استلام حجر

ویکی شیعہ سے

استلام حجر، حجر اسود کو تبرک کے قصد سے مس کرنے اور بوسہ دینے کو کہتے ہیں۔ شیعہ و سنی مصادر حدیثی میں استلام حجر کی تاکید ہوئی ہے۔ فقہا استلام حجر کو مستحب مانتے ہیں۔ امام جعفر صادق (ع) سے منقول ایک حدیث میں فلسفہ استلام روز قیامت حجر اسود کے انسان کے عہد خدا سے وفاداری کے بارے میں شہادت دینا، ذکر ہوا ہے۔

مقدس اشیاء کو بوسہ دینے کے جواز کے اثبات کے لئے استلام حجر اسود سے استناد کیا جاتا ہے۔

مفہوم شناسی

لغت میں استلام لمس کرنے اور بوسہ دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔[1] فقہ میں یہ لفظ کئی معنی میں جیسے حجر اسود، کعبہ اور اس کے ارکان کو مس کرنے کے سلسلہ میں استعمال ہوتا ہے۔[2] استلام حجر یا استلام حجر اسود سے مراد اس پتھر کو چھونا، اس پر ہاتھ پھیرنا اور اسے چومنا ہے۔[3]

حجر الاسود

حجر اسود مسلمانوں کے نزدیک ایک مقدس سنگ ہے جو مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے مشرقی رکن میں واقع ہے۔[4] اس پتھر کا رنگ سرخ مائل سیاہ ہے۔[5] حجر الاسود کی تاریخ بہت قدیمی ہے اور یہ اسلام سے پہلے بھی مورد احترام تھا۔[6] حجر الاسود کا نام قرآن مجید میں ذکر نہیں ہوا ہے۔[7] لیکن امام جعفر صادق (ع) کی ایک روایت کے مطابق، حجر اسود آیات بینات میں سے ایک ہے[8] جن کا تذکرہ قرآن میں ہوا ہے۔[9]

حکم فقہی

شیعہ و اہل سنت روایات میں استلام حجر کی سفارش کی گئی ہے۔[10] کتاب وسائل الشیعہ اور صحیح بخاری کی روایات کے مطابق، پیغمبر اکرم (ص) طواف کے وقت حجر الاسود کو مس کرتے تھے اور اس کا بوسہ لیتے تھے۔[11] اسی طرح سے شیخ کلینی، امام صادق (ع) کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ سفارش فرماتے تھے کہ طواف کے وقت حجر اسود کو لمس کیا جائے اور اس کا بوسہ لیا جائے۔[12]

اس طرح کی روایات کی بنیاد پر شیعہ و سنی فقہاء اس عمل کو مستحب کہتے ہیں۔[13] مثال کے طور پر محقق حلی نے استلام حجر کو مستحبات طواف کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔[14] اسی طرح سلفی مسلک اس بات کے باجود کہ وہ استلام و مقدس چیزوں کے بوسہ دینے کو شرک مانتے ہیں،[15] استلام رکن اور حجر الاسود کو بوسہ دینے کو قبول کرتے ہیں۔[16] استلام حجر ان موارد میں سے ہے جس سے تبرک حاصل کرنے اور مقدس اشیاء کو چومنے کے جائز ہونے کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔[17]

فقہاء کے فتاوی کے مطابق، اگر طواف کرنے والوں کی بھیڑ بہت زیادہ ہو اس قدر کہ استلام حجر مردوں اور عورتوں کے بدن ایک دوسرے سے مس ہونے کا سبب بن رہا ہو تو استلام حجر جائز نہیں ہے۔[18]

