مندرجات کا رخ کریں

حضرت علیؑ کی 25 سالہ گوشہ نشینی

ویکی شیعہ سے
(علیؑ کی 25 سالہ سکوت سے رجوع مکرر)
حیات علویہ تاریخ کے آئینے میں
599ء ولادت
610ء سب سے پہلے رسول اللہؐ پر ایمان لائے
619ء حضرت ابو طالبؑ (والد) کی وفات
622ء لیلۃ المبیت: رسول اللہؐ کے بستر پر سونا
622ء ہجرت مدینہ
2ھ624ء جنگ بدر میں شرکت
3ھ-625ء جنگ احد میں شرکت
4ھ-626ء (والدہ) فاطمہ بنت اسد کی وفات
5ھ-627ء غزوہ احزاب میں شرکت اور عمرو بن عبدود کو قتل کرنا
6ھ-628ء رسول خداؐ کے حکم پر صلح حدیبیہ کے متن کی تحریر
7ھ-629ء غزوہ خیبر؛ قلعہ خیبر کے فاتح
8ھ-630ء فتح مکہ میں شرکت اور حضورؐ کے حکم پر بتوں کو توڑنا
9ھ-632ء غزوہ تبوک میں رسول اللہؐ کی مدینہ میں جانشینی
10ھ-632ء حجۃ الوداع میں شرکت
10ھ-632ء واقعہ غدیر خم
11ھ-632ء رسول خداؐ کی وفات اور آپ کی تغسیل و تکفین
11ھ-632ء سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ اور ابوبکر کی خلافت کا آغاز
11ھ-632ء (زوجہ) حضرت زہراؑ کی شہادت
13ھ-634ء عمر بن خطاب کی خلافت کا آغاز
23ھ-644ء خلیفہ کے تعین کے لئے عمر کی چھ رکنی شوری میں شرکت
23ھ-644ء عثمان کی خلافت کا آغاز
35ھ-655ء لوگوں کی بیعت اور حکومت کا آغاز
36ھ-656ء جنگ جمل
37ھ-657ء جنگ صفین
38ھ-658ء جنگ نہروان
40ھ-661ء شہادت

حضرت علیؑ کی 25 سالہ گوشہ نشینی سے مرادحضرت علیؑ کے سکوت کا وہ دور ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی رحلت (11 ہجری) سے لے کر سنہ 35 ہجری میں آپ کی جانب سے خلافت کے قبول کیے جانے تک جاری رہا۔ اس دور میں امام علیؑ نے اپنے حق (پیغمبرؐ کی جانشینی) سے دستبردار ہو کر دینی مفادات اور اسلامی اتحاد کے تحفظ کے لیے تینوں خلفاء کے ساتھ تعاون کیا۔

پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں ابوبکر کو خلیفہ مقرر کیا گیا جبکہ علی بن ابی طالبؑ اور بعض دیگر صحابہ نے اس سلسلے میں مخالفت کی؛ لیکن مددگار کے فقدان، اہل بیتؑ اور دیگر مسلمانوں کی جانوں کو خطرے سے نکالنے اور اسلامی معاشرے کو زوال کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے حضرت علیؑ نے 25 سال تک خاموشی اختیار کی۔

تاہم، مورخین اور علمائے حدیث کے مطابق، امام علیؑ نے مسلم معاشرے کی بنیادی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے کے امور میں ایک فعال حکمت عملی اپنا رکھی تھی۔ اسی دوران امام علیؑ نے جمع قرآن پر کام کیا، مسلمانوں کی فتوحات کے بارے میں مشورہ دینے، تینوں خلفاء کو سیاسی اور دیگر مسائل کے بارے میں مشورہ دینے اور غریب و نادار لوگوں کو سامان زندگی کی فراہمی وغیرہ میں اپنا فعال کردار ادا کیا۔

اہمیت اور پس منظر

حضرت علیؑ کی 25 سالہ خاموشی آنحضرتؑ کی زندگی کا وہ دورانیہ ہے جس میں آپؑ تینوں خلفاء کے دور حکومت میں پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی جیسے حق سے دستبردار رہے۔ یہ دور رحلت پیغمبر خداؐ سے شروع ہوا اور سنہ 35 ہجری میں آپؑ کی جانب سے خلافت کے قبول کیے جانے کے بعد ختم ہوا۔[1] بعض مصنفین نے امام علیؑ کی 25 سالہ خاموشی کو ائمہؑ کی تقیہ پر مبنی سیرت زندگی[2] اور تقیہ میں بھی تقیّہ مُداراتی پر عمل کی ایک مثال قرار دیا ہے۔[3] اگرچہ امام علیؑ نے اپنی 25 سالہ سکوت کے دوران خلافت کو قبول کرنے سے انکار کیا لیکن امام رضاؑ کی ایک حدیث کے مطابق آپؑ اسی وقت بھی حقیقی معنوں میں مقام امامت و خلافت پر فائز تھے۔[4]

