صفیہ بنت عبد اللہ بن عفیف ازدی

ویکی شیعہ سے
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


صفیہ بنت عبد اللہ بن عفیف ازدی کا نام واقعۂ کربلا میں اپنے باپ کی مدد کرنے کے حوالے سے مذکور ہے۔ جب ابن زیاد کے سپاہیوں اس کے گھر پر حملے کیا تو اس دوران صفیہ بنت عبد اللہ نے اپنے نابینے باپ کی مدد کی ۔صفیہ کے والد جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کی حمایت میں ضائع ہو چکی تھیں۔عبد اللہ بن عفیف ازدی کی شہادت کے بعد صفیہ کو باپ کی حمایت کرنے کی وجہ سے زندان میں ڈال دیا گیا ۔توابین کے قیام میں سلیمان بن صرد خزاعی کی کوششوں سے آزاد ہوئی اور یہ قادسیہ چلی گئی ۔محمد بن سلیمان صرد نے اسے شادی کیلئے انتخاب کیا اور وہ اس سے 10 بیٹوں کی والدہ قرار پائی۔

باپ کی راہنما

عبد اللہ بن عفیف ازدی جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی ؑ حمایت کرتے ہوئے اپنی دونوں آنکھیں کھو بیٹھے تھے[1] ۔ پس جب ابن زیاد کے سپاہیوں ان کے گھر پر حملہ کیا تو آپ کی اس بیٹی نے اپنے باپ کی دفاع میں مدد کرتے ہوئے اپنے باپ کی سمت اور جہت کی طرف رانمائی کی لیکن عبد اللہ گرفتار ہوئے اور انہیں ابن زیاد کے حکم سے شہید کر دیا گیا ۔ابن زیاد نے اس کی بیٹی صفیہ بنت عبد اللہ عفیف ازدی کو زندانی کر دیا ۔ توابین کے قیام میں سلیمان بن صرد خزاعی نے اس کی رہائی میں مدد کی ۔ یہ قادسیہ جا کر خزاعہ قبیلے کے ساتھ رہنے لگی۔[2]

عین الوردی کے واقعہ کے بعد محمد بن سلیمان صرد خزاعی نے اس سے شادی کی اور6بیٹے اور 4 بیٹیوں کی مان بنی ۔[3][4]

حوالہ جات

  1. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۲۱۰؛ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۸۳؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۸
  2. ابن کثیر،البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۹۱
  3. محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۶، ص۳۶۵
  4. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۲۱۰

مآخذ

  • ابن اثیر، الكامل فی التاریخ، دار صادر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
  • ابن کثیر دمشقی، البدایہ و النہایہ، دارالفكر، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، كتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زكار و ریاض زركلی، دارالفكر، ط الأولی، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوك، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، دارالتراث، ط الثانیہ، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • محلاتی، ذبیح الله، ریاحین الشریعہ، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۳ش.