روزہ
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
![]() |
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
روزہ (عربی زبان میں صوم) خدا کی اطاعت کی خاطر صبح کی اذان سے مغرب کی اذان تک کھانے پینے اور دیگر کچھ کاموں سے پرہیز کرنے کا نام ہے۔ روزہ اسلام کے فروعی احکام، برترین عبادات اور الام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جو اسلام سے پہلے کے ادیان میں بھی موجود تھا۔شرعی نقطہ نظر سے روزہ کی چار قسمیں ہیں: روزہ واجب، مستحب، مکروہ اور حرام۔ ماہ رمضان کے روزے واجب روزوں میں سے ہیں۔
دینی منابع میں روزہ کے متعدد اخلاقی اور معنوی آثار ذکر ہوئے ہیں جن میں کسب تقوی، آتش جہنم کے مقابلہ میں سپر، گناہوں کا کفارہ، بدن کی زکات اور شیطان سے دوری قابل ذکر ہیں۔ کہتے ہیں کہ روزے کے جسمانی اور نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں، جیسے کہ بے قراری اور ڈپریشن کو کم کرنا، عزت نفس میں اضافہ اور قلبی اور عروقی امراض سے محفوظ رہنا وغیرہ روزے کے جسمانی اور نفسیاتی اثرات میں شمار ہوتے ہیں۔
روزے کو باطل کرنے والی چیزیں یہ ہیں: کھانا پینا، جماع کرنا، خدا و رسول اور ائمہ معصومین کی طرف چھوٹی نسبت دینا، غلیظ غبار کا حلق تک پہنچانا، صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنا، حیض و نفاس، استمناء، پانی میں سر ڈبونا اور جان بوجھ کر قے (الٹی) کرنا۔ جان بوجھ کر مبطلات روزہ میں سے کسی کا ارتکاب کرنے کی صورت میں قضا کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہوتا ہے۔
روزے کی اہمیت اور آثار
اذان صبح سے لے کر مغرب کی اذان تک قصد قربت کے ساتھ کھانے پینے جیسے کچھ خاص امور سے اجتناب کرنے کو روزہ کہا جاتا ہے۔[1] تاہم شیعہ فقیہ علی مشکینی نے روزے کو مبطلات روزہ سے بچنے کے لیے روح کو تیار کرنے سے تعبیر کیا ہے۔[2] شیعہ مفسر سید محمد حسین طباطبائی کا کہنا ہے کہ اسلام کی نظر میں روزہ صرف کھانے پینے سے اجتناب کرنے کا نام نہیں بلکہ روزہ دار کو چاہیے کہ وہ ہر قسم کی روحی آلودگیوں، گناہوں اور نفسیانی خواہشات اور وسوسوں سے دوری اختیار کرے۔[3] سید محمد کاظم طباطبائی یزدی نے اپنی کتاب عروۃ الوثقی میں وجوب روزہ کو ضروریات دین میں شمار کیا ہے اور ماہ رمضان کے روزوں کے انکار کرنے والے کومرتد سمجھتے ہوئے اس کے قتل کو واجب قرار دیا ہے۔[4]
روزہ اسلامی عبادات میں سے بافضیلت ترین عبادت ہے۔[5] اسلام کا بینادی رکن[6] اور ایک قسم کا جہاد ہے۔[7] کہتے ہیں کہ روزے کو ترک کرنا انسان کو دائرہ ایمان سے خارج کردیتا ہے۔[8]
روزہ واجب ہونے کی دلیل
شیعہ مفسرین میں سے طباطبائی اور مکارم شیرازی نے قرآن کی آیت «لعلکم تتقون؛ تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔» سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے حصول تقوی کو روزے کا فلسفہ قرار دیا ہے۔[9] کتاب علل الشرائع کی ایک روایت میں روزے کے فرض ہونے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ روزہ امیروں کو غریبوں کے لیے ہمدردی پیدا کرتا ہے اور ان کی بھوک کی سختیوں اور تکالیف کا احساس دلاتا ہے۔[10]
