زیارت شہداء

ویکی شیعہ سے
زیارت الشہدا
کوائف
دیگر اسامی:زیارت ناحیہ مقدسہ غیر مشہور
موضوع:زیارت شہدائے کربلا
صادرہ از:ناحیہ مقدسہ سے منسوب
شیعہ منابع:المزار الکبیر اور اقبال الاعمال
مخصوص وقت:روز عاشورا
مکان:کربلا اور دوسرے مقامات
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


زیارت الشہداء یا زیارت ناحیہ غیر مشہور شہدائے کربلا کی مخصوص زیارتوں میں سے ہے جسے روز عاشورا کے اعمال میں بیان کیا گیا ہے۔ اس زیارتنامے کو محمد بن جعفر مشہدی (متوفی: 610ھ) نے المَزار الکبیر اور سید ابن طاووس (متوفی: 664ھ) نے کتاب الاِقبال میں روایت کی ہیں۔

اس زیارت نامے میں شہدائے کربلا میں سے ہر ایک کا نام لے کر ان پر سلام اور ان کے قاتلوں کا نام لے کر ان پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ زیارت الشہدا کی سند میں اس بات کی تصریح کئے بغیر کہ اسے کس امام نے بیان کی ہیں، صرف ناحیہ مقدسہ کی تعبیر آئی ہے۔ "ناحیہ مقدسہ" ایک اصطلاح ہے جسے شیعہ اپنے ائمہ میں سے امام ہادیؑ، امام حسن عسکریؑ اور امام مہدیؑ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

بعض شیعہ علماء جیسے آیت‌اللہ خوئی اور محمد مہدی شمس‌ الدین اس زیارتنامے کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے ائمہ معصومینؑ کی طرف اس کی نسبت میں تردید کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں بعض علماء جیسے نجم‌ الدین طبسی اسے معتبر سمجھتے ہیں۔

شہدائے کربلا کی زیارت

دعا و مناجات

زیارت الشہدا در حقیقت شہدائے کربلا کی زیارت ہے اور روز عاشورا کے اعمال میں اسے شمار کیا جاتا ہے۔[1] اس زیارتنامے میں امام حسینؑ کو سلام کرنے کے بعد شہدائے کربلا میں سے ہر ایک کا نام لے کر ان کو سلام پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح قاتلان‌ شہدائے کربلا کا بھی نام لے کر ان پر لعنت بھیجی گئی ہے۔[2]

زیارت الشہدا کو زیارت ناحیہ مقدسہ جسے «زیارتِ ناحیۂ مشہور»[3] یا زیارت ناحیہ معروف[4] کہا جاتا ہے، کے مقابلے میں «زیارتِ ناحیۂ غیر مشہور» بھی کہا جاتا ہے؛[5]

ناحیہ مقدسہ کی طرف نسبت

حدیثی منابع میں زیارت الشہدا کے حوالے سے یہ تصریح کئے بغیر کہ یہ زیارت کس معصوم سے نقل ہوئی ہے، صرف اتنا آیا ہے کہ سنہ 252ھ کو یہ زیارت ناحیہ مقدسہ سے صادر ہوئی ہے.[6] «ناحیہ مقدسہ» شیعوں کے یہاں ایک اصطلاح ہے جسے وہ امام ہادیؑ کے دور امامت سے غیبت صغری کے اختتام تک اپنے ائمہؑ کے لئے استعمال کرتے تھے.[7] شیعہ علم رجال کے ماہر عبداللہ مامَقانی (متوفی: 1351ھ) نے اس زیارتنامے کو امام مہدی(عج) سے منسوب کی ہیں۔[8]

البتہ امام مہدی(عج) مذکورہ تاریخ کے چند سال بعد (255ھ[9] یا 256ھ[10]) کو دنیا میں آئیں ہیں۔ اس بنا پر بعض علماء کا عقیدہ ہے کہ اس زیارت نامے کے سند میں «ناحیہ مقدسہ» سے مراد امام ہادیؑ[11] یا بعض کے مطابق امام عسکریؑ ہیں۔[12]

علامہ مجلسی اس سلسلے میں دو احتمال دیتے ہیں: ایک یہ کہ اس زیارت نامے کی تاریخ کی غلط نشاندہی کی گئی ہے، اصل میں یہ تاریخ 262ھ ہے جبکہ 252ھ ذکر کی گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہاں «ناحیہ مقدسہ» سے مراد امام حسن عسکری ہیں نہ امام ہادیؑ اور نہ امام زمانہؑ۔[13]

