متعۃ الحج

ویکی شیعہ سے

مُتعَۃ الحج یا متعہ حج، عمرہ تمتع اور حج تمتع کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے جس میں احرام کی وجہ سے حرام ہونے والے بعض امور جائز ہو جاتے ہیں۔ متعۃ الحج اس وقت متحقق ہوتا ہے جب میقات سے محرم ہو کر عمرہ بجا لاتا ہے اور عمرہ کے اختتام پر تقصیر کے ذریعے احرام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس مدت کے دوران حج تمتع کے لئے دوبارہ احرام باندھنے تک متعلقہ شخص مکہ میں موجود عام لوگوں کی طرح ہوتا ہے۔ «متعہ» لذت‌ اٹھانے کو کہا جاتا ہے اور عمره تمتع اور حج تمتع کے احراموں کے درمیانی مدت میں بعض لذتوں کے جائز ہونے کی بنا پر اس مدت کو متعۃ الحج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

قرآنی آیات اور فریقین احادیث متعۃ الحج کے حلال ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ لیکن عمر بن خطاب نے سنت پیغمبر اکرمؐ میں سے ہونے پر اقرار کے باوجود اسے حرام قرار دیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے کی وجہ یہ بتائی کہ وہ خانہ خدا کے زائرین کے لئے یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ عمرہ کے بعد اپنی شریک حیات سے مباشرت کریں پھر غسل کرتے ہوئے حج پر جائیں۔

عمر بن خطاب کی طرف سے قرآن و سنت پیغمبر کی مخالفت کرتے ہوئے متعۃ الحج کو حرام قرار دینا ان کی ملامت کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ شیعہ اور اہل‌ سنت منابع میں مختلف احادیث عمر ابن خطاب کے اس کام کے برخلاف نقل ہوئی ہیں۔ بہت سارے صحابہ منجملہ امام علیؑ نے عمر کے اس کام کی مخالفت کی۔ اہل‌ سنت، عمر کے اس کام کو مکروہ کے معنی پر حمل کرتے ہیں نہ حرام پر۔

تعریف

متعہ لغت میں لذت اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔[1] موسم حج میں حج تمتّع کی نیت سے میقات سے احرام باندھ کر عمرہ تمتع کی انجام دہی کے بعد تقصیر کے ذریعے احرام سے خارج ہونے[2] اور حج تمتع کے لئے شہر مکہ سے دوبارہ محرم ہونے تک[3] کے درمیانی فاصلے کو مُتعۃ الحج کہا جاتا ہے۔[4] اس مدت میں متعلقہ شخص پر احرام کی وجہ سے حرام ہونے والے امور جائز ہو جاتے ہیں۔[5] دو احرام کے اس درمیانی فاصلے کو بعض لذتوں کے جائز ہونے کی بنا پر متعۃ الحج کہلاتا ہے۔[6]

حکم شرعی اور اس کی دلیل

آیت «فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ ...؛  (ترجمہ: پھرجو شخص (حج تمتع کا) عمرہ کرکے حج کے موقع تک لذائذ سے فائدہ اٹھائے۔»)[7] کو متعہ حج کی دلیل قرار دی جاتی ہے۔[8] بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اس آیت کے متعہ حج کے بارے میں نازل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔[9] پیغمبر اسلامؐ کی سنت بھی اس کے حلال ہونے پر دلالت کرتی ہے۔[10] اسی طرح شیعہ متواتر[11] اور صحیح [12] احادیث بھی متعہ حج پر دلالت کرتی ہیں اور شیعہ اس بات پر اتفاق‌ رکھتے ہیں کہ یہ حکم نسخ نہیں ہوا ہے۔[13]

امام باقرؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق متعہ حج میں تقیہ کرنا بھی جائزنہیں ہے۔[14]

عمر کی جانب سے اس کی ممانعت

پہلا شخص جس نے متعہ حج کو ممنوع قرار دیا وہ عمر بن خطاب ہے۔[15] عمر، خود پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں بھی اس مسئلے میں پیغمبر اکرمؐ کی مخالفت کرتا تھا۔[16] اہل‌ سنت کی صحاح ستہ میں سے صحیح مسلم میں آیا ہے کہ خلیفہ دوم خود یہ اقرار کرتا تھا کہ پیغمبر اکرمؐ اور صحابہ ایسا کرتے تھے، لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ لوگ خانہ کعبہ کی زیارت کے بعد اپنی ازواج سے سے ہمبستر ہوں اور اس حالت میں کہ غسل کا پانی ان کے بالوں سے ٹپک رہا ہو وہ حج کے اعمال انجام دینا شروع کریں۔[17]

