تلبیہ حج اور عمرہ کے واجبات احرام میں سے ہے کہ جس میں ایک خاص جملہ (لبیک) کہا جاتا ہے. تلبیہ کا مشہور ترین جملہ لَبَّیكَ الّلهُمَّ لَبَّیكَ، لَبَّیكَ لاشَریكَ لَكَ لَبَّیكَ، إنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلكَ، لاشَریكَ لَكَ لَبَّیكَ ہے کہ جو ضروری ہے کہ احرام کی نیت کے وقت صحیح عربی زبان میں کہا جائے اور اس کے بعد حج یا عمرہ کرنے والا شخص جو چیزیں محرم پر حرام ہیں ان سے پرہیز کرے. لبیک حج میں اس کا معنی یعنی خدا کی آواز کا مثبت جواب دینا اور اس کے ساتھ بندگی کا وعدہ کرنا ہے. میقات سے مکہ تک پورے راستے میں مستحب ہے کہ یہ ذکر پڑھتے رہیں.

الفاظ شناسی

تلبیہ کا اصل ل ب ی یا ل ب ب جس کا معنی یعنی ایک مکان میں رہنا اور مقیم ہونا، اجابت، اور مثبت جواب دینا اور لبیک کہنا ہے. [1]اس کے علاوہ، مادہ ل ب ب کا معنی ایک چیز کا خالص ہونا ہے. اسی لئے لفظ عقل کو لب اور عاقل شخص کو لبیب کہتے ہیں. [2] اس وجہ سے، لبیک کا معنی ہر آواز دینے والے کے جواب میں یہ ہے: میرا اخلاص تیرے لئے ہے یا میں تیری اطاعت کے لئے حاضر ہوں [3] فقہی اصطلاح میں، تلبیہ یعنی وہ خاص جملات کا زبان پر دہرانا، کہ جو حج اور عمرہ کے احرام میں خداوند کے لئے لبیک کے معنی میں ہے. تلبیہ سے مرتبط دوسرے لفظ جیسے اھلال ہے جس کا معنی بلند آواز میں تلبیہ ہے. [4]

تاریخچہ

تاریخی منابعوں[5] اور حدیث کے مطابق [6] فرشتے عرش خداوند پر وہ پہلے لبیک کہنے والے تھے. منابع میں لبیک حضرت آدم(ع)،[7] حضرت ابراہیم(ع)،[8] حضرت نوح(ع)، حضرت ھود(ع)، حضرت صالح(ع)،[9] حضرت موسیٰ(ع)، حضرت عیسیٰ(ع)، حضرت یونس(ع) اور بنی اسرائیل کے دوسرے پیغمبروں کے لئے[10] بیان ہوا ہے. سب کی تلبیہ کا معنی لبیک ہی ہے، اگرچہ ان کی عبارات میں تھوڑا فرق پایا جاتا ہے. زمانہ جاہلیت میں تلبیہ تحریف اور شرک آلود کی صورت میں تھا اور جزیرۃالعرب کے ہر قبیلے کا ایک خاص تلبیہ تھا. [11] مثال کے طور پر قریش کا طلبیہ یوں تھا: لَبَّیكَ الّلهُمَّ لَبَّیكَ؛ لَبَّیكَ لاشَریكَ لَكَ اِلّا شَریکٌ هُوَ لَكَ تَملِكُهُ وَ ما مَلَكَ. اور ان کے ہاں ہر ایک بت کے لئے ایک خاص تلبیہ تھا. [12]

اسلام میں تلبیہ

اسلام میں جو تلبیہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ لبیک . ترجمہ: حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تعریف اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے میں حاضر ہوں. [13] آپ(ص) اس عبارت «لَبَّیكَ ذَا المَعارِجِ لَبَّیكَ» کو بہت زیادہ دہراتے تھے. [14] اپنی سواری پر بیٹھ جانے کے بعد، بلندی پر جاتے وقت تک، اور بلندی سے نیچے آتے وقت، رات کے آخری حصے میں، اور ہر نماز کے بعد اس تلبیہ کا ذکر فرماتے تھے.[15] پیغمبر(ص) نے ترویہ کے دن (آٹھ ذوالحجہ) کو مکہ کے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تلبیہ کہیں اور پھر اپنے اصحاب کے ہمراہ تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ کی طرف حرکت کی. [16] جب حاجی احرام پہن لیتے ہیں تو لبیک کہنے سے اپنے اندر ایک خاص معنوی فضا ایجاد کرتے ہوئے خدا کے گھر کی طرف سفر کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.