سند

زیارت الشہدا کو محمد بن جعفر مشہدی (متوفی: 610ھ) نے المَزار الکبیر[14] میں اور سید بن طاووس (متوفی: 664ھ) نے الاِقبال[15] میں نقل کئے ہیں۔ محمد مہدی شمس‌الدین (متوفی: 1379ہجری شمسی) اپنی کتاب انصار الحسین میں کہتے ہیں کہ اس زیارت نامے کی سند میں موجود بعض راوی مجہول‌ ہیں اور کتب رجال میں سے سوائے قاموس الرِّجال (تألیف: 1360ھ) کے کسی اور کتاب میں ان کی حالات زندگی درج نہیں ہے اور ان میں سے بعض ضعیف‌ بھی ہیں۔[16]

آیت‌ اللہ خوئی (متوفی: 1413ھ) کتاب مُعْجَمُ رِجالِ الحدیث میں کہتے ہیں کہ یہ یقین سے نہیں کہا جاتا سکتا ہے کہ یہ زیارت ناحیہ مقدسہ کی جانب سے صادر ہوئی ہے۔[17] محمد مہدی شمس‌الدین اس زیارت کو امام مہدیؑ کی طرف نسبت دینے کو ضعیف سمجھتے ہیں؛ ان تمام باتوں کے باوجود وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ ایک تاریخی متن اور زیارت ہونے کے اعتبار سے اس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے.[18]

ان کے مقابلے میں علم حدیث کے محقق نجم‌ الدین طبسی اس زیارت نامے کی سند پر کئے گئے اعتراضات کو قبول نہیں کرتے.[19] وہ اس زیارت نامے کے مضامین کی دوسری دعاؤں اور زیارت ناموں نیز متعلقہ تاریخی واقعات کے ساتھ سازگاری کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے معتبر سمجھتے ہیں۔[20]

شہداء کی تعداد

محمد مہدی شمس‌ الدین کے مطابق سید بن طاووس نے اپنی کتاب الاِقبال میں زیارت الشہدا کے ضمن میں 63 شہداء کا نام لیا ہے؛[21] لیکن محمد ابراہیم آیتی کہتے ہیں کہ زیارت شہداء میں 72 شہداء کو سلام دی گئی ہے جن میں سے 17 بنی ہاشم سے اور باقی 55 دوسرے قبائل سے ہیں۔[22]کتاب المَزار کے بعض نسخوں میں زیارت شہداء کے ضمن میں 74 شہداء[23] کو سلام دی گئی ہے جبکہ کتاب اقبال کے بعض نسخوں میں81 شہداء کا نام لیا گیا ہے۔[24]

مضامین پر ہونے والے اعترضات

محسن رنجبر «زیارت ناحیہ اور زیارت رجبیّہ کے بارے میں تحقیق» کے عنوان سے لکھے گئے مقالے میں کہتے ہیں کہ زیارت الشہداء میں مذکور بعض مطالب کی بنا پر اس زیارت کو امام معصوم کی طرف نسبت دینا مناسب نہیں ہے:

متن اور ترجمہ

متن ترجمه
السَّلَامُ عَلَیک یا أَوَّلَ قَتِیلٍ مِنْ نَسْلِ خَیرِ سَلِیلٍ، مِنْ سُلَالَہِ إِبْرَاہِیمَ الْخَلِیلِ، صَلَّی اللہُ عَلَیک وَ عَلَی أَبِیک، إِذْ قَالَ فِیک: قَتَلَ اللہُ قَوْماً قَتَلُوک، یا بُنَی مَا أَجْرَأَہُمْ عَلَی الرَّحْمَنِ وَ عَلَی انْتِہَاک حُرْمَہِ الرَّسُولِ، عَلَی الدُّنْیا بَعْدَک الْعَفَا، کأَنِّی بِک بَینَ یدَیہِ مَاثِلًا، وَ لِلْکافِرِینَ قَائِلًا: سلام ہو آپ پر، جسے سب سے پہلے قتل کیا گیا، اور جو بہترین خاندان کی نسل سے، ابراہیم خلیل کے خاندان سے، آپ پر اور آپ کے والد پر سلام ہو، جنہوں نے آپ کے بارے میں فرمایا: اللہ اس گروہ کو ہلاک کرے جس نے آپ کو قتل کیا۔ میرے بیٹے، انہیں خدا کی نافرمانی اور رسول کی حرمت اور احترام کو پامال کرنے پر کس چیز نے جرأت دی، تیرے بعد دنیا کی زندگی کتنی فضول ہے۔

