احیاء موات

ویکی شیعہ سے

اِحْيَاء مَوات ایسی زمینوں کو آباد کرنا جو استفادہ کے قابل نہ ہوں۔ نمک والی، پتھریلی یا بنجر زمین جس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اسے زمین موات (مردہ زمین) کہا جاتا ہے۔ احیاء ہر اس چیز کو شامل ہے جو عرف عام میں آباد کرنے کے معنی میں ہو۔

فقہ شیعہ میں ہر وہ شخص جو زمین کو آباد کرے اس کا مالک ہو جاتا ہے۔ قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران میں ان زمینوں کا اختیار حکومت اسلامی کو دیا گیا ہے اور عام لوگ بغیر قانونی اجازت کے ان زمینوں کو نہ تو استعمال کر سکتے ہیں اور نہ انہیں آباد کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

مفہوم‌ شناسی

احیاء موات یعنی ویران زمیونوں کو آباد کرنے کے معنی میں ہے۔[1] نمک والی، پتھریلی یا بنجر زمین جس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اسے زمین موات (مردہ زمین) کہا جاتا ہے۔[2]

احیاء کا مطلب ہے جو موانع ہوں انہیں برطرف کیا جائے اور زمین کو قابل استفادہ بنایا جائے۔[3] فقہ شیعہ میں احیاء کے لئے کوئی خاص مصداق معین نہیں ہوا اور اس کی تشخیص کو عرف عام کے حوالے کیا گیا ہے۔[4] علما کا تحجیر (زمین کو آباد کرنے کے قصد سے قدم اٹھانا جیسے کھدائی، وائرنگ، پتھر بنانا و ۔۔۔۔[5]) کے سلسلہ میں اختلاف نظر ہے، کچھ کا خیال ہے کہ تحجیر صرف ایک ترجیح ہے اور اس سے مالکیت حاصل نہیں ہوتی۔[6] ایران کے ملکی قانون کے آرٹیکل 142 کے مطابق تحجیر سے صرف اولویت ثابت ہوتی ہے۔[7] فقہی کتابوں میں، ایک فصل احیاء موات کے عنوان سے اختصاص دی گئی ہے۔[8]

احیاء موات کی قسمیں اور ان کا حکم

فقہ شیعہ میں جو بھی زمین کو آباد کرے وہ اس کا مالک ہو جاتا ہے۔[9] بعض فقہا نے اس بات پر اجماع کا دعوی کیا ہے۔[10] مردہ زمینیں دو طرح کی ہوتی ہیں:

  • موات اصلی (بالاصالۃ): وہ زمینیں جو نہ تو کسی کی ذاتی ملکیت ہوں اور نہ ہی آباد ہوں۔ اسی طرح وہ زمین جس کا ماضی نامعلوم ہو وہ زمین موات بالاصالہ کے حکم میں آتی ہے۔
  • موات عرضی (بالعرض): وہ زمین جو ایک مدت تک تو آباد بھی تھی اور اس کا مالک بھی تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مردہ ہو گئیں۔[11]

مردہ زمین انفال کا حصہ ہیں اور امام معصوم کے دورہ حضور میں بغیر ان کی اجازت کے تصرف نہیں کیا جا سکتا۔[12] البتہ غیبت کے زمانہ میں امام کی جانب سے اجازت عمومی دی جا چکی ہے اور امام کی اجازت کے بغیر بھی اس میں تصرف کیا جا سکتا ہے۔[13]

فقہائے شیعہ کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ زمین کو آباد کرنے کا کام خود انسان اپنے ہاتھ سے کرے یا دوسرے افراد جو مزدور ہوتے ہیں ان کے ذریعہ آباد کرے اور وہ لوگ اس کی نیابت میں اس کام کو انجام دیں۔[14]

آباد کرنے والے کے سلسلہ میں روایات

مختلف روایات زمین کو آباد کرنے والے کی مالکیت پر دلالت کرتی ہیں:

  • پیغمبر اکرمؐ سے روایت ہے: جو شخص بھی مردہ زمین کو آباد کرے تو وہ زمین اس کی ملکیت ہو جائے گی۔[15]
  • امام باقرؑ کی روایت کی بنا پر: جو گروہ بھی زمین کو آباد کرے تو وہ اس زمین کے مالک ہیں اور وہ اس گروہ کی ہو جائے گی۔[16]
  • امام صادقؑ سے روایت ہے کہ جو بھی مردہ اور خراب زمین کو آباد کرے اور اس کی نہروں کو دوبارہ جاری کرے، تو صرف اس کی زکات ادا کرے، چاہے وہ زمین اس سے پہلے کسی اور کی رہی ہو اور وہ وہاں سے چلا گیا ہو اور زمین کو ویران چھوڑ دیا ہو، وہ پلٹے اور اسے لینا چاہے، اس لئے کہ زمین خدا کی ہے اور اس کی ہے جو اسے آباد کرے۔[17]

اہل‌ سنت نے بھی اس بارہ میں روایات نقل کی ہیں۔[18]

