شیخ عباس قمی

ویکی شیعہ سے
(محدث قمی سے رجوع مکرر)
شیخ عباس قمی
شیخ عباس قمی مؤلف مفاتیح الجنان
کوائف
لقب/کنیتمحدث قمی
تاریخ ولادتسنہ 1294 ہجری
رہائشمشہد، قم، نجف اشرف
تاریخ وفاتسنہ 1359 ہجری
مدفنروضہ امام علی علیہ السلام
علمی معلومات
اساتذہسید محمد کاظم طباطبائی یزدی، میرزا حسین نوری، میرزا محمد تقی شیرازی، سید حسن صدر کاظمی، سید ابو الحسن نقوی لکنهوئی
شاگردآقا بزرگ طہرانی، احمد موسوی مستنبط، آقا تستری جزائری، شیخ حسین مقدس مشہدی، شیخ میرزا حیدر قلی خان سردار کابلی، سید شہاب الدین مرعشی نجفی، عبد الحسین رشتی، ملا علی واعظ خیابانی تبریزی، سید محمد هادی میلانی و ...
تالیفاتمفاتیح الجنان، سفینۃ البحار، منتہی الآمال و ...
خدمات


عباس بن محمد رضا القمی (1294۔1359 ھ) شیخ عباس قُمی و محدث قمی کے نام سے مشہور چودہویں صدی ہجری کے شیعہ محدث، مورخ اور خطبا میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی تعلیم اور علمی کارنامے تین حوزات علمیہ قم، مشہد اور نجف میں انجام دیئے اور بہت ساری کتابیں لکھیں۔ مفاتیح الجنان، سفینۃ البحار، نفس المہموم و منتہی الآمال ان کی مشہور تألیفات میں سے ہیں۔ محدث قمی نے سنہ 1359 ھ میں نجف اشرف میں وفات پائی اور حضرت علی علیہ السلام کے جوار میں دفن ہوئے۔

پیدایش

شیخ عباس قمی سنہ 1394 ھ میں قم میں پیدا ہوئے۔[1] ان کے والد محمد رضا قمی ایک متدین اور دینی امور میں لوگوں کیلئے ایک مرجع کی حیثیت رکھتے تھے جن سے وہ اپنے دینی وظائف سے آگاہ ہوتے تھے۔ ان کی والدہ بانو زینت بھی ایک متدین اور پارسا خانون تھیں۔[2] محدث قمی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں جس مقام پر پہنچا ہوں وہ میری ماں کی مرہون منت ہے کیونکہ ان کی ہمیشہ کوشش یہی تھی کہ مجھے باوضو دودھ پلائیں۔[3]

اساتید

شیخ عباس قمی نے ابتدائی تعلیم قم میں حاصل کی جہاں انہوں نے درج ذیل اساتید سے کسب فیض کیا:

حصول تعلیم کیلئے سفر

محدث قمی نے اعلی تعلیم کیلئے مختلف اسلامی ملکوں کا سفر کیا:

نجف اشرف روانگی

شیخ عباس قمی سنہ 1316 ھ 22 سال کی عمر میں نجف اشرف چلے گئے۔ جہاں انہوں نے درج ذیل استاتید سے کسب فیض کیا:

شیخ عباس قمی نجف میں اقامت کے دوران سنہ 1318 ہجری میں حج کیلئے مکہ تشریف لے گئے۔

ایران واپسی

محدث قمی نے سنہ 1322 ہجری میں محدث نوری کی وفات کے بعد نجف کو ترک کرکے ایران کا رخ کیا۔ ایران میں قیام کے دوران کئی بار عتبات عالیات کی زیارت کیلئے تشریف لے گئے اور دبارہ حج سے مشرف ہوئے۔[6] سنہ 1332 ہجری کو محدث قمی نے مشہد مقدس کی طرف سفر کیا اور وہیں پر زندگی گزارنے لگے۔ آقا حسین قمی کے کہنے پر انہوں نے مشہد میں قیام کا ارادہ کیا اور سنہ 1354 ہجری تک وہیں مقیم رہے۔[7] موصوف اپنی کتاب فوائد الرضویہ کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ بہت زیادہ گرفتاریوں اور سختیوں کی وجہ سے جن تفصیل طولانی ہے، میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام جو غریبوں کی پناگاہ اور متقیوں کے امام ہیں، سے پناہ مانگوں۔[8]

مشہد مقدس میں ان کے بعض اساتید درج ذیل ہیں:

مشہد میں 22 سالہ قیام کے دوران انہوں نے مختلف کتابیں لکھیں اور بہت زیادہ مجالس اور محافل سے خطاب کئے جو ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔[9] انہوں نے ان مجالس اور محافل میں امریکیوں کی مخالفت اور لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی خاطر تقاریریں کیں جس کی وجہ سے مشہد کے ڈیموکریٹک حذب کی جانب سے قتل کی دھمکی بھی ملی۔[10]

