مندرجات کا رخ کریں

حق القسم

ویکی شیعہ سے
(حق قسم سے رجوع مکرر)

حقُ القَسْم یا شب باشی کا حق شوہر کی طرف سے متعدد بیویوں کے درمیان راتوں کی تقسیم کو کہا جاتا ہے۔ اس مسئلے کے مطابق اگر کسی مرد کی متعدد بیویاں ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی راتوں کو اپنی بیویوں کے درمیان تقسیم کرے۔ مثلاً اگر اس کی چار بیویاں ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ چار راتوں کو اپنی بیوں کے درمیان مساوی تقسیم کرے اور ہر رات ایک بیوی کے پاس گزارے۔

شب باشی کا حق واجب ہونے میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح فقہاء حق القسم کا مطلب صرف ایک ساتھ سونے کو قرار دیتے ہیں اور بیوی کے ساتھ مباشرت بھی کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ شب باشی کا حق شادی میں بیوی کو ملنے والے حقوق میں سے ایک ہے، جس کا مقصد بیویوں کے درمیان انصاف کو یقینی بنانا، گھر کے اندر باہمی اتحاد پیدا کرنا اور خاندانی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے۔

تعریف اور فقہ میں اس کی اہمیت

حقِ قسم سے مراد یہ ہے کہ شوہر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ رات کو اپنی بیویوں کے ساتھ باری باری سوجائے۔[1] اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ مرد اپنی راتیں اپنی بیویوں کے درمیان تقسیم کرے۔[2] فقہِ امامیہ کے منابع میں، حقِ قسم کو عقدِ نکاح میں عورت کے حقوق میں سے شمار کیا گیا ہے، اس کے تحت شوہر پر لازم ہے کہ جیسے ہی وہ متعدد بیویاں اختیار کرے، فوراً اپنی راتوں کو ان کے درمیان تقسیم کرے۔[3] حقِ قسم، خاندان کے حقوق اور بالخصوص عورت کے حقوق کے اہم ترین مسائل میں سے ہے[4] اور فقہی کتب میں اس پر ایک مستقل باب قائم کیا گیا ہے۔[5] اس حق کے وجوب میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔[6]

حق القسم کی تشریع کی علت

دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ شہید ثانی کے مطابق حق القسم کا حکم عدالت کے اصول پر مبنی ہے۔ نیز روایات اور سورہ نساء کی آیت نمبر 19 سے ماخوذ ہے۔[7] اسی طرح بیویوں کے مابین انس و محبت ایجاد کرنے اور خاندانی روابط کو مستحکم کا سبب بنتا ہے۔[8]
تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ صاحب جواہر نے حق القسم کی تشریع کا بنیادی مقصد میاں بیوی کے درمیان اچھی رفاقت اور انصاف قائم کرنا قرار دیا ہے۔[9] بعض محققین کا کہنا ہے کہ شب باشی یا حق القسم کی تشریع بیویوں کے آپس کے تعلقات میں روحانی اور عاطفی امور کی مضبوطی کے لیے کی گئی ہے۔[10]

حق القسم سے پیغمبر کو استثنی

پیغمبر اکرمؐ کی ازواج کو اس حق سے خارج کرنا پیغمبر اکرمؐ کے مخصوص احکام میں سے ایک ہے جو صرف آنحضرتؐ کے ساتھ مختص ہے۔[11] یہ خصوصیت سورہ احزاب آیت نمبر 51 میں بیان ہوئی ہے۔[12] مفسرین کا کہنا ہے کہ رسول اللہؐ نے ازواج کے مابین وقت کی تقسیم میں حتی الامکان مساوات کا خیال رکھا ہے؛ سوائے ان صورتوں کے جہاں خاص حالات میں عدم مساوات کی ضرورت پڑی ہے۔[13] روایت ہے کہ رسول اللہؐ ہمیشہ اپنی ازواج کے درمیان شب باشی میں برابری کا خیال رکھتے تھے یہاں تک کہ بیماری کی صورت میں بھی اس کا خیال رکھتے تھے۔[14] آنحضرتؐ اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا کرتے تھے ۔"اللہم ہذا قسمي فيما أملك وأنت أعلم بما لا أملك؛ اے خدا شب باشی کی یہ تقسیم میرے اختیار میں تھی اور جو میرے اختیار میں نہیں ہے اسے تو بہتر جانتا ہے۔" صاحب جواہر نے روایت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو چیز پیغمبر اکرمؐ کے اختیار میں نہیں، اس سے مراد وہ دلی خواہش اور محبت ہے جو اپنی ازواج کی نسبت رکھتے تھے۔[15]

