صاحب سر

ویکی شیعہ سے

صاحب سرپیغمبر اسلام(ص) اور امام علی(ع) کے ایسے صحابہ ہیں جو آپکے لئے قابل اطمینان تھے اور بعض غیبی خبریں یا معارف الہی جو عام طور پر دوسرے لوگوں کو معلوم نہیں ہوتی تھیں وہ ان سے باخبر ہوتے۔ حذیفہ کو صاحب سر پیغمبر(ص) کہا گیا ہے اور امام علی(ع) کے صاحب سر کمیل بن زیاد اور رشید ہجری تھے۔ یہ اصطلاح امام صادق(ع) کے صحابہ معلی بن خنیس اور امام رضا(ع) کی سفر میں خدمت کرنے والے شخص کے لئے بھی استعمال ہوئی ہے۔

اصطلاحی معنی

صاحب سر وہ شخص ہے جسے امام(ع) اپنے راز سے آگاہ فرمائیں۔ [1]

حضور(ص) کا صاحب سر

پیغمبر(ص) حضرت علی(ع) کو اپنا صاحب سر مانتے تھے۔ [2]حذیفہ بن یمان کو رجالی ماخذ میں پیغمبر(ص) کے صاحب سر کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) کو ان پر اعتماد تھا اور بعض رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں انہیں پہلے سے آگاہ فرماتے، اسی طرح بعض افراد کے باطن کے بارے میں بھی بتایا ہوا تھا اور بعض منافقوں کی پہچان بھی کروائی ہوئی تھی۔ [3] بالخصوص جب پیغمبر اکرم(ص) جنگ تبوک سے واپس آ رہے تھے اور جو منافقین آپ(ص) کو نقصان پہونچانے کا ارادہ رکھتے تھے آپ(ص) نے ان کے اس ارادے سے حذیفہ بن یمان کو آگاہ کیا ہوا تھا۔[4] اسی لئے مفسرین نے انہیں رسول خدا(ص) کے "صاحب سر" کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ [5] بعض مآخذ میں عبد اللہ بن مسعود کو بھی پیغمبر(ص) کے صاحب سر ہونے کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔ [6]

آئمہ معصومین(ع) کے اصحاب سر

حضرت علی(ع) کے صاحب سر

حضرت علی(ع) کے بعض اصحاب کو آپ(ع) کا "صاحب سر" کہا گیا ہے۔ امام علی(ع) کمیل بن زیاد کو اپنا صاحب سر کہتے تھے۔[7] سیرت نگاروں نے دیگر افراد کو بھی امام علی(ع) کے صاحب سر کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ جن میں سے ایک رشید ہجری [8] ہیں۔ میثم تمار کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ حضرت علی(ع) نے انہیں "اسرار خفیۃ من اسرار الوصیۃ" سے آگاہ فرمایا تھا۔ [9]

اگر صاحب سر کے معنی ایسے افراد ہیں جنہیں امام(ع) بعض غیبی خبروں سے آگاہ کریں تو اس طرح میثم تمار اور حبیب بن مظاہر بھی امام علی(ع) کے صاحب سر تھے، اگرچہ مآخذ میں ان کے صاحب سر ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ شیخ عباس قمی ان تین افراد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ تینوں غیب کی خبروں کو ایک دوسرے کے لئے بیان کرتے تھے اور یہ کہ انکی شہادت کیسے ہو گی اس بارے میں بھی ایک دوسرے کو خبر دیتے تھے۔[10]

دوسرے اماموں کے اصحاب سر

یہ اصطلاح امام صادق(ع) کے صحابہ معلی بن خنیس [11] اور سفر کے دوران امام رضا(ع) کی خدمت کرنے والے شخص [12] کے بارے میں بھی استعمال ہوئی ہے۔

اصطلاح کی رجالی اہمیت

یہ اصطلاح ایسے الفاظ میں سے ہے کہ اگر کسی راوی کے بارے میں استعمال ہو تو اس کی وثاقت پر دلالت کرتی ہے۔ [13] بعض معتقد ہیں کہ یہ لفظ صرف راوی کی مدح پر دلالت کرتا ہے۔ [14]

