زیارت رجبیہ

ویکی شیعہ سے
دعا و مناجات

زیارت رَجَبیّہ مأثورہ[1] زیارات میں سے ہے جو اہل تشیع کے ہاں مشہور ہے اور رجب کے مہینے میں مقامات مقدسہ میں اس زیارت کے پڑھنے کی سفارش ہوئی ہے۔ شیخ طوسی کے مطابق یہ زیارت حضرت ولی عصر (عج) کی جانب سے صادر ہوئی ہے۔

زیارات امام حسین (ع) میں بھی ایک زیارت کا عنوان زیارت رجبیہ ہے۔

زیارت کے مآخذ

اس زیارت کو سب سے پہلے شیخ طوسی (متوفٰی سنہ 460 ھ) کی کتاب مصباح المتہجد[2] میں اور ان کے بعد محمد بن جعفر المشہدی (متوفٰی 610 ھ) نے المزار الکبیر[3] میں نقل کیا ہے۔

دوسرے مآخذ نے بھی اس کو ان ہی دو مآخذ سے نقل کیا ہے جن میں سے بعض کے نام کچھ یوں ہیں:

سید ابن طاؤس کی اقبال الاعمال[4]، علامہ مجلسی کی بحار الانوار[5] اور محدث قمی کی مفاتیح الجنان۔[6]

زیارت کی سند

اس زیارت کا سلسلۂ سند امام زمانہ(عج) کے نائب خاص جناب ابو القاسم حسین بن روح نوبختی تک پہنچتا ہے۔ شیخ طوسی لکھتے ہیں: ابن عیاش نے خیر بن عبداللہ سے، اور انھوں نے حسین بن روح سے روایت کی ہے ۔۔۔"[7] ابن المشہدی نے بھی زیارت کی سند میں ان تین افراد کا تذکرہ کیا ہے[8] اور دوسری کتب حدیث نے مذکورہ بالا اصلی مآخذ اور ان کے سلسلۂ سند کی طرف اشارہ کیا ہے۔

زیارت رجبیہ، متن اور ترجمہ

شیخ طوسی کہتے ہیں: رجب کے مہینے میں مقدس مقامات کی زیارت کرو اور جب ان مقامات میں داخل ہوجاؤ تو اس دعا کو پڑھو۔[9] ابن المشہدی لکھتے ہیں: شب بعثت کو امیرالمؤمنین(ع) کی زیارت یا رجب کے مہینے میں کسی بھی امام کی زیارت کے وقت، اس دعا کا پڑھنا مستحب ہے۔[10]

زیارت رجبیہ
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَشْهَدَنَا مَشْهَدَ أَوْلِيَائِهِ فِي رَجَبٍ وَأَوْجَبَ عَلَيْنَا مِنْ حَقِّهِمْ مَا قَدْ وَجَبَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ وَعَلَى أَوْصِيَائِهِ الْحُجُبِ اللَّهُمَّ فَكَمَا أَشْهَدْتَنَا مَشْهَدَهُمْ [مَشَاهِدَهُمْ‏] فَأَنْجِزْ لَنَا مَوْعِدَهُمْ وَأَوْرِدْنَا مَوْرِدَهُمْ غَيْرَ مُحَلَّئِينَ عَنْ وِرْدٍ فِي دَارِ الْمُقَامَةِ وَالْخُلْدِ وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ إِنِّي [قَدْ] قَصَدْتُكُمْ وَاعْتَمَدْتُكُمْ بِمَسْأَلَتِي وَحَاجَتِي وَهِيَ فَكَاكُ رَقَبَتِي مِنَ النَّارِ وَالْمَقَرُّ مَعَكُمْ فِي دَارِ الْقَرَارِ مَعَ شِيعَتِكُمُ الْأَبْرَارِ وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ أَنَا سَائِلُكُمْ وَآمِلُكُمْ فِيمَا إِلَيْكُمُ التَّفْوِيضُ وَعَلَيْكُمُ التَّعْوِيضُ فَبِكُمْ يُجْبَرُ الْمَهِيضُ وَيُشْفَى الْمَرِيضُ ، وَمَا تَزْدَادُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَغِيضُ إِنِّي بِسِرِّكُمْ مُؤْمِنٌ [مُؤَمِّمٌ‏] وَلِقَوْلِكُمْ مُسَلِّمٌ وَعَلَى اللَّهِ بِكُمْ مُقْسِمٌ فِي رَجْعِي بِحَوَائِجِي وَقَضَائِهَا وَإِمْضَائِهَا وَإِنْجَاحِهَا وَإِبْرَاحِهَا [إِيزَاحِهَا] وَبِشُئُونِي لَدَيْكُمْ وَصَلاحِهَا وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ سَلامَ مُوَدِّعٍ وَلَكُمْ حَوَائِجَهُ مُودِعٍ [مُودِعٌ‏] يَسْأَلُ اللَّهَ إِلَيْكُمُ الْمَرْجِعَ وَسَعْيَهُ [سَعْيُهُ‏] إِلَيْكُمْ غَيْرَ [غَيْرُ] مُنْقَطِعٍ وَأَنْ يَرْجِعَنِي مِنْ حَضْرَتِكُمْ خَيْرَ مَرْجِعٍ إِلَى جَنَابٍ مُمْرِعٍ وَخَفْضِ عَيْشٍ مُوَسَّعٍ وَدَعَةٍ وَمَهَلٍ إِلَى حِينِ [خَيْرِ] الْأَجَلِ وَخَيْرِ مَصِيرٍ وَمَحَلٍّ فِي النَّعِيمِ الْأَزَلِ وَالْعَيْشِ الْمُقْتَبَلِ وَدَوَامِ الْأُكُلِ وَشُرْبِ الرَّحِيقِ وَالسَّلْسَلِ [السَّلْسَبِيلِ‏] وَعَلٍّ وَنَهَلٍ لا سَأَمَ مِنْهُ وَلا مَلَلَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ وَتَحِيَّاتُهُ عَلَيْكُمْ حَتَّى الْعَوْدِ إِلَى حَضْرَتِكُمْ وَالْفَوْزِ فِي كَرَّتِكُمْ وَالْحَشْرِ فِي زُمْرَتِكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ وَصَلَوَاتُهُ وَتَحِيَّاتُهُ وَهُوَ حَسْبُنَا وَنِعْمَ الْوَكِيلُ۔

