شاہ مردان (لقب)

ویکی شیعہ سے
(شاہ مردان علی سے رجوع مکرر)
ازبکستان میں امام علیؑ سے منسوب بارگاہ کے دروازے پر شاہ مردان کی عبارت

شاہِ مَرْدان امام علیؑ کے فارسی القاب[1] میں سے ایک ہے جس کے معانی مرادنگی کا کامل نمونہ ہیں۔[2] یہ لقب فارسی زبان سے مخصوص ہے اور آپ کی مرادانگی کی طرف اشارہ ہے۔[3]

ایک مصنف اور محقق محمد رضا شافعی کدکنی کے مطابق، امام علی (ع) کے لیے یہ لقب چھٹی صدی ہجری سے شروع ہوا جو فتوت اور مردانگی کے عروج کا دور ہے۔[4] اس لقب کو سب سے پہلے جس کتاب میں درج کیا ہے وہ ابو نصر طاہر بن محمد خانقاہی کی کتاب گزیدہ در اخلاق و تصوف ہے۔[5] ابو نصر کا شمار چھٹی صدی ہجری کے حکماء اور واعظین میں ہوتا تھا۔[6] آقا بزرگ تہرانی کے مطابق ایران کے مشرقی شیعہ اس لقب کو حضرت علیؑ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔[7]

ازبکستان کے علاقے شاہ مردان میں امام علی علیہ السلام سے منسوب شاہ مردان کے مقبرے کا ایک منظر

محمد آصف محسنی قندہاری اس لقب کو امام علیؑ کے ناموں میں سے ایک بہترین نام سمجھتے ہیں۔[8] ان کے نزدیک سورہ احزاب کی آیت نمبر 23 میں کچھ مومنین "رجل" کے عنوان میں شامل ہونے کے مستحق ہیں؛ کیونکہ انہوں نے خدا کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کیا ہے۔[9] ان مردوں کا سب سے بہترین مثال اور مصداق امام علیؑ ہیں اور اسی وجہ سے انہیں شاہ مردان کہا گیا ہے۔[10]

جوان مرد اگر راست خواہی ولی است

کرم شیوہ شاہ مردان علی است.[11]

فتح موصلی کہتا ہے: شاہ مردان کو خواب میں دیکھا۔ ان سے نصیحت کرنے کا کہا۔ کہا فقیر کے سامنے مالدار کے تواضع سے بہتر کوئی چیز نہیں دیکھا البتہ اس سے بہتر توانگر کے سامنے فقیر کا تکبر اس سے بھی بہتر ہے۔[12]

سعدی کی نظموں میں شاہ مردان کا لقب امام علیؑ کے لیے استعمال ہوا ہے۔[13] اس کے علاوہ ملا حسین واعظ کاشفی (متوفی: 910ھ) نے فتوت نامہ سلطانی جو جوان مردی اور مردانگی کے آداب کے بارے میں لکھا ہے اس میں امام علیؑ کا ذکر شاہ مردان کے طور پر کیا ہے۔[14] اس کے علاوہ دیکر کتابیں جن میں امام علیؑ کو شاہ مردان کے نام سے ذکر کیا ہے ان میں دیوان حافظ،[15] نویں صدی ہجری کے نقشبندی صوفی یعقوب چرخی کی تفسیر یعقوب چرخی،[16]شاہ اسماعیل اول کے ترکی اشعار،[17] بعض قصے،[18] بعض عام اشعار[19] اور شیعہ شاعری کے کچھ دیوان شامل ہیں۔[20]

بعض مقامات بھی شاہ مردان کے نام سے منسوب ہیں جو کسی نہ کسی طرح امام علی علیہ السلام سے متعلق ہیں۔ مثال کے طور پر، افغانستان کے شہر مزار شریف میں مسجد شاہ مردان[21] اور ازبکستان اور کرغزستان کی سرحد پر شاہ مردان کے علاقے میں امام علی علیہ السلام سے منسوب شاہ مردان کا مقبرہ۔[22]

شاہ مردان کے بارے میں فن کے کاموں میں، نصرت فتح علی خان (وفات: 1997ء) کی قوالی (شاہ مردان علی) قابل ذکر ہیں۔[23]