حق القسم کے نفاذ کا طریقہ

فقہاء کے فتوے کے مطابق، اگر کسی مرد کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس پر واجب ہے کہ ان کے درمیان ہم بستری کی باری کو تقسیم کرے؛[16] اس طرح کہ اگر اس کی چار بیویاں ہوں تو ہر رات ایک بیوی کے پاس جائے اور جب چار راتیں پوری ہو جائیں تو دوبارہ پہلی بیوی سے آغاز کرے۔ اگر دو بیویاں ہوں تو دو راتیں بیویوں کے لیے اور دو راتیں اپنے لیے ہیں، اور اگر تین بیویاں ہوں تو تین راتیں بیویوں کے لیے اور ایک رات اپنے لیے ہے۔[17]

ایک بیوی کی صورت میں حق قسم کا حکم

صرف ایک بیوی ہونے کی صورت میں حق قسم کے بارے میں فقہائے شیعہ کے درمیان دو آراء پائی جاتی ہیں: بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ بیوی، چاہے ایک ہو یا ایک سے زیادہ، حق قسم رکھتی ہے اور شوہر پر لازم ہے کہ ہر چار راتوں میں کم از کم ایک رات اس کے ساتھ ہم خوابی کرے۔[18] بعض دیگر کا خیال ہے کہ یک زوجگی میں حق قسم کی کوئی صورت ہی نہیں ہے۔ شہید ثانی، صاحب جواہر، محقق سبزواری اور امام خمینی اس رائے کے حامی ہیں۔[19]

حق القسم کے احکام

فقہ کی کتابوں میں شب باشی اور حق القسم کے بعض احکام بیان ہوئے ہیں:

  • نشوز اور سفر کی صورت میں شب باشی کا حق ساقط ہوجاتا ہے اور اس کی پابندی ضروری نہیں ہے۔[20]
  • حق القسم کا واجب ہونا رات سے مختص ہے۔[21]
  • شب باشی کا حق دائمی نکاح والی بیوی کو ہے۔ متعہ میں عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے، خواہ بیوی ایک ہو یا زیادہ، اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔[22]
  • عورت کو اپنے اس حق سے دستبردار ہونا جائز ہے[23] اور اپنے حق کا مطالبہ بھی کرسکتی ہے۔[24]
  • حق القسم صرف عورت کے ساتھ سونے سے متعلق ہے نہ کہ اس کے ساتھ جماع اور مباشرت سے۔[25]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج6، ص112۔
  2. روحانی، فقہ الصادق، 1414ھ، ج22، ص216۔
  3. نجفی، جواہرالکلام، 1362شمسی، ج31، ص148؛ سبحانی، نظام النکاح فی الشریعہ الاسلامیہ الغراء، 1416ھ، ج2، ص290۔
  4. قادری، «پژوہشی فقہی در مسائل حق قسم (مضاجعہ)»، ص113۔
  5. ثمنی، «مضاجعہ و چالش‌ہای آن در فقہ امامیہ»، ص116؛ نجفی، جواہر الكلام، 1362شمسی، ج31، ص146؛ شیخ انصاری، کتاب النکاح، تراث الشیخ الأعظم، ص470؛
  6. شیخ انصاری، کتاب النکاح، تراث الشیخ الأعظم، ص470؛ علامہ حلی، قواعد الأحکام، 1419ھ، ج3، ص90؛ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1409ھ، ج2، ص556.
  7. شہید ثانی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، ج8، ص310-311۔
  8. شہید ثانی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، ج8، ص309.
  9. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج31، ص148۔
  10. پورعبداللہ، و محمدحسنی، «جایگاہ حق قسم در تحکیم کیان خانوادہ»، ص27۔
  11. کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج12، ص58۔
  12. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1390ھ، ج16، ص336۔
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج17، ص387۔
  14. وسائل الشیعہ، الشیخ حر العاملی، دار احياء التراث العربي بيروت، ج15، ص85
  15. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج31، ص151۔
  16. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج6، ص128۔
  17. امام خمینی، تحریر الوسیلة، 1379شمسی، ص746۔
  18. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج6، ص128؛ سیستانی، منہاج الصالحین، 1415ھ، ج3، ص105. شہید اول، اللمعة الدمشقیۃ، دار الفکر، ص173۔
  19. شبیری زنجانی، کتاب نکاح، 1377–1385شمسی؛ ج24، ص7491؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1379شمسی، ص745۔
  20. شہید اول، اللمعة الدمشقیة، دار الفکر، ص174۔
  21. شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، دار الفکر، ص174۔
  22. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج6، ص135؛ سیستانی، 1415ھ، ج3، ص105۔
  23. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1379شمسی، ص745۔
  24. قمی، جامع الشتات فی أجوبۃ السؤالات، 1371شمسی، ج4، ص163۔
  25. مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج6، ص128؛ خویی، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج2، ص281۔