دوبارہ نجف روانگی

روضہ امام علی (ع) میں شیخ کا مقبرہ

شیخ عباس قمی مسجد گوہرشاد کے واقعے، جس میں بہت سارے لوگ قتل ہوئے اور حاج آقا حسین قمی کو جلاوطن کیا گیا، کے بعد سنہ 1354 ہجری کو نجف اشرف چلے گئے اور زندگی کے آخری ایام تک وہی پر قیام پذیر ہوئے۔[11]

ذاتی اور اخلاقی خصوصیات

آقا بزرگ تہرانی جو شیخ عباس قمی کے دوستوں میں سے ہیں موصوف کے بارے میں کہتے ہیں: وہ انسان کامل اور علم فضل کا اعلی نمونہ تھے اور تمام اچھے صفات جیسے حسن خلق اور تواضح وغیرہ کے حامل تھے۔ سلیم الذات اور شریف النفس تھے اور غرور اور شہرت طلبی سے دوری اختیار کرتے اور ایک زاہدانہ زندگی گزارتے تھے۔ میں جتنا عرصہ ان کے ساتھ رہا ان سے مانوس ہوا اور میری جان اور روح ان کی جان اور روح میں گھل مل گئی۔[12]

ان کے شاگرد

  • آقا بزرگ طہرانی
  • سید احمد موسوی مستنبط
  • سید احمد معروف سید آقا تستری جزائری
  • شیخ حسین مقدس مشہدی
  • شیخ میرزا حیدر قلی خان سردار کابلی
  • سید شہاب الدین مرعشی نجفی
  • شیخ عبد الحسین رشتی
  • حاج ملا علی واعظ خیابانی تبریزی
  • سید علی مدد قائنی خراسانی
  • سید علی نقی فیض الاسلام طہرانی
  • شیخ محمد تقی مقدس طہرانی
  • شیخ محمد صادق صدر الشریعۃ تنکابنی
  • شیخ محمدعلی اردوبادی
  • شیخ محمد مہدی شرف الدین واعظی تستری
  • سید محمد ہادی میلانی
  • سید مصطفی صفایی خوانساری
  • سید میرزا مہدی شیرازی
  • شیخ یوسف بیارجمندی حائری
  • شیخ یوسف بن عبد علی رجایی مغزی[13] [14]

ان کے قلمی آثار

منازل الاخره شیخ عباس قمی
کتاب منتہی الآمال
  • مفاتیح الجنان شیخ عباس قمی کی مشہور ترین تالیف ہے جو دعاوں، زیارتوں اور پیامبر اکرم(ص) و ائمہ اطہار(ع) سے منقول مناجات پر مشتمل ہے۔
  • تحفۃ الاحباب (علم رجال میں)
  • الدر النظیم فی لغات القرآن العظیم
  • کحل البصر فی سیرۃ سید البشر
  • کتاب نقد الوسائل شیخ حر عاملی
  • تقسیم بدایۃ الہدایۃ اثر شیخ حر عاملی
  • شرح کتاب الوجیزۃ شیخ بہائی
  • فیض القدیر فیما یتعلق بحدیث الغدیر
  • علم الیقین (علامہ مجلسی کی کتاب حق الیقین کا خلاصہ)
  • مقالید الفلاح فی عمل الیوم و اللیلہ
  • مقلاد النجاح (خلاصہ کتاب مقالید الفلاح)
  • بحارالانوار کی گیارویں جلد کا خلاصہ
  • شرح کلمات قصار نہج البلاغہ
  • ہدیۃ الانام الی وقایع الایام (کتاب فیض العلوم کا خلاصہ)
  • فیض العلام فی وقایع الشهور و الایام (دنوں اور مہینوں کے واقعیات کے بارے میں)
  • سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار؛ یہ کتاب بحار الانوار کا موضوعی خلاصہ ہے۔
  • تحفۃ الاحباب فی تراجم الاصحاب. (حضرت محمد (ص) اور ائمہ اطہار(ع) کے اصحاب کے بارے میں)
  • فوائد الرجبیۃ فیما یتعلق بالشہور العربیۃ
  • الدرۃ الیتیۃ فی تتمات الدرۃ الثمینۃ
  • ہدیۃ الزائرین و بہجۃ الناظرین ( قبور ائمہ اطہار علیہم السلام کی زیارت اور اس کے ثواب کے بارے میں اور اماموں کے روضوں میں مدفون علماء اور مؤمنین کی نشاندہی)
  • اللئالی المنثورۃ فی الاحراز و الاذکار المذکورۃ (دعا اور دوسرے مستحبات کے بارے میں)
  • الفصول العلیہ فی المناقب المرتضویہ (علی بن ابی طالب (ع) کے مناقب اور مکارم اخلاق)
  • سبیل الرشاد
  • حکمۃ بالغہ و مأۃ کلمۃ جامعۃ (عقاید اور اصول دین کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کے مختصر جملات)
  • ذخیرۃ الابرار فی منتخب انیس التجار
  • غایۃ القصوی فی ترجمۃ العروۃ الوثقی (سید محمد کاظم طباطبایی یزدی کی کتاب العروۃ الوثقی کا فارسی ترجمہ)
  • التحفۃ الطوسیۃ و النفحۃ القدسیۃ (امام رضا علیہ السلام کی زیارت اور آپ کے روضہ اقدس سے مربوط بعض فوائد)
  • نفس المہموم (مقتل امام حسین (ع)
  • نفثۃ المصدور. (نفس المہموم کا تکملہ)
  • الانوار البہیہ فی تاریخ الحجج الالہیہ
  • گناہان کبیره و صغیره کے بارے میں ایک کتابچہ
  • منازل الآخرۃ
  • شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتہجد کا ترجمہ
  • نزہۃ النواظر
  • مقامات العلیہ ( معراج السعادۃ کا خلاصہ)
  • ترجمہ جمال الاسبوع
  • منتہی الآمال فی تواریخ النبی و الآل ( پیامبر (ص) اور اماموں کی تاریخ)
  • تتمۃ المنتہی فی وقایع ایام الخلفاء
  • تتمیم تحیۃ الزائر
  • الکنی و الالقاب. (علما اور شعرا وغیرہ کے حالات زندگی)
  • ہدیۃ الاجباب فی المعروفین بالکنی و الالقاب (کتاب الکنی و الالقاب کا خلاصہ)
  • فوائد الرضویہ فی احوال علماء المذہب الجعفریہ (شرح حال علمائے شیعہ)
  • بیت الاحزان فی مصائب سیدۃ النسوان

