے لوگو، میں بھی تم جیسا ہوں۔ پیغمبر اکرم جو کچھ کر سکتے تھے اسکی مجھ سے توقع رکھتے ہو، محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اللہ نے دنیا والوں سے چن لیا اور خطاوں سے معصوم تھے لیکن میں انکا تابع ہوں مبدع نہیں۔ اگر صراط مستقیم پر رہا تو میری اطاعت کریں اور اگر خطا کرگیا تو مجھے سیدھے راستے پر لا‎ئیں۔۔۔۔ آگاہ رہو میرا ایک شیطان ہے جو کبھی مجھے گھیر لیتا ہے جب بھی وہ میرے پاس آیا تو مجھ سے دور رہو۔۔۔۔[89]

یہ خطبے اہل سنت کے محققین اور علما کی نظر میں ابوبکر کی انکساری، ادب اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی علامت اور آیندہ آنے والوں کو حکومت کرنے کے لیے بہترین راہنما‎ اصول ہیں [90]، جبکہ شیعہ علما ان خطبو‌ں کے بعض حصوں کو مطاعن ابوبکر اور اس کے خلافت کے لیے نا لایق ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں اور ان کے اپنے عقیدے کے مطابق اصل امامت کی بحث کی ہے۔[91] اس میٹینگ میں اگرچہ ابوبکر کی خلاقت یقینی ہوگئی لیکن مہاجر اور انصار کے ایک گروہ نے اس کی بیعت سے انکار کردیا ان میں سے بعض کے نام جو منابع میں ذکر ہو‎ئے ہیں یہ ہیں۔: علی(ع)، سعد بن عبادہ، عباس بن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام، خالد بن سعید، مقداد بن عمرو، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، براء بن عازب، ابی بن کعب، حذیفہ بن یمان، خزیمہ بن ثابت، ابو ایوب انصاری، سہل بن حنیف، عثمان بن حنیف، ابو الہیثم بن التیہان، سعد بن ابی وقاص اور ابوسفیان بن حرب۔[92] ان میں سے سعد ابن عبادہ خود خلافت کا مدعی تھا اور ابوسفیان اور اس کے حامی دنیوی مقاصد رکھتے تھے[93] جن ادلہ کی وجہ سے سقیفہ میں ابوبکر کو خلافت کے لیے ترجیح دیا تھا؛ یعنی اسلام میں پہل کرنا، اسلام کے لیے خدمات اور رسول سے قرابت، انہی کی وجہ سے ایک گروہ علی علیہ السلام کی خلافت کو مستند کرتے تھے۔ اور علی علیہ السلام اور بنی ہاشم صرف مخالفوں کو ان کے اپنے دلا‎ئل پر عمل پیرا کرنے کے لیے احتجاج کرتے تھے۔ [94] اور خلافت کو علی (ع) کا حق سمجھتے تھے اور شیعیان علی کا ایک اور گروہ اسلامی معاشرے کی رہبری اور پیغمبر کی جانشینی کا مسئلہ مذہبی عالیترین مقام سمجھتے تھے آیہ «اِنَّ اللّہ اصْطَفی آدَمَ وَ نوحاً وَ آلَ اِبْراہیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمینَ، ذُرّیہ بَعْضُہا مِنْ بَعْضٍ…»[95] سے تمسک کرتے ہو‎ئے قا‎ئل تھے کہ حضرت محمد ؐ اور اسکی خاندان حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے ہیں اور انہی فضایل کے مالک ہیں [96] اور اسی طرح آیہ «اِنَّما وَلیکُمُ اللّہ وَ رَسولُہ وَ الَّذینَ آمَنوا الّذینَ یقیمونَ الصّلوہ وَ یؤتونَ الزّکوہ وَہمْ راکِعونَ»[97] اور دوسری چند آیتیں[98]، اسیطرح متواتر روایتوں حدیث‌دار[99]، حدیث منزلت[100] و حدیث غدیر[101]، سے استناد کرتے ہو‎ئے، خلافت میں «نص اور تعیین» کے قا‎ئل تھے۔[102]

سعد بن عبادہ نے اپنی عمر کے آخری لمحے تک ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور عمر کی خلافت کے دوران شام کی طرف سفر کیا اور حوران کے مقام پر رات کی تاریکی میں مقتول پایا گیا۔[103] لیکن بلاذری نے مدائنی، ابومخنف اور کلبی سے ایک روایت میں ذکر کیا ہے کہ عمر نے ایک مرد کو حوران بھیجا اور اسے حکم دیا کہ سعد بن عبادہ کو لالچ دیکر بیعت لیں اور اگر قبول نہیں کیا تو اس کے خلاف اللہ سے مدد مانگو۔ یہ مرد سعد سے ملا اور اس سے بیعت نہ لے سکا تو اسے ایک تیر مار کر قتل کردیا۔ بلاذری اس کے بعد ایک مشہور روایت کو ذکر کرتا ہے جس کے مطابق سعد جنّوں کے ہاتھوں مارا گیا۔[104]

امام علی(ع) سے بیعت لینا

اکثر تاریخی روایات امام علی علیہ السلام، ابوبکر کی بیعت پر راضی نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور یہ روایات علی علیہ السلام کا بیعت سے انکار اور بیعت لینے کے لیے آپ، آپ کے گھر والے اور دوستوں پر دبا‎‎‎ؤ ڈالنا اور تشدد کرنے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں اور بیعت سے انکار پر تصریح کرتی ہیں۔۔[105]

ابن قتیبہ دینوری کی دو روایتیں

الامامہ والسیاسہ میں دو روایتیں نقل ہو‎ئی ہیں جو دوسری روایات کی نسبت زیادہ جامع ہیں: پہلی روایت میں یوں آیا ہے: عمر اسید بن حضیر اور سلمہ بن اسلم سمیت ایک گروہ کے ساتھ علی علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا اور آپ اور بنی ہاشم سے ابوبکر کی بیعت کیلیے مسجد آنے کا کہا لیکن انہوں نے نہیں مانا اور زبیر بن عوام تلوار لیکر باہر آیا تو عمر کے حکم سے سلمہ آگے بڑھا اور اس سے تلوار چھین کر دیوار پہ دے مارا اور وہ لوگ زبیر کو اپنے ساتھ لے گئے اور زبیر نے بیعت کی اور بنی ہاشم نے بھی بیعت کیا لیکن امام علی علیہ السلام ابوبکر کے سامنے کھڑے ہوگئے اور جن باتوں کو ابوبکر نے انصار کے سامنے اپنی خلافت کے لیے پیش کیا تھا انہی باتوں کو دہراتے ہو‎ئے خلافت کو اپنا حق قرار دیا۔ عمر نے کہا: جب تک تجھ سے بیعت نہیں لونگا چین سے نہیں رہوںگا۔ علی علیہ السلام نے کہا: خلافت کے دودھ کو صحیح سے دھو لو شاید تجھے بھی کچھ حصہ ملے اور آج اس کے لیے حکومت فراہم کرو تاکہ وہ کل تیرے حوالے کرے۔ پھر ابوبکر نے کہا اگر تم بیعت نہیں کرنا چاہتے ہو تو میں تمہیں مجبور نہیں کرونگا اسوقت ابوعبیدہ جراح نے امام علی علیہ السلام کو خلافت، ابوبکر کے حوالے کرنے کی نصیحت کی تو امام علیہ السلام نے اپنی اور اہل بیت کی خلافت کے لیے حقانیت پر مہاجرین کو مخاطب کیا اور انکو خواہشات نفس کی پیروی اور راہ خدا سے منحرف ہونے سے ڈرایا۔ بشیربن سعد انصاری نے علی علیہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر انصار ابوبکر کی بیعت سے پہلے آپ کی یہ باتیں سن لیتے تو دو نفر بھی آپ کے بارے میں شک نہیں کرتے۔ رات کو علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا‎ء کو سواری پر بٹھا کر انصار سے مدد مانگنے چلے گئے لیکن وہ کہتے تھے: اے دختر پیغمبر خدا اگر آپ کے شوہر ابوبکر سے پہلے آکر ہم سے بیعت مانگتے تو ہم ان کو ابوبکر کے برابر نہیں جانتے۔۔۔۔[106]

دوسری روایت میں شاید پہلی روایت کا کچھ حصہ آگے پیچھے ہو کر ذکر ہوا ہے۔ جسمیں یوں ذکر ہوا ہے: جن لوگوں نے بیعت سے انکار کر کے علی علیہ السلام کے پاس گئے تھے ابوبکر نے انکے بارے میں سوالات کیا اور عمر کو ان کے پاس بھیجا۔ عمر علی علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا اور انکو بلایا لیکن وہ لوگ باہر نہیں آ‎ئے۔ پھر عمر نے لکڑی مانگا[107]اور کہا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، اگر باہر نہیں آ‎ئے تو گھر کو افراد سمیت آگ لگا دونگا۔ اسے کہا گیا: اے ابو حفص، اگر فاطمہ اس گھر میں ہو تو کیا کرو گے؟ کہا: اگر وہ موجود ہو تو بھی آگ لگا دونگا۔۔[108] پھر علی علیہ السلام کے علاوہ سب باہر آ‎ئے اور بیعت کی۔۔۔۔[109] ان مطالب کے بعد، جو کچھ رونما ہوا اس کی تفصیل، یعنی علی علیہ السلام کا پیغام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے غضبناک کلمات، علی سے بیعت لینے کے لیے پے درپے عمر کی طرف سے ابھارے ہو‎ئے گروہوں کو بھیجنا، علی کو مسجد لے جانا، قتل کی دھمکی، علی علیہ السلام کے تند کلمات، حضرت فاطمہ کا آہ و نالہ اور بد دعا، اور آخر کار ابوبکر کا رونا اور بیعت واپس لینے کی درخواست کا ذکر ہوا ہے۔۔[110]

امام علی علیہ السلام کے حامیوں نے بیعت کے دوران علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں اپنا عقیدہ اور احساسات کا اظہار کیا۔ سلمان فارسی کے بعض کلمات جو بعض فارسی میں ہیں اور بعض عربی میں جنکو اہل سنت کے منابع میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کرداذ و ناکرداذ یعنی کیا اور نہیں کیا ہے، اگر علی کی بیعت کرتے تو ہمیشہ فایدے میں تھے۔۔[111]

