آتشکدہ فارس

ویکی شیعہ سے
(آتشکدہ پارس سے رجوع مکرر)
آتشکدہ فارس
آتشکدہ فارس کی موجودہ حالت
آتشکدہ فارس کی موجودہ حالت
ابتدائی معلومات
محل وقوعگاؤں کاریان صوبہ فارس ایران
دیگر اسامیآتَشگاہ فَرنبَغ-آذَرفَرنبَغ
مربوط واقعاتپیغمبر اکرمؐ کی ولادت کی شب بجھ جانا
مشخصات
موجودہ حالتویران
معماری


آتَشکَدہ فارس یا آتَشگاہ فَرَنبَغ ایران کے صوبہ فارس میں موجود ایک آتش کدہ ہے۔ اسلامی روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کی رات یہ آتشکدہ خاموش ہو گیا تھا۔ اس آتش کدے کا بجھ جانا حضرت محمدؐ کے ارہاصات میں سے قرار دیئے جاتے ہیں۔ ارہاص ان خارق العادہ حادثات کو کہا جاتا ہے جو پیغمبروں کی بعثت سے پہلے رونما ہوتے ہیں۔

آتشکدہ فارس کاریان نامی دیہات میں واقع تھا جس کا آج کل قابل ذکر نام و نشان باقی نہیں ہے۔

ارہاص

اسلامی متکلمین ان حادثات کو جو انبیاؑ کی ولادت، بچپنے یا بعثت سے پہلے رونما ہوتے ہیں ارہاص کہتے ہیں۔[1]ان کا کہنا ہے کہ ارہاصات لوگوں کو انبیاءؑ کی نبوت کو قبول کرنے کے لئے تیار کرنے کی خاطر رونما ہوتے ہیں۔[2]

پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے ساتھ فارس کے آتش کدے کا خاموش ہونا، ایوان کسری کے چودہ ایوانوں کا گر جانا[3] اور مسجد الحرام میں موجود بتوں کا سرنگون ہونا، آپؐ کی ارہاصات میں سے شمار کئے جاتے ہیں۔[4]

محل وقوع

آتشکدہ فارس ایران کے صوبہ فارس میں زرتشتیوں (مجوسیوں) کے آتش کدوں میں سے ایک تھا[5] جو کاریان نامی دیہات میں واقع تھا۔[6]البتہ بعض کا کہنا ہے کہ شروع میں یہ آتش کدہ داربگرد نامی گاوں کے قریب تھا اور ساسانی دور کے آخری ایام یا ان کے دور کے بعد کاریان منتقل ہوا ہے۔[7]اس کو آتشگاہ فرنبغ یا آذرفرنبغ بھی کہا جاتا تھا۔[8]

آذر گشنسپ اور آذر برزین‌ مہر کے ساتھ یہ آتشکدہ قبل از اسلام کے تین مشہور آتشکدے تھے۔[9] تاریخی روایات کے مطابق چوتھی صدی ہجری تک صوبہ فارس کے مختلف علاقوں میں آتش کدے موجود تھے جن میں سے ایک آتشکدہ پارس تھا۔[10]ان تمام باتوں کے باوجود آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کل اس آتشکدے کے کوئی قابل ذکر آثار نہیں ہیں۔[11]

بجھ جانا

تاریخی مآخذ اور اسلامی روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کی رات فارس کا آتشکدہ ہزار سال کے بعد خاموش ہوگیا۔[12] یہ واقعہ رسول اکرم کے ارہاصات میں شمار کیا گیا ہے۔[13]

