شرعی شکار
| بعض عملی اور فقہی احکام |
|---|
| یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
شرعی شکار ذبح اور نحر کی مانند حیوانات کو تذکیہ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس کے لیے خاص شرائط بیان کی گئی ہیں۔ مہم ترین شرائط یہ ہیں: شکار کرنے والا مسلمان ہو، شکار کے وقت اللہ کا نام لے اور شکار کے لیے شکاری کتے یا ایسا تیز دھار ہتھیار استعمال کرے جو جسم کو پھاڑ کر خون جاری کر دے۔
اہلی جانور اس طریقے سے تذکیہ نہیں ہوتے۔ فقہا نے یہ احکام قرآنی آیات اور احادیث سے اخذ کیے ہیں۔
تعارف
شرعی شکار اس خاص طریقۂ شکار کو کہا جاتا ہے جس میں مخصوص اوزار اور شرائط کے ساتھ جنگلی جانوروں کو شکار کیا جاتا ہے[1] اور یہ تذکیہ (ذبح شرعی) کے ایک طریقے کے طور پر شمار ہوتا ہے۔[2]
شرعی شکار کو فقہی مآخذ میں فقہی احکام کے بارہ ابواب میں سے ایک حکم کے طور پر ذکر کیا گیا ہے[3] اور اس پر "کتاب الصید و الذباحہ" کے عنوان سے بحث کی گئی ہے۔[4] فقہی نظریے کے مطابق، بے مالک جنگلی حیوانات مباح ہیں اور ان کا شکار کرنے سے ان پر ملکیت حاصل ہو جاتی ہے۔[5]
فقہا نے شکار کی مشروعیت کے لیے سورہ مائدہ کی چند آیات، (1،2، 94، 95 اور 96)[6] متعدد احادیث[7] اور اجماع[8] کا حوالہ دیا ہے۔ ایران کے شہری قانون میں بھی دفعات 179 تا 182 اس موضوع کے لیے مخصوص ہیں۔[9]
احکامِ فقہی
شرعی شکار صرف آہو، ہرن، بٹیر، اور پہاڑی بکری جیسے جنگلی جانوروں کے لیے ہے،[10] پالتو جانوروں کو صرف اس وقت شکار کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ وحشی ہوجائیں۔[11]
شرعی شکار کے لیے یہ شرط ہے کہ جانور کے لیے بھاگنے کا امکان موجود ہو؛ لہٰذا زخمی جانور یا وہ نوزاد جو دوڑنے کے قابل نہ ہوں، ان کا شکار حرام ہے اور ان کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔[12]
بعض فقہی متون میں آیا ہے کہ شکار صرف مالی ضرورت کی صورت میں جائز ہے[13] لہذا محض تفریحی شکار؛ دلی چاہت اور حقوقِ حیوانات کی خلاف ورزی کی وجہ سے حرام ہے۔[14] شکار کے مستحب آداب میں سے ایک یہ ہے کہ شکار کا آلہ (ذبح کا ہتھیار) تیز کیا جائے۔[15] فقہاء کے مشہور نظریے کے مطابق حالتِ احرام میں جنگلی جانوروں کا شکار حرام ہے اور اس جانور پر مردار کا حکم لاگو ہوتا ہے۔[16]
شکار کے آلات
اسلامی فقہ میں شکار کے اوزار دو قسم کے بیان کیے گئے ہیں: حیوانی اوزار (جیسے شکاری کتا) اور غیر حیوانی اوزار (جیسے تیر، نیزہ یا بندوق وغیرہ)[17]
شکاری کتے کے ذریعے شکار کا حکم
شکاری کتے سے شکار اس وقت حلال ہے جب کتا تربیت یافتہ ہو،[18] کتا مالک کے حکم سے شکار کرے[19] اور شکار کو صرف کاٹ کر مارے۔[20] نیز شکاری مسلمان ہو،[21] کتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ کہے،[22] اور اگر شکار زندہ ملے تو اسے فوراً ذبح کرنا واجب ہے۔[23] دوسرے جانوروں جیسے چیتے یا عقاب سے شکار کرنے کے بارے میں فقہا کے مابین اختلاف نظر پایا جاتا ہے[24] اور بعض فقہاء اسے حلال نہیں سمجھتے۔[25]
ہتھیار کے ذریعے شکار
بندوق، تیر یا نیزہ کے ذریعے شکار اس وقت جائز ہے جب ہتھیار نوکدار یا کاٹنے والا ہو اور جانور کو پھاڑ کر اس کی موت کا سبب بنے۔[26] شکاری مسلمان ہو، شکار کے وقت بسم اللہ پڑھے اور شکار کی نیت شکار بھی ہو[27] اور اگر شکار زخمی ہوکر زندہ ملے تو فوراً ذبح کرنا ضروری ہے۔[28] غیر تیز آلات (جیسے پتھر یا جال) سے شکار کرنے سے جانور کا گوشت حلال نہیں ہوتا۔[29]
حوالہ جات
- ↑ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج2، ص574؛ سیفی مازندرانی، دلیل تحریر الوسیلۃ، 1415ھ، ص1؛ طباطبایی حائری، الشرح الصغیر فی شرح مختصر النافع، 1409ھ، ج3، ص77؛ سبزواری، مہذب الأحکام، 1413ھ، ج23، ص5۔
- ↑ سیفی مازندرانی، دلیل تحریر الوسیلۃ، 1415ھ، ص1۔
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1393شمسی، ص405۔
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج7، ص193؛ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج2، ص574؛ وحید خراسانی، منہاج الصالحین، 1428ھ، ج3، ص370۔
- ↑ محقق داماد، قواعد فقہ، 1406ھ، ج1، ص263۔
- ↑ قرشی، قاموس قرآن، 1412ھ، ج4، ص168۔
- ↑ سیفی مازندرانی، دلیل تحریر الوسیلۃ، 1415ھ، ص2-4۔
- ↑ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج2، ص574؛ فاضل مقداد، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، 1404ھ، ج4، ص3۔
- ↑ محقق داماد، قواعد فقہ، 1406ھ، ج1، ص264؛ «قانون مدنی، مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی»۔
- ↑ ایروانی، دروس تمہیدیۃ، 1427ھ، ج3، ص163۔
- ↑ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہلبیت(ع)، قم، ج48، ص174۔
- ↑ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہلبیت(ع)، قم، ج48، ص174۔