بعض منابع میں کچھ سیاسی یا عقیدتی مصلحتوں کی وجہ سے اس روایت کو کامل بیان کرنے بلکہ اس کی طرف اشارہ کرنے سے بھی گریز کیا ہے۔ لیکن دانستہ یا نادانستہ طور پر ابوبکر کے بیماری کے بسترے پر کہے ہو‎ئے جملے ذکر کر کے ان باتوں کی تا‎ئید کی ہے۔ روایات کے مطابق ابوبکر نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں کہا ہے : ہاں، جو کچھ دنیا میں انجام پایا ہے اس پر افسوس نہیں کرتا ہوں، صرف تین ایسے کام کیا ہوں کاش انکو انجام نہ دیا ہوتا۔۔۔ کاش فاطمہ کے گھر کو اگر جنگ کی قصد سے ہی بند کیا تھا تو بھی اس کو نہ کھولتا۔۔۔۔[112]اسی طرح جب بنی ہاشم نے عبد اللہ بن زبیر کی بیعت سے انکار کیا تو اس نے بھی انکو جلانے کی دھمکی تو اس کے بھا‎ئی عروہ بن زبیر نے اس کام کو توجیہ کرنے کے لیے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملے کا واقعہ سے استناد کیا۔[113] باوجود اس کے کہ عمر ابن خطاب مسجد نبوی کی منبر سے سقیفہ کی گزارش دیتے ہو‎ئے کہتا ہے: «علی، زبیر اور چند دیگر لوگ ہم سے منہ پھیر کر فاطمہ کے گھر پر جمع ہو‎ئے تھے»[114] اس بات سے وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ علی نے بیعت سے انکار کیا ہے اور ایک گروہ آپ سے ملحق ہو‎ئے ہیں۔ لیکن اہل سنت کے مورخین، صرف بعض کے علاوہ اس بات کو بیان کرنے اور تفصیل ذکر کرنے کی طرف ما‎ئل ہوتے نظر نہیں آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک روایت میں جس کے سلسلہ سند میں سیف کا نام بھی نظر آتا ہے۔[115]، یوں ذکر ہوا ہے: جب علی نے سنا کہ ابوبکر بیعت لے رہا ہے تو تاخیر کے خوف سے جلدی سےایک قمیص پہن کر ردا اور ازار کے بغیر مسجد پہنچے تاکہ بیعت کرسکے اور جب ابوبکر کی ساتھ بیٹھ گئے تو کسی کو گھر بھیجا تاکہ کپڑوں کو مسجد لاسکے۔۔[116]

بیعت کے دوران

علی علیہ السلام کی بیعت سے انکار اور ابوبکرکی بیعت کی کیفیت اور زمان کے بارے میں روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض آپس میں متناقض بھی ہیں۔ اور اس حادثہ کی شرح مختلف منابع میں کچھ کچھ ذکر ہوا ہے اور چونکہ ہر روایت کو جدا اور دوسری روایت سے بغیر ارتباط کے درج کیا ہے اور واقعات کی ترتیب معین نہیں ہے اس لیے یہ معلوم نہیں ہوسکتا ہے کہ امام علی اور اپکے چاہنے والوں سے بیعت، سقیفہ کے فورا بعد مسجد میں پہنچ کر مانگا یا عمومی بیعت کے بعد، یا پیغمبر اکرم کے دفن کے بعد۔[117]

ان روایات کو دو گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک گروہ مختصر اختلاف کے ساتھ اس بات کی حامل ہیں کہ عمومی بیعت کے بعد علی علیہ السلام نے رضایت سے یا مجبوری سے ابوبکر کی بیعت کی ہے۔[118]بعض تاریخی نقل کے مطابق حضرت علی نے چھ مہینے تک ابوبکر کی بیعت سے اجتناب کیا۔[119] اور بعض روایات میں آیا ہے کہ جب تک امام علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی بنی ہاشم میں سے کسی ایک نے بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔[120]اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد میں یہ لوگ اور امام علی علیہ السلام کے کچھ پیروکاروں جیسے حُذیقہ بن الیمان، خزیمہ بن ثابت، ابوایوب انصاری، سلمان، ابوذر، خالدبن سعید و۔۔۔ نے ابوبکر کی بیعت کی۔[121]

بیعت کی وجہ

جس چیز نے علی کو ابوبکر کی بیعت پر مجبور کردیا، ارتداد کی بڑھتی ہو‎ئی شرح، مختلف قبا‎ئل کی نافرمانیاں اور جزیرہ عرب پر جھوٹے پیغمبر کے دعویدار کا ظہور تھا۔[122]بعض منابع میں سیاسی دبا‎‎‎ؤ اور جان کے خطرے کے احتمال کو بیعت قبول کرنے میں موثر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ روایت ہے کہ ایک دن ابوحنیفہ نے مومن طاق سے پوچھا اگر خلافت علی کی مشروع حق تھی تو اپنا حق لینے کے لیے قیام کیوں نہیں کیا؟ آپ نے جواب دیا: ڈر گئے کہیں جنات سعد ابن عبادہ کی طرح انکو بھی قتل نہ کردیں!۔[123]

فدک

ابوبکر کے اقدامات میں سے ایک، خلافت کے ابتدا‎ئی دنوں میں فدک کو چھیننا تھا۔[124]بعض اہل سنت کے منابع نے فدک چھینے، فاطمہ کا اعتراض، اپنی حق کا مطالبہ، ابوبکر کا جواب اور پیغمبر کی بیٹی کا ان پر غضبناک ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[125] اور بعض نے مختلف روایات کو نقل کر کے اس موضوع کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔۔[126]

شیعہ محققین نے اہل سنت کے منابع سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ جب سے ابوبکر کے حکم سے فدک چھینا گیا فاطمہ زہرا نے اپنی مختصر عمر کے آخری ایام تک مدینہ کے لوگوں کے حضور میں بار بار فدک پر اپنا حق ثابت کیا ہے۔ اسی طرف ابوبکر کے گماشتوں کا علی سے بیعت لینے کے لیے فاطمہ کے گھر پر حملہ نے فاطمہ کو اتنا ناراض کرایا کہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ابوبکر سے بات نہیں کی اور ابوبکر اور عایشہ کو اپنے جنازے میں شرکت اور تشییع جنازہ سے بھی منع کیا۔۔[127]

کہا جاتا ہے کہ ایک بار ابوبکر حضرت فاطمہ کی دلیلوں کو سننے کے بعد روتا ہو‎ا فدک پر فاطمہ کی ملکیت کی سند تیار کیا لیکن عمر کو اس موضوع کی خبر ملی تو ابوبکر پر اعتراض کیا اور سند کو اس سے لیے کر پھاڑ دیا۔[128] اہل سنت کے بعض علما نے فدک چھیننے کو اجتہاد اور خلیفہ کے اختیارات میں سے قرار دیا ہے۔ لیکن ابوبکر کے دور میں چھینی ہو‎ئی املاک میں سے صرف یہی فدک تھا جبکہ اس کے مقابلے میں بیت المال سے اپنی خلافت کو مستحکم کرنے کے لیے جو بذل و بخشش کا ذکر ہوا ہے، اسی لیے شیعوں نے اس پر تنقید کی ہے۔ اور فاطمہ کی ناراضگی، پیغمبر اکرم کی ارشادات کے سا‎ئے میں اللہ اور اسکے رسول کو ناراض کرانا ہے، کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور ابوبکر کے عیوب میں سے شمار کیا ہے۔[129]

جیش اسامہ کا بھیجنا

فدک ضبط کرنے کے بعد ابوبکر کی حکومت کا پہلا یا دوسرا اقدام جیش اسامہ کو تیار کرنا تھا جزیرہ العرب میں بحران کے باوجود (بعض قبا‎ئل کا مرتد ہونا، جھوٹے نبیوں کے دعویداروں کا ظہور ہونا، یہود اور نصاری کی بغاوتیں اور دوسری افراتفریوں کے باوجود اور اپنے دو مشاور عمر اور ابوعبیدہ کے نظریے کے برخلاف کہ وہ جیش اسامہ کو اس حساس دور میں بھیجنا مناسب نہیں سمجھتے تھے؛ شاید پیغمبر کے احکام کو جاری کرنا ضروری سمجھتا تھا اور مخالفوں کو جواب میں یوں کہا: « اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے درندوں کی طرف سے جان کا خوف ہو تب بھی اسامہ کی فوج کو پیغبمر کے حکم کے مطابق روانہ کرونگا۔۔۔۔»۔[130]


جزیرہ‌العرب سے باہر کی فتوحات

ردّہ کی جنگ اور اندرونی خلفشار پر قابو پانے کے بعد ابوبکر نے عراق اور شام پر قبضہ کرتے ہو‎ئے اسلامی مملکت کی سرحدوں میں توسیع دینا چاہا۔

ایران پر حملہ

ابوبکر کی خلافت کے دوران داخلی بحران اور مسلسل بادشاہ تبدیل ہونے کی وجہ سے تیسفون میں ساسانیوں کی حکومت کمزور ہو‎ئی تھی اور ختم ہونے کو تیار تھی۔ ایک مسلمان بناممثنی بن حارثہ مدینہ آ‎یا اور خلیفہ سے ایران پر حملہ کرنے کی درخواست کی۔ ابوبکر نے پہلے خود اسی شخص کو اس کام پر مامور کیا لیکن بعد میں خالد بن ولید کو حکم دیا کہ عراق چلا جا‎ئے اور مثنی کو بھی ایک خط کے ذریعے لکھا کہ وہ بھی خالد سے ملے اور اسکی پیروی کرے۔[131]ان جنگوں میں ساسانی کمانڈروں پر بہت جلدی کامیابی ملی اور ایران کے مختلف علاقے فتح کئے اور ۱۲ صفر کے مہینے میں حیرہ نامی شہر پر قبضہ بھی کیا۔[132]

شام پر حملہ

۱۲ہجری قمری کو ابوبکر نے شام پر حملہ کرنے کے لیے افراد اور جنگی سازوسامان تیار کرنا شروع کیا[133] ایک فوج تیار کی۔ اور اس فوج نے شام میں کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی۔۔[134]ان کامیابیوں کی وجہ سے بیزانس بادشاہ نے ایک بہت بڑی فوج تیارکیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں بھیج دیا اور یرموک کے مقام پر دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو‎ئیں۔ مسلمانوں نے ابوبکر سے مدد مانگی خلیفہ نے خالد بن ولید کو عراق سے شام جانے کا حکم دیا۔[135]روم کے بعض فوجیوں پر صوبہ حوران کے شہر بصری اور اجنادین میں کامیابی کے بعد خالد یرموک پہنچا اور جنگ کی کشمکش میں مدینہ سے عمر کی طرف سے خط لیکر ایک قاصد یرموک پہنچا جسمیں ابوبکر کی موت، عمر کی خلافت اور شام کی جنگی فوج کی سپہ سالاری سے خالد کو عزل کر کے ابوعبیدہ منصوب کرنے کی خبر تھی لیکن مسلمانوں کی کامیابی تک اس خبر کو مخفی رکھا۔۔[136]