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت آدمؑ نے شجرہ ممنوعہ کا پھل کھایا تو اس کے اثرات ان کے پیٹ میں 30 دن تک باقی رہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد پر 30 دن کے روزے فرض کیے۔[11] روزے کی فرضیت کے بارے میں امام رضاؑ کی ایک روایت میں قیامت کے دن کو یاد کرنے اور اس کی مشقت کی طرف توجہ کرنے کا ذکر ہے۔[12] بعض لوگ جسمانی صحت کو روزے کی فرضیت کی ایک اور وجہ سمجھتے ہیں اور وہ اس کو "صوموا تصحوا" (نبی کی طرف منسوب) کی حدیث سے مستند کرتے ہیں۔[13]
روزے کے انفرادی اور اجتماعی آثار
معصومینؑ سے مروی احادیث میں روزے کے مختلف آثار بیان ہوئے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
تفسیر تسنیم عبد اللہ جوادی آملی کے مطابق روزہ فرد اور معاشرے میں گناہوں اور زندگی کے مسائل کے مقابلے میں نظم و ضبط، قناعت اور صبر کے جذبے کو تقویت دیتا ہے۔[24] اس کے علاوہ میڈیا میں شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ماہ رمضان میں سماجی خلاف ورزیوں کی تعداد میں کافی حد تک کمی آتی ہے۔[25]
اس کے علاوہ، طبی لحاظ سے بھی روزہ جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔[26] جسمانی اور دماغی صحت پر روزے کے مثبت اثرات میں مدافعتی نظام پر مثبت اثر، اضطراب اور افسردگی میں کمی، ذہنی صحت، خود اعتمادی میں اضافہ اور قلبی امراض سے بچاؤ شامل ہیں۔[27]
روزہ اور گذشتہ امتیں
قرآن مجید کے سورہ بقرہ کی آیت 183 کے مطابق روزہ اسلام سے پہلے کے ادیان میں بھی موجود تھا۔[28] توریت[29] اور انجیل[30] میں سابقہ امتوں کے روزہ رکھنے کا تذکرہ ملتا ہے۔ توریت کی تصریح کے مطابق، حضرت موسی نے الواح کے دریافت کرنے سے پہلے چالیس دن روزہ رکھا۔[31] قرآن کریم میں حضرت زکریا[32] اور حضرت مریم[33][یادداشت 1] اور روایات[34] میں اسلام سے پہلے کے ادیان میں روزہ کے موجود ہونے کا ذکر ہوا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ روزہ اسلام سے قبل دیگر اقوام جیسے قدیم مصریوں، یونانیوں، رومیوں اور ہندوؤں میں بھی موجود تھا۔[35]
اسلامی منابع کے مطابق، رمضان المبارک کا روزہ تغییر قبلہ کے 13 دن بعد 2 شعبان[36] یا 28 شعبان سنہ 2 ہجری میں واجب ہوا۔[37] ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنے کا حکم اور اس سے مربوط بعض دیگر احکام قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔[38] روزے کا حکم آنے کے آنے بعد ابتداء میں روزہ داروں کے لئے افطار کے بعد فقط سونے سے پہلے تک کھانا پینا جائز تھا اور پورے ماہ رمضان میں جماع مکمل طور پر حرام تھا۔ البتہ یہ دونوں حکم کچھ عرصہ کے بعد منسوخ ہوگئے۔[39]
روزے کے مختلف اقسام
واجب روزے | |
حرام روزے |
|
مکروہ روزے[یادداشت 2] |
|
مستحب روزے |