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، موسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى(رہ)، 1379ہجری شمسی۔
  • پورعبداللہ، کبری، و صدیقہ محمدحسنی، «جایگاہ حق قسم در تحکیم کیان خانوادہ»، فقہ و حقوق خانوادہ (ندای صادق)، شمارہ 66، سال 22، بہار و تابستان 1396ہجری شمسی۔
  • ثمنی، لیلا، «مضاجعہ و چالش ہای آن در فقہ امامیہ»، مطالعات فقہی و حقوقی زن و خانوادہ، شمارہ دوم، سال اول، 1397ہجری شمسی۔
  • حرّ عاملی، محمدحسن، الوسائل الشیعہ، تحقیق، تصحیح و پاورقی: عبدالرحیم ربانی شیرازی، دار احياء التراث العربي بيروت .
  • خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، نشر مدینہ العلم، 1410ھ۔
  • روحانی، سید محمد صادق، فقہ الصادق، قم، مؤسسۃ دار الکتاب، 1414ھ۔
  • سبحانی، جعفر، نظام النکاح فی الشریعہ الاسلامیہ الغراء، قم، مؤسسہ الامام الصادق(ع)، 1416ھ۔
  • سیستانی، سید علی، منہاج الصالحین، قم، مکتب آیۃ اللہ العظمی السید السیستانی، 1415ھ۔
  • شبیری زنجانی، موسی، کتاب نکاح، قم، مؤسسہ پژوہشی رای پرداز، 1377–1385ہجری شمسی۔
  • شہید اول، محمدبن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ، بی جا، دار الفکر، بی تا۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن نورالدین علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، بی تا.
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، بی جا، تراث الشیخ الأعظم، بی تا۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات‏، 1390ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن يوسف، قواعد الأحکام، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم، 1419ھ۔
  • قادری، محمدعلی، «پژوہشی فقہی در مسائل حق قسم (مضاجعہ)» دستاوردہای نوین در مطالعات علوم انسانی، شمارہ 42، سال چہارم، آبان 1400ہجری شمسی۔
  • قمی، میرزا ابوالقاسم، جامع الشتات فی أجوبۃ السؤالات، تہران، کیہان، 1371ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، جعفر بن الحسن، شرائع الاسلام، تہران، استقلال، 1409ھ۔
  • محقق داماد، سید مصطفی، قواعد فقہ، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، 1406ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1371ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسہ الامام على بن ابى طالب(ع)، 1424ھ۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، تحقیق: محمود قوچانی، بیروت، دار إحياء التراث العربي، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • نقیبی، سید مہدی، و صدیقہ محمدحسنی، «نقد و بررسی تعریف حق قسم در آرای فقہای امامیہ»، پژوہشنامہ حقوق اسلامی، شمارہ 2، سال بیست و دوم، پاییز و زمستان 1400ہجری شمسی۔
  • کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسۃ آل البیت، 1414ھ۔