حج کے مہینے

غیر جامع
ویکی شیعہ سے

حج کے مہینوں سے مراد شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے مہینے ہیں جن میں حج انجام دیا جاتا ہے۔ حج تمتع، عمرہ تمتع، حج قِران اور حج اِفْراد صرف انہیں مہینوں میں بجا لایا جاسکتا ہے؛ البتہ عمرہ مفردہ کو حج کے مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں انجام دینا بھی صحیح ہے۔

"حج کے مہینوں" کا مفہوم

حج کے مہینے وہ مہینے ہیں جن میں حج انجام دیا جاتا ہے۔[1] یہ مہینے مندرجہ ذیل ہیں: شوال، ذی‌القعدہ اور ذی‌الحجہ۔[2] کیونکہ عمرہ تمتع اور حج صرف انہیں مہینوں میں انجام دیا جا سکتا ہے اس لئے انہیں حج کے مہینے کہا جاتا ہے۔[3]

ماہ ذی الحجہ کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے مکمل ماہ ذی الحجہ کو حج کے مہینوں میں شمار کیا ہے۔[4] کچھ نے اس کے پہلے عشرے کو،[5] بعض نے شروع کے نو دنوں کو اور کچھ دیگر نے عید الضحی کے طلوع فجر تک کو حج کے مہینوں میں شمار کیا ہے۔[6]

اہمیت

قرآن میں حج کے مہینوں کے نام نہیں آئے ہیں۔ صرف آیت «الْحَجُّ أَشْہرٌ مَّعْلُومَاتٌ[؟؟]؛ حجّ، معینہ مہینوں میں ہے»،[7] میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ قرآن کے تصریح نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ مہینے سب کے لئے واضح تھے؛[8] کیونکہ اسلام سے پہلے (حضرت ابراہیم کے زمانے میں) بھی حج انہیں مہینوں میں انجام پاتا تھا۔[9] مفسرین نے آیت «أَشْہرٌ مَّعْلُومَاتٌ»[؟؟] کی تفسیر میں حج کے مہینوں کے نام لئے ہیں۔[10] اور روایات میں بھی ان مہینوں کے نام اور ان کے احکام ذکر ہوئے ہیں۔[11] مثلا امام باقر علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ شوال، ذی‌القعدہ اور ذی‌الحجہ، حج کے مہینے ہیں اور حج انہیں کے اندر انجام پانا چاہئے۔[12]

فقہی احکام

حج اور عمرہ تمتع کو ان مہینوں میں انجام دینا اور عمرہ مفردہ کو تمتع میں تبدیل کرنا حج کے مہینوں کے خاص احکام ہیں۔

حج و عمرہ

صاحب جواہر کے بقول، شیعہ فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ عمرہ تمتع و حج تمتع کو حج کے مہینوں میں انجام دینا چاہئے اور اس کے علاوہ کسی مہینہ میں بھی ان کا انجام دینا صحیح نہیں ہے؛[13] البتہ اگر کوئی عمرہ تمتع کو شوال یا ذی‌القعدہ میں اور حج تمتع کو ذی‌الحجہ میں انجام دے تو صحیح ہے۔[14] لیکن فقہاء کے بقول، حج اور عمرہ تمتع کا احرام، ۱۰ ذی‌الحجہ کے بعد صحیح نہیں ہے؛ حتی ان لوگوں کی نظر میں بھی جو مکمل ماہ ذی الحجہ کو حج کے مہینوں میں شمار کرتے ہیں۔[15] حج تمتع، ذی الحجہ کے صرف خاص دنوں (8 تا 13) میں ہی انجام دیا جاتا ہے۔ اسی طرح حج اِفْراد اور حج قِران کو حج کے مہینوں میں بجا لانا چاہئے۔[16] لیکن عمرہ مفردہ پورے سال میں کسی بھی وقت بجا لایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ماہ رجب میں اس کے زیادہ فضیلت ہے۔[17]

