امام علی کا بے الف خطبہ

ویکی شیعہ سے
امام علی کا بے الف خطبہ
امام علیؑ کا بغیر الف خطبہ
حدیث کے کوائف
دوسرے اسامیخطبہ مونقہ
صادر ازامام علیؑ
شیعہ مآخذمصباح کفعمیبحارالانوار
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


بے الف خطبہ یا خطبہ مونقہ امام علیؑ کے اس خطبے کو کہا جاتا ہے جس میں حرف "الف" استعمال نہیں ہوا ہے۔ امام علیؑ نے یہ خطبہ صحابہ کے ایک گروہ کے سامنے بالبداہ ارشاد فرمایا جو کلام میں حروف کے کردار پر گفتگو کر رہے تھے۔

یہ خطبہ نہج البلاغہ میں ذکر نہیں ہوا لیکن بحار الانوار اور منہاج‌البراعہ وغیرہ میں مختلف تعبیرات کں ساتھ نقل ہوا ہے۔ خدا کی حمد و ستائش، پیغمبر اکرمؐ کے بعض فضائل اور آپ کی بعثت کے اہداف، تقوا اور سفر آخرت کے احوال اس خطبے کے مضامین میں سے ہیں۔

کتاب دو شاہکار علوی اسی خطبہ اور بے نقطہ خطبہ کی شرح میں لکھی گئی ہے۔

بے نقطہ خطبہ اور بے الف خطبہ کی شرح میں لکھی گئی کتاب، دو شاہکار علوی

پس منظر

بے الف خطبہ امام علیؑ کی ایک تقریر ہے جس میں آپ نے حرف "الف" استعمال نہیں کیا۔ کتاب مناقب میں امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق حضرت علیؑ نے پیغمبر اکرمؑ کے بعض صحابہ کے سامنے یہ خطبہ دیا جو کلام میں حروف کے کردار پر گفتگو کر رہے تھے۔ اصحاب نے حرف الف کو سب سے زیادہ استعمال ہونے والا حرف قرار دیا اس موقع پر امام علیؑ نے الف کے بغیر ایک خطبہ دیا۔[1] فی‌البداہہ دیا جانا، قرآن سے مستند ہونا، فصاحت و بلاغت اس خطبے کی خصوصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔[2]

مضامین

اس خطبہ میں خدا کی حمد و ثنا کے بعد پیغمبر اکرمؐ کے فضائل اور حضورؐ کی بعثت کے اہداف کے بارے میں گفتگو فرمائی ہے۔ اس کے بعد تقوا اور سفر آخرت کے مراحل کو ترسیم فرمایا ہے۔ اس خطبے کا اختتام استغفار سے ہوتا ہے۔[3]

سند

یہ خطبہ شرح نہج البلاغہ ابن‌ابی‌الحدید،[4] اعلام الدین فی صفات المومنین،[5] مصباح کَفعَمی،[6] بحار الانوار[7] اور منہاج‌البراعۃ[8] جیسی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ البتہ اس خطبے کے مضامین بحارالانوار اور مصباح کفعمی میں مختلف ہے۔ علامہ مجلسی نے اس حوالے سے بعض اختلافات کی طرف اشارہ کیا ہے۔[9] سید رضی نے اس خطبہ کو نہج‌ البلاغہ میں نقل نہیں کیا ہے۔