قرآن کی جمع‌آوری

پیغمبر اکرم کی رحلت اور مختلف حوادث جیسے (۱۱ ہجری قمری) کو یمامہ کے واقعہ کی وجہ سے بہت سارے صحابی اور قاری قرآن قتل ہونے کے بعد، مسلمانوں نے قرآن کی جمع آوری کا شدت سے احساس کیا۔ اس بارے میں مختلف روایات کی روشنی میں، صحیح اطلاعات تک پہنچنا بہت دشوار ہے یہاں تک کہ اس بارے میں ابوبکر کے کردار کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ بخاری میں زید بن ثابت سے نقل ہوا ہے: یمامہ میں قتل و کشتار کے بعد ابوبکر، عمر کے مشورے سے زید کو بلاتا ہے۔ اور قرآن کی جمع آوری اس کے ذمے لگاتا ہے اور زید کچھ عرصہ سوچنے کے بعد اس کام کو شروع کرتا ہے اور آیات اور سورتوں کو ہر جگہ سے جمع کرتا ہے۔ جن میں سے بعض سورتیں اور آیتیں خرما کے پتوں اور سفید پتھر پر درج تھے جبکہ بعض، لوگوں کے سینوں میں تھے۔ مثلا سورہ توبہ کی آخری دو آیتوں کو خزیمہ بن ثابت (ذوشہادتین) کے پاس پاتا ہے۔[137]اسی لیے اس صحف کی روایت ابوبکر کے پاس تھی پھر اسکے بعد عمر کے پاس پہنچی اس کے مرنے کے بعد عمر کی بیٹی، حفصہ کے پاس پہنچی۔ [138]دوسری روایات کے مطالعے سے زید کے مصحف کے بارے میں، اسکی جمع آوری کی کیفیت، زید کے مشاور اور دوستوں، اور نیز کن صحیفوں سے اس نے استفادہ کیا ہے اور۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے۔ اسی روایات کی وجہ سےعثمان نے اس مصحف کو حفصہ سے امانت لیا اور دوسرے مصحفوں کے جلانے کے باوجود یہ مصحف حفصہ کو واپس کردیا۔ معاویہ کے دور خلافت میں، مروان بن حکم (حک ۶۴-۶۵ق، ص۶۸۳-۶۸۴م) جب مدینہ کا گورنر تھا اس نے حفصہ سے یہ نسخہ مانگا لیکن اس نے دینے سے انکار کردیا حفصہ(۴۵ق، ص۶۶۵م) مرنے کے بعد یہ نسخہ عبداللہ بن عمر کو ملا اورمروان نے پھر کسی کو بھیجا اور عبد اللہ سے لانے کے بعد اسکو جلانے کا حکم دیا تاکہ عثمانی مصحفوں میں کسی قسم کا شبہہ ایجاد نہ ہوجا‎ئے۔[139]

حکومت کرنے کا طریقہ

ابوبکر نے اپنے اس مختصر دور خلافت میں کو‎ئی اہم کام نہیں کیا اور کسی نظام کی بنیاد نہیں رکھ سکا بلکہ خلافت کا بیشتر وقت جنگوں میں گزرا۔[140]وہ اپنی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھآ کہ وہ قرآن اور پیغمبر اکرم کی سنت کی پیروی کرتا ہے۔ بعض اقدامات جیسے جیش اسامہ کو اکثر صحابیوں کی مخالفت کے باوجود بھیج دینا اس بات پر گواہ ہے۔ لیکن حکومت کی مصلحت اقتضا کرتی تو اجتہاد بالرای سے مشکلات کو حل کرتا تھا۔ ابن سعد ابن سیرین سے نقل کرتے ہو‎ئے لکھتا ہے۔ پیغمبر اکرم کے بعد اجتہاد بالرای کرنے میں ابوبکر سب سے زیادہ دلیر تھے۔ ابوبکر کہتا تھا کہ میں اپنی رای میں اجتہاد کرتا ہوں اگر یہ رای حق کے مطابق ہو تو خدا کی طرف سے ہے اور خطا ہو تو میری طرف سے ہے اور اس سے معافی مانگتا ہوں۔[141] اگر چہ مشہور ہے کہ دیوان عطا پہلی بار عمر کی خلافت میں تاسیس ہوا[142]لیکن منابع میں جو آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کے دور میں ایک طرح کا دیوان عطا موجود تھا۔ اور ابن سعد [143] اور ابن اثیر[144] کے کہنے کے مطابق ابوبکر مدینہ منتقل ہونے تک بیت المال سنح میں تھا اور اس پر کو‎ئی چوکیدار بھی نہیں تھا چونکہ جو کچھ بیت المال پہنچتا تھا اسی وقت مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا اور کچھ باقی نہیں رہتا تھا۔ اور مدینہ منتقل ہونے کے بعد بیت المال اپنے گھر پر بنادیا۔ ابویوسف کے بیان کے مطابق ابوبکر کی خلافت کے پہلے سال بحرین سے کچھ رقم بیت المال پہنچی تو اس سے کچھ مقدار ان لوگوں میں تقسیم کیا جن کو پیغمبر اکرم نے کچھ دینے کا وعدہ دیا تھا۔ اور باقی رقم کو چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور مرد، عورت میں برابر تقسیم کردیا جو ہر شخص کو سات درہم اور ایک درہم کا ایک تہا‎ئی حصہ ملا۔ اگلے سال زیادہ مال پہنچا تو ہر ایک کو 20 درہم مل گئے۔ اس کام میں بھی ابوبکر نے پیغمبر ؐ کی سنت پر عمل کیا تھا۔ اور شرافت اور ماضی کو مدنظر رکھ کر تقسیم کرنے کی تجاویز کو قبول نہیں کیا۔ ابن سعد کہتا ہے۔[145] ابوبکر مرنے کے بعد عمر نے بزرگوں اور معتمد شخصیات کی موجودگی میں بیت المال کو کھولا تو ایک تھیلی سے گری ہو‎ئی ایک دینار کے سوا کچھ نہیں پایا۔ [146]

حکومتی عہدے دار

ابوبکر کی خلافت کے دو سال اور کچھ مہینے جنگ میں گزر گئے جبکہ ایران اور شام کے ساتھ جنگ جاری تھی اور ابوبکر مرگیا۔ اسی لیے اس کی حکومت کے اکثر ذمہ داران فوجی سپہ سالار تھے۔ کتابوں میں اس کی حکومت کے ذمہ داروں کو یوں بیان کیا ہے۔ عمر بن خطاب کو عدلیہ کا عہدہ؛ ابوعبیدہ کو بیت المال کا انچارج عتّاب بن اسید مکہ کا عامل؛ عثمان بن ابی‌العاص کو طائف کا عامل اور۔۔۔۔ زید بن ثابت اور عثمان بن عفان کتابت کے امور کو نبھاتے تھے۔[147] طبری کے مطابق، زید اور عثمان صرف خبروں کو لکھتے تھے۔[148] جب بھی ابوبکر مدینہ میں نہیں ہوتے تھے تو نماز پڑھانے کی ذمہ داری عمر کو دی جاتی تھی، عثمان اور اسامہ میں سے کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین بناتا تھا۔[149] یعقوبی نے ابوبکر کے دور کے فقہاء کے نام کو یوں بیان کیا ہے: علی(ع)، عمر بن خطاب، معاذ بن جبل، اُبّی بن کعب، زید بن ثابت اور عبداللہ بن مسعود۔[150]

جانشین معین کرنا

عمر کو جانشین منتخب کرنے کی گزارش اس وقت کی دوسری گزارشات کی طرح مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر روایات میں یہ بات نقل ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر نے بعض اصحاب جیسے عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص اور دوسرے بعض اصحاب، بیوی، بیٹی عایشہ اور بیٹوں سے مشورت کیا ہے اور ان تمام روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابوبکر، عمر کو اپنا جانشین بنانے میں مصمم تھے کیونکہ عمر کی جانشینی کی مخالفت کرنے والے ہر مشاور کی بات کو رد کرتے تھے۔[151] اس کے علاوہ دیگر کچھ شواہد بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر پہلے ہی سے یہ نیت کرچکے تھے اس کہ مثالوں میں؛ سقیفہ میں عمر کو خلافت کی تجویز دینا؛ نماز کی امامت اور عدلیہ کو عمر کے سپرد کرنا انکی نظر میں عمر کی دوسروں پر برتری کی بہت اہم دلیل ہے اور معاشرے کی امامت کے برابر ہے؛ عمر کو مدینہ میں خلیفہ کا مددگار اور یاور کے عنوان سے مدینہ میں رکھنے کے لیے اسامہ سے اجازت لینا