سوائے مندرجہ بالا ذکر شدہ مستحب، مکروہ اور حرام روزوں کے پورے سال میں روزہ رکھنا مستحب ہے۔ البتہ بعض ایام میں روزہ رکھنے کی زیادہ تاکید ہوئی ہے جیسے: ہر اسلامی مہینے کے تین دن؛ یعنی مہینے کی پہلی جمعرات، دسویں اور بیسویں تاریخ کے مابین والے بدھ کا دن اور مہینے کی آخری جمعرات، ماہ رجب اور ماہ شعبان کے روزے، عید غدیر کے دن، یوم مبعث، پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے دن، روز دحو الارض، روز عرفہ بشرطیکہ روزہ رکھنے کی وجہ سے جسمانی ضعف کا باعث نہ بنے، روز مباہلہ، ہر جمعرات اور جمعہ، نوروز کے دن کا روزہ، جمادی الاولی کی پندرہویں تاریخ۔[45] |
احکام روزه
مُبطِلات روزہ
شرعی نقطہ نظر سے روزہ کے دوران کچھ چیزوں کی ممانعت ہے:
- کھانا پینا
- جماع کرنا
- خدا، پیغمبر(ص) اور اماموں کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا
- غلیظ غبارحلق تک پہنچانا
- صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنا، حیض یا نفاس کی حالت میں باقی رہنا
- استمنا
- مایعات کے ساتھ امالہ کرنا
- پورا سر پانی میں ڈبونا [یادداشت 3]
- عمداً قے کرنا
- مبطلات روزہ میں سے کسی ایک کےذریعے روزہ توڑنے کی نیت کرنا۔[46]

مکروہات روزہ
فقہاء نے بعض امور کو روزہ دار کے لئے مکروہ شمار کیا ہے: جیسے بیوی کے ساتھ لمس، بوسہ و ملاعبہ کرنا، سرمہ لگانا، ہر وہ کام جو کمزوری کا سبب بنے، پھول سونگھنا، پہنے ہوئے لباس کو تر کرنا، ہر وہ کام جس سے دہن خون آلود ہو جائے جیسے دانت نکلوانا، بغیر کسی وجہ کے کلی کرنا۔[47]
وہ افراد جن کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے
ماہ رمضان کا روزہ ہر مکلف پر واجب ہے مگر چند اس سے مستثنی ہیں:
- وہ شخص جو بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا، یا جسے روزہ رکھنا انتہائی مشکل ہو؛ البتہ، دوسری صورت میں وہ ہر روز کے بدلے ایک مد طعام غریب کو دے۔[48]
- وہ مریض جو بہت پیاسا ہو جاتا ہے اور پیاس کو برداشت نہیں کر سکتا یا اسے پیاس برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ البتہ، دوسری صورت میں وہ ہر روز کے بدلے فقیر کو ایک مد طعام دے۔[49]
- حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت جس کا دودھ کم ہو اور روزہ رکھنا بچے یا خود کے لیے نقصان دہ ہو۔ البتہ اس پر لازم ہے کہ ہر دن کے بدلے مسکین کو ایک مد طعام دے اور روزوں کی قضا کرے۔ [50]
- وہ شخص جس کے لیے روزہ جسمانی کمزوری کی وجہ سے ناقابل برداشت یا نقصان دہ ہو؛ البتہ اس پر اس روزے کی قضاء واجب ہے اور اگر اگلے رمضان تک اس کی قضا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو ایک مد طعام دے۔[51]
- وہ مسافر[یادداشت 4] اور دس دن سے کم دن رُکے۔[52] البتہ کثیرالسفر اور وہ افراد جن کا شغل ہی سفر کرنا ہو مثلا ڈرائیور؛ اس حکم سے مستثتیٰ ہیں۔[53]
افطار یا روزہ کھولنا

روزہ کھولنے یا توڑنے کو افطار کہتے ہیں۔[54] شیعہ امامیہ فقہ کے مطابق، روزہ دار کو مغرب کی اذان تک افطار نہیں کرنا چاہیے۔[55] روایات کے مطابق، افطار کے وقت دعا پڑھنا، سورہ قدر کی تلاوت کرنا،[56] پانی، دودھ یا کھجور سے افطار کرنا مستحب ہے۔[57] روایات کے مطابق، روزہ دار کو افطار کرانا فضیلت رکھتا ہے۔[58] خطبہ شعبانیہ میں پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہونے والے اقوال کے مطابق، ماہ مبارک رمضان میں کسی مومن کو افطار کرانے کا ثواب ایک غلام کو آزاد کرنے کے برابر ہے۔ اسی طرح سے افطار کرانا گناہوں کی بخشش کا سبب بھی بنتا ہے۔[59]
