استمناء
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
استمناء کا مطلب یہ ہے کہ انسان جماع اور ہمبستری کے علاوہ کسی اور طریقے سے اپنی منی خارج کرے۔ فقہا نے استمنا کو حرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ استمناء کی سزا تعزیر ہے جسے حاکم شرع معین کرتا ہے۔ استمنا سے اگر منی خارج ہوجائے تو اس پر بعض احکام نافذ ہوتے ہیں جن میں سے نماز اور روزہ جیسے اعمال کے لئے غسل جنابت واجب ہونا ہے۔
مفہوم
استمناء کا مطلب انسان جان بوجھ کر شہوت کے ساتھ اپنی منی خود یا کسی اور کے ذریعے خارج کرے[1] استمناء کا لفظ مردوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور عورت کے لئے استشہا کہا جاتا ہے۔[2] استمناء کے بارے میں روزہ[3] اعتکاف،[4] حج[5] اور حدود کے ابواب میں بحث کی گئی ہے۔[6]احادیث میں بھی اس کام سے ممانعت ہے۔ وسایل ا لشیعہ میں حر عاملی نے تحریم استمناء کے عنوان سے ایک باب اس سے مربوط روایات کے ساتھ مختص کیا ہے۔[7] ایک روایت کے مطابق جو شخص استمنا کرتا ہے اللہ کی اس پر کرم کی نظر نہیں ہوتی ہے۔[8]
استمنا کا حرام ہونا
فقہی اعتبار سے استمنا حرام ہے۔ بعض فقہا اسے گناہ کبیرہ میں شمار کرتے ہیں۔[9] حرام ہونے کو قرآنی آیات اور احادیث سے مستند کیا ہے۔[10] فقہا نے استمنا حرام ہونے کو سورہ مومنون کی آیہ نمبر 6 سے بھی استناد کیا ہے جس کے مطابق ہر قسم کی جنسی لذت کا حصول بیوی اور کنیز کے علاوہ دوسرے طریقوں سے ممنوع ہے۔[11] بعض فقہا نے استمنا کو ضرورت کے تحت جیسے کسی بیماری کی تشخصی یا علاج اگر اس پر موقوف ہو تو اس صورت میں جائز سمجھتے ہیں۔[12] بعض شیعہ فقہا کے فتوے کے مطابق استمنا اگر بیوی یا کنیز کے ہاتھ سے ہو تو جائز ہے۔[13] البتہ علامہ حلی اس صورت میں بھی حرام سمجھتے ہیں۔[14]
بعض احادیث میں بھی استمنا سے منع ہوئی ہے۔ اور یہ احادیث وسائل الشیعہ کے باب تحریم استمناء کے ذیل میں نقل ہوئی ہیں۔[15] اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ استمناء کرنے والے پر اللہ تعالی کی نظر نہیں ہوتی ہے۔[16]
حلال اور حرام استمناء
استمناء کو حلال اور حرام دو صورتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ بعض شیعہ فقہا کے مطابق بیوی یا کنیز کے ذریعے سے استمنا کرے تو حلال اور اس کے علاوہ حرام ہے۔ اور بعض نے تو اسے گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔[17]جبکہ دوسری طرف بعض شیعہ فقہا کے مطابق کنیز یا بیوی کے ہاتھ کے ذریعے استمنا کرنا بھی حرام ہے۔[18][19]
فقہی آثار اور نتائج
استمنا اگر منی خارج ہونے کا باعث بنے تو اس صورت میں فقہا نے اس کے لئے بعض احکام بیان کئے ہیں:
- جنابت: جو شخص جنب ہوتا ہے اسے نماز پڑھنے، مسجد میں داخل ہونے اور بعض دیگر امور کے لئے غسل جنابت کرنا واجب ہے۔[20]
