حق القسم
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
حقُ القَسْم یا شب باشی کا حق شوہر کی طرف سے متعدد بیویوں کے درمیان راتیں بانٹنے کو کہا جاتا ہے۔ جس مرد کی متعدد بیویاں ہوں اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی راتیں اپنی بیویوں کے درمیان تقسیم کرے۔ مرد پر لازم ہے کہ وہ ہر چار راتوں میں کم از کم ایک رات اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی بستر پر گزارے۔
شب باشی کا حق واجب ہونے میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ فقہاء نے حق القسم کے معنی صرف ساتھ سونے کو قرار دیا ہے اور بیوی سے مباشرت ضروری نہیں سمجھا ہے۔ شب باشی کا حق شادی میں بیوی کو ملنے والے حقوق میں سے ایک ہے، جس کا مقصد بیویوں کے درمیان انصاف کو یقینی بنانا، گھر کے اندر باہمی اتحاد پیدا کرنا اور تعدد ازدواج کے مفروضے میں خاندان کو مضبوط کرنا ہے۔
فقہاء کا مشہور قول یہ ہے کہ اکیلی بیوی کو شب باشی کا حق حاصل ہے اور شوہر کا ہر چار راتوں میں ایک بار بیوی کے ساتھ ایک ہی بستر پر ہونا ضروری ہے۔
تعریف اور اہمیت
حق القسم یا شب باشی کا حق سے مراد بیویوی کے لئے رات میں شوہر کے ساتھ سونے کا حق ہے۔[1] حق القسم کا مفہوم یہ سمجھا گیا ہے کہ شوہر اپنی راتوں کو اپنی بیویوں کے درمیان تقسیم کرے۔[2] حق القسم کی درست تعریف "راتوں کو تقسیم کرنا" سمجھا جاتا ہے۔[3]
امامیہ فقہی منابع میں حق القسم کا حق، عقد نکاح میں خواتین کو حاصل ہونے والے حقوق میں سے ایک سمجھا گیا ہے جس کے مطابق شوہر متعدد بیویوں کے انتخاب کے ساتھ ہی ان کے درمیان اپنی راتیں تقسیم کرنے کا پابند ہے۔[4]
شب باشی کا حق عائلی حقوق خاص کر خواتین کے حقوق میں اہم ترین موضوع ہے[5] راتوں کو تقسیم کرنا واجب ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔[6] اور فقہی کتابوں میں اس کا ایک مستقل باب ہے۔[7] یہ حکم عدل کے اصول پر مبنی ہے اور روایات اور سورہ نساء کی آیت نمبر 19 سے ماخوذ ہے۔[8] اسی طرح باہمی انس و محبت ایجاد کرنے اور خاندانی روابط کو مستحکم کرنے کو اس حکم کے تشریع کرنے کا فقہی اور اخلاقی مبنا قرار دیا گیا ہے۔[9]
صاحب جواہر نے حق القسم کے تشریع کا بنیادی مقصد میاں بیوی کے درمیان اچھی رفاقت اور انصاف قائم کرنے کو قرار دیا ہے۔[10] بعض محققین کا کہنا ہے کہ شب باشی یا حق القسم کی تشریع بیویوں کے آپس کے تعلقات میں روحانی اور جذباتی امور کی تکمیل کے لیے کی گئی ہے۔[11]
حق القسم سے پیغمبر کو استثنی
پیغمبر اکرمؐ کی ازواج کو اس حق سے خارج کرنا پیغمبر اکرمؐ کے مخصوص احکام میں سے ایک ہے جو صرف آنحضرتؐ کے ساتھ مختص ہے۔[12] یہ خصوصیت سورہ احزاب آیت نمبر 51 میں بیان ہوئی ہے۔[13] مفسرین نے کہا ہے کہ رسول اللہؐ نے اپنے وقت کی تقسیم میں حتی الامکان مساوات کا خیال رکھا ہے؛ سوائے ان صورتوں کے جہاں خاص حالات میں عدم مساوات کی ضرورت پڑی ہے۔[14] روایت ہے کہ رسول اللہؐ ہمیشہ یہاں تک کہ بیماری کی صورت میں بھی اپنی ازواج کے درمیان شب باشی میں برابری کا خیال رکھتے تھے۔[15] اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے تھے ۔"اللہم ہذا قسمي فيما أملك وأنت أعلم بما لا أملك؛ اے خدا یہ تقسیم (شب باشی) میرے اختیار میں تھا اور جو میرے اختیار میں نہیں ہے اسے تو بہتر جانتا ہے۔" صاحب جواہر نے روایت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو چیز پیغمبر اکرمؐ کے اختیار میں نہیں، اس سے مراد وہ دلی خواہش اور محبت ہے (کہ ایک شخص اپنی بیویوں میں کسی ایک کو دوسروں سے زیادہ محبت کرے)۔[16]