کتاب "فرہنگ غدیر" کے مصنف جواد محدثی "25 سالہ گوشہ نشینی" کی تعبیر کو ایک درست تعبیر نہیں سمجھتے؛ کیونکہ حضرت علیؑ نے اپنی اپنے حق کے اثبات کے لیے کئی بار احتجاج کیا۔ امام علیؑ تینوں خلفاء کی کارکردگی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں درست طریقہ اختیار کرنے کی نصیحت کیا کرتے تھے۔[5] معاصر مؤرخ رسول جعفریان کے مطابق، امام علیؑ اور ان کے مخالفین کے درمیان اختلاف روز بروز واضح تر ہوتا گیا اور ان کے تعلقات میں مسائل پیدا ہونے لگے تھے؛ امام علیؑ کے گھر پر حملہ، حضرت فاطمہ زہرا(س) کا شیخین پر غیظ و غضب اور آپ(س) کی شہادت ان اختلافات کےنتائج کے چند نمونے ہیں۔[6] چونکہ امام علیؑ خلافت کے منصب کے حصول کو اپنے اہداف (اسلام اور رسول خداؐ کی زحمتوں کا تحفظ) سے متصادم سمجھتے تھے اس آپؑ خاموش رہنے پر مجبور ہوئے۔[7]

حضرت علی بن ابی طالبؑ نے خطبہ شقشقیہ میں خلافت رسول خداؐ سے متعلق مسائل کو واضح طور پر بیان کیا ہے[8] اور اپنے پیشرو خلفا کی خلافت کی شکایت کی ہے۔[9] اس خطبے میں پہلے تین خلفاء کی تاریخ کا پورا دورانیہ امام علیؑ کے نقطہ نظر سے بیان کیا گیا ہے۔[10] حضرت علیؑ کی 25 سالہ خاموشی کی وجہ اور بعد میں خلافت کو قبول کیے جانے کے محرکات اس خطبہ کے دیگر اہم موضوعات میں سے ہیں۔[11] بعض مصنفین کے مطابق خلفائے ثلاثہ کی حکومت کی خامیوں کو دیکھ کر لوگوں میں حضرت علیؑ کی قدر و قیمت کا احساس اجاگر ہوا۔ اسی وجہ سے جب عثمان کو قتل کیا گیا تو لوگوں نے امام علیؑ کو حاکم بننے پر اصرار کیا۔[12]

مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی اتحاد کے حصول کے لیے امام علیؑ کی 25 سالہ خاموشی کو اپنا اسوہ قرار دیں تاکہ وہ اسلام دشمن عناصر کے تسلط کو روک سکیں۔[13]

امام علیؑ نے کیوں سکوت اختیار کی؟

شیعہ عقیدہ کے مطابق، اگرچہ حضرت علیؑ رسول خداؐ کے پہلے اور بلافصل خلیفہ تھے،[14] لیکن آپؑ نے اپی سکوت کےدوران اسلامی معاشرے کے مفادات اور اسلامی اتحاد کے تحفظ کے لیے خلفائے ثلاثہ کے ساتھ تعاون کیا۔[15] محمد تقی مصباح یزدی کے مطابق، امام علیؑ 25 سال کے دوران لوگوں پر حکومت کرسکتے تھے اورآپؑ کی حکومت مشروع بھی تھی۔ لیکن چونکہ لوگوں نے آپؑ کی بیعت نہیں کی اورآپؑ کی حکومت لوگوں کے مابین مقبولیت کی حامل نہیں تھی، اس لیے آپؑ نے ان پر حکومت کرنے سے انکار کر دیا اور بزور بازو لوگوں پر اپنی حکومت مسلط کرنے سے گریز کیا۔[16]