طبری [152] اور ابن حبان[153] کی گزارش کے مطابق ابوبکر نے عثمان کو تنہا‎ئی میں بلایا اور کہا: «لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ ابوبکر بن ابی قحافہ کا مسلمانوں سے وعدہ ہے، اما بعد۔۔۔»۔ ابوبکر یہی پر اسی حالت میں بےہوش ہوگیا اور عثمان نے اپنی طرف سے لکھا: «اما بعد، میں نے عمر بن خطاب تم پر اپنا جانشین معین کیا ہے اور تم لوگوں کے ساتھ اچھا‎ئی کرنے میں کو‎ئی کسر باقی نہیں رکھا ہے»۔ جب ابوبکر کو ہوش آیا اور کہا: پڑھو کیا لکھا ہے۔ عثمان نے جو کچھ لکھا تھا پڑھ لیا اور ابوبکر نے جب عمر کا نام سنا تو زبان پر تکبیر جاری کیا اور کہا: کیا تمہیں اس بات کا خوف تھا کہ اگر میں ہوش میں نہ آتا تو لوگوں میں اختلاف ہوجاتا؟ عثمان نے کہا: جی ہاں۔ یعقوبی [154] اور ابن قتیبہ[155] کی روایت میں ابوبکر بیہوش ہونے کا کو‎ئی ذکر نہیں ہے اور دونوں روایات میں عہد نامہ کا متن دوسرے منابع سے مختلف ہے اور آپس میں بھی بہت اختلاف ہے۔ ابن قتیبہ کی روایت میں یہ متن مفصل اور اس نکتے پر حامل ہے کہ: میرے پاس علم غیب نہیں لیکن میرا گمان یہ ہے کہ وہ عادل شخص ہے اور اگر اس کے برخلاف ہو تو خدا جانتا ہے کہ میرا قصد خیر۔[156] ابن حبان نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ عثمان کی زبان سے عہدنامہ کا متن سننے کے بعد ابوبکر نے عثمان کے لیے دعا کیا اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا: خدایا، پیغمبر کی طرف سے کو‎ئی حکم کے بغیر اسکو ولایت دیا ہوں اور اس کام میں لوگوں کی صلاح اور فتنہ سے بچانے کے سوا اور کو‎ئی غرض نہیں ہے۔۔۔۔۔ اجتہاد بالرای سے بہترین اور طاقتور ترین شخص کو ان پر مسلط کیا ہے اور عمر کی طرفداری کا بالکل بھی قصد نہیں تھا ۔[157] الامامہ کی روایت میں ابوبکر کی باتوں میں ایک اور عبارت بھی ذکر ہو‎ئی ہے اس نے لوگوں کو مخاطب ہوکر کہا: اگر تم لوگ چاہتے ہو تو تم لوگ آپس میں بیٹھ کر صلح مشورے سے جس کو چاہتے ہو ولایت دے دو لیکن اگر اجازت ہو تو میں اپنی اجتہاد سے کسی کو معین کرونگا۔۔۔۔۔ پھر رونے لگا اور لوگوں نے بھی روتے ہو‌ۓ کہا: اے پیغمبر خدا کے جانشین، آپ ہم سے بہتر اور عاقل ہو۔۔۔۔ پھر عمر کو بلایا اور اپنا خط اسے دیا اور لوگوں کے لیے پڑھنے کا کہا۔ اس وقت کسی نے کہا اے ابوحفص، اس خط میں کیا لکھا ہے؟ جواب میں کہا مجھے نہیں معلوم، لیکن جو کچھ بھی ہو میں پہلا وہ شخص ہونگا جو اس کو سن لونگا اور اطاعت کرونگا۔ تو اس شخص نے کہا خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ اس خط میں کیا لکھا ہے۔ پہلے سال تم نے اسے امیر بنا دیا اور اب وہ تجھے امیر بنا چکا ہے۔[158]

طرز زندگی، شخصیت اور شکل صورت

ابوبکر کا قد لمبا، جسم کمزور، چہرہ سفید تھا انکی پیشانی چوڑی، انکھیں اندر کی طرف دھنسی ہو‎ئی، رخسار پر گوشت کم تھا، مختصر داڑھی جسکو ہمیشہ مہندی یا وسمہ کے ذریعے سے خضاب کرتا تھا اور بعض دفعہ تو زنگ زیادہ کر کے سرخ لگتی تھی۔[159] ابوبکر کو نرم مزاج، چاہا جانے والا اور خوش اخلاق کہا گیا ہے۔ [160] اور بعض تاریخی کتابوں کے مطابق بہت کمزور دل والا اور زیادہ رونے والا شخص تھا۔[161] بول نے بھی لکھا ہے کہ سواے چند ایک موارد کے علاوہ اس سے تشدد آمیز حرکات نہیں دیکھی گئی ہیں اور مرتدوں کے ساتھ اس کی نرم خو‎ئی اورمفاہمت والے سلوک کو جزیرہ عرب میں دوبارہ امن قا‎ئم کرنے کا سبب سمجھتا ہے۔۔[162]

اس نظریے کے مقابلے میں لامنس اہل سنت کے منابع کی روشنی میں ابوبکر کے بارے میں ایک بہت ہی مختلف نظریے کے قا‎ئل ہے۔ وہ لکھتا ہے: ابوبکر روایات میں ایک سادہ مومن، اچھے انسان اور حساس شخص معرفی ہوا ہے جس کی آنکھوں سے جلدی آنسو گرتے تھے، لیکن حقیقت میں وہ ایک طاقتور، قاطع، سخت اور غصہ والا تھا اور بعض دفعہ تو عمر سے بھی زیادہ غصہ کرتا تھا وہ بلاذری[163] کی روایت سے مستند کرتے ہو‎ئے لکھتا ہے کہ پیغمبر اکرم بھی ابوبکر کی نسبت یہی نظر رکھتے تھے کیونکہ عایشہ کو غصہ کی حالت میں اسکے اپنے باپ کی واقعی بیٹی کہتے تھے۔ لامنس کے مطابق ابوبکر نہ فقط عمر میں عمر سے بڑا تھا بلکہ ظاہری طور پر بھی ایک خاموش طبع کا مالک نرم مزاجی دور اندیشی اور صبر تحمل کی وجہ سے عمر پر مسلط تھا[164] اور سقیفہ میں طفل مکتب کی طرح اس پر قابو کیا اور مرتد لوگوں کی بغاوت کو سرکوب کرنے کے لیے بزرگ صحابوں کی مخالفت کے باوجود اقدام کیا اور مدینہ پر باغیوں کے حملے کی بھی پرواہ نہیں کیا۔[165]

واقدی نے جو روایت ابوبکر کی بیٹی اسماء اور آل نَضْاء سے نقل کیا ہے وہ ابوبکر کی تند مزاجی کی تا‎ئید کرتی ہے۔ اس خبر کے مطابق ابوبکر نے پیغمبر اکرم کے حضور احرام کی حالت میں اپنے غلام کو اونٹ، اور زاد سفر گمانے کے جرم میں خوب مارا۔[166] لامنس کے مطابق پیغمبر کے پہلے جانشین کی شخصیت جو اسلامی روایات میں پیش کی گئی ہے وہ مختلف عوامل کی وجہ سے بن گئی ہے؛ مختلف دینی، سیاسی، گھریلو، اور قبا‎ئلی و قومی وسا‎ئل کو اس شخصیت کو جلدی سے پھیلانے میں بروے کار لایا گیا ہے۔ اور یہی تصویر انہی منابع کے ذریعے اسلامی مورخین اور مشرق شناس محققین پر بھی تحمیل کی گئی ہے اور یہ تصویر کسی بھی صورت میں ابوبکر کے حقیقی چہرے کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔ وہ لکھتا ہے عقیدے کے حوالے سے ابوبکر بہترین اور کامل ترین مسلمان ہونا چاہیے۔ اسی لیے مدینہ کی طاقتور مکتب اور (ابوبکر کے رشتہ دار)آل زبیر کے موثر لکھنے والوں نے اس چہرے کو پیش کرنے میں قدم بڑھایا اور اس کے نتیجے میں ابوبکر کا نام «فضایل» اور «کمالات» کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب ہو‎گئے۔[167] اہل سنت کے علم تاریخ، علم تراجم اور سیرت، کے منابع میں بعض فصل یا حصہ ابوبکر کی فضیلت اور مناقب بیان کرنے کے ساتھ مختص ہو‎ئے ہیں اور قرآن کی بعض آیات جو انکے گمان میں ابوبکر کی شان میں نازل ہو‎ئی ہیں یا پیغمبر اکرم کی کچھ احادیث جو اس کی فضیلت میں بیان ہو‎ئی ہیں، کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے آیہ شریفہ: اِنَّ اللّہ اشْتَری مِنَ المُؤْمِنینَ اَنْفُسَہمْ وَ اَمْوالَہمْ بِاَنَّ الْجَنَّہ[168]؛ فَاَمّا مَنْ اَعْطی وَاتَّقی[169]؛ ثانی اثْنَینِ۔۔۔ فَاَنْزِلَ اللّہ سَکینَتَہ عَلَیہ[170] و۔۔۔[171] اور یہ احادیث: لوکنت متخذاً من امتی خلیلاً لاتخذت ابابکر و لکن اخی وصاحبی[172]؛ مَثَل ابوبکر کمثل میکائیل ینزل برضاءاللّہ۔۔۔[173] اور بہت ساری احادیث۔[174] علامہ امینی نے کتاب الغدیر کی ساتویں جلد کا زیادہ حصہ ان روایات کو نقد کرنے سے مختص کیا ہے جو ابوبکر کی فضیلت میں بیان کی گئی ہیں۔[175]

بعض روایات میں حکایت ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر خوابوں کی تعبیر بھی کرتا تھا اور بعض لوگوں، جن میں پیغمبر اکرم بھی شامل ہیں، کے خوابوں کی تعبیر کیا ہے۔[176] واقدی نے ایک روایت میں اس کی شعرشناسی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔[177] ابن اثیر نے بعض اصحاب جیسے عمر، عثمان، علی (ع)، عبدالرحمن بن عوف، ابن مسعود اور۔۔۔ کو ابوبکر کے راویوں میں سے شمار کیا ہے۔[178] اور ابوبکر ان لوگوں میں سے تھا جو پیغمبر اکرم کی صحبت میں زیادہ رہا کرتا تھا، اس کے باوجود ان سے صرف 142 احادیث نقل ہو‎ئی ہیں۔

ابوبکر سنح میں اپنی بیوی حبیبہ بنت خارجہ کے ساتھ خرما کی خشک شاخوں سے بنے ہو‎ئے ایک کمرے میں رہتے تھے اور بیعت کے 6 یا 7 مہینے گزرنے کے بعد مدینہ آنے تک کو‎ئی چیز اس کی آمدن میں اضافہ نہیں ہو‎ئی، کبھی پیدل اور کبھی گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ آتا تھا اور نماز عشاء کے بعد گھر واپس جاتا تھا۔ سنح میں ہمسایوں کے لیے دودھ دھو لیتا تھا اور انکی بکریاں چراتا تھا اور بیعت کے بعد بھی کافی مدت تک اس کام کو انجام دیتا تھا۔[179] اور اسی طرح اسی روایت کے مطابق خلافت کے بعد بھی وہ سویرے کاندھے پر کچھ کپڑا رکھ کر روزی کسب کرنے بازار جاتا تھا اور یہ حالت بیت المال کے ذمہ دار، ابوعبیدہ کی طرف سے تنخواہ معین ہونے تک جاری تھی۔[180] ابوبکر کی تنخواہ کی مقدار میں اختلاف ہے: کہا گیا ہے کہ ایک مہاجر کے برابر اس کی تنخواہ معین ہو‎ئی تھی: ہر روز ایک گوسفند یا نصف یا کچھ حصہ روزانہ کی غذا کیلیے سرد اور گرم کپڑے اور اسیطرح سے ہر سال 2500 یا 6000 درہم تک کی بات ذکر ہو‎ئی ہے۔[181]