روزوں کی قضا اور کفارہ
- جس مکلف پر ماہ رمضان کے روزے واجب ہوں اور وہ روزہ نہ رکھے تو اس کے لئے اس کی قضا ضروری ہے۔[60] ماہ رمضان کے روزہ کی قضا واجب فوری نہیں ہے۔ البتہ اگلے رمضان سے پہلے اس کا بجا لانا ضروری ہے۔[61]
- وہ شخص جو کسی بیماری کی وجہ سے ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھ سکے اور اگلے سال کے رمضان تک اس کی قضا نہ کر سکے تو اس کے لئے ان دنوں کی قضا واجب نہیں ہے۔ البتہ اسے ہر روز کے بدلے ایک مد طعام (750 گرام) کفارہ کے عنوان سے فقیر کو دینا ہوگا۔[62]
- اگر کوئی شخص کسی شرعی غذر کے بغیر جان بوجھ کر ماہ رمضان کا روزہ نہ رکھے تو اس پر لازم ہے کہ روزے کی قضا کے علاوہ اس کا کفارہ بھی ادا کرے؛[63] اس کا کفارہ یہ ہے کہ ہر دن کے بدلے میں 60 فقیروں کو کھانا کھلائے یا 60 دن روزہ رکھے جس میں 31 دن روزے پے در پے رکھنا واجب ہے۔[64]
- اگر اگلے سال رمضان تک قضا کو بغیر کسی عذر کے بجا نہ لائے تو کفارہ تاخیر (ہر روزہ کے بدلے ایک مد طعام) بھی ادا کرنا پڑے گا۔[65]
- اگر ماہ رمضان کا روزہ کسی حرام کام (جیسے شراب یا زنا) کے ذریعے باطل کیا ہو تو کفارہ جمع دینا واجب ہے؛ کفارہ جمع سے مراد یہ ہے کہ 60 فقیروں کو کھانا بھی کھلائے اور 60 دن روزہ بھی رکھا جائے۔[66] البتہ بعض سید علی سیستانی کفارہ جمع کو احتیاط مستحب سمجھتے ہیں۔[67]
سر عام روزہ خواری کی حرمت
اسلامی فقہ کے مطابق ماہ رمضان میں سرعام روزہ خواری حرام عمل ہے اور شریعت میں اس کے لیے تعزیر کا حکم ہے۔[68]
مراتب روزہ
اسلامی کتب میں روزوں کے کچھ کے مراتب بیان ہوئے ہیں: عوامانہ روزہ، خواص کا روزہ اور خاص الخواص افراد کا روزہ۔[69]
- عوامانہ روزہ یہ ہے کہ انسان ان چیزوں سے اجتناب کرے جو روزہ کو باطل کرتی ہیں اور روزہ کے ظاہری آداب کی رعایت کرے۔[70]
- خواص کا روزہ یہ ہے کہ وہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں اور دوسرے اعضاء و جوارح کو بھی گناہوں سے محفوظ رکھیں۔[71]
- خاص الخواص کا روزہ یہ ہے کہ انسان دنیوی پریشانیوں اور اہداف و مقاصد سے دوری اختیار کر لے سوائے اس دنیا سے جو دین کا مقدمہ ہو۔[72] امام علیؑ کی ایک حدیث میں بدن کے روزہ (کھانے پینے کی چیزوں سے اجتناب کرنا) نفس کے روزے (گناہوں کی طرف متوجہ نہ ہونا اور دل کو برائیوں سے خالی کرنا) اور روزه قلب کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[73]
اسی طرح سے حدیث کے مطابق، حقیقی روزہ ان تمام چیزوں کو ترک کرنا ہے، جسے خداوند عالم پسند نہیں کرتا ہے۔[74] اور حقیقی روزہ وہ ہے جس میں انسان کے آنکھ، کان، بال، جلد بھی روزہ ہوں۔[75] اور دل کا روزہ، زبان کے روزہ سے بہتر اور زبان کا روزہ شکم کے روزہ کے بہتر شمار کیا گیا ہے۔[76]
کتابیات