اس نظریے کے برعکس، شیعہ محققین مہدی بازرگان اور مہدی حائری یزدی کا خیال ہے کہ حکومت کا حق صرف انہیں کو حاصل ہے جس کو لوگ انتخاب کریں اور یہ کہ خداوند، انبیاء اور ائمہ معصومینؑ کو از خود حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔[17] ان کے نزدیک امام علیؑ کی خاموشی کی اسی نظریے کے تحت تفسیر کی گئی ہے۔[18] اہل سنت کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ پیغمبرؐ کی جانشینی کا معاملہ لوگوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔[19] ان کا خیال ہے کہ حضرت علیؑ اپنے آپ کو پیغمبر کا معین شدہ جانشین نہیں سمجھتے تھے، اسی وجہ سے جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد امام علیؑ سے خلیفہ بننے کی خواہش ظاہر کی تو آپؑ نے خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔[20]

یار و مددگار کا فقدان

نہج البلاغہ کے 26ویں خطبہ کےمطابق امام علیؑ نے اپنی 25 سالہ خاموشی کی ایک وجہ یہ بتائی ہے کہ اس دوران آپؑ کا کوئی یار و مددگار نہیں تھا۔[21] نیز شیخ طوسی کی امالی میں امام حسنؑ سے جو روایت منقول ہے اس کی بنیاد پر پیغمبر خداؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کی وجہ، امام علیؑ کی 25 سالہ خاموشی نیز معاویہ کے ساتھ صلح بھی یارو مددگار کے فقدان کی واضح مثالیں ہیں۔[22]

اہل بیتؑ اور دیگر مسلمانوں کی جان کا خوف

نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 26[23] اور217[24] میں امام علیؑ کی گوشہ نشینی کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اگر علیؑ اپنے حق کے مطالبے کے لیے قیام کرتے تو خاندان علیؑ بن ابی طالب کی جانوں کو خطرہ لاحق تھا۔[25] نہج البلاغہ کے سنی شارح ابن ابی الحدید نے امام علیؑ سے جو روایت کی نقل ہے اس کے مطابق قیام کی صورت میں حضرت علیؑ کو باقی مسلمانوں کی جانیں بھی خطرے میں پڑنے کا احساس ہوا تھا۔[26]

مناسب حالات کا فقدان


أَفْلَحَ مَنْ نَهَضَ بِجَنَاحٍ أَوِ اسْتَسْلَمَ فَأَرَاحَ هَذَا مَاءٌ آجِنٌ‏ وَ لُقْمَةٌ يَغَصُّ بِهَا آكِلُهَا وَ مُجْتَنِي الثَّمَرَةِ لِغَيْرِ وَقْتِ إِينَاعِهَا كَالزَّارِعِ بِغَيْرِ أَرْضِهِ.‏ (ترجمہ: کامیابی اسی کا حصہ ہے جو اٹھے تو بال و پر کے ساتھ اٹھے ورنہ کرسی کو دوسروں کے حوالے کر کے اپنے کوآزاد کرلے۔ یہ پانی بڑا گندہ ہے اور اس لقمہ میں اچھو لگ جانے کاخطرہ ہے اور یاد رکھو کہ نا وقت پھل چننے والا ایسا ہی ہے جیسے نا مناسب زمین میں زراعت کرنے والا۔)

نہج‌ البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 5، ص52۔

کتاب مِصباحُ‌ السالِکین کے مصنف ابن‌ میثم بَحرانی نے نہج البلاغہ کے خطبہ 5 سے استناد کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا ہے کہ علیؑ ابن ابی طالب کو سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ کے بعد اپنی خلافت حاصل کرنے کے لیے موزوں حالات نظر نہیں آئے اسی وجہ سے آپؑ نے اس کے مطالبے کو نامناسب وقت پر پھل چننا قرار دے دیا۔[27] شارح نہج البلاغہ محمد تقی جعفری کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ لوگوں کی سادہ لوحی اور سقیفہ کے واقعہ پر علیؑ کی رضامندی کی افواہ نے لوگوں کو امام علیؑ کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہونے سے روک دیا۔[28]

اسلامی معاشرے کے زوال کو روکنا

شیخ مفید نے اپنی کتاب الفُصولُ المُختارہ میں امام علیؑ کی جانب سے اپنے حق کے مطالبے کے سلسلے میں سکوت کی وجہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ کا روک تھام قرار دیا ہے۔[29] اس روایت کے مطابق جسے شیخ مفید نے امالی شیخ صدوق سے نقل کی ہے، علیؑ نے اپنی خلافت سے صرف نظر کرنے کی وجہ اسلامی اتحاد کو برقرار رکھنا اور لوگوں کی کفر کی طرف واپسی کا خطرہ تھا؛[30] چنانچہ نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 62 میں بھی اس مطلب کی طرف اشارہ ملتا ہے۔[31] نیز جب حضرت فاطمہ (س) نے حضرت علیؑ کو خلافت حاصل کرنے کی طرف ترغیب دی تو علیؑ نے اذان کی آواز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اسلام کے تحفظ کی خاطر اپنے حق کے مطالبے کے سلسلے میں خاموش بیٹھ جاتا ہوں۔[32]