خطبہ کا متن اور ترجمہ


خطبہ کا متنترجمہ
حَمِدْتُ مَنْ عَظُمَتْ مِنَّتُهُ وَ سَبَغَتْ نِعْمَتُهُ وَ تَمَّتْ كَلِمَتُهُ وَ نـَفـَذ َتْ مَشِیتُهُ وَ بَلَغَتْ حُجَّتُهُ وَ عَدَلـَتْ قَضِیتُهُ وَ سَبَقَتْ غَضَبَهُ رَحْمَتُهُ. حمد کر تا ہوں میں اس کی جس کا احسان عظیم ہے اس کی نعمت وسیع و کامل ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے اس کی حجت پہنچ چکی ہے اور اس کا فیصلہ مبنی بر عدل ہے ۔
حَمِدْتُهُ حَمْدَ مُقِرٍّ بِرُبُوبِیتِهِ مُتَخَضِّعٍ لِعُبُودِیتِهِ مُتَنَصِّلٍ مِنْ خَطِیئَتِهِ مُعْتَرِفٍ بِتَوْحِیدِهِ مُسْتَعِیذٍ مِنْ وَعِیدِهِ مُؤَمِّلٍ مِنْ رَبِّهِ مَغْفِرَةً تُنْجِیهِ یوْمَ یشْغَلُ كُلٌّ عَنْ فَصِیلَتِهِ وَ بَنِیهِ. اس کی حمد اس طرح کرتا ہوں جس طرح اس کی ربوبیت کا اقرار کرنے وال اس کی عبودیت میں فروتنی کرنے وال خطاؤں سے پرہیز کرنے والا اس کی توحید کا اعتراف کرنے والا اور اس کے قہر سے پناہ مانگنے والا کرتا ہے۔ اپنے رب سے مغفرت اور نجات کا امیدوار ہوں اس روز جب کہ ہر شخص اپنی اولاد اور عزیزوں سے بے پرواہ ہو گا
وَ نَسْتَعِینُهُ وَ نَسْتَرْشِدُهُ وَ نُؤْمِنُ بِهِ وَ نَتَوَكَّلُ عَلَیهِ. ہم اس سے مدد و ہدایت چاہتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر توکل کرتے ہیں۔
وَ شَهـِدْتُ لَهُ شُهُودَ عَبْدٍ مُخْلِصٍ مُوقِنٍ وَ فَرَّدْتُهُ تَفْرِیدَ مُؤْمِنٍ مُتَیقـِّنٍ وَ وَحَّدْتُهُ تَوْحِیدَ عَبْدٍ مُذعِنٍ. میں اس بندہ خالص کی طرح گواہی دیتا ہوں جو اس کے وجود کا یقین رکھتا ہو اور اس کو یقین والے تنہا مومن کی طرح تنہا سمجھتا ہوں اور اقرار کرنے والے بندے کی طرح اسے بھی یکتا سمجھتا ہوں۔
لَیسَ لَهُ شَرِیکٌ فِی مُلْكِهِ وَ لَمْ یكُنْ لَهُ وَلِی ٌ فِی صُنْعِهِ. اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک اور اس کی کائینات میں کوئی اس کا حصہ دار نہیں۔
جَلَّ عَنْ مُشِیرٍ وَ وَزِیرٍ [وَ تَنَزَّهَ عَن مِثل ٍ] وَ عَوْنٍ وَ مُعِینٍ وَ نَظِیرٍ. اس کی شان اس سے ارفع و اعلی ہے کہ اس کا کوئی مشیر وزیر مددگار معین یا نظیر ہو۔