تلبیہ کی حکمت

تلبیہ کی جو حکمت احادیث میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے: خداوند کی آواز پر جواب دینا، [17] حضرت ابراہیم(ع) کی آواز پر جواب کہ جنہوں نے خدا کے حکم سے لوگوں کو حج کی دعوت دی. [18] تلبیہ کی وجہ سے گناہوں کی معافی مانگنا، [19] خدا کی اطاعت اور ہر طرح کے گناہ سے دوری کا ارادہ کرنا.[20] امام صادق(ع) جب تلبیہ پڑھتے تو آپ(ع) کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو جاتا اور آواز کانپنے لگتی اور جب ان سے سوال کیا جاتا کہ لبیک کیوں نہیں کہتے تو فرماتے مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں خدا میرے جواب کو رد نہ کر دے اورکہے لا لبیک ولا سعدیک .[21]

احرام کی صحت کے لئے تلبیہ واجب ہے

اہل تشیع کے مشہور فقہاء کی نظر میں، تمتع حج اور عمرہ اور مفردہ حج ، میں احرام کے صحیح ہونے کے لئے واجب ہے کہ ایک بار تلبیہ کہی جائے، لیکن حج قران کے لئے حج گزار محرم ہونے کے لئے تلبیہ اور اشعار [22] اور تقلید میں مختار ہے. میقات میں تلبیہ کہنے کے بعد، آدمی محرم ہے اور ضروری ہے کہ جو کام محرم پر حرام ہیں ان سے اجتناب کرے.[23] شافعی [24] اور حنبلی[25] فقہاء نے تلبیہ کو مستحب کہا ہے. لیکن مالکی فقہاء [26] نے اسے واجب کہا ہے. حنفی فقہاء کا نظریہ یہ ہے کہ تلبیہ نیت کرنے سے یا ان میں سے کوئی ایک ذکر کرنے سے لاالہ الا اللہ، الحمد للہ و سبحان اللہ یا تقلید سے شروع ہو جاتی ہے. [27] اہل تشیع [28] اور اہل سنت کے مشہور فقہاء، [29][30]تلبیہ کو حج اور عمرہ کے ارکان میں شمار نہیں کرتے.

تلبیہ کے الفاظ

اہل تشیع کے مشہور فقہاء کے فتوے کے مطابق واجب تلبیہ یہ ہے: لَبَّیكَ الّلهُمَّ لَبَّیكَ، لَبَّیكَ لاشَریكَ لَكَ لَبَّیک. [31] اور اکثر اس کے آخر میں [32] اس عبارت کو ضروری سمجھتے ہیں. لَبَّیكَ الّلهُمَّ لَبَّیكَ، لَبَّیكَ إنَّ الحَمدَ وَ النِّعمَةَ لَكَ وَ المُلكَ، لاشَریكَ لَكَ لَبَّیكَ.[33] اور بعض نے تلبیہ کے لئے کچھ دوسری عبارات بیان کی ہیں. واجب تلبیہ کے بعد مستحب ہے کہ یہ کہا جائے: لَبَّیكَ ذَا لمَعَارِجِ لَبَّیكَ، لَبَّیكَ دَاعِیاً اِلَی‌دار السَّلامِ لَبَّیك[34] و « لَبّیكَ أتَقَرَّبُ إلَیكَ بِمُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ لَبَّیكَ، لَبَّیكَ بِحَجَّةٍ وَ عُمرَهٍ لَبَّیكَ.».[35] بعض مراجع تقلید نے کہا ہے کہ مردوں کے لئے مستحب ہے کہ تلبیہ اونچی آواز میں کہیں. [36] اور تلبیہ کے لئے غسل اور وضو مستحب ہے.[37] اہل سنت کے فقہاء کی نظر میں[38] تلبیہ یوں ہے:لَبَّیكَ الّلهُمَّ لَبَّیكَ، لَبَّیكَ لاشَریكَ لَكَ لَبَّیكَ، إنَّ الحَمدَ وَ النِّعمَةَ لَكَ وَ المُلكَ، لاشَریكَ لَكَ. [39]بعض نے اس عبارت کو اجماعی کہا ہے.[40]