- روزہ کا باطل ہونا: استمناء سے روزہ باطل ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے کفارہ واجب ہوتا ہے۔ شیعہ فقہا کے مطابق حرام کام سے روزہ باطل کرنے کی صورت میں کفارہ جمع (یعنی تینوں کفارے غلام آزاد کرنا، دو مہینے روزہ اور 60 فقرا کو کھانا کھلانا) واجب ہوتا ہے۔[21] بعض فقہا نے استمنا سے روزہ باطل ہونے کی صورت میں تینوں کفارے دینے کو احتیاط مستحب قرار دیا ہے۔[22]
- اعتکاف کا باطل ہونا: استمناء سے روزہ باطل ہوجائے اور اس کی وجہ سے اعتکاف بھی باطل ہوتا ہے۔[23] بعض کا کہنا ہے کہ استمنا سے اعتکاف ہی بلاواسطہ باطل ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اگر رات میں بھی استمنا ہوجائے تو اعتکاف باطل ہوتا ہے۔[24]
- مُحرِم کا استمناء کرنا حرام اور کفارے کا باعث ہے۔[26] اور اس کا کفّارہ ایک اونٹ ہے۔[27] اسی طرح اکثر فقہا کا کہنا ہے کہ احرام کی حالت میں استمنا کرنے سے حج بھی باطل ہوتی ہے۔[28]
استمنا کی سزا
استمنا کی سزا تعزیر ہے اور اس کی مقدار اور کیفیت کو حاکم شرع معین کرتا ہے۔[29]اس کام کا مکرر مرتکب ہونے کی صورت میں سزا میں اور سختی آجائے گی۔[30] صاحب جواہر کا کہنا ہے کہ استمناء دو عادل مرد کی گواہی یا استمنا کرنے والے کے ایک بار اقرار سے ثابت ہوتا ہے۔[31]
نقصانات اور علاج
بعض ماہرین نے استمنا کے لئے کچھ جسمانی، ذہنی اور معاشرتی آثار اور نقصانات ذکر کئے ہیں:
- جسمانی خطرات: نظر کمزور ہونا، جسمی طاقت کمزور ہونا، عقیم ہونا، جوڑ کمزور ہونا اور ہاتھوں کی لرزش۔
- روحی اور فکری خطرات: حافظہ کی کمزوری، ہوش ٹھکانے نہ رہنا، اضطراب، گوشہ نشینی، پریشانی، بےحال، چڑچڑاپن، ہمیشہ تھکا رہنا اور ارادے میں کمزوری۔
- معاشرتی خطرات: گھریلو ناچاکی، بیوی اور شادی سے رو گردانی، جنسی رابطے میں کمزوری اور ناتوانی، دیر سے شادی کرنا۔[32]
حوالہ جات
- ↑ عبدالمنعم، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیة، دار الفضیلة، ج1، ص161.
- ↑ سہرابپور، خلوت شیطانی، 1390ش، ص15.
- ↑ سید مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص178؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص172.
- ↑ علامہ حلی، تذکرة الفقہاء، 1414ھ، ج6، ص257.
- ↑ ابنحمزہ، الوسیلة، 1408ھ، ص159؛ علامہ حلی، تذکرة الفقہاء، 1414ھ، ج7، ص381.
- ↑ ابنحمزہ، الوسیلة، 1408ھ، ص159؛ شیخ مفید، المقنعہ، 1410ھ، ص791.
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج20، ص352-355.
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج20، ص354-355.
- ↑ ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج41، ص647.
- ↑ مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، موسوعة الفقہ الاسلامی، 1423ھ، ج12، ص219و220.
- ↑ شیخ طوسی، المبسوط، 1388ھ، ج4، ص242؛ قطب الدین راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج2، ص144.
- ↑ بنیہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل مراجع، دفتر انتشارات اسلامی، ج1، ص978.
- ↑ مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، موسوعة الفقہ الاسلامی، 1423ھ، ج12، ص219و221.
- ↑ علامہ حلی، تذکرة الفقہا، 1388ھ، ص577.