عَلِمَ فَسَتَرَ وَ بَطَنَ فَخَبَرَ وَ مَلَكَ فَقَهَرَ وَ عُصِی فَغَفَرَ وَ عُبِدَ فَشَكَرَ وَ حَكَمَ فَعَدَلَ وَ تَكَرَّمَ وَ تَفَضَّلَ لَنْ یزُولَ وَ لَمْ یزَلْ، لَیسَ كَمِثْلِهِ شَیءٌ وَ هُوَ قَبْلَ كُلِّ شَیءٍ وَ بَعْدَ كُلِّ شَیءٍ. وہ سب کا حال جانتا ہے اور عیب پوشی کرتا ہے وہ باطن کی حالت سے واقف ہے اس کی بادشاہت سب پر غالب ہے ۔ اگر گناہ کیا گیا تو وہ معاف کر دیتا ہے اور عدل کے ساتھ حکم دیتا ہے۔ وہ فضل و کرم کرتا ہے نہ اس کو کبھی زوال آیا نہ آۓ گا اور کوئی اس کی مثل نہیں وہ ہر شۓ کے پہلے سے پرودگار ہے۔ اور ہر شئی کے بعد بھی ہے۔
رَبّ ٌ مُتَفَرِّدٌ بِعِزَّتِهِ مُتَمَكِّنٌ بقوَّتِهِ مُتَقَدِّسٌ بعُلُوِّهِ مُتَكَبِّرٌ بسُمُوِّهِ، لَیسَ یدْرِكُهُ بَصَرٌ وَ لَمْ یحِطْ بِهِ نَظَرٌ، قَوِی مَنِیعٌ بَصِیرٌ سَمِیعٌ [عَلِی ٌ حَکیمٌ] رَؤوفٌ رَحِیمٌ [عزیزٌ علیمٌ]، عَجَزَ عَنْ وَصْفِهِ مَنْ وَصَفَهُ وَ ضَلَّ عَنْ نَعْتِهِ مَنْ عَرَّفـَهُ. وہ اپنی ہی عزت و بزرگی سے غالب ہے اور اپنی قوت سے ہر شے پر ممکن ہے اپنی عالی مرتبی سے مقدس ہے اپنی رفعت کی وجہ اس میں کبر یائی ہے ۔ نہ آنکھ اس کو دیکھ سکتی ہے نہ نظر اس کا احاطہ کر سکتی ہے وہ قوی برتر بصیر ہر بات کا سننے والا اور مہربان و رحیم ہے ۔ جس شخص نے بھی اس کا وصف کرنا چاہاعاجر ہوگیا (نہ کر سکا)۔ جس نے (اپنے فہم میں) اس کو پہچانا اس نے خطا کی۔
قَرُبَ فَبَعُدَ وَ بَعُدَ فَقَرُبَ یجِیبُ دَعْوَةَ مَنْ یدْعُوهُ وَ یرْزُقُهُ وَ یحْبُوهُ ذُو لُطْفٍ خَفِی وَ بَطْشٍ قَوِی وَ رَحْمَةٍ مُوسَِعَةٍ وَ عُقُوبَةٍ مُوجِعَةٍ. وہ باوجود نزدیک ہونے کے دور ہے۔ اور دور ہونے کے باوجود قریب ہے جو اس سے دعا کرتا ہے وہ قبول کرتا ہے۔ اور روزی دیتا ہے اور محبت کرتا ہے وہ صاحب لطف خفی ہے اس کی گرفت قوی ہے او عنایت بہت بڑی ہے اس کی رحمت وسیع ہے اس کا عذاب دردناک ہے۔
رَحْمَتُهُ جَنَّةٌ عَرِیضَةٌ مُونِقَةٌ وَ عُقُوبَتُهُ جَحِیمٌ مَمْدُودَةٌ مُوبِقَةٌ. اس کی رحمت جنت ہے جو وسیع اور حیرت انگیز ہے اس کا عذاب دوزخ ہے جو مہلک اور پھلا ہوا ہے۔
وَ شَهـِدْتُ ببَعْثِ مُحَمَّدٍ عَبْدِهِ وَ رَسُولِهِ وَ نَبِیهِ وَ صَفِیهِ وَ حَبِیبِهِ وَ خَلِیلِهِ، بَعَثـَهُ فِی خَیرِ عَصْرٍ وَ حِینَ فـَترَةٍ وَ كُفْرٍ، رَحْمَة ً لِعَبِیدِهِ وَ مِنَّة ً لِمَزِیدِهِ.