فلسفہ استلام حجر

کتاب الکافی کی ایک روایت میں استلام حجر کے فلسفہ کو بیان کیا گیا ہے۔ شیخ کلینی نے امام جعفر صادق (ع) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آپ (ع) نے حجر الاسود کو مس کرنے کی علت کے بارے میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: حجر الاسود کے استلام کا سبب یہ ہے کہ جس وقت خداوند عالم نے انسانوں سے عہد و پیمان لیا تو حجر اسود کو بہشت سے لایا گیا اور اسے حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کے بندوں کے عہد کو اپنے اندر جذب کر لے۔ لہذا جو بھی اس عہد کی حفاظت کرتا ہے، حجر اسود اس کی شہادت دے گا کہ اس نے اپنے عہد کو نہیں توڑا اور اس کی وفاداری کی ہے۔[19]

حوالہ جات

  1. دہخدا، لغت نامہ دهخدا،‌ ذیل واژه «استلام».
  2. مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۰ش، ج۱، ص۴۸۲.
  3. حاج‌ منوچہری، «حجرالاسود»، ص۱۹۰.
  4. حاج‌ منوچہری، «حجرالاسود»، ص۱۸۸.
  5. پروازی ایزدی، «حجرالاسود»، ص۶۸۵.
  6. حاج‌ منوچہری، «حجرالاسود»، ص۱۸۸.
  7. پروازی ایزدی، «حجرالاسود»، ص۶۸۵.
  8. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۲۲۳.
  9. پروازی ایزدی، «حجرالاسود»، ص۶۸۵و۶۸۶.
  10. حاج‌ منوچہری، «حجرالاسود»، ص۱۹۰.
  11. نگاه کریں حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۳، ص۳۱۶؛ بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۱۰ق، ص۱۳۳.
  12. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۴۰۳.
  13. حاج‌ منوچہری، «حجرالاسود»، ص۱۸۹و۱۹۰.
  14. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۴۳و۲۴۴.
  15. ابن‌ قیم جوزی،‌ إغاثة اللہفان من مصايد الشيطان، مکتبہ العارف، ج۱، ص۱۹۴.
  16. ابن تیمیہ، الرد على الأخنائی قاضی المالكیہ، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۲۴.
  17. عینی، عمدة القاری، دار احیاء التراث، ج۹، ص۲۴۱ بہ نقل از محب الدین طبری.
  18. برای نمونہ رجوع کریں خویی، صراط النجاة، ۱۴۱۶ق، ج۳، ص۱۶۸؛ گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۲۷۸.
  19. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۸۴.

مآخذ

  • ابن تیمیہ، الرد علی الأخنائی قاضی المالکیہ، محقق الدانی بن منیر آل زہوی، بیروت، المکتبہ العصریہ، ۱۴۲۳ق
  • ابن‌ قیم جوزی،‌ إغاثة اللہفان من مصايد الشيطان، محقق محمد حامد الفقی،‌ ریاض، مکتبہ العارف، بی‌ تا
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، قاہره، لجنہ احیاء کتب السنہ، ۱۴۱۰ق
  • پروازی ایزدی، نرگس، «حجرالاسود»، دانش نامہ جہان اسلام، ج۱۲، تہران، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۷ش
  • حاج‌ منوچہری، فرامرز، «حجر الاسود»، دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۲۰، تہران، مرکز دایرة المعارف بزرگ اسلامی، چاپ دوم، ۱۳۹۱ش
  • حر عاملی،‌ محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، موسسہ آل البیت، ۱۴۰۹ق
  • خويى، سيد ابو القاسم، صراط‌ النجاة، قم، مكتب نشر المنتخب، چاپ اول، ۱۴۱۶ق
  • دہخدا،‌ علی‌ اکبر، لغت نامہ دهخدا
  • عینی، محمود بن احمد، عمدة القاری شرح البخاری، بیروت، دار احیا التراث، بی‌ تا
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ق
  • گلپايگانى، سيد محمد رضا ، مجمع المسائل ، قم، دار القرآن‌ الكريم ، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق
  • محقق حلی، نجم الدین محمد بن حسن، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق
  • مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، قم،‌ مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، ۱۳۹۰ش