تلبیہ صحیح عربی میں ہو

ضروری ہے کہ تلبیہ صحیح عربی میں ادا ہو. [41] جو افراد عربی کا تلفظ صحیح ادا نہیں کر سکتے ان کے لئے احادیث میں کچھ نظریے بیان ہوئے ہیں. [42] جو درج ذیل ہیں: واجب ہے کہ کسی شخص کو نائب کریں. [43] واجب ہے تلبیہ کی عبارت کا ترجمہ کریں.[44] تلبیہ کا تلفظ جس صورت میں ممکن ہو.[45] عبارت کا تلفظ جس طرح ممکن ہو اور اس کا ترجمہ اور اس کو ادا کرنے کے لئے کسی فرد کو نائب کریں. [46] اور بعض معتقد ہیں کہ اگر شخص کسی صورت میں بھی تلبیہ ادا نہ کر سکے تو اس سال مناسک حج بجا لانے سے معذور ہے اس لئے دوسرے سال کے لئے صحیح تلفظ کرنا سیکھے. [47]

تلبیہ کی شروعات احرام کے ہمراہ

بعض فقہاء شیعہ کا عقیدہ ہے کہ اگر تلبیہ اور احرام پہننے اور اسکی نیت کے درمیان فاصلہ ہو جائے تو کوئی مسئلہ نہیں[48] لیکن اکثر معاصرین کا عقیدہ یہ ہے کہ تلبیہ احرام کی نیت کے ساتھ ہو اور اگر احرام کی نیت سے پہلے یا بعد میں ہو تو احرام منعقد نہیں ہوتا. [49] اور بعض کا عقیدہ ہے کہ تلبیہ احرام پہننے کے ساتھ ہو.[50]

تلبیہ کا دہرانا مستحب

فقہاء شیعہ[51] شافعی،[52] حنفی،[53] حنبلی، [54] کا عقیدہ ہے کہ جب شخص احرام باندھ لے تو اس کا تلبیہ دہرانا مستحب ہے، جیسے کہ: رات کے آخری حصے یا دن کے آغاز میں، سحری کے وقت، بلندی سے نیچے آتے وقت یا اوپر جاتے وقت، واجب اور مستحب نماز ادا کرنے کے بعد، اور اپنے ہمسفروں کے سامنے ہوتے وقت. حنبلی اور شیعہ فقہاء کا نظریہ یہ ہے کہ اگر شخص احرام کے دوران کسی ایسے کام کو انجام دے جو محرم کے لئے حرام ہے جیسے آئینہ دیکھنا تو مستحب ہے کہ اس کے بعد تلبیہ کہے. [55]

تلبیہ کا اختتام

شیعہ معتقد ہیں [56] کہ حج گزار حج کے تلبیہ کو عرفہ کے دن ظہر کے وقت ختم کرے. بعض فقہاء کا اعتقاد ہے کہ اگر حج گزار کا راستہ عراق سے مکہ ہو تو وہ عقبہ مدنیین کے مقام پر تلبیہ کا اختتام کرے اور اگر اس کا راستہ مدینہ سے مکہ ہو تو وہ عقبہ ذی طویٰ کے مقام پر تلبیہ کا اختتام کرے. [57] مشہور امامی فقہاء کی نظر میں [58] اگر مفردہ عمرے میں حرم کے باہر محرم ہوا ہو تو، مکہ کے حرم میں داخل ہوتے وقت تلبیہ کا اختتام ہو گا. لیکن اگر مکہ اور ادنی الحل کے مقام پر محرم ہوا ہو تو، کعبہ کا مشاہدہ کرتے وقت تلبیہ کا اختتام ہو گا.[59] واجب عمرہ کے طواف کے وقت، تلبیہ کہنا جائز نہیں ہے. [60]

تلبیہ کا بھول جانا

اہل شیعہ کے بعض متاخرین علماء کا نظریہ یہ ہے کہ اگرمحرم نیت کے بعد، تلبیہ کہنا بھول جائے اور میقات سے گزر جائے، تو ضروری ہے کہ میقات کی طرف واپس آئے اور تلبیہ کہے. [61] اور اگر واپس لوٹنا ممکن نہ ہو تو جتنا ممکن ہو واپس آئے. [62] اور اگر اتنا بھی ممکن نہ ہو تو وہیں پر کھڑا ہو تلبیہ کہے. [63] بعض دوسروں نے، انجانے کی حالت کو بھولنے کی حالت سے ملحق کیا ہے اور انکا نظریہ یہ ہے کہ اگر عمرہ تمتع میں، حاجی کا میقات یا ادنی الحل تک واپس جانا ممکن نہ ہو تو اس کا عمرہ باطل اور ایسے حاجیوں پر حج افراد واجب ہو گا.[64]