روزہ کے بارے میں مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، جو بنیادی طور پر اس کے احکام سے متعلق ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
- الصوم فی الشریعۃ الاسلامیۃ الغرّاء، جعفر سبحانی، موسسہ امام صادقؑ پبلیکیشنز۔
- نور ملکوت روزہ، سید محمد حسین حسینی تہرانی، مکتب وحی پبلیکیشنز۔
- روزے کے احکام، محمد حسین فلاح زادہ، امیرکبیر پبلیکیشنز۔
- روزے کے احکام، اسرار اور فوائد، محی الدین مستو کی تصنیف، اس میں شافعی فقہ کے نقطہ نظرکو بیان کیا گیا ہے روزے کے فوائد اور تاریخی مباحث پر بھی بحث کی گئی ہے۔
- روزه، میتواند زندگیات را نجات دہد، مصنف: ہربرٹ ایم شیلٹن۔ ترجمہ: ما شاء اللہ فرخندہ، نسل نواندیش پبلیکیشنز۔
- احکام روزہ: روزہ کی شرائط، مفطرات روزہ، قضا اور کفارہ، باقر العلومؑ ریسرچ انسٹیٹیوٹ۔ اس کی دو جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
- روزه درمان بیماریہای روح و جسم، حسین موسویٰ راد، دفتر اسلامی پبلیکیشنز۔
حوالہ جات
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1392شمسی، ص363۔
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1392شمسی، ص363۔
- ↑ طباطبایی، تعالیم اسلام، 1387شمسی، ص272۔
- ↑ یزدی، العروة الوثقی،1421ھ، ج3، ص521۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، 1404ھ، ج16، ص181۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407شمسی، ج2، ص18-24 و ج4، ص62۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج93، ص257، ح14۔
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص118، ح1892۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص8؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص623-624۔
- ↑ صدوق، علل الشرایع، المکتبۃ الحیدریۃ، ج2، ص378۔
- ↑ صدوق، علل الشرایع، المکتبۃ الحیدریۃ، ج2، ص378۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج2، ص116۔
- ↑ سوری لکی، «فلسفہ وجوب روزہ»، ص32-33۔
- ↑ نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، حکمت252، ص512۔
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص75، ح1774۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص62، ح1؛ ابنشعبہ، تحف العقول، 1363ھ، ص258۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص510۔
- ↑ راوندی، الدعوات، 1366شمسی، ج1، ص27۔
- ↑ پایندہ، نہج الفصاحۃ، 1387شمسی، ص547، ح1854
- ↑ طبرسی، مکارم الاخلاق، 1412ھ، ص51
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص62
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص75، ح1773
- ↑ نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج7، ص400۔
- ↑ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1389شمسی، ج9، ص288۔
- ↑ «کاہش 5 تا 33 درصدی جرایم در ماہ رمضان»، پایگاہ خبری آفتاب۔
- ↑ رضایی، «روزہداری و سلامت از نگاہ پزشکی»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ۔
- ↑ رضایی، «روزہداری و سلامت از نگاہ پزشکی»، پایگاہ اطلاعرسانی حوزہ.