گواہی دیتا ہوں میں کہ محمدۖ اس کے رسول بندہ صفی نبی محبوب دوست اور برگزیدہ ہیں ان کو ایسے وقت مبعوث بہ رسالت کیا جبکہ زمانہ نبی سے خالی تھا اور کفر کا دور دورہ تھا وہ اس کے بندوں پر رحمت ہیں۔

خُتِمَ بِهِ نُبُوَّتـُهُ وَ وَضَحَتْ بِهِ حُجَّتُهُ فَوَعَظَ وَ نَصَحَ وَ بَلَّغَ وَ كَدَحَ. مزید براں اپنی بنوت کو ان پر ختم اور اپنی حجت کو مضبوط کر دیا۔ پس انہوں نے وعظ فرمایا اور نصیحت کی اور حکم خدا بندوں کو پہنچایا اور ہر طرح کی کوشش کی۔
رَؤوفٌ بِكُلِّ مُؤْمِنٍ، رَحِیمٌ سَخِی رَضِی وَلِی زَكِی. عَلَیهِ رَحْمَةٌ وَ تَسْلِیمٌ وَ بَرَكَةٌ وَ تَعْظِیمٌ وَ تَکْرِیمٌ مِنْ رَبٍّ غَفُورٍ رَحِیمٍ قَرِیبٍ مُجِیبٍ حَلِیمٍ. وہ پر مومن پر مہربان ہیں وہ رحیم سخی اور اس کے پسندیدہ اور پاکیزہ ولی ہیں ان پر خدا کی جانب سے رحمت و سلام برکت وعظمت و اکرام ہو جو بخشنے والا قریب اور دعا قبول کرنے والا ہے ۔
وَصَّیتُكُمْ مَعْشَرَ مَنْ حَضَرَ، بوَصِیةِ رَبِّكُمْ، وَ ذَكَّرْتُكُمْ بسُنَّة ِ نَبِیكُمْ. اے حاضرین مجلس میں تمہیں تمہارے پروردگار کا حکم سناتا ہوں جو مجھے پہونچا ہے اور وصیت کرتا ہوں اورتمہیں تمہارے پغیمبر کی سنت یاد دلاتا ہوں-
فَعَلَیكُمْ برَهْبَةٍ تُسَكِّنُ قُلُوبَكُمْ وَ خَشْیةٍ تُذرِی دُمُوعَكُمْ وَ تَقِیةٍ تُنْجِیكُمْ قَبْلَ یوْمٍ یذهِلُكُمْ وَ یبْتَلِیكُمْ، یوْمَ یفُوزُ فِیهِ مَنْ ثـَقـُلَ وَزْنُ حَسَنَتِهِ وَ خَفَّ وَزْنُ سَیئَتِهِ. تمھیں چاہیے کہ خدا سے ایسا ڈرو کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں اور ایسی پرہیزگاری اختیار کرو کہ جو تم کو نجات دلاۓ قبل اس کے آزمائش کا دن آ جاۓ اور تم پریشانی میں گم ہو جاؤ اس روز وہی شخص دستگار ہو گا جس کے ثواب کا پلہ بھاری اور گناہوں کا پلہ ہلکا ہوگا۔
وَ [لْتَكُن مَسألَتُكُم] مَسْأَلَةَ ذ ُلٍّ وَ خُضُوعٍ، وَ تَمَلّـُقٍ [و شُکرٍ] وَ خُشُوعٍ، وَ تَوْبَةٍ وَ نُزُوعٍ، [و نـَدَمٍ و رُجوعٍ]. تم کو چاہیۓ کہ جب بھی اس سے دعا کرو تو بہت ہی عاجزی اور گڑگڑا کے توبہ اور خوشامد اور ذلت کے ساتھ کرو اور دل سے گناہوں کا خیال دور کر کے ندامت کے ساتھ خدا کی طرف رجوع ہو۔
وَ لْیغْتَنِمْ كُلّ ٌمِنْكُمْ صِحَّتَهُ قَبْلَ سُقْمِهِ، وَ شَیبَتَهُ قَبْلَ هَرَمِهِ، وَ سَعَتَهُ قَبْلَ فَقرِهِ، وَ فَرْغَتَهُ قَبْلَ شُغُلِهِ، وَ حَضَرَهُ قَبْلَ سَفَرِهِ، وَ حَیاتَهُ قَبْلَ مَوْتِهِ، قَبْلَ یهِنَ وَ یهْرَمَ، وَ یمْرَضَ وَ یسْقَمَ، وَ یمِلَّهُ طَبِیبُهُ وَ یعْرِضَ عَنْهُ حَبِیبُهُ، وَ ینْقَطِعَ عُمُرُهُ وَ یتَغَیرَ عَقْلُهُ، ثُمَّ قِیلَ: “هُوَ مَوْعُوکٌ وَ جِسْمُهُ مَنْهُوکٌ!”، ثُمَّ جَدَّ فِی نَزْعٍ شَدِیدٍ، وَحَضَرَهُ كُلُّ قَرِیبٍ وَ بَعِیدٍ، فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ وَ طَمَحَ بِنَظَرِهِ، وَ رَشَحَ جَبِینُهُ وَ سَكَنَ حَنینُهُ، وَ جَدَبَتْ نَفْسُهُ، وَ بَكَتْ عِرْسُهُ وَ حَضَرَ رَمْسُهُ، وَ یتِمَ مِنْهُ وَلَدُهُ وَ تَفَرَّقَ عَنْهُ عَدَدُهُ، وَ فُصِمَ جَمْعُهُ وَ ذَهَبَ بَصَرُهُ وَ سَمْعُهُ، وَ جُرِّدَ وَ غُسِّلَ وَ عُرِی، وَ نُشِّفَ وَ سُجِّی، وَ بُسِطَ لَهُ وَ هُیئَ، وَ نُشِرَ عَلَیهِ كَفَنُهُ وَ شُدَّ مِنْهُ ذَقَنُهُ، [وَ قُمِّصَ و عُمِّمَ، وَ لـُفَّ و وُدِّعَ وَ سُلـِّمَ]؛