حوالہ جات

  1. العین، ج۸، ص۳۴۱، «لبی»؛ معجم مقاییس اللغه، ج۵، ص۱۹۹، «لب»؛ الصحاح، ج۶، ص۲۴۷۹، «لبی»
  2. معجم مقاییس اللغه، ج۵، ص۲۰۰؛ لسان العرب، ج۱، ص۷۳۲، «لبب» القاموس المحیط، ج۱، ص۱۲۷، «الب»
  3. القاموس المحیط، ج۱، ص۱۲۷، «الب»
  4. مستطرفات السرائر، ص۵۹۰؛ العده، ج۱، ص۱۶۱؛ غایة المراد، ص۳۹۲
  5. اخبار مکه، ج۱، ص۳۹
  6. الدر المنثَور، ج۱، ص۴۶؛ بحار الانوار، ج۵۶، ص۱۹۸؛ فتح القدیر، ج۱، ص۶۴
  7. تفسیر مقاتل، ج۳، ص۱۲۵؛ وسائل الشیعه، ج۱۱، ص۲۳۶
  8. الکافی، کلینی، ج۴، ص۲۰۶-۲۰۷؛ علل الشرائع، ج۲، ص۴۱۹؛ جامع البیان، ج۱۷، ص۱۸۹-۱۹۱
  9. تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص۲۴۰؛ کنز العمال، ج۱۲، ص۲۲۹
  10. صحیح مسلم، ج۱، ص۱۰۶؛ الکافی، کلینی، ج۴، ص۲۱۳؛ السیرة الحلبیه، ج۲، ص۴۳۳
  11. المحبر، ص۳۱۱؛ السیرة الحلبیه، ج۳، ص۲۳۲؛ الکافی، کلینی، ج۴، ص۵۴۲؛ تفسیر مقاتل، ج۳، ص۱۲۴-۱۲۵؛ جامع البیان، ج۹، ص۳۱۰
  12. المحبر، ص۳۱۱-۳۱۵
  13. من لایحضره الفقیه، ج۲، ص۳۲۶-۳۲۷؛ وسائل الشیعه، ج۱۲، ص۳۷۹؛ الکافی، کلینی، ج۴، ص۲۵۰، ۳۳۵؛ صحیح البخاری، ج۲، ص۱۴۷؛ صحیح مسلم، ج۴، ص۷
  14. الکافی، کلینی، ج۴، ص۲۵۰؛ من لایحضره الفقیه، ج۲، ص۳۲۵
  15. الکافی، کلینی، ج۴، ص۲۵۰؛ من لایحضره الفقیه، ج۲، ص۳۲۵
  16. الکافی، کلینی، ج۴، ص۲۴۵؛ التهذیب، ج۵، ص۹۲
  17. علل الشرائع، ج۲، ص۴۱۶؛ من لایحضره الفقیه، ج۲، ص۱۹۶
  18. قرب الاسناد، ص۲۳۹؛ علل الشرائع، ج۲، ص۴۱۶
  19. من لایحضره الفقیه، ج۲، ص۲۲۲؛ التهذیب، ج۵، ص۳۱۳؛ کنز العمال، ج۵، ص۳۲
  20. مستدرک الوسائل، ج۱۰، ص۱۶۷
  21. الامالی، ص۲۳۴؛ علل الشرائع، ج۱، ص۲۳۵
  22. علامت نهادن بر شتر قربانی
  23. تذکرة الفقهاء، ج۷، ص۲۴۸؛ العروة الوثقی، ج۴، ص۶۶۶؛ معتمد العروه، ج۲، ص۵۲۸
  24. المجموع، ج۷، ص۲۲۴-۲۴۶؛ اعانة الطالبین، ج۲، ص۳۲۴، ۳۵۰
  25. المغنی، ج۳، ص۲۵۴؛ کشاف القناع، ج۲، ص۴۸۶؛ الشرح الکبیر، ابن قدامه، ج۳، ص۲۵۴، ۲۵۶
  26. مواهب الجلیل، ج۴، ص۱۴۸؛ حاشیة الدسوقی، ج۲، ص۲۱، ۳۹-۴۰؛ الثمر الدانی، ص۳۶۳
  27. تحفة الفقهاء، ج۱، ص۳۹۸-۴۰۰؛ بدائع الصنائع، ج۲، ص۱۶۱
  28. مسالک الافهام، ج۲، ص۲۲۶؛ کشف اللثام، ج۵، ص۲۰؛ جواهر الکلام، ج۱۸، ص۳-۴
  29. تحفة الفقهاء، ج۱، ص۳۸۱؛ مواهب الجلیل، ج۴، ص۱۱؛ مغنی المحتاج، ج۱، ص۵۱۳