بجھنے کے بارے میں تردید

کہا گیا ہے کہ آتشکدہ فارس کے بجھ جانے کا واقعہ تاریخی اور حدیثی اعتبار سے اشکال سے خالی نہیں ہے؛ کیونکہ یعقوبی جو اس بارے میں لکھنے والا سب سے پہلا مورخ ہے اس نے اس بارے میں کوئی معتبر مدرک اور دلیل ذکر نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف واقدی نے جو پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں ارہاصات ذکر کیا ہے اس آتشکدے کے بجھ جانے کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ اور اسی طرح حدیثی کتب میں اس کی سند ضعیف ہے۔[14]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. جعفری، تفسیر کوثر، 1377ش، ج3، ص300.
  2. تہانوی، موسوعۃ کشاف اصطلاحات، مکتبہ لبنان، ج1، ص141.
  3. فیاض لاہیجی،‏ سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات، 1372ش، ص94.
  4. رسولی، تاریخ تحلیلی اسلام، 1371ش، ج1، ص145.
  5. شاردن، سفرنامہ شاردن، 1372شمسی ہجری، ج5، ص1831.
  6. دست‌ غیب، حافظ‌ شناخت، نشر علم، ص35و36.
  7. مرتضایی و زبان‌آور، «بازنگری مکان نیایشگاہ آذرفرنبغ در دورہ ساسانی براساس تطبیق منابع مکتوب سدہ سوم تا ہفتم ہجری و شواہد باستان‌ شناختی»، ص175.
  8. دست‌ غیب، حافظ‌ شناخت، نشر علم، ص35و36؛ معین، مجموعہ مقالات دکتر معین، 1364شمسی ہجری، ص322.
  9. اشرف‌ زادہ، راز خلوتیان، 1379ش، ص242؛ مصطفوی، اقلیم پارس، 1375ش، ص92.
  10. شاردن، سفرنامہ شاردن، 1372ش، ج5، ص1831.
  11. مصطفوی، اقلیم پارس، 1375شمسی ہجری، ص92.
  12. ملاحظہ کریں: بیہقی، دلائل‌ النبوۃ، 1405ق، ج1، ص126و127؛ ابن‌ کثیر، البدايۃ والنہايۃ، دار الفکر، ج2، ص268؛ شیخ صدوق، امالی، 1376ش، ص285؛ طبرسی، اِعلام‌الوری، 1417ق، ج1، ص56.
  13. رسولی محلاتی، درسہایی از تاریخ تحلیلی اسلام، 1371ش، ج1، ص145و146.
  14. «آیا ہنگام ولادت پیامبر اسلام(ص)، ایوان کسری فرو ریخت؟ آتشکدہ فارس خاموش شد؟ دریاچہ ساوہ خشکید؟»، ویب سائٹ اسلام‌ کوئیسٹ، تاریخ درج 27 تیر 1395، اخذ شدہ بتاریخ 7 اسفند 1397.

مآخذ

  • «آیا ہنگام ولادت پیامبر اسلام(ص)، ایوان کسری فرو ریخت؟ آتشکدہ فارس خاموش شد؟ دریاچہ ساوہ خشکید؟»، وبگاہ اسلام‌ کوئیست، تاریخ درج 27 تیر 1395، اخذ شدہ بتاریخ 7 اسفند 1397.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدايۃ والنہايۃ، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دار الفکر، بی‌تا.
  • اشرف‌ زادہ، رضا، راز خلوتیان؛ شرح گزیدہ غزلیات حافظ شیرازی، مشہد، کلہر، 1379شمسی ہجری۔
  • بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعہ، تحقیق و تعلیقہ عبد المعطی قلعجی، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، 1405ھ/1985 ع.
  • تہانوی، محمد علی بن علی، موسوعۃ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، تحقیق علی فرید دحروج، بیروت، مکتبۃ لبنان ناشرون، بی‌تا.
  • جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، قم، انتشارات ہجرت، 1377شمسی ہجری۔
  • دست‌ غیب، عبد العلی، حافظ‌ شناخت، بی‌جا، نشر علم، چاپ اول، بی‌تا.
  • رسولی محلاتی، سید ہاشم، درس‌ ہایی از تاریخ تحلیلی اسلام، قم، پاسدار اسلام، 1371شمسی ہجری۔
  • شاردن، ژان، سفرنامہ شاردن، ترجمہ اقبال یغمایی، تہران، توس، 1372-1375شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، امالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376.
  • طبرسی، فضل بن حسن، اِعلام‌ الورى باَعلام‌ الہدى، قم، آل‌ البیت، چاپ اول، 1417ھ۔
  • فیاض لاہیجى،‏ سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات‏، تہران، انتشارات الزہراء، چاپ سوم، 1372شمسی ہجری۔
  • مرتضایی، محمد، زبان‌آور، علی رضا، «بازنگری مکان نیایشگاہ آذرفرنبغ در دورہ‌ی ساسانی بر اساس تطبیق منابع مکتوب سدہ سوم تا ہفتم ہجری و شواہد باستان‌شناختی»، پژوہش‌ ہای باستان‌ شناسی ایران، ش12، 1396شمسی ہجری۔
  • مصطفوی، سید محمد تقی، اقلیم پارس، تہران، انجمن آثار ملی و نشر اشارہ، 1375شمسی ہجری۔
  • معین، محمد، مجموعہ مقالات دکتر محمد معین، بہ کوشش مہ دخت معین، تہران، موسسہ انتشارات معین، 1364شمسی ہجری۔