- ↑ ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص7 و 8۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: سفر خروج، فصل 34، آیہ 28؛ کتاب دوم سموئیل، فصل 12، آیہ 16؛ کتاب دوم تواریخ، فصل 20، آیہ 3۔
- ↑ انجیل لوقا، فصل2، آیہ 37، فصل 4، آیہ 2 و فصل 5، آیہ 34۔
- ↑ سفر تثینہ، فصل 9، آیہ 9۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص7۔
- ↑ سورہ مریم، آیہ 26۔
- ↑ بہ عنوان نمونہ ملاحظہ کیجیے: مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج13، ص427 و ج17، ص292۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص7۔
- ↑ قمی، وقایع الایام، 1389شمسی، ص495۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403، ج18، ص194؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص42۔
- ↑ سورہ بقرہ آیات 183-185و187۔
- ↑ طبرسی، جوامع الجامع، جامعہ مدرسین، ج1، ص106؛ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج7، ص81۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1420ھ، ج3، ص658۔
- ↑ نراقی، تذکرة الاحباب، 1383شمسی، ص104.
- ↑ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1420ھ، ج3، ص661-663۔
- ↑ نراقی، تذکرة الاحباب ، 1383شمسی، ص104۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1420ھ، ج3، ص660-661۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1420ھ، ج3، ص658-660۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی(محشی)، 1419ھ، ج3، ص541- 577؛ امام خمینی، توضیح المسائل(محشی)، 1424ھ، ج1، ص891۔
- ↑ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385ہجری شمسی، ج4، ص171و172۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص955، م1725۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص956، م1727۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص957-958، م1728 و 1729۔
- ↑ امام خمینی، استفتائات، ج1، ص333، س88؛ «نظر مراجع عظام تقلید پیرامون روزهداری با ضعف جسمانی»، برگزاری رسمی حوزه۔۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص951، م1714 و 1723۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص701.
- ↑ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385ہجری شمسی، ج1، ص624۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص880۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج10، ص147-151۔
- ↑ حرعاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج10، ص156-161۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص68 و 69؛ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص134و135۔
- ↑ صدوق، عیون أخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص296۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص635-637؛ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ، دار العلم، ج1، ص298۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص639؛ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ، دار العلم، ج1، ص298۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص640و641؛ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ، دار العلم، ج1، ص299۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص926؛ مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385شمسی، ج4، ص169۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص928و929؛ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ، دارالعلم، ج1، ص289۔
- ↑ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ، دار العلم، ج1، ص298۔
- ↑ بہجت، جامع المسائل، 1426ھ، ج2، ص29۔
- ↑ سیستانی، توضیح المسائل، 1393ہجری شمسی، ص298-299.
- ↑ یزدی، العروة الوثقی، 1420ھ، ج3، ص521.
- ↑ انصاریان، عرفان اسلامی، 1386ہجری شمسی، ج6، ص272۔
- ↑ انصاریان، عرفان اسلامی، 1386ہجری شمسی، ج6، ص272۔
- ↑ انصاریان، عرفان اسلامی، 1386ہجری شمسی، ج6، ص272۔
- ↑ انصاریان، عرفان اسلامی، 1386ہجری شمسی، ج6، ص272۔
- ↑ آمدی، غرر الحکم، 1410ھ، ص423۔
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج20، ص299، ح417۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص87۔
- ↑ تمیمی آمدی، غررالحکم و دررالکلم، 1410ھ، ص423، ح80۔
نوٹ
- ↑ بعض تفاسیر کے مطابق حضرت زکریا اور مریم نے جو روزہ رکھا وہ سکوت کا روزہ تھا۔(علامہ طباطبائی، المیزان، چاپ اسماعیلیان، ج2، ص7۔)
- ↑ یہاں کراہت کے معنی ثواب میں کمی کے ہیں۔(طباطبایی یزدی، العروة الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص521)۔
- ↑ شبیری زنجانی اور سید علی سیستانی جیسے بعض مراجع تقلید کے مطابق پورے سر کو پانی ڈبودینا روزے کو باطل نہیں کرتا بلکہ یہ حرام یا مکروہ کام ہے۔(ملاحظہ کیجیے: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص555؛ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص891۔)