  30. نک:مختلف الشیعه، ج۴، ص۵۹
  31. مختصر النافع، ص۸۲؛ مستند الشیعه، ج۱۱، ص۳۱۲؛ جواهرالکلام، ج۱۸، ص۲۲۸
  32. مدارک الاحکام، ج۷، ص۲۶۸
  33. رسائل المرتضی، ج۳، ص۶۷؛ المبسوط،طوسی، ج۱، ص۳۱۶
  34. الکافی، حلبی، ص۱۹۳؛ الدروس، ج۱، ص۳۴۷؛ مناسک حج، ص۶۶
  35. رسائل الکرکی، ج۲، ص۱۵۳؛ دلیل الناسک، ص۱۳۸؛ المعتمد، ج۵، ص۴۷۳
  36. السرائر، ج۱، ص۵۳۶؛ مستند الشیعه، ج۱۱، ص۳۱۹؛ جواهر الکلام، ج۱۸، ص۲۷۲
  37. المقنع، ص۲۲۶؛ تحریر الاحکام، ج۱، ص۵۷۱؛ الدروس، ج۱، ص۳۴۸
  38. صحیح البخاری، ج۲، ص۱۴۷؛ سنن ابن ماجه، ج۲، ص۹۷۴؛ سنن ابی داود، ج۱، ص۴۰۷
  39. الموطأ، ج۱، ص۳۳۱؛ المجموع، ج۷، ص۲۴۱؛ الشرح الکبیر، ابوالبرکات، ج۲، ص۴۲؛ المغنی، ج۳، ص۲۵۵
  40. کشاف القناع، ج۲، ص۴۸۸
  41. معتمد العروه، ج۲، ص۵۲۳
  42. قرب الاسناد، ص۴۹؛ الکافی، کلینی، ج۴، ص۵۰۴
  43. الجامع للشرائع، ص۱۸۰
  44. مدارک الاحکام، ج۷، ص۲۶۶
  45. مستمسک العروه، ج۱۱، ص۳۹۲؛ معتمد العروه، ج۲، ص۵۲۵-۵۲۶
  46. کشف اللثام، ج۵، ص۲۷۰؛ مستند الشیعه، ج۱۱، ص۳۱۵
  47. معتمد العروه، ج۲، ص۵۲۵-۵۲۶
  48. مستند الشیعه، ج۱۱، ص۲۵۹؛ الحدائق، ج۱۵، ص۴۱؛ العروة الوثقی، ج۴، ص۶۶۷
  49. الدروس، ج۱، ص۳۴۷؛ مدارک الاحکام، ج۷، ص۲۶۳
  50. الدروس، ج۱، ص۳۴۷؛ ذخیرة المعاد، ج۱، ص۵۷۸؛ الحدائق، ج۱۵، ص۴۰
  51. تذکرة الفقهاء، ج۷، ص۲۵۳؛ مجمع الفائده، ج۶، ص۲۳۵؛ جواهر الکلام، ج۱۸، ص۲۷۳
  52. الام، ج۲، ص۱۷۰؛ فتح العزیز، ج۷، ص۲۵۹-۲۶۱؛ المجموع، ج۷، ص۲۴۰
  53. المبسوط، سرخسی، ج۴، ص۸؛ تحفة الفقهاء، ج۱، ص۴۰۱
  54. المغنی، ج۳، ص۲۵۸-۲۵۹؛ کشاف القناع، ج۲، ص۴۸۸-۴۸۹
  55. الشرح الکبیر، ابن قدامه، ج۳، ص۲۶۰؛ مناسک الحج، فاضل، ص۸۶؛ تحریر الوسیله، ج۱، ص۴۲۲
  56. السرائر، ج۱، ص۵۲۰؛ الحدائق، ج۱۵، ص۹۶؛ جواهر الکلام، ج۱۸، ص۲۷۴
  57. المقنع، ص۲۵۴؛ المقنعه، ص۳۹۸-۳۹۹
  58. مصباح الهدی، ج۱۲، ص۵۰۱-۵۰۲
  59. النهایه، ص۲۱۶؛ تحریر الاحکام، ج۱، ص۵۷۱؛ مجمع الفائده، ج۶، ص۲۳۸
  60. الخلاف، ج۲، ص۲۹۳؛ المؤتلف، ج۱، ص۳۷۱؛ تذکرة الفقهاء، ج۷، ص۲۵۷
  61. العروة الوثقی، ج۴، ص۶۶۸؛ مستمسک العروه، ج۱۱، ص۴۰۷؛ معتمد العروه، ج۲، ص۵۳۹-۵۴۰
  62. کلمة التقوی، ج۳، ص۲۸۸؛ مناسک الحج، الگلپایگانی، ص۸۰
  63. العروة الوثقی، ج۴، ص۶۶۸
  64. مناسک حج، فاضل، ص۱۲۸