وفات

ابوبکر نے ۷ جمادی‌الثانی سال ۱۳ ہجری بروز پیر کو ایک ٹھنڈے دن میں غسل کیا اور اسی وجہ سے بخار ہو‎ئی اور لوگوں کو نماز بھی نہ پڑھا سکے اور 15 دن یہ بیماری طول پکڑ گئی۔ اس کی جگہ عمر نماز پڑھاتا تھا لوگ گھر پر انکی عیادت کرنے آتے تھے اور آخر کار 22 جمادی ثانی کو 62 سال کی عمر میں دو سال 3مہینے اور 22 دن خلافت کرنے کے بعد منگل کی شام کو وفات ہوا۔[182] ابوبکر کی وصیت کے مطابق انکی بیوی اسماء نے اس کے جنازے کو غسل دیا اور اسی رات کو عمر نے مسجد نبوی میں جنازے پر نماز پڑھا‎ئی اور عایشہ کو کی گئی وصیت کے مطابق عثمان، طلحہ اور ۔۔۔۔ کی مدد سے پیغمبر اکرم کے جوار میں دفن کیا گیا۔[183]

آخری عمر میں اظہار پشیمانی

بستر بیماری پر ابوبکر سے وصیت کے عنوان سے کچھ باتیں نقل ہو‎ئی ہیں جن میں کچھ باتیں عمر کی جانشینی اور اس پر کئے جانے والے اعتراضات کے بارے میں ہیں اور بعض باتیں اس کی شخصی زندگی، بیت المال کا حساب کتاب اور اسکے ترکہ کے بارے میں ہیں۔[184] ان باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات بھی الفاظ اور معانی میں مختصر اختلاف کے ساتھ منابع میں ذکر ہو‎ئی ہیں جو اس کی آخری عمر میں اندرونی شخصیت کی پہچان اور تاریخ اسلام کے بعض حادثات کی حقیقت کے بارے میں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ باتیں اس نے عبدالرحمن کی باتوں کے جواب میں کہا تھا۔ عبد الرحمن نے کہا: «۔۔۔۔ آپ ہمیشہ مصلح اور صالح تھے اور دنیا کی کسی بات پر مغموم نہ ہوجا‎ئیے» تو ابوبکر نے جواب میں کہا:« جی ہاں، تین کاموں کے علاوہ دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے مجھے افسوس نہیں، کاش وہ تین کام انجام نہ دیا ہوتا اور تین کام انجام نہیں دیا کاش انکو انجام دیا ہوتا! اور ان تین کاموں کے بارے میں افسوس ہے جنکا جواب پیغمبر اکرم سے پوچھا تھا۔ جن کاموں کو نہیں کرنا چاہتا تھا اور انجام پایا ان میں سے ایک، فاطمہ کے گھر کا دروازہ اگرچہ میرے ساتھ جنگ کی قصد سے ہی بند کیا ہو، کاش اسے نہ کھولتا، دوسرا یہ کہ کاش فجا‌‎ئہ سلمی کو جلانے کے بجا‎ئے قتل کرتا یا اسے آزاد کرتا اور تیسرا کام سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کو ان دونوں عمر اور ابو عبیدہ کی گردن میں ڈال دیتا اور ان میں سے ایک امیر ہوتا اور میں اسکا وزیر بنتا؛۔۔۔[185]کاش پیغمبر خدا سے پوچھا ہوتا کہ خلافت کس کا حق ہے تاکہ ہر کو‎ئی اس کے حصول میں جنگ کے لیے تیار نہ ہوسکے، کاش پوچھا ہوتا ہے بھتیجی اور پھوپھی کو ارث ملتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس بارے میں مطمئن نہیں ہوں »۔[186]

ابوبکر بزبان ابوبکر

اہل سنت کے منابع میں نقل ہوا ہے کہ ابوبکر نے کہا:

«میں نے آپکے کاموں کو سنبھالا؛ جبکہ میں آپ میں سب سے اچھا نہیں تھا اگر صحیح کام کیا تو اس میں میری مدد کرو اور اگر برا کام کیا تو مجھے روکو کیونکہ میرا ایک شیطان ہے جو ہمیشہ مجھے دھوکہ دیتا ہے۔»[187]

یہ روایت اہل سنت کے بہت سارے منابع میں ایسے ہی مضمون کے ساتھ آ‎ئی ہے۔ مثلا: ابن سعد نے طبقات کبری میں[188]؛ طبری تاریخ طبری میں۔[189]؛ صنعانی نے کتاب المصنف میں[190]؛ ابن جوزی نے کتاب المنتظم میں[191]؛ ابن تیمیہ نے کتاب منہاج السنة میں[192]؛ سیوطی نے کتاب تاریخ الخلفاء میں[193]

ابن کثیر نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس کو صحیح قرار دیا ہے۔[194]