- ↑ وسائل الشیعہ، ج20، ص352-355؛ مستدرک، 14، ص356
- ↑ وسائل الشیعہ، ج20، ص354-355؛ عَنْ أَبِی بَصِیرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِاللَّہِ(ع) یقُولُ ثَلَاثَةٌ لَا یکلِّمُہُمُ اللَّہُ یوْمَ الْقِیامَةِ وَ لَا ینْظُرُ إِلَیہِمْ وَ لَایزَکیہِمْ وَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ النَّاتِفُ شَیبَہُ وَ النَّاکحُ نَفْسَہُ وَ الْمَنْکوحُ فِی دُبُرِہِ
- ↑ مستمسک العروة، ج6، ص 106109؛ بحارالانوار، ج101، ص30
- ↑ جواہرالکلام، ج10، ص147؛ الحدائق الناضرة، ج8، ص279
- ↑ تذکرة الفقہا(تک جلدی)، ص577
- ↑ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ج1، ص507-508.
- ↑ شیخ بہایی، جامع عباسی، 1429ھ، ص462.
- ↑ بنیہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج1، ص978.
- ↑ ملاحظہ کریں نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج17، ص207.
- ↑ خویی، منہاج الصالحین، ج1، ص292.
- ↑ تذکرة الفقہاء، ج6، ص257
- ↑ ابن حمزہ، الوسیلہ، 1408ھ، ص159؛ علامہ حلی، تذکرة الفقہا، 1414ھ، ج7، ص381
- ↑ نجمالدین حلی، ایضاح الترددات الشرایع، 1428ھ، ج1، ص231
- ↑ ملاحظہ کریں، نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج20، ص367-368.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج41، ص647،649؛ شیخ مفید، المقنعہ، 1410ھ، ص791؛ ابنادریس حلی، کتاب السرائر، 1410ھ، ج3، ص536.
- ↑ نگاہ کنید بہ: ابنحمزہ طوسی، الوسیلہ، 1408ھ، ص415.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج41، ص649.
- ↑ تاثیرات استمنا بر زندگی زناشویی
مآخذ
- ابنحمزہ طوسی، محمد بن علی، الوسیلة الی نیل الفضیلة، قم، انتشارات کتابخانہ آیت اللہ مرعشی، 1408ہجری۔
- بنیہاشمی خمینی، محمدحسن، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، دفتر انتشارات اسلامی، بیتا.
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة الی تحصیل مسائل الشریعة، قم، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث، چاپ سوم، 1416ہجری۔
- خویی، سید ابوالقاسم، منہاج الصالحين، قم، مدينة العلم، 1410ہجری۔
- سہرابپور، علی، خلوت شیطانی: خود ارضایی و راہ درمان آن، قم، دفتر نشر معارف، 1390ہجری شمسی۔
- سید مرتضی، الانتصار فی انفرادات الإمامیة، مصحح: گروہ پژوہش دفتر انتشارات اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1415ہجری۔
- شیخ بہایی، بہاءالدین، جامع عباسی و تکمیل آن محشی، چاپ جدید، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1429ہجری۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تحقیق محمد باقر بہبودی، تہران، المکتبة المرتضویة، چاپ سوم، 1388ہجری۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعة، قم، جماعة المدرسین، 1410ہجری۔
- عبدالمنعم، محمود عبدالرحمن، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیة، قاہرہ، دار الفضیلة، بیتا.
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء، قم، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، 1388ہجری۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء، تصحیح گروہ پژوہش مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، قم، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، 1414ہجری۔
- قطب الدین راوندی، سعید بن ہبة اللہ، فقہ القرآن، قم، انتشارات کتابخانہ آیت اللہ مرعشی، 1405ہجری۔
- مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السّلام، قم، مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی، 1385ہجری شمسی۔
- مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، موسوعة الفقہ الاسلامی طبقاً لمذہب أہل البیت علیہمالسلام، قم، مؤسسہ دایرہ المعارف فقہ اسلامی، 1423ہجری۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، موسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ہجری۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، تحقیق محمود قوچانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
- نجمالدین حلی، إیضاح ترددات الشرائع، مصحح: سید مہدی رجایی، قم، انتشارات کتابخانہ آیة اللہ مرعشی نجفی، 1428ھ