حق القسم کے احکام
فقہ کی کتابوں میں شب باشی اور حق القسم کے بعض احکام بیان ہوئے ہیں:
- نشوز اور سفر کی صورت میں شب باشی کا حق ساقط ہوجاتا ہے اور اس کی پابندی ضروری نہیں ہے۔
- حق القسم کا واجب ہونا رات سے مختص ہے۔[17]
- شب باشی کا حق دائمی بیوی کو ہے، اور متعہ میں عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے، خواہ بیوی ایک ہو یا زیادہ، اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔[18]
- عورت کے لیے اپنا یہ حق چھوڑنا جائز ہے۔[19] اور اس میں رجوع بھی کرسکتی ہے۔[20]
- شب باشی ایک غیر مالی حق ہے،[21] اور اسے بغیر کسی عوض کے چھوڑ سکتی ہے؛ لیکن ارث یا کسی عوض کے ذریعے منتقل نہیں ہوسکتی ہے۔[22]
- حق القسم صرف عورت کے ساتھ سونے سے متعلق ہے نہ کہ اس کے ساتھ جماع اور مباشرت سے۔[23]
متعدد ازواج میں حق القسم
فقہاء نے کہا ہے کہ اگر کسی مرد کی متعدد بیویاں ہوں تو اس پر واجب ہے کہ ہر چار راتوں میں ان کے درمیان ساتھ سونے کو تقسیم کرے۔[24] اور اگر کسی مرد کی چار بیویاں ہوں تو اسے ہر رات ان میں سے ایک کے ساتھ رہنا چاہیے؛ اور اگر چاروں راتیں ختم ہو جائیں تو دوبارہ ان میں سے کسی ایک سے شروع کرے۔ اور اگر اس کی دو بیویاں ہوں تو دو راتیں عورتوں کے لیے ہیں اور دو راتیں اس کے لیے ہیں۔ اور اگر اس کی تین بیویاں ہوں تو تین راتیں ان کے لیے ہیں اور باقی ایک رات اپنے لیے ہے۔[25]
ایک بیوی کا حق القسم
مشہور قول کے مطابق عورت خواہ وہ اکیلی ہو یا زیادہ، اسے شب باشی کا حق حاصل ہے اور شوہر کے لیے چار راتوں میں سے ایک رات اس کے ساتھ سونا ضروری ہے۔[26] بعض فقہاء کا یہ بھی خیال ہے کہ یک بیوی ہونے کی صورت میں حق القسم معنی نہیں رکھتا۔ شہید ثانی، صاحب جواہر، محقق سبزواری، و امام خمینی ان لوگوں میں شامل ہیں۔[27]
معاصر فقیہ شبیری زنجانی نے اپنی کتاب نکاح میں پندرہ فقہاء کا نام لیا ہے جو ایک بیوی کے لئے بھی حق القسم کو قبول کرتے ہیں جن میں قطب راوندی، ابن ادریس، محقق حلی، علامہ حلی اور شہید اول شامل ہیں۔[28] اور وہ خود حق القسم میں ایک بیوی اور متعدد بیویوں کے درمیان فرق کو بعید سمجھتے ہیں۔[29] یہ کہا گیا ہے کہ احادیث میں ایک بیوی کا ذکر نہ ہونا اس لئے ہے کہ ایک بیوی کی صورت میں حق القسم ایک مسلم اور یقینی چیز ہے۔[30]
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج6، ص112.
- ↑ روحانی، فقہ الصادق، 1414ق، ج22، ص216.
- ↑ نقیبی، و محمدحسنی، «نقد و بررسی تعریف حق قسم در آرای فقہای امامیہ»، ص415.
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، 1362ش، ج31، ص148؛ سبحانی، نظام النکاح فی الشریعہ الاسلامیہ الغراء، 1416ق، ج2، ص290.
- ↑ قادری، «پژوہشی فقہی در مسائل حق قسم (مضاجعہ)»، ص113.
- ↑ شیخ انصاری، کتاب النکاح، تراث الشیخ الأعظم، ص470؛ علامہ حلی، قواعد الأحکام، 1419ق، ج3، ص90؛ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1409ق، ج2، ص556.
- ↑ ثمنی، «مضاجعہ و چالش ہای آن در فقہ امامیہ»، ص116؛ نجفی، جواہر الكلام، 1362ش، ج31، ص146؛ شیخ انصاری، کتاب النکاح، تراث الشیخ الأعظم، ص470؛
- ↑ شہید ثانی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، ج8، ص310.
- ↑ شہید ثانی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، ج8، ص309.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج31، ص148.