رومیوں کے حملے کا خطرہ

شعبہ تاریخ کے شیعہ محقق مہدی پشوائی مسلمانوں پر رومیوں کے ممکنہ حملے کے خطرے کو علیؑ کی 25 سالہ خاموشی کی ایک اور وجہ سمجھتے ہیں۔[33] اہل روم مسلمانوں کو اپنے لیے سنگین خطرہ سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور مسلمانوں کے اندرونی اختلافات انہیں یہ موقع فراہم کر سکتے تھے۔[34] یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول خداؐ کے زمانے میں رومیوں کا تین بار مسلمانوں سے مقابلہ ہوا۔[35]

سنت انبیاء کی پیروی

امام علیؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق،[36] جب امام علیؑ سے سوال کیا گیا کہ آپؑ نے عائشہ، طلحہ اور زبیر سے تو جنگ کی، لیکن اپنی خلافت کے حصول کے لیے خلفائے ثلاثہ کے کوئی قیام کرنے سے گریز کیا اور خاموشی اختیار کی، امام علیؑ نے جواب میں فرمایا: میں نے چھ گذشتہ انبیاء کی سنت کی پیروی کی ہے، یعنی حضرت ابراہیمؑ، لوطؑ، یوسفؑ، موسیٰؑ، ہارونؑ اور حضرت محمدؐ۔ مذکورہ تمام انبیاء نے بحالت مجبوری اپنی قوم کے سامنے کچھ دیر خاموش اختیار کی۔[37]

25 سالہ دور کے واقعات اور امام علیؑ کا موقف

تاریخ کے شعبے میں شیعہ محقق مصطفی دلشاد تہرانی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ امام علیؑ اپنی25 سالہ خاموشی کے دوران غیر فعال رہے ہوں؛ وہ مزید کہتے ہیں کہ امام علیؑ کی مسلم معاشرے کی بنیادی پیشرفت اور واقعات کے سلسلے میں ایک فعال حکمت عملی اپنائے رکھی تھی۔[38]

امام علیؑ اور جمع‌ِ قرآن

پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد علیؑ نے آیات الہیہ کو ایک مصحف میں جمع کیا۔[39] بعض صحابہ نے اس مصحف کو قبول نہیں کیا۔ اس وجہ سے، علیؑ نے اسے عوامی رسائی سے ہٹا دیا[40] تاہم، امام علیؑ نے قرآن کو یکجا کرنے کے سلسلے میں عثمان کے اقدام کی حمایت کی اور آپؑ نے اسی مصحف عثمانی والے نسخے کو بطور قرآن قبول کیا اوراسی پر عمل پیرا رہے۔[41]

مسلمانوں کی فتوحات

کتاب مروج الذہب میں مسعودی کے بیان کے مطابق، جب عمر نے علیؑ سے ایران کو فتح کرنے میں شرکت کے لیے کہا، تو علیؑ نے انکار کر دیا؛[42] تاہم، ابوبکر اور عمر کے دور خلافت میں، کبھی کبھی امام علیؑ انہیں فتوحات کے بارے میں مشورہ دیا کرتے تھے۔[43]

قتل عثمان

خلفائے ثلاثہ کے 25 سالہ دور خلافت میں پیش آنے والے متاثر کن واقعات میں سے ایک تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کے دور میں پیدا ہونے والی بغاوتیں اور ناگفتہ بہ حالات ہیں۔[44] رسول جعفریان کے مطابق، امام علیؑ عثمان پر ہونے والی اکثرتنقیدوں کو روا اور حق بجانب سمجھتے تھے لیکن سیاسی نقطہ نظر سے آپؑ عثمان کے قتل کے خلاف تھے اور اسے معاویہ کے مفاد میں سمجھتے تھے۔[45] امام علیؑ عثمان مخالف عناصر کو نصیحت کرتے ہوئے ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے تھے۔

خاموشی کے دوران امام علیؑ کےاقدامات

شیعہ مرجع تقلید جعفر سبحانی کے مطابق امام علیؑ نے دوران سکوت چند اقدامات کیے جو کہ درج ذیل ہیں:

