استلام حجر

استلام حجر، کا مطلب تبرک کی نیت سے حجر اسود کو مس کرنا اور اسے بوسہ دینا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں استلام حجر کی تاکید ہوئی ہے۔ فقہا استلام حجر کو مستحب مانتے ہیں۔ امام جعفر صادق ؑ سے منقول ایک حدیث میں استلام حجر الاسود کا فلسفہ یہ بیان کیا ہے کہ روز قیامت حجر اسود گواہی دے گا کہ اس شخص نے خدا کے ساتھ کیا ہوا عہد و پیمان نبھایا ہے۔ مقدس اشیاء کو تبرک کی نیت سے چومنے اور لمس کرنے کے جواز کے لئے استلام حجر اسود سے استناد کیا جاتا ہے۔
مفہوم شناسی
لغت میں استلام، لمس کرنے اور بوسہ دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔[1] فقہ میں یہ اصطلاح حجر اسود، کعبہ اور اس کے ارکان کو مس کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔[2] استلام حجر یا استلام حجر اسود سے مراد اس پتھر کو چھونا، اس پر ہاتھ پھیرنا اور اسے چومنا ہے۔[3]
حجر الاسود
حجر اسود مسلمانوں کے یہاں ایک مقدس پتھر ہے جو مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے مشرقی رکن میں واقع ہے۔[4] اس پتھر کا رنگ سیاہ مائل بہ سرخ ہے۔[5] حجر الاسود کی تاریخ بہت قدیمی ہے اور یہ اسلام سے پہلے بھی مورد احترام تھا۔[6] حجر الاسود کا نام قرآن مجید میں ذکر نہیں ہوا ہے۔[7] لیکن امام جعفر صادق ؑ کی ایک روایت کے مطابق حجر اسود آیات بینات میں سے ایک ہے[8] جن کا تذکرہ قرآن میں ہوا ہے۔[9]
حکم فقہی
شیعہ اور اہل سنت احادیث میں استلام حجر کی سفارش کی گئی ہے۔[10] کتاب وسائل الشیعہ اور صحیح بخاری کی روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ طواف کے وقت حجر الاسود کو مس کرتے تھے اور اس کا بوسہ لیتے تھے۔[11] اسی طرح سے شیخ کلینی امام صادقؑ کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ سفارش فرماتے تھے کہ طواف کے وقت حجر اسود کو لمس کیا جائے اور اس کا بوسہ لیا جائے۔[12]
اس طرح کی روایات کی بنیاد پر شیعہ اور اہل سنت فقہاء اس عمل کو مستحب سمجھتے ہیں۔[13] مثال کے طور پر محقق حلی نے استلام حجر کو مستحبات طواف کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔[14] اسی طرح سلفی مسلک کے علماء مقدس چیزوں کو بوسہ دینے کو شرک ماننے کے باوجود،[15] استلام رکن اور حجر الاسود کو بوسہ دینے کو جائز سمجھتے ہیں۔[16] استلام حجر کو مقدس اشیاء سے متبرک ہونے اور تبرک کی نیت سے انہیں چومنے اور لمس کرنے کے جواز پر بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔[17]
فقہاء کے فتاوی کے مطابق طواف کے وقت ازدحام کی صورت میں اگر مردوں اور عورتوں کے جسم آپس میں چھونے کا اندیشہ ہو تو استلام حجر جائز نہیں ہے۔[18]
استلام حجر کا فلسفہ اور حکمت
خدا کے ساتھ تجدید عہد
کتاب کافی کی ایک روایت میں، استلام حجر کا فسلفہ یہ بیان کیا گیا ہے: امام صادقؑ نے فرمایا کہ جب خدا نے اپنے بندوں سے عہد لیا تو حجر الاسود کو جنت سے لایا گیا اور اسے بندوں کے عہد کو محفوظ رکھنے کا حکم دیا۔ جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا، حجر الاسود قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گا۔[19]
قیامت کے دن گواہی
حضرت علیؑ فرماتے ہیں: "خدا قیامت کے دن اس پتھر کو زندہ کرے گا، جس کی زبان اور دو ہونٹ ہوں گے، اور یہ ان لوگوں کے حق میں گواہی دے گا جو اپنے عہد پر قائم رہے گا۔ یہ پتھر خدا کے دائیں ہاتھ کی مانند ہے، جس کے ذریعے مخلوق خدا کی بیعت کرتی ہے۔"[20]
حوالہ جات
- ↑ دہخدا، لغت نامہ دهخدا، ذیل واژه «استلام»۔
- ↑ مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390شمسی، ج1، ص482۔
- ↑ حاج منوچہری، «حجرالاسود»، ص190۔
- ↑ حاج منوچہری، «حجرالاسود»، ص188۔
- ↑ پروازی ایزدی، «حجرالاسود»، ص685۔
- ↑ حاج منوچہری، «حجرالاسود»، ص188۔
- ↑ پروازی ایزدی، «حجرالاسود»، ص685۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص223۔
- ↑ پروازی ایزدی، «حجرالاسود»، ص685و686۔
- ↑ حاج منوچہری، «حجرالاسود»، ص190۔
- ↑ نگاه کریں حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج13، ص316؛ بخاری، صحیح بخاری، 1410ھ، ص133۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص403۔
- ↑ حاج منوچہری، «حجرالاسود»، ص189و190۔
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص243و244۔
- ↑ ابن قیم جوزی، إغاثة اللہفان من مصايد الشيطان، مکتبہ العارف، ج1، ص194۔
- ↑ ابن تیمیہ، الرد على الأخنائی قاضی المالكیہ، 1423ھ، ج1، ص124۔
- ↑ عینی، عمدة القاری، دار احیاء التراث، ج9، ص241 بہ نقل از محب الدین طبری۔
- ↑ برای نمونہ رجوع کریں خویی، صراط النجاة، 1416ھ، ج3، ص168؛ گلپایگانی، مجمع المسائل، 1409ھ، ج4، ص278۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج4، ص184۔
- ↑ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، 1414ق٬ ج 13، ص 320 و 321۔
مآخذ
- ابن تیمیہ، الرد علی الأخنائی قاضی المالکیہ، محقق الدانی بن منیر آل زہوی، بیروت، المکتبہ العصریہ، 1423ھ۔
- ابن قیم جوزی، إغاثة اللہفان من مصايد الشيطان، محقق محمد حامد الفقی، ریاض، مکتبہ العارف، بی تا۔
- ابنمنظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، 1414ھ۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، قاہره، لجنہ احیاء کتب السنہ، 1410ھ۔
- پروازی ایزدی، نرگس، «حجرالاسود»، دانش نامہ جہان اسلام، ج12، تہران، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1387شمسی۔
- حاج منوچہری، فرامرز، «حجر الاسود»، دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ج20، تہران، مرکز دایرة المعارف بزرگ اسلامی، چاپ دوم، 1391شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، موسسہ آل البیت، 1409ھ۔
- خويى، سيد ابو القاسم، صراط النجاة، قم، مكتب نشر المنتخب، چاپ اول، 1416ھ۔
- دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ دهخدا۔
- عینی، محمود بن احمد، عمدة القاری شرح البخاری، بیروت، دار احیا التراث، بی تا۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- گلپايگانى، سيد محمد رضا ، مجمع المسائل ، قم، دار القرآن الكريم ، چاپ دوم، 1409ھ۔
- محقق حلی، نجم الدین محمد بن حسن، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
- مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، قم، مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، 1390شمسی۔