حوالہ جات

  1. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۳، ص۲۲۳؛ حارثی، ۹
  2. ابن قتیبہ، ۱۶۷؛ نیز نک: سقا، ج۱، ص۲۶۶
  3. ابن سعد، ج۳، ص۱۶۹؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۷-۱۶۸
  4. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰، ابن سیرین سے نقل کیا ہے؛ ابن اثیر، أسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۵
  5. نک: طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۶؛ ابن کثیر، ۶، ص۳۱۳
  6. بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۹؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۵۳، ۲۵۵؛ مفید، الارشاد، ص۱۰۲
  7. ابن قتیبہ، ص۱۶۷؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۷
  8. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰؛ قسک ابن قتیبہ، ص۱۶۷
  9. مثلا نک: ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۵؛ نویری، ج۱۹، ص۸-۹؛ سیوطی، تاریخ، ص۲۸-۲۹
  10. ابن قتیبہ، ص۱۶۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۶
  11. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰
  12. دروزہ، ص۲۶
  13. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۱؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۵
  14. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۱؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۵
  15. بلاذری، انساب ج۲، ص۱۴۶؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۰؛ ابن ماجہ، ج۱، ص۴۴؛ نسائی، ۲۱-۲۲؛ جوینی، ج۱، ص۱۴۰، ۲۴۸؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۲۸؛ ابن کثیر، ج۳، ص۲۶؛ سیوطی، الجامع، ج۲، ص۵۰
  16. عاملی، ج۲، ص۲۶۳-۲۷۰؛ امینی، ج۲، ص۳۱۲-۳۱۴
  17. ابن سعد، ج۸، ص۲۴۹، ۲۷۶، ۲۸۰-۲۸۵، ۳۶۰؛ ابن قتیبہ، ص۱۷۲-۱۷۳؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱
  18. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۶
  19. ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۷؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۷؛ ابن رستہ، ج۷، ص۲۱۵
  20. تفسیر قرطبی، ج ۵، ص ۳۰۷۵
  21. ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۴؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۰؛ قس: حاکم، ج۳، ص۱۱۲؛ ابن عبدالبر، ج۳، ص۳۲؛ ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۲؛ احمد بن حنبل، ج۴، ص۳۶۸؛ ابن حبان، ج۱، ص۵۲؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۸، ۱۰۹؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۵۷-۵۹؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۶؛ یعقوبی، ج۲، ص۲۳؛ مسعودی، التنبیہ، ص۱۹۸؛ ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۱۶-۱۲۵؛ قسک وات، ص۸۹
  22. تاریخ الطبری، ج‌۲، ص:۳۱۶
  23. الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج۲، ص۳۲۴-۳۳۰
  24. احمد بن حنبل، ج۶، ص۳۴۹؛ حاکم، ج۳، ص۲۴۳-۲۴۵؛ ابن حجر، الاصابہ، ج۴، ص۱۱۶-۱۱۷
  25. نک: ذہبی، ج۱، ص۲۲۸، ج۲، ص۱۸، ۵۵، ۸۶، ج۳، ص۵۸، ۱۲۵، ۲۱۴، ۳۴۵؛ ابن حجر، تہذیب، ج۹، ص۲۲۰، ج۱۲، ص۴۶
  26. شرح نہج البلاغہ، ص۲۲۴
  27. ابن اسحاق، سیرہ، ص۱۲۱؛ ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۷-۲۶۸؛ ابن حبان، ج۱، ص۵۲-۵۳
  28. نک: طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۷
  29. ابن سعد، ج۳، ص۱۳۹
  30. وات، ص۸۶-۸۸؛ نیز نک: EI۲؛ زریاب، ص۱۱۵-۱۱۶
  31. ابن ہشام، ج۱، ص۳۱۰؛ احمد بن حنبل، ج۲، ص۲۰۴
  32. ابن ہشام، ج۲، ص۱۱-۱۳؛ ابن حبان، ج۱، ص۶۷-۶۹
  33. ص ۹۵
  34. EI۲
  35. ابن ہشام، ج۱، ص۳۴۰-۳۴۱؛ ابن سعد، ج۳، ص۲۳۰، ۲۳۲
  36. ابن سعد، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۸، ۲۳۲؛ قس: مقدسی، ج۴، ص۱۷۷
  37. ابن ہشام، ج۲، ص۱۲۶-۱۲۹؛ ابن سعد، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۹
  38. مدخل آیت لا تحزن
  39. طبری، تاریخ، ج۲، ص ۳۷۴
  40. بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص ۲۶۰
  41. ابن کثیر،‌ البدایہ و النہایہ، ج۳،‌ ص ۱۷۹
  42. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۳-۱۷۴؛ ابن ہشام، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ یاقوت، ج۳، ص۱۶۳
  43. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۴
  44. ابن اثیر، سیرت رسول اللہ، ص۴۸۵
  45. EI۱
  46. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۵؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۲۱۲
  47. ج۱، ص۲۶، ۵۵، جم‌
  48. ۱، ص۲۴۰
  49. ۱، ص۳۳۶
  50. ۱، ص۳۶۴
  51. ۱، ص۳۸۶
  52. ۱، ص۴۰۵
  53. ۱، ص۴۴۸، ۴۴۹، جم‌
  54. ۱، ص۴۹۸
  55. ۱، ص۵۳۶
  56. ۱، ص۵۸۰
  57. ۲، ص۶۴۴
  58. ۲، ص۷۸۲، ۸۱۳
  59. ۲، ص۹۰۰
  60. ۲، ص۹۳۰-۹۳۱
  61. ۲، ص۹۹۱-۹۹۶
  62. ۲، ص۷۲۲
  63. ۲، ص۷۷۰
  64. إبن أبی الحدید المدائنی المعتزلی، أبو حامد عز الدین بن ہبة اللہ بن محمد بن محمد (متوفای۶۵۵ ق) ، شرح نہج البلاغة، ج۱۳، ص۱۷۰، تحقیق محمد عبد الکریم النمری، ناشر:‌ دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان، الطبعة الأولی، ۱۴۱۸ہـ - ۱۹۹۸م۔/الجاحظ، أبی عثمان عمرو بن بحر (متوفای۲۵۵ہـ)، العثمانیة، ص۲۳۰، ناشر:‌دار الکتب العربی ـ مصر
  65. الذہبی، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفای۷۴۸ہـ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، ج۲، ص۴۱۲، تحقیق د۔ عمر عبد السلام تدمری، بیروت،‌دار الکتاب العربی، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۷ہـ - ۱۹۸۷م اور اسی طرح إبن أبی شیبہ الکوفی، أبو بکر عبد اللہ بن محمد (متوفای۲۳۵ ہـ)، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، ج۶، ص۳۶۷، ح ۳۲۰۸۰، تحقیق کمال یوسف الحوت، ریاض، مکتبہ الرشد، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۹ہ؛ و النیسابوری، محمد بن عبداللہ أبو عبداللہ الحاکم (متوفای۴۰۵ ہـ)، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۳۹، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت،‌دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۱ہ - ۱۹۹۰م؛ الإیجی، عضد الدین (متوفای۷۵۶ہـ)، کتاب المواقف، ج۳، ص۶۳۴، تحقیق عبد الرحمن عمیرہ، بیروت،‌دار الجیل، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۷ہـ، ۱۹۹۷م۔
  66. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۱۳
  67. ابن ہشام، ج۴، ص۱۸۸-۱۹۱
  68. نک: واقدی، ج۲، ص۱۰۷۷؛ ابن سعد، ج۲، ص۱۶۸-۱۶۹، ج۳، ص۱۷۷؛ ترمذی، ج۵، ص۲۷۲-۲۷۶؛ طبری، تاریخ، ج۱۰، ص۴۱-۴۷؛ طوسی، ج۵، ص۱۶۹؛ ابن حزم، ص۲۰۶؛ طبرسی، فضل، ج۵، ص۶
  69. ابن حجر، فنح، ج۸، ص۱۲۴
  70. ۲، ص۱۱۱۷
  71. ۲، ص۱۸۹-۱۹۰
  72. قس: طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۴؛ ابن ہشام، ج۴، ص۲۵۳
  73. طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۶؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۵۹-۱۶۲
  74. نک: ابن سعد، ج۲، ص۲۱۵-۲۲۴، ج۳، ص۱۷۸-۱۸۱؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۷؛ ابن سلام، ص۷۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۰-۱۳۲
  75. طبری، تاریخ، ۳، ص۱۹۶؛ قس: احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ مفید، الارشاد، ۹۹
  76. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۰-۱۳۲؛ بلعمی، ج۱، ص۳۳۶
  77. نک: ابن جوزی، ص۴۹-۵۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۲
  78. نیز نک: بخاری، ج۱، ص۱۷۴، ۱۷۵، ۱۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۳۴
  79. ابن سعد، ج۲، ص۱۸۹-۱۹۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۴، ۱۸۶؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۳۴؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۵۹-۱۶۰؛ نیز نک: مفید، الارشاد، ص۹۸
  80. احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۶
  81. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۱؛ نیز نک: مفید، الارشاد، ص۹۸
  82. میلانی، ص۲۸
  83. طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۳؛ حلبی، ج۳، ص۳۵۹
  84. طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۵؛ فیاض، ص۱۳۱
  85. بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱: ابوبکرسے
  86. طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۴-۲۰۶، بلاذری، انساب ج۱، ص۵۸۳، ۵۸۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۲۶-۳۲۷؛ قس: نہج‌البلاغہ، خطبہ ۱۳۶
  87. مفید، الارشاد، ص۱۰۱
  88. ابن ہشام، ج۴، ص۳۱۱؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۱۰؛ قس: بلاذری، انساب ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۵۹-۱۶۱
  89. ابن سعد، ج۳، ص۲۱۲؛ الامامہ، ج۱، ص۱۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۳-۲۲۴؛ قس: بلاذری، ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱
  90. عظم، ص۹۰-۹۱؛ دروزہ، ص۳۰
  91. کنتوری، ج۱، ص۱۹۷-۲۲۴؛ فیروزآبادی، ص۹-۱۱
  92. یعقوبی، ج۲، ص۱۲۳-۱۲۶؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۸؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۵۹-۲۶۰؛ طبرسی، احمد، ج۱، ص۹۷؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۴-۶۱
  93. بلاذری، ج۱، ص۵۸۸؛ حسین، علی و فرزندانش، ص۳۳-۳۴