- ↑ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہلبیت(ع)، قم، ج48، ص173۔
- ↑ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہلبیت(ع)، قم، ج48، ص173۔
- ↑ جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہلبیت(ع)، 1426ھ، ج1، ص134۔
- ↑ محمودی، مناسک عمرہ مفردہ، 1429ھ، ص55-56۔
- ↑ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج2، ص135؛ طباطبایی حائری، الشرح الصغیر فی شرح مختصر النافع، 1409ھ، ج3، ص77؛ سبزواری، مہذب الأحکام، 1413ھ، ج23، ص6؛ فاضل لنکرانی، تفصیل الشریعۃ، 1424ھ، ص313۔
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج7، ص197؛ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج2، ص577؛ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہلبیت(ع)، قم، ج30، ص277۔
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج7، ص202؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج3، ص155۔
- ↑ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج2، ص136؛ ایروانی، دروس تمہیدیۃ، 1427ھ، ج3، ص143۔
- ↑ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج3، ص155؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج7، ص201؛ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج2، ص578۔
- ↑ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج3، ص155؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج2، ص136۔
- ↑ سبزواری، مہذب الأحکام، 1413ھ، ج23، ص15؛ فاضل لنکرانی، تفصیل الشریعۃ، 1424ھ، ص323۔
- ↑ جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہلبیت(ع)، 1426ھ، ج1، ص136۔
- ↑ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج2، ص135؛ محقق سبزواری، کفایۃ الأحکام، 1423ھ، ج2، ص575؛ طباطبایی حائری، الشرح الصغیر فی شرح مختصر النافع، 1409ھ، ج3، ص78۔
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج7، ص203۔
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج7، ص204-205۔
- ↑ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج3، ص158؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج7، ص198؛ جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہلبیت(ع)، 1426ھ، ج1، ص135-136۔
- ↑ فیاض کابلی، رسالہ توضیح المسائل، 1426ق، ص604۔
مآخذ
- امام خمینی، سید روحاللّہ، تحریر الوسیلۃ، قم، مؤسسہ مطبوعات دار العلم، بیتا۔
- ایروانی، باقر، دروس تمہیدیۃ فی الفقہ الاستدلالی علی المذہب الجعفری، قم، چاپ دوم، 1427ھ۔
- جمعی از پژوہشگران زیر نظر سید محمود ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہلبیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہلبیت(ع)، 1426ھ۔
- جمعی از مؤلفان، مجلۃ فقہ أہلالبیت(ع) (بالعربیۃ)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہلبیت(ع)، بیتا۔
- سبزواری، سید عبدالأعلی، مہذّب الأحکام، قم، مؤسسہ المنار، چاپ چہارم، 1413ھ۔
- سیفی مازندرانی، علیاکبر، دلیل تحریر الوسیلۃ - الصید و الذباحۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1415ھ۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ(المحشّی-کلانتر)، قم، کتابفروشی داوری، 1410ھ۔
- طباطبایی حائری، سید علی بن محمد، الشرح الصغیر فی شرح مختصر النافع-حدیقۃ المؤمنین، قم، انتشارات کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1409ھ۔
- فاضل لنکرانی، محمد، تفصیل الشریعۃ - الوقف، الوصیۃ، الأیمان و النذور، الکفارات، الصید، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1424ھ۔
- فاضل مقداد، مقداد بن عبداللّہ، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، قم، انتشارات کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
- فیاض کابلی، محمداسحاق، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات مجلسی، 1426ھ۔
- «قانون مدنی، مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی»، تاریخ بازدید: 16 بہمن 1402ہجری شمسی۔
- قرشی، سید علیاکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، 1412ھ۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
- محقق داماد، سید مصطفی، قواعد فقہ، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، چاپ دوازدہم، 1406ھ۔
- محقق سبزواری، محمدباقر بن محمدمؤمن، کفایۃ الأحکام، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1423ھ۔
- محمودی، محمدرضا، مناسک عمرہ مفردہ(محشی)، قم، نشر مشعر، 1429ھ۔
- مشکینی، میرزا علی، مصطلحات الفقہ، قم، دارالحدیث، 1393ہجری شمسی۔
- وحید خراسانی، حسین، منہاج الصالحین، قم، مدرسہ امام باقر(ع)، چاپ پنجم، 1428ھ۔