ابن المشہدی، المزار الکبیر، ص203۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے

تمام تر تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ماہ رجب میں ہمیں اپنے اولیاء کے حضور حاضر کیا اور ان کا حق جو ہم پر فرض تو، واجب کردیا اور درود و صلوات ہو برگزیدہ محمد(ص) پر اور آپ(ص) کے جانشینوں پر جو [حریم پروردگار کے] دربان [یا پسِ حجاب] ہیں؛ اے معبود! جس طرح کہ تو نے ہمیں ان کے مشاہد شریفہ پر حاضر کیا ہمارے حق میں ان کا وعدہ پورا کر، اور ہمیں ان کے مقام ورود اور فیض وجود میں داخل فرما، ابدی قیام گاہ اور بہشت جاویدانی میں داخلے سے بھگائے بغیر؛ اور سلام ہو آپ پر، میں آپ کے حضور پہنچنے کا ارادہ کرکے آیا ہوں، اور اپنی خواہش اور حاجت میں آپ پر بھروسا کر چکا ہوں، میری حاجت میری آزادی ہے دوزخ کی آگ سے، اور یہ کہ میرا ٹھکانا آپ کے ہاں ہو مستقل قیام کے گھر میں آپ کے نیک پیروکاروں کی معیت میں، سلام ہو آپ پر اس بنا پر کہ آپ نے صبر کیا تو کیا خوب ہے آخرت کا گھر۔[11] میں آپ کے در کا سوالی اور آپ سے آرزو رکھنے والا ہوں ان چیزوں میں جن کا اختیار آپ کو دیا گیا ہے اور معاوضہ ادا کرنا آپ کے ذمے ہے۔ صرف آپ ہی ہیں جن کے وسیلے سے شکستگی کو جوڑا جاتا ہے، اور بیمار شفا پاتے ہیں، جو کچھ کوکھوں میں بڑھتا ہے یا گھٹتا ہے، انجام پاتا ہے؛ بلا شبہ میں آپ کے راز پر ایمان رکھتا ہوں اور آپ کے کلام کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہوں؛ میں اللہ کو آپ کے واسطے قسم دیتا ہوں کہ میں [آپ کے حرم سے] پلٹوں اپنی حاجتوں کے ساتھ، اور وہ [ذات احدیت] میری حاجتیں روا کے، اور انہیں امضا کرے اور کامیابی سے ہمکنار کرے، اور ان کے راستے میں سختیوں کو دور کرے، اور میرے ان معاملات کے ہمراہ، جو آپ کے سپرد ہیں، اور ان کی اصلاح فرمائے؛ اور سلام ہو آپ پر اس شخص کے سلام جیسا جس نے اپنے امور آپ کے سپرد کئے ہیں، سوال کرتا ہے اللہ سے کہ اس کو دوبارہ آپ کی بارگاہ میں پلٹا دے، اور اس کی آپ کے یہاں حاضری منقطع نہ ہو؛ اور مجھے لوٹا دے آپ کی بارگاہ سے بہترین انداز سے اور بھرے ہاتھوں کے ساتھ، سرسبز مقام اور خوشگوار قیام گاہ کی طرف جو وسیع اور پرسکون ہوچکی ہو، موت کے آپہنچنے اور انجام بخیر ہونے تک، اور [میرے نصیب کرے] ایک بہترین منزل اور ایک مقام ازلی نعمتوں میں، اور اخروی و ابدی زندگی، اور مسلسل غذائیں تناول کرنا اور لذیذ شرابِ طہور اور شیریں پانی، کئی بار اور ایک بار پینا، جس کے پینے سے نہ اکتاہٹ آئے نہ ہی کوئی رنج ہو، اور اللہ کا درود و صلوات و برکات اور تحیات ہوں آپ پر، آپ کی بارگاہ میں میرے پلٹ کر آنے تک، اور آپ کی رجعت [اور حکومت] میں فلاح پانے تک، حشر میں آپ کے زمرے میں اٹھنے تک، اور رحمت و برکات اور درود و تحیات ہوں آپ پر، اور وہ [اللہ] ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔

شرحیں

سند اور مضامین کے لحاظ سے، اس زیارت کی اہمیت کے پیش نظر، بہت سے اکابرین نے زیارت رجبیہ پر شرحیں لکھی ہیں جن کے عناوین حسب ذیل ہیں:

  1. شرح زیارت رجب، بقلم: قاضی بن کاشف الدین محمد اردکانی یزدی (متوفٰی 1075 ھ)
  2. علامہ مجلسی نے زیارت رجبیہ کی بعض عبارات کی شرح تحریر کی ہے۔
  3. شرح زیارت رجبیہ، بقلم: میرزا محمد بن محمد رضا سنابادی مشہدی (11 و 12 صدی ہجری)
  4. شرح دعائے رجب، بقلم: حمید بن محمد حسین موسوی۔
  5. ترجمۃ عدیم الادب فی دعاء شہر رجب، بقلم: عبد علی (زندہ در 1271 ھ)
  6. شرح زیارت رجبیہ، بقلم: محمد بن مقیم بار فروشی (متوفٰی 1281 ھ)
  7. رجبیہ، بقلم: محمد مہدی قزوینی (متوفٰی 1129 ھ)
  8. شرح دعائے رجبیہ، بقلم: محمد کریم خان بن ابراہیم کرمانی شیخی (متوفٰی 1288 ھ)
  9. الرسالۃ الرجبیۃ، بقلم: محمد بن حسین تنکابنی (متوفٰی 1302 ھ)
  10. شرح دعائے رجبیہ، بقلم: محمد باقر بن محمد جعفر بن ہمدانی (متوفٰی 1333 ھ)
  11. زیارت رجبیہ، مؤلف: نامعلوم۔
  12. شرح دعاء الرجب، مؤلف: نامعلوم۔[12]

حوالہ جات

  1. وہ دعا یا زیارت جو معصوم (ع) سے نقل ہوئی ہے، مأثورہ کہلاتی ہے
  2. شیخ طوسی، مصباح المتهجد، ص821۔
  3. ابن المشہدی، المزار الکبیر، ص 203۔
  4. اقبال الاعمال، ج3، ص183۔
  5. بحارالانوار، ج99، ص195۔
  6. عباس قمی، مفاتیح الجنان، ص137۔
  7. مصباح المتهجد، ص821۔
  8. المزار الکبیر، ص 203۔
  9. شیخ طوسی، مصباح المتهجد، ص821۔
  10. ابن المشہدی، المزار الکبیر، ص203۔
  11. سورہ رعد، آیت 24۔
  12. حمید احمدی جلفایی، شرح زیارت رجبیہ۔

مآخذ

  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، مؤسسہ فقہ الشیعۃ، 1411ھ۔
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، اسوہ، قم۔ بی‌تا۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی؛ الإقبال بالأعمال الحسنۃ، مکتب الإعلام الإسلامی، 1416ھ۔
  • مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، قم، قیوم، 1419ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • احمدی جلفایی، حمید، شرح زیارت رجبیہ- محمد بن مقیم بارفروشی مازندرانی، میراث حدیث شیعہ، 1389 - شمارہ 21.

بیرونی روابط

شرح زیارت رجبیه