- ↑ پورعبداللہ، و محمدحسنی، «جایگاہ حق قسم در تحکیم کیان خانوادہ»، ص27.
- ↑ کرکی، جامع المقاصد، 1414ق، ج12، ص58.
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1390ق، ج16، ص336.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج17، ص387.
- ↑ وسائل الشیعہ، الشیخ حر العاملی، دار احياء التراث العربي بيروت، ج15، ص85
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج31، ص151.
- ↑ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، دار الفکر، ص174.
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج6، ص135؛ سیستانی، 1415ق، ج3، ص105.
- ↑ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1379ش، ص745.
- ↑ قمی، جامع الشتات فی أجوبۃ السؤالات، 1371ش، ج4، ص163.
- ↑ نقیبی، و محمدحسنی، «نقد و بررسی تعریف حق قسم در آرای فقہای امامیہ»، ص415.
- ↑ محقق داماد، قواعد فقہ، 1406ق، ج1، ص269.
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج6، ص128؛ خویی، منہاج الصالحین، 1410ق، ج2، ص281.
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج6، ص128.
- ↑ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1379ش، ص746.
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج6، ص128؛ سیستانی، منہاج الصالحین، 1415ق، ج3، ص105. شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، دار الفکر، ص173.
- ↑ شبیری زنجانی، کتاب نکاح، 1377–1385ہجری شمسی۔ ج24، ص7491؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1379ش، ص745.
- ↑ شبیری زنجانی، کتاب نکاح، 1377–1385ہجری شمسی۔ ج24، ص7490.
- ↑ شبیری زنجانی، کتاب نکاح، 1377–1385ہجری شمسی۔ ج24، ص7493.
- ↑ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج6، ص134.
مآخذ
- امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، موسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى(رہ)، 1379ہجری شمسی۔
- پورعبداللہ، کبری، و صدیقہ محمدحسنی، «جایگاہ حق قسم در تحکیم کیان خانوادہ»، فقہ و حقوق خانوادہ (ندای صادق)، شمارہ 66، سال 22، بہار و تابستان 1396ہجری شمسی۔
- ثمنی، لیلا، «مضاجعہ و چالش ہای آن در فقہ امامیہ»، مطالعات فقہی و حقوقی زن و خانوادہ، شمارہ دوم، سال اول، 1397ہجری شمسی۔
- حرّ عاملی، محمدحسن، الوسائل الشیعہ، تحقیق، تصحیح و پاورقی: عبدالرحیم ربانی شیرازی، دار احياء التراث العربي بيروت .
- خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، نشر مدینہ العلم، 1410ھ۔
- روحانی، سید محمد صادق، فقہ الصادق، قم، مؤسسۃ دار الکتاب، 1414ھ۔
- سبحانی، جعفر، نظام النکاح فی الشریعہ الاسلامیہ الغراء، قم، مؤسسہ الامام الصادق(ع)، 1416ھ۔
- سیستانی، سید علی، منہاج الصالحین، قم، مکتب آیۃ اللہ العظمی السید السیستانی، 1415ھ۔
- شبیری زنجانی، موسی، کتاب نکاح، قم، مؤسسہ پژوہشی رای پرداز، 1377–1385ہجری شمسی۔
- شہید اول، محمدبن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ، بی جا، دار الفکر، بی تا.
- شہید ثانی، زین الدین بن نورالدین علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، بی تا.
- شیخ انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، بی جا، تراث الشیخ الأعظم، بی تا.
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن يوسف، قواعد الأحکام، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم، 1419ھ۔
- قادری، محمدعلی، «پژوہشی فقہی در مسائل حق قسم (مضاجعہ)» دستاوردہای نوین در مطالعات علوم انسانی، شمارہ 42، سال چہارم، آبان 1400ہجری شمسی۔
- قمی، میرزا ابوالقاسم، جامع الشتات فی أجوبۃ السؤالات، تہران، کیہان، 1371ہجری شمسی۔
- محقق حلی، جعفر بن الحسن، شرائع الاسلام، تہران، استقلال، 1409ھ۔
- محقق داماد، سید مصطفی، قواعد فقہ، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، 1406ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1371ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسہ الامام على بن ابى طالب(ع)، 1424ھ۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، تحقیق: محمود قوچانی، بیروت، دار إحياء التراث العربي، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
- نقیبی، سید مہدی، و صدیقہ محمدحسنی، «نقد و بررسی تعریف حق قسم در آرای فقہای امامیہ»، پژوہشنامہ حقوق اسلامی، شمارہ 2، سال بیست و دوم، پاییز و زمستان 1400ہجری شمسی۔
- کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسۃ آل البیت، 1414ھ۔