قانون جمہوری اسلامی ایران

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے آرٹیکل 45 کے مطابق، انفال اور عوامی دولت جیسے مردہ یا ترک شدہ زمینیں، ۔۔۔ حکومت اسلامی کے اختیار میں ہوتی ہیں تاکہ عمومی مصلحت کے مطابق اس پر عمل کیا جا سکے۔[19]

کچھ علماء کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں قانون، وقت کے مطابق ڈھالنے اور معاشرے کے مفادات پر غور کرنے کے لئے، فقہ سے دوری اختیار کر چکا ہے۔[20] جدید دور میں شیعہ فقہاء کا خیال ہے کہ ایک جامع اسلامی ریاست مردہ زمین کا کنٹرول سنبھال سکتی ہے اور اس کے مطابق عمل کر سکتی ہے۔[21]

قانون میں شہری علاقوں میں ان زمینوں کی منتقلی ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی ذمہ داری ہے اور اس علاقے سے باہر وزارت جہاد اور زراعت سمیت دیگر تنظیموں کی ذمہ داری ہے اور تعزیرات کے قانون کے مطابق اگر کوئی شخص بغیر اجازت مردہ زمینوں پر قبضہ کرتا ہے تو اسے کوڑے مارے جائیں گے۔[22]

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دائرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ھ۔ ج۱، ص۲۸۵۔
  2. موسوی بجنوردی و حسینی نیک، مباحث حقوقی تحریر الوسیلۃ، ۱۳۹۰ش، ج۲، ص۳۱۵۔
  3. مؤسسہ دائرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۳۱۱۔
  4. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ھ۔ ج۳، ص۲۷۱۔
  5. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ھ۔ ج۲، ص۳۶۷۔
  6. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ھ۔ ج۷، ص۴۸۔
  7. «قانون مدنی»، گروہ وکلا.
  8. محمدی، شرح تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ھ۔ ج۲، ص۶۲.
  9. منتظری‌، رسالہ استفتاءات، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۲۳۱
  10. رضوانی، «زمین موات»، ص۵۷۔
  11. محمدی، شرح تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ھ۔ ج۲، ص۶۲۔
  12. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ھ۔ ج۲، ص۵۰۲۔
  13. قطیفی، السراج الوہاج، ۱۴۱۳ھ۔ ص۶۰۔
  14. مؤسسہ دائرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۳۱۴۔
  15. شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ۱۴۰۷ھ۔ ج۷، ص۱۵۲۔
  16. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ۔ ج۵، ص۲۷۹۔
  17. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ۔ ج۵، ص۲۷۹۔
  18. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۲۲ھ۔ ج۳، ص۱۰۶۔
  19. «اصل ۴۵ قانون اساسی»،سایت پژوہشکدہ شورای نگہبان۔
  20. بررسی فقہی و حقوقی احیاء زمین‌ہای موات، ص۷۴۔
  21. منتظری‌، رسالہ استفتاءات، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۲۳۱۔
  22. خیر اللہی، «بررسی فقہی و حقوقی احیاء زمین‌ہای موات»، ص۸۴۔

مآخذ

  • [ http://www.shora-rc.ir/portal/home/?news/12410/18845/18264/ «اصل ۴۵ قانون اساسی»]،سایت پژوہشکدہ شورای نگہبان، تاریخ بازدید: ۱۱شہریور ۱۴۰۰ھجری شمسی۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری: الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اللہ(ص) و سننہ و أیامہ، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، بیروت،‌ دار طوق النجاۃ، چاپ اول، ۱۴۲۲ھ۔
  • خیراللہی، محمدعلی، «بررسی فقہی و حقوقی احیاء زمین‌ہای موات»، در مجلہ فقہ و مبانی حقوھ۔ شمارہ۱، ۱۳۸۴ھجری شمسی۔
  • رضوانی، غلامرضا، «زمین موات»، مجلہ فقہ اہل‌بیت، شمارہ۱۷-۱۸، ۱۳۷۸ھجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الإمامیۃ، محقق و مصحح: سید محمدتقی کشفی، ‌تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، چاپ سوم، ۱۳۸۷ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیق حسن موسوی خرسان، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • «قانون مدنی»، گروہ وکلا، تاریخ بازدید: ۱۱شہریور ۱۴۰۰ھجری شمسی۔
  • قطیفی، ابراہیم بن سلیمان، السراج الوہاج، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۴۱۴ھ۔
  • محمدی‌ خراسانی، علی، شرح تبصرۃ المتعلمین‌، قم، دارالفکر، ۱۴۱۱ھ۔
  • منتظری‌، حسینعلی، رسالہ استفتاءات‌، قم، تہران، تفکر، ۱۳۷۳ھجری شمسی۔
  • موسوی بجنوردی، سیدمحمد، و سید عباس حسینی نیک، مباحث حقوقی تحریر الوسیلۃ، تہران، مجد، ۱۳۹۰ھجری شمسی۔
  • مؤسسہ دائرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، زیرنظر سید محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسۃ دائرۃ‌المعارف اسلامی، ۱۳۸۲ھجری شمسی۔
  • مؤسسہ دائرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق با مذاہب اہل بیت، زیرنظر سید محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسۃ دائرۃ‌المعارف اسلامی، ۱۴۲۶ھ۔