اسی طرح خلیفہ دوم سے اس سلسلے میں ایک اور بات بھی نقل ہوئی ہے جس کے مطابق دو متعے پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں جائز تھے لیکن عمر نے ان سے منع کیا اور ان کے مرتکب ہونے والوں کو سزا دینے کا اعلان کیا ان میں سے ایک متعۃ الحج اور دوسرا نکاح متعہ ہے۔[18]اہل‌ سنت اور شیعہ منابع میں اس سلسلے میں خلیفہ دوم سے مختلف باتیں نقل ہوئی ہیں جن میں انہوں نے بالواسطہ یا بلا واسطہ متعہ حج سے منع کیا ہے۔[19]

اہل‌ سنت کی صحاح ستہ میں سے صحیح بخاری میں نقل ہوا ہے کہ متعۃ الحج قرآن میں آیا ہے، پیغمبر اکرمؐ نے اس پر عمل کیا ہے اور یہ حکم منسوخ بھی نہیں ہوا ہے لیکن ایک شخص نے اپنی ذاتی رائے کے مطابق کچھ کہا ہے۔[20] یہ روایت دوسرے منابع میں بھی آئی ہے۔[21] مفسرین اس مرد سے جس کا نام اس حدیث میں نہیں لیا گیا ہے، عمر بن خطاب مراد لیتے ہیں۔[22]

عمر کے علاوہ عثمان نے بھی متعہ حج سے منع کیا اس پر امام علیؑ نے اپنی مخالفت کا اظهار کیا تو عثمان کے ساتھ آپ کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔[23] بعض دوسرے صحابہ نے بھی اس سلسلے‌ میں اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے جس سے ان کے درمیان مشاجرے بھی ہوئے ہیں۔[24]

اس ممنوعیت میں عمر کے مخالفین

عمر بن خطاب کی طرف سے متع حج کی ممنوعیت کو ان کے مطاعن اورمعایب میں شمار کیا گیا ہے۔[25] اسی طرح خلیفہ دوم کے اس اقدام کو شیعہ [26] اور اہل‌ سنت احادیث نیز پیغمبر اکرمؐ کی سیرت[27] کے مخالف بھی قرار دیا گیا ہے۔

بعض صحابہ[28] منجملہ امام علیؑ[29] نے عمر کے اس اقدام کی مخالفت کی ہیں۔ عمر خود بھی یہ اعتراف کرتا تھا کہ متعہ حج پیغمبر اکرمؐ کی سنت تھی لیکن وہ خود اسے پسند نہیں کرتا تھا۔[30] خلیفہ دوم کا بیٹا عبداللہ بن عمر بھی متعہ کو جائز سمجھتا تھا اور جب ان پر اعتراض کیا جاتا کہ تمہارے والد نے اسے منع کیا ہے تو وہ کہتا تھا اگر میرے والد کسی کام سے منع کرے اور پیغمبر اکرمؐ اس کی اجازت دے تو تم کس کی پیروی کرتے ہو؟[31]

خلیفہ دوم کا یہ نظریہ قرآن و سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مورد مذمت اور نص کے مقابلے میں اجتہاد کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔[32]

فخر رازی خلیفہ دوم کی اس ممنوعیت کو حرام کی بجائے کراہت پر حمل کرتے ہیں۔[33] بعض اہل‌ سنت علماء نے بھی اس ممنوعیت کو کراہت پر حمل کرتے ہوئے لوگوں کو حج اِفراد کی طرف ترغیب دینے کی کوشش کی ہیں البتہ عمر کے بعد حج افراد، قِران اور تمتع کے یکساں ہونے پر اجماع قائم ہوا ہے۔[34] پانچویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین سیدِ مرتضی نقل کرتے ہیں کہ اہل‌ سنت فقہاء عمر کی طرف سے متعہ حج کی ممنوعیت کو کراہت پر حمل کرتے ہیں۔[35]