عمرہ مفردہ کو عمرہ تمتع میں بدلنا

جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ مفردہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا ہو وہ عمرہ تمتع کی نیت کرکے حج تمتع انجام دے سکتا ہے؛[18] اور اگر اول ذی‌حجہ تک مکہ میں رہے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ اپنے عمرہ مفردہ کو تمتع سے بدل دے۔ اور اگر یوم ترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) تک مکہ میں رہے تومستحب مؤکد ہے۔[19] کچھ فقہاء نے اس مسئلہ کو حج استحبابی میں محدود کیا ہے اور اس کو حج واجب اور حج نیابتی میں قبول نہیں کیا ہے۔[20]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. مشکینی، مصطلحات الفقہ، ص۳۲۲۔
  2. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۴، ص۲۸۹ و ۳۰۳؛ نجفی، جواہرالكلام، ۱۴۰۴ھ، ج۱۲، ص۱۲؛ ابن‌عربی، احکام القرآن، ۱۴۲۴ھ، ج۱،‌ ص۱۸۶۔
  3. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۵۲۳؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۵۳۔
  4. شہید ثانی، مسالك الأفہام، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۹۴ و ۱۹۵؛ طباطبایی یزدی، عروۃ الوثقی(محشی)، ۱۴۱۹ھ، ج۴، ص۶۱۲۔
  5. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۴، ص ۲۹۰؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۵۲۳۔
  6. دیکھئے: نجفی، جواہرالكلام، ۱۴۰۴ھ، ج۱۸، ص۱۲ و ۱۳؛ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ۱۴۰۵ھ، ج۱۴، ص۳۵۴؛ ابن‌عربی، احکام القرآن، ۱۴۲۴ھ، ج۱،‌ ص۱۸۶۔
  7. سورہ بقرہ، آیہ۱۹۷۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۵۳، قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۳۸۴ھ، ج۲، ص۴۰۵۔
  9. ابن‌‌عربی، احکام القرآن،‌ ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۱۸۶ و ۱۸۷۔
  10. نمونے کے طور پر دیکھئے: طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۵۲۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۲،‌ ص۷۸؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۳۸۴ھ، ج۲، ص۴۰۵۔
  11. کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ھ، ج۴، ص۲۸۹ و ۲۹۰۔
  12. کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ھ، ج۴، ص۲۸۹۔
  13. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۱۸، ص۱۲۔
  14. محمودی،‌ مناسک حج(محشی)، ۱۴۲۹ھ، ص۱۴۷۔
  15. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۱۸، ص۱۳۔
  16. علامہ حلی،‌ قواعد الاحکام،‌ ۱۴۱۳ھ، ج ۱،‌ ص۴۰۰؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۱۸، ص۴۹ و ۵۰۔
  17. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ھ، ج۱، ص۲۷۶۔
  18. نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۲۰، ص۴۵۹ و ۴۶۰؛ طباطبایی یزدی، عروۃ الوثقی‌(محشی)، ۱۴۱۹ھ، ج۴، ص۶۱۰ و ۶۱۱۔
  19. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۲۰،‌ ص۴۶۰؛ طباطبایی یزدی، عروۃ الوثقی(محشی)، ۱۴۱۹ھ، ج۴، ص۶۱۰ و ۶۱۱؛ محمودی،‌ مناسک حج(محشی)،‌ ۱۴۲۹ھ، ص ۱۰۵۔
  20. محمودی،‌ مناسک حج(محشی)،‌ ۱۴۲۹ھ، ص۱۰۵ و ۱۸۰۔

مآخذ

  • ابن‌عربی، محمد بن عبداللہ،‌ احکام القرآن، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۲۳ق-۲۰۰۳ء۔
  • بحرانى، آل عصفور، یوسف بن احمد بن ابراہیم، الحدائق الناضرۃ فی أحكام العترۃ الطاہرۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۴۰۵ھ۔
  • شہید ثانى، زین الدین بن على، مسالك الأفہام إلى تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی‏، چاپ دوم، ۱۳۹۰ھ۔
  • طباطبایى یزدى، سید محمدكاظم، العروۃ الوثقى (المحشّى)، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح فضل اللہ یزدی طباطبایی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
  • علامہ حلى، حسن بن یوسف، قواعد الأحكام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامى، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
  • قرطبی، شمس الدین،‌ محمد بن احمد، الجامع لأحكام القرآن(تفسیر القرطبی)،‌ تحقیق احمد البردونی و ابراہیم أطفیش،‌ قاہرہ،‌ دارالکتب المصریۃ، ۱۳۸۴ق-۱۹۶۴ء۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق على‌اكبر غفاری و محمد آخوندى، تہران، دارالكتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • محقق حلى، جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ۔
  • محمودی، محمدرضا، مناسک حج (محشی)، تہران، نشر مشعر، ویرایش جدید، ۱۴۲۹ھ۔
  • مشكینى، میرزا على، مصطلحات الفقہ، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالكتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ش۔
  • نجفى، محمدحسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ھ۔