اور رجز پڑھتے ہوئے کافروں سے کہتے ہو:


حوالہ جات

  1. ابن‌مشہدی، المزار الکبیر، 1419ھ، ص485؛ سید بن طاووس، الاقبال،1416ھ، ج3، ص73۔
  2. ملاحظہ کریں: ابن‌مشہدی، المزار الکبیر، 1419ھ، ص485–496؛ سید بن طاووس، الاقبال،1416ھ، ج3، ص73-80۔
  3. ملاحظہ کریں:«زیارت ناحیہ مقدسہ»، وبگاہ الکوثر۔
  4. ملاحظہ کریں: طبسی، «زیارت ناحیہ مقدسہ»، ص194۔
  5. ملاحظہ کریں: «زیارت ناحیہ مقدسہ»، وبگاہ الکوثر۔
  6. ابن‌مشہدی، المزار الکبیر، 1419ھ، ص485؛ سید بن طاووس، الاقبال،1416ھ، ج3، ص73.
  7. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام حسین(ع)، ج12، ص271، پانویس 1.
  8. ملاحظہ کریں: مامقانی، تنقیح المقال، بی‌تا، ج1، ص453.
  9. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص339.
  10. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص514.
  11. مہدی‌پور، نبراس الزائر فی زیارۃ الحائر، 1419ھ، ص134.
  12. تستری، قاموس الرجال، ج9، ص504؛ آیتی، بررسی تاریخ عاشورا، 1383ہجری شمسی، ص141.
  13. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج101، ص274.
  14. ابن‌مشہدی، المزار الکبیر، 1419ھ، ص485–496.
  15. سید بن طاووس، الاقبال، 1416ھ، ج3، ص73-80.
  16. شمس‌الدین، انصار الحسین، 1429ھ، ص207-209.
  17. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج18، ص220.
  18. شمس‌الدین، انصار الحسین، 1429ھ، ص215.
  19. ملاحظہ کریں: طبسی، «زیارت ناحیہ مقدسہ»، ص195-197.
  20. ملاحظہ کریں: طبسی، «زیارت ناحیہ مقدسہ»، ص196-197.
  21. شمس‌الدین، انصار الحسین، 1429ھ، ص216.
  22. آیتی، بررسی تاریخ عاشورا، 1383ہجری شمسی، ص141.
  23. ملاحظہ کریں: ابن‌مشہدی، المزار الکبیر، 1419ھ، ص485–496.
  24. ملاحظہ کریں: سید بن طاووس، الاقبال،1416ھ، ج3، ص73-80.
  25. رنجبر، «پژوہشی دربارہ دو زیارت ناحیہ و زیارت رجبیّہ»، ص61.

مآخذ

  • آیتی، محمدابراہیم، ‌بررسی تاریخ عاشورا، بہ کوشش مہدی انصاری، قم، مؤسسہ انتشاراتی امام عصر(عج)، 1383ہجری شمسی۔
  • ابن‌مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، تحقیق جواد قیومی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1419ھ۔
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، تحقیق موسسۃ النشر الاسلامی، قم، النشر الاسلامی، 1428ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مطبعۃ الآداب، 1413ق/1372ہجری شمسی۔
  • رنجبر، محسن، «پژوہشی دربارہ دو زیارت ناحیہ و زیارت رجبیّہ»، در مطالعات تاریخ اسلام، شمارہ 26، پاییز 1394ہجری شمسی۔
  • «زیارت ناحیہ مقدسہ»، وبگاہ الکوثر، تاریخ درج مطلب: 5 آذر 1400ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 12 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسن، تحقیق جواد قیومی، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، 1416ھ۔
  • شمس‌الدین، محمدمہدی، انصار الحسین،‌ تحقیق سامی غریری، قم، دارالکتب الاسلامی، 1429ق/2008ء۔
  • طبسی، نجم‌الدین، «زیارت ناحیہ مقدسہ»، در انتظار، شمارہ 20، اردیبہشت 1386ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ق‏.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف، بی‌تا.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، موسسہ الوفاء، 1403ھ۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، دانشنامہ امام حسین(ع) بر پایہ قرآن حدیث و تاریخ، قم، انتشارات‌ دار الحدیث، 1388ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تصحیح مؤسسۃ آل البیت، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • مہدی‌پور، علی‌اکبر، نبراس الزائر فی زیارۃ الحائر، قم، موسسۃ الرسالۃ، 1429ھ۔