حوالہ جات

  1. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1419ھ، ص468۔
  2. معرفت، «شبہۃ ورد: الزواج الموقت (متعۃ النساء و متعۃ الحج)»، ص132۔
  3. فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج4، ص96۔
  4. «متعہ حج چیست؟» سایت آیت‌اللہ سید علی حسینی میلانی۔
  5. معرفت، «شبہۃ ورد: الزواج الموقت (متعۃ النساء و متعۃ الحج)»، ص132۔
  6. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1419ھ، ص468۔
  7. سورہ بقرہ، آیہ 196۔
  8. میلانی، شرح منہاج الکرامۃ، 1386ہجری شمسی، ج‏1، ص35۔
  9. شرف‌الدین، الفصول المہمۃ فی تألیف الأمۃ، 1423ھ، ص101۔
  10. شیخ حر عاملی، ہدایۃ الأمۃ، 1412ھ، ج5، ص56۔
  11. کاظمی، مسالک الأفہام، 1365ہجری شمسی، ج3، ص202۔
  12. سبحانی، سلسلۃ المسائل الفقہیۃ، قم، ج10، ص29۔
  13. کاظمی، مسالک الأفہام إلی آیات الأحکام، 1365ہجری شمسی، ج3، ص202۔
  14. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص415۔
  15. کاظمی، مسالک الأفہام، 1365ہجری شمسی، ج3، ص202۔
  16. شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص174۔
  17. مسلم، صحیح مسلم، بیروت، ج2، ص896۔
  18. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ہجری شمسی، ج2، ص392۔
  19. نگاہ کنید بہ: امینی، الغدیر، 1416ھ، ج6، ص278-289۔
  20. بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج6، ص37۔
  21. مسلم، صحیح مسلم، بیروت، ج2، ص899۔
  22. نووی، المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، 1392ھ، ج8، ص205۔
  23. مسلم، صحیح مسلم، ج2، ص896۔
  24. ابن‌کثیر‏، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج5، ص127۔
  25. علامہ حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص378۔
  26. سبحانی، سلسلۃ المسائل الفقہیۃ، قم، ج10، ص29۔
  27. مسلم، صحیح مسلم، بیروت، ج2، ص914۔
  28. سبحانی، الإنصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، 1381ہجری شمسی، ج1، ص455۔
  29. مسلم، صحیح مسلم، بیروت، ج2، ص896۔
  30. مسلم، صحیح مسلم، بیروت، ج2، ص896۔
  31. ابن‌قیم جوزیہ، زاد المعاد فی ہدی خیر العباد، 1994م، ج2، ص131۔
  32. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1417ھ، ج2، ص92 - 93۔
  33. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج5، ص307۔
  34. نووی، المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، 1392ھ، ج8، ص169۔
  35. سید مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص240۔

مآخذ

  • ابن‌قیم الجوزیہ، محمد بن ابی‌بکر، زاد المعاد فی ہدی خیر العباد، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1994ء۔
  • ابن‌کثیر‏، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الأدب‏، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ‏، چاپ اول، 1416ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری (الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اللہ(ص) و سننہ و أیامہ)، محقق: محمد زہیر بن ناصر، بیروت، دار طوق النجاۃ، 1422ھ۔
  • خارج فقہ مقارن، 1388ہجری شمسی، ج1، ص48۔، سایت کتابخانہ مدرسہ فقاہت، تاریخ درج مطلب: 30 دی 1388ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 11مرداد 1400ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، الإنصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، قم، مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، 1381ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، سلسلۃ المسائل الفقہیۃ، قم، بی‌نا، بی‌تا۔
  • سعدی، ابوجیب، القاموس الفقہی لغۃ و اصطلاحا، دمشق، دارالفکر، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار فی انفرادات الإمامیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1415ھ۔
  • شرف الدین، عبدالحسین، الفصول المہمۃ فی تألیف الأمۃ، تہران، المجمع العالمی للتقریب‏، 1423ھ۔
  • شیخ حرّ عاملی، ہدایۃ الامۃ إلی أحکام الأئمۃ (منتخب المسائل)، مجمع البحوث الإسلامیۃ، مشہد، چاپ اول، 1412ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ، شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق: احمد قصیر عاملی، داراحیاء التراث العربی، بیروت، بی‌تا۔
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، 1417ھ۔
  • علامہ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تصحیح و تعلیقہ: حسن حسن زادہ آملی، قم، ‏نشر اسلامی، چاپ چہارم، 1413ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بیروت، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فضل‌اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، دار الملاک، بیروت، چاپ دوم، 1419ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ اول، 1364ہجری شمسی۔
  • کاظمی، جواد بن سعید، مسالک الأفہام الی آیات الأحکام، تہران، کتابفروشی مرتضوی، چاپ دوم، 1365ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: علی‌اکبر غفاری، محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • «متعہ حج چیست؟» سایت آیت اللہ سید علی حسینی میلانی، تاریخ بازدید: 11مرداد 1400ہجری شمسی۔
  • مسلم بن حجاج، صحیح مسلم (المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل إلی رسول اللہ(ص))، محقق: محمد فؤاد عبدالباقی، دارالاحیاء التراث العربی، بیروت، بی‌تا۔
  • مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، بی‌جا، بی‌نا، 1419ھ۔
  • معرفت، محمد ہادی، «شبہۃ ورد: الزواج الموقت (متعۃ النساء و متعۃ الحج)»، رسالۃ الثقلین، شمارہ13، ذی‌الحجہ 1415ھ۔
  • میلانی، سید علی، شرح منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الإمامۃ، قم، مرکز الحقائق الإسلامیۃ، 1386ہجری شمسی۔
  • نووی، یحیی بن شرف، المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1392ھ۔