- ↑ شرعی حکم کے مطابق مسافر سے مراد وہ شخص ہے جو کم از کم 8 فرسخ(رفت و آمد دونوں کے مابین کم از کم 41 کیلومیٹر مسافت) کی مسافت طے کرے؛ (امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1424ھ، ج1، ص684، م1272)۔
مآخذ
- ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمدابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
- ابنشعبہ، حسن بن علی، تحف العقول، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1363ہجری شمسی۔
- امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، قم، دارالعلم، چاپ اول، بیتا۔
- امام خمینی، سید روح اللہ، استفتائات، قم، دفتر نشر اسلامی، بیتا۔
- امام خمینی، سید روحا للہ، توضیح المسائل(محشی)، تحقیق و تصحیح سیدمحمدحسین بنیہاشمی خمینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، 1424ھ۔
- امام صادق (منسوب)، مصباح الشریعۃ، بیروت، اعلمی، چاپ اول، 1400ھ۔
- انصاریان، حسین، عرفان اسلامی، قم، دارالعرفان، 1386ہجری شمسی۔
- پایندہ، ابوالقاسم، نہج الفصاحہ، قم، دارالعلم، 1387ہجری شمسی۔
- تمیمی آمدی، عبد الواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، تصحیح سیدمہدی رجائی، قم، دارالکتاب الاسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
- جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، انتشارات اسراء چاپ سوم، 1389ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہمالسلام، 1409ھ۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، ہدایۃ الامۃ الی احکام الائمۃ، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1412ھ۔
- راوندی، قطبالدین، الدعوات، مدرسۃ الامام المہدی(عج)، 1366ہجری شمسی۔
- رضایی، علی، «روزہداری و سلامت از نگاہ پزشکی»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ بازدید: 16 اردیبہشت 1399ہجری شمسی۔
- سوری لکی، حسین، «فلسفہ وجوب روزہ»، پاسدار اسلام، شمارہ 228، آذر 1379ہجری شمسی۔
- صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا(ع)، تحقیق مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔
- صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق علیاکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر نشر اسلامی۔
- طباطبائی، سید محمد حسین، تعالیم اسلام، با گردآوری ہادی خسروشاہی، قم، انتشارات بوستان کتاب، 1387ہجری شمسی۔
- طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی(محشی) ج1، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1419ھ۔
- طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی(مُحَشّی) ج3، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1420ھ۔
- طبرسی، حسن بن فضل، جوامع الجامع، تحقیق مؤسسہ نشر اسلامی، قم، جامعہ مدرسین۔
- طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، انتشارات شریف رضی، چاپ چہارم، 1412ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دارالثقافہ، چاپ اول، 1414ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف بن مطہر، تذکرۃ الفقہا، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1414ھ۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تصحیح سیدہاشم رسولی محلاتی، تہران، المکتبۃ العلمیۃ، چاپ اول، 1380ھ۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، تصحیح طیب موسوی جزائری، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
- «کاہش 5 تا 33 درصدی جرایم در ماہ رمضان»، پایگاہ خبری آفتاب، تاریخ درج مطلب: 26 تیر 1392شمسی، تاریخ بازدید: 16 اردیبہشت 1399ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مؤسسۃ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مکتب اہل بیت علیہمالسلام، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاءالتراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
- مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، تحقیق: حمید احمدی جلفایی، قم، مؤسسہ علمی و فرہنگی دارالحدیث، 1392ش/1434ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، داراحیاءالتراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
- «نظر مراجع عظام تقلید پیرامون روزہداری با ضعف جسمانی»، خبرگزاری رسمی حوزہ، تاریخ درج مطلب: 16 تیر 1393شمسی، تاریخ بازدید: 16 اردیبہشت 1399ہجری شمسی۔
- «نقش روزہ در تعالی انسان از منظر عرفان اسلامی»، سایت خبرگزاری شبستان، تاریخ انتشار: 7 اردیبہشت 1401شمسی، تاریخ بازدید: 12 اردیبہشت 1402ہجری شمسی۔
- نوری، میرزاحسین، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسہ آلالبیت(ع)، چاپ اول، 1408ھ۔
- یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، بیتا.
- «Fasting», Encyclopedia Iranica، تاریخ بازدید: 16 اردیبہشت 1399ہجری شمسی۔