وفات اور مدفن

محدث قمی نے سوموار کی رات 22 ذی الحجہ سنہ 1365 ھ کو 65 سال کی عمر میں نجف اشرف میں وفات پائی۔ سید ابوالحسن اصفہانی نے روضہ امام علی علیہ السلام میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جس کے بعد ان کے استاد محدث نوری کے جوار میں حضرت علی علیہ السلام کے روضہ اقدس میں دفن ہوئے۔[15]

حوالہ جات

  1. فوائد الرضویہ، ص۲۲۱.
  2. خاتم المحدثین حاج شیخ عباس قمی، مینا احمدیان.
  3. مفاخر اسلام، ج۱۱، ص۴۰.
  4. حاج شیخ عباس قمی حدیث نجابت.
  5. حاج شیخ عباس قمی حدیث نجابت.
  6. خاتم المحدثین حاج شیخ عباس قمی، مینا احمدیان
  7. حاج شیخ عباس قمی حدیث نجابت
  8. فوائد الرضویہ، ص۲.
  9. خاتم المحدثین حاج شیخ عباس قمی، مینا احمدیان.
  10. محسن صادقی، محدث قمی و کمیتہ مجازات
  11. خاتم المحدثین حاج شیخ عباس قمی، مینا احمدیان
  12. نقباء‌ البشر، ج‌۳، ص۹۹۹.
  13. نفس المهموم، ص۳.
  14. دوانی، علی، مفاخر شیعہ، ج یازدہ، ص ۳۱۹.
  15. اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۴۲۵.

کتابیات

  • احمدیان، مینا، زندگی ‌نامہ خاتم المحدثین حاج شیخ عباس قمی، نشریہ مسجد، شماره ۶۸، ۱۳۸۰ش
  • ادهم نژاد، محمد تقی، حاج شیخ عباس قمی: حدیث نجابت، نشریہ مبلغان، شماره ۸۸، اسفند ۸۵
  • امین عاملی، محسن، اعیان الشیعة، بیروت، دار التعارف
  • تهرانی، آقا بزرگ، نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، تحقیق سید عبد العزیز طباطبایی و محمد طباطبایی بهبهانی، مشهد، دار المرتضی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ
  • دوانی، علی، مفاخر اسلام، تهران، انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، چاپ دوم، ۱۳۷۹ش
  • صادقی، محسن، محدث قمی و کمیتہ مجازات، پیام بهارستان، سال اول، شماره ۴، تابستان ۱۳۸۸ش
  • قمی، عباس، نفس المهموم فی مصیبة سیدنا الحسین المظلوم و یلیہ نفثة المصدور فیما یتجدد بہ حزن العاشور، نجف، المکتبة الحیدریة، چاپ اول، ۱۴۲۱ق.
  • قمی، عباس، الفوائد الرضویہ، تهران، کتابخانہ مرکزی، ۱۳۲۷ش.