  1. قرآن کی تفسیر اور ابن عباس جیسے شاگردوں کی تربیت؛
  2. عالمی دانشوروں خاص طور پر یہودی اور عیسائی دانشوروں کے سوالات کے جوابات؛
  3. جدید پیدا ہونے والے واقعات سے متعلق شرعی و دینی احکام کا بیان؛
  4. خلفائے ثلاثہ کو درپیش سیاسی مسائل میں ان کی رہنمائی کرنا اور ان کو مشورے دینا؛
  5. باضمیر لوگوں کی تربیت کرنا؛
  6. غریب و نادار لوگوں کو سہارا دینے کے لیے کام کرنا۔[46]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. رفیعی، زندگی ائمہ(ع)، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی، ص34-35۔
  2. رضوان‌فر، فرہنگ اخلاقی معصومین(ع)، 1387شمسی، ص400۔
  3. موسوی، مبانی فقہی تقیہ مداراتی، 1392شمسی، ص120؛ کمالی اردکانی، پژوہشی پیرامون اقتدای بہ عامہ، سازمان حج و زیارت، ص43۔
  4. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص81-82۔
  5. محدثی، فرہنگ غدیر، 1386شمسی، ص313-314۔
  6. جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1390شمسی، ص58۔
  7. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1397شمسی، ص71۔
  8. مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386شمسی، ج1، ص318۔
  9. بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج1، ص251۔
  10. ملاحظہ کیجیے: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 3، ص48-50۔
  11. ملاحظہ کیجیے: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 3، ص48-50۔
  12. زمانی، نہج البلاغہ، 1369شمسی، ج1، ص134۔
  13. جباری، «اتحاد و انسجام، ضرورتی تاریخی»، ص4۔
  14. اس سلسلے میں دلائل سے آگاہی کے لیے ملاحظہ کیجیے: سید مرتضی، الذخیرہ، 1411ھ، ص437-483؛ ابن‌نوبخت، الیاقوت، 1413ھ، ص80-86؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، 1412ھ، ج2، ص299-365؛ محقق لاہیجی، گوہر مراد، 1383شمسی، ص485-538۔
  15. دانش، «تعامل امام علی(ع) با خلفا در جہت وحدت اسلامی»، ص110۔
  16. مصباح یزدی، پاسخ بہ پرسش‌ہا، 1391شمسی، ج1، ص29۔
  17. بازرگان، بعثت (2)، 1387شمسی، ص298؛ حائری، حکمت و حکومت، 1388شمسی، ص209-212۔
  18. بازرگان، بعثت (2)، 1387شمسی، ص299۔
  19. تفتازانی، شرح المقاصد، 1412ھ، ج 5، ص262۔
  20. ابن‌ ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغہ،1404شمسی، ج7، ص34۔
  21. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 26، ص68۔
  22. شیخ طوسی، الاَمالی، 1414ھ، ص560۔
  23. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 26، ص68۔
  24. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبه 217، ص336۔
  25. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1397شمسی، ص72۔
  26. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج1، ص308۔
  27. بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج1، ص278۔
  28. جعفری، شرح نہج‌البلاغہ، 1376شمسی، خطبہ 5۔
  29. شیخ مفید، الفصول المختارہ، 1413ھ، ص258۔
  30. شیخ مفید، الأمالی، 1413ھ، ص155۔
  31. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، نامۀ 62، ص451۔
  32. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج11، ص113۔
  33. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1397شمسی، ص77۔
  34. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1397شمسی، ص77۔
  35. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1397شمسی، ص77۔
  36. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385شمسی، ج1، ص149۔
  37. آل‌قطیط، وقفۃ مع الدکتور البوطی فی مسائلہ، 1417ھ، ص112-114۔
  38. دلشاد تہرانی، «انتساب 25 سال سکوت، بہ امام علی(ع) اشتباہ است»، خبرگزاری تسنیم۔
  39. ابن‌ ندیم، الفہرست، 1417ھ، ص45؛ سجستانی، کتاب المصاحف، 1423ھ، ص59۔
  40. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص122۔
  41. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص138۔
  42. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص310۔
  43. رنجبر، «مواضع امام علی در برابر فتوحات خلفا»، ص62۔
  44. جعفریان، تاریخ خلفا، 1394شمسی، ص185۔
  45. ملاحظہ کیجیے: ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص173۔
  46. سبحانی، «فرازہایی حساس از زندگانی امیرمؤمنان(ع): بیست و پنج سال سکوت چرا؟»، ص52-53۔