  94. الامامہ، ج۱، ص۱۱-۱۲؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۲؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۵-۱۲۶؛ نہج‌البلاغہ، خطبہ ۶۷؛ آیتی، حواشی، ص۱۰۸-۱۰۹
  95. آل عمران، آیہ ۳۳-۳۴
  96. جعفری، ص۱۴
  97. مائدہ، آیہ ۵۵
  98. نک: مفید، الجمل، ص۳۲-۳۳؛ نیز طباطبائی، شیعہ، ص۱۱۳؛ ابومجتبی، ص۴۸۸
  99. طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۹-۳۲۱؛ احمدبن حنبل، ج۱، ص۱۱۱؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۶۲-۶۳؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۱۲؛ ہندی، ج۱۳، ص۱۳۱-۱۳۳
  100. گنجی، ص۲۸۱؛ ہندی، ج۱۳، ص۱۵۰-۱۵۱؛ ابن سعد، ج۳، ص۲۳-۲۴؛ مفید، الجمل، ص۳۳-۳۴؛ ترمذی، ج۶، ص۶۴۰-۶۴۱؛ ابن صباغ، ص۳۹
  101. محب طبری، ذخائر، ص۶۷-۶۸؛ ابن کثیر، ج۵، ص۲۰۸-۲۱۴، ج۷، ص۳۴۶-۳۵۱
  102. طباطبائی، شیعہ، ص۱۱۳-۱۱۴
  103. الامامہ، ج۱، ص۱۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۲-۲۲۳؛ ابن سعد، ج۳، ص۶۱۶-۶۱۷
  104. بلاذری، ج۱، ص۵۸۹؛ قس: ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۰؛ لامنس، ۱۴۲
  105. یعقوبی، ۲، ص۱۲۶؛ بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۶؛ الامامہ، ۱، ص۱۴؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۷؛ مسعودی، مروج، ۲، ص۳۰۸
  106. الامامہ، ۱، ص۱۱-۱۲؛ قس: مفید، الاختصاص، ۱۸۴-۱۸۷؛ طبرسی، احمد، ۱، ص۹۵-۹۶
  107. بلاذری کی روایت کے مطابق، انساب، ۱، ص۵۸۶؛ عمر ہاتھ میں آگ کا شعلہ لیے آگے بڑھا
  108. قس: بلاذری، ج۱، ص۵۸۶
  109. الامامہ، ۱، ص۱۲
  110. الامامہ، ۱، ص۱۳-۱۴؛ قس: ابن عبدربہ، ۴، ص۲۵۹-۲۶۰؛ یعقوبی، ۲، ص۱۲۶؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۲؛ مفید، الارشاد، ۱۸۵-۱۸۷، الجمل، ۵۶-۵۷
  111. بلاذری، انساب، ۱، ص۵۹۱؛ طبرسی، احمد، ۱، ص۹۹
  112. طبری، تاریخ، ۳، ص۴۳۰-۴۳۱؛ مسعودی، مروج، ۲، ص۳۰۸؛ قس: یعقوبی، ۲، ص۱۳۷؛ ابن عبدربہ، ۴، ص۲۶۸؛ ہندی، ۵، ص۶۳۱-۶۳۲
  113. مروج‌الذہب،ج‌۳، ص:۷۷
  114. ابن ہشام، ۴، ص۳۰۸-۳۱۰؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۴-۲۰۵
  115. سیف کی روایات مردود ہونے کے بارے میں، نک: عسکری، ۱، ص۶۹-۸۶، ۲، ص۲۹-۳۴
  116. طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷
  117. نک: بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۲؛ یعقوبی، ۲، ص۱۲۴-۱۲۶
  118. بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۵، ۵۸۷؛ الامامہ، ۱، ص۱۱
  119. طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۸؛ یعقوبی، ۲، ص۱۲۶؛ بلاذری، ج۱، ص۵۸۶؛ ابن عبدربہ، ۲، ص۲۲، ۴، ص۲۶۰؛ ابن حبان، ۲، ص۱۷۰-۱۷۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ۳، ص۲۲۲-۲۲۳؛ مسعودی، التنبیہ، ۲۵۰
  120. طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۸
  121. بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۸؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۸۷؛ جعفری، ۵۱-۵۳؛ طبرسی، احمد، ۱، ص۹۵-۱۰۵
  122. بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۷؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷
  123. طبرسی، احمد، ۲، ص۳۸۱
  124. طریحی، ۳، ص۳۷۱؛ نیز نک: ابن ابی الحدید، ۱۶، ص۲۶۸-۲۶۹
  125. مثلاً طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷-۲۰۸
  126. مثلاً بلاذری، فتوح، ۴۴-۴۶
  127. محقق کرکی، ۷۸؛ امین، ۱، ص۳۱۴؛ نیز نک: بخاری، ۵، ص۸۲؛ مسلم، ۲، ص۱۳۸۰؛ ابن حجر ہیثمی، ۲۵؛ ابن ابی الحدید، ۱۶، ص۲۱۸
  128. حلبی، ۳، ص۳۶۲
  129. نک: ابن ابی الحدید، ۱، ص۲۲۲؛ مفید، الجمل، ۵۹
  130. واقدی۔ ۲، ص۱۱۲۱؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۲۵-۲۲۶؛ ابن حبّان، ۲، ص۱۶۱؛ عظم، ۲۴-۲۵؛ فیاض، ۱۳۳
  131. فتوح، ۲۴۲؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۴۳، ۳۴۴، ۳۴۶
  132. نک: بلاذری، فتوح، ۲۴۳-۲۴۴؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۴۴، ۳۴۵، ۳۴۸، ۳۵۱، ۳۵۳، ۳۵۵، ۳۵۸؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۸۴-۳۸۹؛ زرین‌کوب، ۳۴۶-۳۵۰
  133. طبری، تاریخ، ۳، ص۳۸۷، قس: ۳، ص۳۸۶
  134. طبری، تاریخ، ج۳، ۱۱۵-۱۱۶؛ قس: طبری، تاریخ، ۳، ص۴۰۶
  135. بلاذری، فتوح، ۱۴۰-۱۴۱؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۹۲-۳۱۴
  136. بلاذری، فتوح، ص۱۱۸-۱۲۲؛ طبری، تاریخ ۳، ص۳۹۵، ۴۰۶-۴۰۷، ۴۳۴؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۰۷-۴۱۸
  137. بخاری، ج۶، ص۹۸
  138. بخاری، ج۶، ص۹۸-۹۹؛ رامیار، ۳۰۴ بہ بعد
  139. رامیار، ۳۰۴ کے بعد
  140. نک: EI۱
  141. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۷-۱۷۸
  142. ابوعبید، ۲۳۱-۲۳۱؛ ماوردی، ۲۴۹
  143. ابن سعد، ج۳، ص۲۱۳
  144. ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۲
  145. ص ۴۲
  146. ابن سعد، ج۳، ۲ ۲۱۳؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۴۲۲؛ یعقوبی، ۲، ص۱۳۴، ۱۵۴
  147. ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۰-۴۲۱
  148. طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۶؛ دوسرے ناموں کے لیے، نک: طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۷؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۰-۴۲۱؛ ابن حبان، ۲، ص۱۹۵؛ یعقوبی، ۲، ص۱۳۸
  149. ابن حبان، ۲، ص۱۸۲، ۱۹۱؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۱، ۲۴۷
  150. یعقوبی، ج۲، ص۱۳۸
  151. ابن حبان، ۲، ص۱۹۱-۱۹۲؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۸؛ الامامہ، ۱، ص۱۹؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۵
  152. طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۹
  153. ۲، ص۱۹۲
  154. یعقوبی، ج۲، ص۱۳۶، ۱۳۷
  155. الامامہ، ج۱، ص۱۹
  156. الامامہ، ج۱، ص۱۹؛ نیز نک: مبرد، ۱، ص۱۷، اسی سے ملا جلا مضمون
  157. ۲، ص۱۹۲-۱۹۳
  158. الامامہ، ج۱، ص۱۹-۲۰؛ قس: ابن سعد، ۳، ص۱۹۹-۲۰۰؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۸-۴۳۰؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۵-۴۲۷
  159. ابن سعد، ج۳، ص۱۸۸-۱۹۱؛ ابن قتیبہ، ص۱۷۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۴
  160. واقدی، ج۱، ص۱۰۸، ۱۰۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۷؛ ابن عبدربہ، ج۳، ص۲۸۴
  161. ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ۱۸۰؛ الامامہ، ج۱، ص۱۳-۱۵
  162. EI۱
  163. انساب، ج۱، ص۴۱۵
  164. قس: یعقوبی، ج۲، ص۱۳۸، کا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے
  165. نک: ص۱۲۵-۱۲۷
  166. ۲، ص۱۰۹۴
  167. ص ۱۱۴-۱۱۵
  168. توبہ، ص۹، ص۱۱۱
  169. لیل، ص۹۲، ص۵
  170. توبہ، ص۹، ص۴۰
  171. عظم، ص۱۴-۱۵؛ نیز نک: ابن حجر ہیتمی، ص۹۸-۱۰۲
  172. بخاری، ج۴، ص۱۹۱
  173. واقدی، ۱، ص۱۰۹
  174. مثلاً، نک: ابن ماجہ، ج۱، ص۳۶-۳۸؛ بخاری، ج۴، ص۱۸۹-۱۹۸؛ نیز نک: ابن سعد، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۸؛ سیوطی، تاریخ، ص۳۸-۶۸
  175. ۷، ص۸۷-۳۱۲
  176. واقدی، ج۱، ص۵۰۷، ۵۴۳-۵۴۴، ج۲، ص۷۴۷، ۹۳۶؛ ابن سعد، ج۳، ص۱۷۷
  177. ۱، ص۸۰۷
  178. اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۵
  179. طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۳۲؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۱۹؛ عظم، ص۸۹، ابن عساکر کی نقل کے مطابق
  180. ابن سعد، ج۳، ص۱۸۴-۱۸۵
  181. ابن سعد، ج۳، ص۱۸۴-۱۸۵؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۳۲
  182. یعقوبی، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۱۹-۴۲۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱، ۱۹۴
  183. ابن سعد، ج۳، ص۲۰۳، ۲۰۸، ۲۰۹؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۱-۴۲۲؛ ابن حیان، ج۲، ص۱۹۳، ۱۹۵
  184. ابن سعد، ج۳، ص۱۹۲-۲۰۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۸-۴۳۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱-۱۹۴
  185. لیکن وہ تین کام جن کو کرنا چاہیے تھا اور نہیں کیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب اشعث بن قیس کو گرفتار کر کے میرے پاس لایا گیا اس وقت کاش اس کی گردن اڑا دیتا چونکہ میرے خیال سے جہاں پر بھی کو‎ئی شرارت ہوتی وہ وہاں پر مددگار تھا۔ دوسرا یہ کہ جب خالد بن ولید کو مرتدوں کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا تو کاش میں خود ذو القصہ میں ٹھہرتا اور جنگ کیلیے تیار اور مدد کرنے کیلیے آمادہ رہتا۔ تیسرا کام یہ تھا کہ جب خالد کو شام بھیجا تھا تو اس وقت عمر کو بھی عراق بھیجتا تاکہ اسطرح سے اپنے دونوں بازووں کو اللہ کی راہ میں پھیلا چکا ہوتا» پھر اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور کہا: «
  186. طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۹-۴۳۱؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۳۷؛ الامامہ، ج۱، ص۱۸-۱۹؛ مسعودی، مروج، ج۲، ص۳۰۸-۳۰۹؛ مبرد، ج۱، ص۱۱؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۸- ۲۶۹؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۶-۴۷
  187. سجستانی، الزہد، ص۵، ح۸،
  188. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۱۲
  189. تاریخ طبری، ج۲، ص۲۴۴
  190. الصنعانی، المصنف، ج۱۱، ص۳۳۶
  191. المنتظم، ج۴، ص۶۹
  192. منہاج السنة النبویة، ج۸، ص۲۶۶
  193. تاریخ الخلفاء، ج۱، ص۷۱
  194. البدایة والنہایة، مکتبة المعارف، بیروت، ج۶، ص۳۰۱

