عبد اللہ بن عفیف ازدی
عبد اللہ بن عفیف ازدی حضرت علی اور امام حسین ؑ کے اصحاب میں سے مانے جاتے ہیں۔ آپ نے حضرت علی کی رکاب میں جنگ جمل اور جنگ صفین میں شرکت کی جن میں دونوں آنکھیں ضائع ہو گئیں۔ واقعہ عاشورا کے بعد ابن زیاد کی مسجد کوفہ میں اہل بیت کی شان میں گستاخانہ گفتگو پر اعتراض کیا۔ اس کے نتیجے میں عبید اللہ بن زیاد کے حکم سے آپ کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور آپ کے جسم کو کوفہ میں سولی پر لٹکا دیا گیا۔ آپ روز عاشورا کے بعد پہلے شیعہ ہیں جنہیں شہید کیا گیا۔
خلافت علی کا زمانہ
آپ حضرت علی ؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی ؑ کی جانب سے شرکت کی جنگ جمل میں آپ کی ایک بائیں آنکھ اور دوسری آنکھ جنگ صفین میں ضائع ہو گئی۔[1]
عاشورا کے بعد
شہادت امام حسین ؑ کے بعد ابن زیاد منبر پر گیا اور اس نے اہل بیت کی شان میں گستاخانہ کلام کی۔ طبری اور دوسروں کے بقول ابن زیاد نے کہا:
- الحمد لله الذی اظهر الحق و اهله، و نصر امیر المؤمنین یزید بن معاویه و حزبه، و قتل الكذاب ابن الكذاب، الحسین بن علی و شیعته... حمد ہے اس پروردگار کی جس نے حق اور اسکے اہل کو ظاہر کیا، امیر المؤمنین یزید بن معاویہ اور اس کے گروہ کی مدد کی۔ اس نے کذاب بن کذاب حسین بن علی اور اس کے شیعوں کو قتل کیا۔
ابھی اس کی یہ گفتگو ختم ہونے نہ پائی تھی کہ عبد اللہ بن عفیف ازدی نے کہا:
- یا بن مرجانة! ان الكذاب ابن الكذاب أنت و ابوك و الذی ولاك و أبوه، یا بن مرجانة، أتقتلون أبناء النبیین، و تكلمون بكلام الصدیقین
- یا بن مرجانہ! کذاب بن کذاب تم ہو، تمہارا باپ ہے اور وہ ہے جس نے تمہیں اور اس کے باپ کو حاکم بنایا ہے۔ اے ابن مرجانہ! کیا تم انبیا کے فرزندوں کو قتل کرتے ہو اور تم سچوں کی کلام کی جگہ گفتگو کرتے ہو؟[2]
ابن زیاد نے اس کی گرفتاری کا حکم دیا [3]۔ عبد اللہ نے یا مبرور کے نعرے کے ذریعے اپنے قبیلے کو مدد کیلئے پکارا۔ قبیلے کے لوگ اسے ابن زیاد کی مجلس سے باہر لے گئے۔ رات کو ابن زیاد کے ساتھیوں نے اس کے گھر کا محاصرہ کیا[4]۔ وہ نابینا تھا لیکن اس کی بیٹی صفیہ اس کی جنگ کرنے میں مدد کرتی رہی [5]۔ بہرحال وہ عبد اللہ کو گرفتار کرکے ابن زیاد کے پاس لے آئے۔ ان کے درمیان باہمی گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد عبید اللہ بن زیاد کے حکم سے اس کی گردن مار دی گئی۔ عبد اللہ کے بدن کو کوفہ میں سبخہ نام کی جگہ پر سولی دی گئی۔[6] عبد اللہ بن عفیف پہلے شیعہ شہید ہیں جنہیں واقعۂ کربلا کے بعد شہید کیا گیا۔
اولاد
عبد اللہ بن عفیف ازدی کی بیٹی صفیہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب عبید اللہ بن زیاد کے ماموروں نے اس کے گھر پر حملہ کیا تو اس نے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی اور اپنے باپ کو اس سے آگاہ کیا۔ اس کا باپ نابینا تھا لہذا وہ اپنے باپ کو سمت اور جہت کی طرف راہنمائی کرتی رہی تا کہ وہ اپنا دفاع کر سکے۔[7]
حوالہ جات
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۲۱۰؛ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۸۳؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۸
- ↑ ابن کثیر،البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۹۱؛ طبری، ج۵، ص۴۵۹
- ↑ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۹۱؛ طبری، ج۵، ص۴۵۹
- ↑ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۸۳؛ طبری، ج۵، ص۴۵۹
- ↑ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۶، ص۳۶۵ بلاذری، انسابالاشراف، ج۳، ص۲۱۰
- ↑ طبری، ج۵، ص۴۵۹
- ↑ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۶، ص۳۶۵؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۲۱۰
مآخذ
- ابن اثیر، الكامل فی التاریخ، دار صادر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵ء
- ابن کثیر دمشقی، البدایہ و النہایہ، دارالفكر، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶ء
- بلاذری، احمد بن یحیی، كتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زكار و ریاض زركلی، دارالفكر، ط الأولی، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶ء
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوك، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، دارالتراث، ط الثانیہ، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء
- محلاتی، ذبیح الله، ریاحین الشریعہ، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۳ش.