حوالہ جات

  1. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج6، ص280؛ شفیعی کدکنی، قلندریہ در تاریخ، 1386، ص74۔
  2. محسنی قندہاری، انسان كامل يا شاہ مردان ، 1392شمسی، ص49۔
  3. شفیعی کدکنی، قلندریہ در تاریخ، 1386، ص74۔
  4. شفیعی کدکنی، قلندریہ در تاریخ، 1386، ص74-75۔
  5. خانقاہی، گزیدہ، 1347شمسی، ص251۔
  6. شفیعی کدکنی، قلندریہ در تاریخ، 1386، ص75۔
  7. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج6، ص280۔
  8. محسنی قندہاری، انسان كامل يا شاہ مردان ، 1392شمسی، ص49۔
  9. محسنی قندہاری، انسان كامل يا شاہ مردان ، 1392شمسی، ص49۔
  10. محسنی قندہاری، انسان كامل يا شاہ مردان ، 1392شمسی، ص49۔
  11. سعدی شیرازی، بوستان سعدی، 1359شمسی، ص62۔
  12. خانقاہی، گزیدہ، 1347شمسی، ص251۔
  13. سعدی شیرازی، بوستان سعدی، 1359شمسی، ص62۔
  14. کاشفی سبزواری، فتوت نامہ سلطانی، 1350شمسی، ص295۔
  15. حافظ شیرازی، دیوان حافظ قدسی، شیراز، ص238۔
  16. چرخی، تفسیر یعقوب چرخی، 1387شمسی، ص249۔
  17. شاہ اسماعيل صفوی، کلیات دیوان شاہ اسماعیل صفوی، 1390شمسی، ص139۔
  18. ملاحظہ کریں: مؤلف ناشناس، رستم نامہ، 1387شمسی، ص25-26۔
  19. نقوی، فرہنگ گویش گوغر بافت، 1386شمسی، ص83؛ رئیس الذاکرین، کندو: فرہنگ مردم سيستان ، 1370شمسی، ص18-19۔
  20. آذری اسفراینی، دیوان حکیم آذر اسفراینی، 1390شمسی، ص36؛ شیخ بہائی، كليات اشعار و آثار فارسى شيخ بہائی، 1352شمسی، ص20۔
  21. زواری، «حضرت امام صاحب»، ص546۔
  22. پاک آئین، چہار سال در سرزمین تیمور، 1389شمسی، ص179-180۔
  23. «نصرت فتح علی خان - شاہ مردان علی»، یوٹیوب۔

مآخذ

  • آذری اسفراینی، حمزة بن علی، دیوان حکیم آذر اسفراینی، تحقیق محسن کیانی و سید عباس رستاخیز، تہران، کتابخانہ موزہ و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی، 1390ہجری شمسی۔
  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن بن علی، الذریعة الی تصانیف الشیعہ، تحقیق سید احمد حسینی اشکوری، بیروت، دار الاضواء، 1403ق.
  • پاک آئین، محسن، چہار سال در سرزمین تیمور، تہران، انتشارات فرہنگ سبز 1389ہجری شمسی۔
  • چرخی، یعقوب بن عثمان، تفسیر یعقوب چرخی، تحقیق حسنعلی محمدی و لیلا حمامی، تہران، نشر فرتاب، 1387ہجری شمسی۔
  • حافظ شیرازی، شمس الدین محمد، دیوان خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی از روی نسخہ قدسی، شیراز، انتشارات اشراقی، بی تا.
  • خانقاہی، طاہر بن محمد، گزیدہ در اخلاق و تصوف، بہ کوشش ایرج افشار، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، 1347ہجری شمسی۔
  • رئیس الذاکرین، غلامعلی، کندو: فرہنگ مردم سيستان، مشہد، بی نا، 1370ہجری شمسی۔
  • زواری، محمدامین، «حضرت امام صاحب»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج13، تہران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، 1388ہجری شمسی۔
  • شاہ اسماعيل صفوی، اسماعیل بن حیدر، کلیات دیوان شاہ اسماعیل صفوی، تحقیق رسول اسماعیل زادہ، تہران، انتشارات بین المللی الہدی، 1390ہجری شمسی۔
  • شفیعی کدکنی، محمدرضا، قلندریہ در تاریخ (دگردیسی ہای یک ایدئولوژی)، تہران، نشر سخن، 1386ہجری شمسی۔
  • شیخ بہائی، محمد بن حسین، كليات اشعار و آثار فارسى شيخ بہائی، تہران، كتابفروشی محمودی ، 1352ہجری شمسی۔
  • کاشفی سبزواری، حسین بن علی، فتوت نامہ سلطانی، تحقیق محمدجعفر محجوب، تہران، انتشارات بنیاد فرہنگ ایران، 1350ہجری شمسی۔
  • محسنی قندہاری، محمدآصف، انسان كامل يا شاہ مردان ، کابل، حوزہ علميہ خاتم النبيين(ص)، 1392ہجری شمسی۔
  • مؤلف ناشناس (قرن دہم قمری)، رستم نامہ، تہران، مرکز پژوہشی ميراث مکتوب، 1387ہجری شمسی۔
  • نصرت فتح علی خان، «شاہ مردان علی»، یوٹیوب، تاریخ بازدید: 25 فروردین 1403ہجری شمسی۔
  • نقوی، اکبر، فرہنگ گویش گوغر بافت، کرمان، انتشارات مرکز کرمان شناسی، 1386ہجری شمسی۔