مآخذ

  • قرآن
  • آل‌ قطیط، ہاشم، وقفۃ مع الدکتور البوطی فی مسائلہ، بیروت، دار المحجۃ البیضاء، 1417ھ۔
  • ابن‌ِ اَبی‌ الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ‌ اللہ، شرح نہج البلاغہ، قم، کتابخانہ آیت‌ اللہ مرعشی نجفی، 1404ہجری شمسی۔
  • ابن‌ِ اَثیر، علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن‌ِ میثم بحرانی، میثم بن علی، شرح نہج البلاغہ، تہران، دفتر نشر کتاب، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • ابن‌ِ نوبخت، ابراہیم، الیاقوت فی علم الکلام، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1413ھ۔
  • ابن‌ِ نَدیم، محمد بن اسحاق، الفہرست، بیروت، دار المعرفہ، 1417ھ۔
  • بازرگان، مہدی، «آخرت و خدا، ہدف بعثت»، فصلنامہ کیان، شمارہ 28، زمستان 1374ہجری شمسی۔
  • پیشوایی، مہدی، سیرہ پیشوایان، قم، مؤسسہ امام صادق‌(ع)، 1397ہجری شمسی۔
  • تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، قم، الشریف الرضی، 1412ھ۔
  • جباری، محمدرضا، «اتحاد و انسجام، ضرورتی تاریخی»، در مجلہ معرفت، شمارہ 114، خرداد 1386ہجری شمسی۔
  • جعفری،‌ محمدتقی، شرح نہج البلاغہ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1376ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، تاریخ خلفا از رحلت پیامبرؐ تا زوال امویان، قم، دلیل ما، 1394ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، تہران، نشر علم، 1390ہجری شمسی۔
  • حائری یزدی، مہدی، حکمت و حکومت، لندن، نشر موج آزادی، 1388ہجری شمسی۔
  • حِمَّصی رازی، سَدید‌الدین، المُنْقِذ مِنَ التقلید، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1412ھ۔
  • دانش، اسماعیل، «تعامل امام علی(ع) با خلفا در جہت وحدت اسلامی»، در مجلہ اندیشہ تقریب، شمارہ 4، پاییز 1384ہجری شمسی۔
  • دلشاد تہرانی، مصطفی، «انتساب 25 سال سکوت، بہ امام علی(ع) اشتباہ است»، خبرگزاری تسنیم، تاریخ درج:16 بہمن1392، تاریخ بازدید:13 آبان1398۔
  • رضوان‌فر، احمد، فرہنگ اخلاقی معصومین(ع)، قم، مرکز پژوہش‌ہای اسلامی صدا و سیما، 1387ہجری شمسی۔
  • رفیعی، علی، زندگی ائمہ(ع)، تہران، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی، بی‌تا۔
  • رنجبر، محسن، «مواضع امام علی در برابر فتوحات خلفا»، در مجلہ تاریخ اسلام ر آینہ پژوہش، شمارہ 2، بہار 1382ہجری شمسی۔
  • زمانی، مصطفی، نہج البلاغہ، قم، الزہراء، 1369ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، «فرازہایی حساس از زندگانی امیرمومنان(ع): بیست و پنج سال سکوت چرا؟»، ماہنامہ درس‌ہایی از مکتب اسلام، سال شانزدہم، شمارہ8، مرداد1354ہجری شمسی۔
  • سجستانی، عبد اللہ بن سلیمان، کتاب المصاحف، قاہرہ، الفاروق الحدیثہ، 1423ھ۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرۃ فی علم الکلام، قم، دفتر نشر اسلامی، 1411ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتابفروشی داوری، 1385ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم، دار الثقافہ، 1414ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الأمالی، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارۃ، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • کمالی اردکانی، حمید، پژوہشی پیرامون اقتدای بہ عامہ، تہران، سازمان حج و زیارت، بی‌تا.
  • محدثی، جواد، فرہنگ غدیر، قم، نشر معروف،‌ 1386ہجری شمسی۔
  • محقق لاہیجی، عبدالرزاق بن علی، گوہر مراد، تہران، نشر سایہ، 1383ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مُروجُ الذَّہَب و معادن الجوہر، قم، دار الہجرہ، 1409ھ۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، پاسخ بہ پرسش‌ہا، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1391ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمد ہادی، علوم قرآنی، قم، التمہید، چاپ چہارم، 1381ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمد ہادی، علوم قرآنی، قم، مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہید، 1381ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
  • موسوی، سید محمد یعقوب، مبانی فقہی تقیہ مداراتی، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1392ہجری شمسی۔