مآخذ

  • آقابزرگ، الذریعہ
  • آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیغمبر اسلام، بہ کوشش ابوالقاسم گرجی، تہران، ۱۳۶۲ش
  • آیتی، محمد ابراہیم، حواشی و تعلیقات بر آئینہ اسلام (نک: ہم‌، حسین)
  • ابن ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبہ‌اللہ، شرح نہج‌البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۸ق، ۱۹۵۹م۔
  • ابن تیمیہ، أحمد(728ق)، منہاج السنة، تحقیق د۔ محمد رشاد سالم، مؤسسة قرطبة، الطبعةالأولى، ۱۴۰۶ق۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابہ، قاہرہ، ۱۲۸۶ق
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل، ابن اسحاق، محمد، سیرہ، بہ کوشش محمد حمید اللہ، قونیہ، ۱۴۰۱ق، ۱۹۸۱م
  • ابن اثیر، علی بن محمد، سیرت رسول اللہ، ترجمہ رفیع‌الدین اسحاق ہمدانی، بہ کوشش اسغر مہدوی، تہران، ۱۳۵۹-۱۳۶۰ش
  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، آفہ اصحاب الحدیث، بہ کوشش علی حسینی میلانی، قم، ۱۳۹۸ق۔
  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی(597ق)، المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم،دار صادر، بیروت، الطبعةالأولى، ۱۳۵۸ق۔
  • ابن حبان، محمد، الثقات، حیدرآباد دکن، ۱۳۹۳ق، ص۱۹۷۳م
  • ابن حجر، احمد بن علی، الاصابہ، قاہرہ، ۱۳۲۸ق
  • ابن حجر، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، حیدرآباد دکن، ۱۳۳۱ق
  • ابن حجر ہیتمی، احمد، الصواعق المحرفہ، بیروت، ۱۴۰۵ق، ص۱۹۸۵م
  • ابن حزم، علی بن احمد، جوامع السیرہ، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م
  • ابن رستہ، احمدبن عمر، الاعلاق النفیسہ، لیدن، ۱۸۹۱م
  • ابن سلام اباضی، بدءالاسلام و شرائع‌الدین، بہ کوشش ورنر شوارتس و سالم بن یعقوب، ویسبادن، ۱۴۰۶ق، ص۱۹۸۶م
  • ابن سعد، محمد بن سعد(230ق)، طبقات الکبرى،دار، صادر، بیروت۔
  • ابن صباغ، علی بن محمد، الفصول المہمہ، نجف، ۱۹۵۰م
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، «الاستیعاب»، ہمراہ الاصابہ (نک: ہم ابن حجر)
  • ابن عبدربہ، احمدبن محمد، العقد الفرید، بہ کوشش احمد امین و دیگران، بیروت، ۱۴۰۲ق، ص۱۹۸۲م
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۹۶۰م
  • ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر، البدایة و النہایة، دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م
  • ابن ماجہ، محمدبن یزید، سنن، بہ کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، قاہرہ، ۱۳۷۳ق، ص۱۹۵۴م
  • ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۵۵ق، ص۱۹۳۶م
  • ابوداوود، سلیمان بن اشعث، سنن، بہ کوشش محمد محیی‌الدین عبدالحمید، استانبول، المکتبہ الاسلامیہ
  • ابوعبید، قاسم بن سلام، الاموال، بہ کوشش عبدالامیر علی مہنا، بیروت، ۱۹۸۸م
  • ابوعلی مسکویہ، احمدبن محمد، تجارب الامم، بہ کوشش ابوالقاسم امامی، تہران، ۱۳۶۶ش
  • ابوالفتوح رازی، تفسیر روح الجنان، قم، ۱۴۰۴ق
  • ابوالفداء، المختصر فی اخبار البشر، بیروت، ۱۳۷۵ق، ص۱۹۵۶م
  • ابومجتبی، حواشی و تعلیقات بر النص و الاجتہاد شرف‌الدین موسوی، قم، ۱۴۰۴ق
  • ابویوسف، یعقوب بن ابراہیم، الخراج، قاہرہ، ۱۳۸۲ق
  • احمدبن حنبل، مسند، قاہرہ، ۱۳۱۳ق
  • الامامہ و السیاسہ، منسوب بہ قتیبہ، قاہرہ، ۱۳۵۶ق، ص۱۹۳۷م
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بہ کوشش حسن امین، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م
  • اوچ اوک، بحریہ، تاریخ پیغمبر ان دروغین در صدر اسلام، ترجمہ وہاب ولی، تہران، ۱۳۶۴ش
  • بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح، قاہرہ، ۱۳۱۵ق
  • بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، بہ کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، ۱۹۵۹م
  • بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، ج۲، بہ کوشش محمدباقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۴ق، ص۱۹۷۴
  • بلاذری، احمدبن یحیی، فتوح البلدان، بہ کوشش رضوان محمد رضوان، بیروت، ۱۳۹۸ق، ص۱۹۸۷م
  • بلعمی، ابوعلی، تاریخنامہ طبری، بہ کوشش محمد روشن، تہران، ۱۳۶۶ش
  • بہبودی، محمدباقر، سیرہ علوی، تہران، ۱۳۶۸ش
  • ترمذی، محمدبن عیسی، جامع الصحیح، بہ کوشش احمد محمد شاکر، قاہرہ، ۱۳۵۶ق، ص۱۹۳۷م
  • تقی‌زادہ، حسن، از پرویز تا چنگیز، تہران، ۱۳۴۹ش
  • جوینی، ابراہیم بن محمد، فرائد المسطین، بہ کوشش محمد باقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۸ق، ص۱۹۷۸م
  • حارثی، سالم بن احمد، العقود الفضیہ، عمان، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م
  • حاکم نیشابوری، محمدبن محمد، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، ۱۳۴۲ق
  • حسن، ابراہیم حسن، تاریخ الاسلام، قاہرہ، ۱۹۶۴م
  • حسین، طہ، آئینہ اسلام، ترجمہ آینی، تہران، ۱۳۵۲ش
  • حسین، طہ، علی و فرزندانش، ترجمہ محمدعلی خلیلی، تہران، ۱۳۳۵ش
  • حلبی، علی، السیرہ الحلبیہ، بیروت، المکتبہ الاسلامیہ
  • خلیلی، محمدعلی، حواشی و تعلیقات بر علی و فرزندانش (نک: ہم‌، حسین)
  • خوارزمی حنفی، موفق بن احمد، المناقب، بہ کوشش مالک محمودی۔ قم، ۱۴۱۱ق
  • دروزہ، محمد عزہ، تاریخ العرب فی الاسلام، بیروت، المکتبہ المصریہ
  • دہخدا، علی‌اکبر، امثال و حکم، تہران، ۱۳۳۸-۱۳۳۹ش
  • ذہبی، محمدبن احمد، میزان الاعتدال، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، ۱۳۸۲ق، ص۱۹۶۳م
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، ۱۳۶۲ش
  • زریاب، عباس، سیرہ رسول‌اللہ، تہران، ۱۳۷۰ش
  • زرین‌کوب، عبدالحسین، تاریخ ایران بعد از اسلام، تہران، ۱۳۴۳ش
  • سقا، مصطفی، تعلیقات بر السیرہ النبویہ (نک: ہم‌، ابن ہشام)
  • سجستانی، سلیمان بن الأشعث(275ق)، الزہد،دار المشکاة،القاہرة، الطبعةالأولى، ۱۹۹۳م۔
  • سیدمرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ، بہ کوشش عبدالزہرا حسینی، تہران، ۱۴۱۰ق
  • سیوطی، بغیہ الطالب لایمان ابی‌طالب و حسن خاتمتہ
  • سیوطی، تاریخ الخلفاء، بہ کوشش محمد محیی‌الدین عبدالحمید، قاہرہ، ۱۳۷۱ق، ص۱۹۵۲م
  • سیوطی، الجامع الصغیر، قاہرہ، ۱۳۷۳ق، ص۱۹۵۴م۔
  • سیوطی، الخصائص الکبری، بیروت، ۱۴۰۵ق، ص۱۹۸۵م۔
  • سیوطی، الدر المنثور، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م۔
  • شہرستانی، محمدبن عبدالکریم، الملل و النحل، بہ کوشش محمد بن فتح‌اللہ بدران، ۱۳۷۵ق، ص۱۹۵۶م
  • صدر، محمدباقر، فدک در تاریخ، ترجمہ محمود عابدی، تہران، ۱۳۶۰ش۔
  • صنعانی، عبد الرزاق بن ہمام (211ق)، المصنف، تحقیق حبیب الرحمن، المکتب الإسلامی، بیروت، الطبعة الثانیة، ۱۴۰۳ق۔
  • طباطبائی، محمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، ۱۳۴۸ش
  • طباطبائی، محمدحسین، المیزان، بیروت، ۱۳۹۱ق، ص۱۹۷۱م
  • طبرسی، احمدبن علی، الاحتجاج، بہ کوشش محمدباقر موسوی خرسان، نجف، ۱۳۸۶ق، ص۱۹۶۶م
  • طبرسی، فضل‌اللہ بن حسن، مجمع البیان، بہ کوشش ہاشم رسولی محلاتی و فضل‌اللہ یزدی، بیروت، ۱۴۰۸ق، ص۱۹۸۸م
  • طبری، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،‌دار التراث، ط الثانیة، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م۔
  • طبری، تفسیر
  • طریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، بہ کوشش محمود عادل، تہران، ۱۳۶۷ش
  • طوسی، محمدبن حسن، التبیان، بہ کوشش احمد حبیب قیصر عاملی، بیروت، داراحیاء التراث العربی
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرہ النبی، قم، ۱۴۰۰ق
  • عبدالمقصود، عبدالفتاح، الامام علی بن ابی‌طالب، بیروت، مکتبہ العرفان
  • عسکری، مرتضی، خمسون و مائہ الصحابی المختلق، ج۱، بیروت، ۱۴۰۵ق، ص۱۹۸۵م و ج۲، بیروت، ۱۳۹۴ق، ص۱۹۷۴م
  • عظم، رفیق بن محمود، اشہر مشاہیر الاسلام، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م
  • فیاض، علی‌اکبر، تاریخ اسلام، تہران، ۱۳۳۵ش
  • فیروزآبادی، مرتضی، السبعہ من السلف، قم، ۱۳۶۱ش
  • قزوینی حائری، محمدحسن، فدک، بہ کوشش باقر مقدسی، قاہرہ، ۱۳۹۶ق، ص۱۹۷۶م
  • کازرونی، محمد ابن مسعود، نہایہ المسؤول۔ ترجمہ عبدالسلام بن علی ابرقوہی، بہ کوشش جعفر یاحقی، تہران، ۱۳۶۶ش
  • کلینی، محمدبن یعقوب، الروضہ من الکافیہ، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۸۹ق، ص۱۳۴۸ش
  • کنتوری، محمدقلی، تشیید المطاعن، لکہنو، ۱۳۹۸ق
  • گنجی، محمدبن یوسف، کفایہ الطالب، بہ کوشش محمد ہادی امینی، تہران، ۱۳۶۲ش
  • ماوردی، علی بن محمد، الاحکام السلطانیہ، بیروت، ۱۴۰۵ق، ص۱۹۸۵م
  • مبرد، محمدبن یزید، الکامل، بہ کوشش محمد احمد دالی، بیروت، ۱۴۰۶ق، ص۱۹۸۶م
  • محب طبری، احمدبن عبداللہ، ذخائر العقبی، بیروت، ۱۴۰۱ق، ص۱۹۸۱م
  • محب طبری، الریاض النضرہ، بیروت، ۱۴۰۵ق، ص۱۹۸۴م
  • محقق کرکی، علی بن عبدالعال، نفحات اللاہوت، تہران، مکتبہ نینوی
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، بیروت، دارصعب
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، بہ کوشش محمد محیی‌الدین عبدالحمید، بیروت، ۱۳۸۷ق، ص۱۳۶۷م
  • مسلم بن حجاج، صحیح، استانبول، ۱۴۰۱ق
  • مفید، محمدبن محمد، الاختصاص، بہ کوشش علی‌اکبر غفاری، قم، ۱۳۵۷ش
  • مفید، محمدبن محمد، الارشاد، قم، مکتبہ بصیرتی
  • مفید، محمدبن محمد، الجمل، قم، مکتبہ الداوری
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بہ کوشش کلمان ہوار، پاریس، ۱۹۱۶م
  • میبدی، ابوالفضل رشیدالدین، کشف الاسرار و عدہ الابرار، بہ کوشش علی‌اصغر حکمت، تہران، ۱۳۵۷ش
  • میبدی، ابوالفضل رشیدالدین، الارشاد، قم، مکتبہ بصیرتی
  • میبدی، الجمل، قم، مکتبہ الداوری
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بہ کوشش کلمان ہوار، پاریس، ۱۹۱۶م
  • میبدی، ابوالفضل رشیدالدین، کشف الاسرار و عدہ الابرار، بہ کوشش علی‌اصغر حکمت، تہران، ۱۳۵۷ش
  • میلانی، علی، مقدمہ بر آفہ اصحاب الحدیث (نک: ہم‌، ابن جوزی)
  • نسائی، احمد بن شعیب، تہذیب خصائص الامام علی، بہ کوشش ابواسحاق جوینی، بیروت، ۱۴۰۴ق، ص۱۹۸۴م
  • نولدکہ، تئودر، تاریخ ایرانیان و عربہا، ترجمہ عباس زریاب، تہران، ۱۳۵۸ش
  • نویری، احمدبن عبدالوہاب، نہایہ الارب، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۹۷۵م
  • نیشابوری، محمدبن فتال، روضہ الواعظین، قم، ۱۳۸۶ش
  • واقدی، محمدبن عمر، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م
  • ہندی، علی، کنزالعمال، بہ کوشش صفوہ سقا، بیروت، ۱۴۰۵ق، ص۱۹۸۵م
  • ہیثمی، علی بن ابی‌بکر، مجمع الزوائد، قاہرہ، مکتبہ‌القدسی
  • یاقوت، بلدان
  • یعقوبی، احمدبن اسحاق، تاریخ، بیروت، ۱۳۷۹ق، ص۱۹۶۰م
  • Jafri, S۔ H۔, Origins and Early Development of shi῾a Islam, Beirut, ۱۹۷۶
  • Lammens, P۔ H۔,»Le Triumvirat, Aboû Bakr, ῾Omar et Aboû ῾Obaida«, Mélanges de la Faculté Orientale, Beirut, ۱۹۷۳, vol۔ IV
  • Watt۔ M۔, Muhammad at Mecca, Oxford, ۱۹۶۸۔

بیرونی روابط