حوالہ جات

  1. مرعی، منتہی المقال فی الدرایہ و الرجال، ۱۴۱۷ق، ص۹۹.
  2. مہریزی و خوئی، میراث حدیث شیعہ، ۱۳۸۰ش، ج‌۲، ص۲۲۲.
  3. رجوع کریں ابن‌سعد، الطبقات‌الکبری، ۱۹۶۸-۱۹۷۷م، ج۲، ص۳۴۶؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۲۸۰ـ۱۲۸۶ق، ج۱، ص۴۶۸.
  4. رجوع کریں واقدی، المغازی، ۱۹۶۶م، ج۳، ص۱۰۴۲ـ ۱۰۴۴
  5. مثال کے طور پر رجوع کریں، ابن‌عبدالبرّ، الاستیعاب، ۱۳۸۰ق، قسم ۱، ص۳۳۵؛ ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۴۰؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۲۸۰ـ۱۲۸۶ق، ج۱، ص۴۶۸.
  6. استرآبادی، رجال الکشی- اختیار معرفہ الرجال(مع تعلیقات میردامادالاسترآبادی)، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۱۷۷.
  7. مجلسی، روضۃ المتقین فی شرح من لایحضره الفقیہ، ۱۴۰۶ق، ج‌۲، ص۸۱.
  8. قمی، منتہی‌الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۷۳.
  9. ثقفی، الغارات، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۷۹۷.
  10. قمی، منتہی‌الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۴۷۳
  11. کاظمی، تكملہ الرجال، ۱۴۲۵ق، ج۱، ص۱۳۳.
  12. نمازی شاہرودی، مستطرفات المعالی، او، منتخب المقال و الاقوال فی علم الرجال، ۱۴۲۲ق، ص۳۲۱.
  13. مرعی، منتہی المقال فی الدرایہ و الرجال، ۱۴۱۷ق، ص۹۹.
  14. کاظمی، تكملہ الرجال، ۱۴۲۵ق، ج‌۱، ص۱۳۳.

مآخذ

  • ابن‌اثیر، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، قاہره ۱۲۸۰ـ۱۲۸۶ق، چاپ افست بیروت بی‌تا.
  • ابن‌حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، چاپ عادل احمد عبدالموجود و علی‌محمد معوض، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • ابن‌سعد، الطبقات‌الکبری، بیروت، ۱۹۶۸-۱۹۷۷م.
  • ابن‌عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، چاپ علی‌محمد بجاوی، قاہره، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۰م.
  • ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارت، مصحح: جلال الدین محدث، انجمن آثار ملی، تہران، ۱۳۹۵ق
  • قمی، عباس، منتہی‌الآمال فی تواریخ‌النبی و الآل، دلیل ما، قم، ۱۳۷۹ش.
  • كاظمی، عبدالنبی، تکملہ الرجال، انوارالہدی، قم، ۱۴۲۵ق.
  • کشی، محمد بن عمر، کتاب رجال‌الکشی -اختیار معرفہ الرجال(مع تعلیقات میر داماد الأسترآبادی)، مصحح: مہدی رجائی، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۳۶۳ش.
  • مجلسی، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لایحضره الفقیہ، مصحح: موسوی كرمانی، حسین و اشتہاردی علی‌پناه، مؤسسہ فرہنگی اسلامی كوشانبور، قم، ۱۴۰۶ق.
  • مرعی، حسین عبدالله، منتہی المقال فی الدرایہ و الرجال، مؤسسۃ العروة الوثقی، بیروت، ۱۴۱۷ق.
  • مہریزی، مہدی؛ صدرایی خویی، علی، میرات حدیث شیعہ، مؤسسہ دارالحدیث، قم، ۱۳۸۰ش.
  • نمازی شاہرودی، علی، مستطرفات المعالی، او، منتخب المقال و الاقوال فی علم الرجال، مؤسسہ نبأ، تہران، ۱۴۲۲ق.
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م.