تم کو چاہیے کہ بیماری سے قبل صحت کو اور بڑھاپے سے پہلے جوانی کو فقر سے پہلے فراغ بالی کو اور سفر سے پہلے حضر کو اور کام میں مشغول ہونے سے پہلے فراغت کو غنیمت جانو ایسا نہ ہو کہ پیری آ جاۓ اور تم سب کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاؤ یا مرض حاوی ہو جاۓ اور طبیب رنج میں مبتلا کرے اور احباب روگردانی کریں عمر منقطع ہو جاۓ اور عقل میں فتور آ جآۓ پھر کہا جاتا ہے کہ بخار کی شدت سے حالت خراب ہو گئی اور جسم لاغر ہو گیا پھر جان کنی کی سختی ہوتی ہے اور قریب و بعید کا ہر اس کے پاس آتا ہے اور اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں پتلیاں پھر جاتی ہیں پیشانی پر پسینہ آتا ہے ناک ٹیڑھی ہو جاتی ہے اور روح قبض ہو جاتی ہے اس کی زوجہ رونے پیٹنے لگتی ہے قبر کھودی جاتی ہے اور اس کے بچے یتیم ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ (یعنی ساتھی) متفرق ہو جاتے ہیں۔ اعضا شکستہ ہو جاتے ہیں اور بینائی و سماعت جاتی رھتی ہے پھر اس کے سیدھا الٹا دیتے ہیں اور لباس اتار کر غسل دیا جاتا ہے اور کپڑے سے جسم پونچھتے ہیں اور خشک کر کے اس پر چادر ڈال دی جاتی ہے اور ایک بچھا دی جاتی ہے اور کفن لایا جاتا ہے اور عمامہ باندہ کر رخصت کر دیتے ہیں۔

وَ حُمِلَ فَوْقَ سَرِیرٍ، وَ صُلِّی عَلَیهِ بِتَکْبِیرٍ، بِغَیرِ سُجُودٍ وَ تَعْفِیرٍ، وَ نُقِلَ مِنْ دُورٍ مُزَخْرَفَةٍ وَ قُصُورٍ مُشَیدَةٍ وَ فُرُشٍ مُنَجَّدَةٍ وَ حُجَرٍ مُنَضَّدَةٍ، فَجُعِلَ فِی ضَرِیحٍ مَلْحُودٍ، ضَیقٍ مَرْصُودٍ، بِلَبِنٍ مَنْضُودٍ، مُسَقَّفٍ بِجُلْمُودٍ! اور پھر جنازہ اٹھایا جاتا ہے اور بغیر سجدہ و تعفیر کے صرف تکبیر کے ساتھ اس پر نماز پڑھی ہی جاتی ہے آراستہ طلا کر اور مضبوط محلوں سے نفیس فرش والے کمروں سے لا کر اس کو تنگ لحد میں ڈال دیتے ہیں او رتہ بہ تہ اینٹوں سے قبر بنا کر پتھر سے پاٹ کر اس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔
وَ هِیلَ عَلَیهِ [حَفَرُهُ] وَ حُثِی [عَلَیهِ] مَدَرُهُ وَ تَحَقَّقَ حَذَرُهُ وَ نُسِی خَبَرُهُ، وَ رَجَعَ عَنْهُ وَلِیهُ وَ نَدِیمُهُ، وَ نَسِیبُهُ وَ حَمِیمُهُ، وَ تَبَدَّلَ بِهِ قَرِینُهُ وَ حَبِیبُهُ، فَهُوَ حَشْوُ قَبْرٍ وَ رَهِینُ [قَفرٍ]! یدِبُّ فِی جِسْمِهِ دُودُ قَبْرِهِ وَ یسِیلُ صَدِیدُهُ مِنْ مَنْخَِرِهِ، وَ تَسْحَقُ تُرْبَتُهُ لَحْمَهُ، وَ ینْشَفُ دَمُهُ وَ یرَمُّ عَظْمُهُ، حَتَّی یوْمِ حَشْرِهِ، [فَینْشَرُ] مِنْ قَبْرِهِ، وَ ینْفَخُ فِی الصُّورِ، وَ یدْعَیٰ لِحَشْرٍ وَ نُشُورٍ، فَثَمَّ بُعْثِرَتْ قُبُورٌ، وَ حُصِّلَتْ سَرِیرَةٌ فِی صُدُورٍ؛ اور ڈھیلوں سے پر کر دی جاتی ہے ۔ میت پر وحشت چھا جاتی ہے مگر کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ دوست و عزیز اس کو چھوڑ کر پلٹ جاتے ہیں اور سب بدل جاتے ہیں اور مردہ قبر پر کیڑے دوڑتے پھرتے ہیں اس کی ناک سے پیپ بہنے لگتی ہے اور اس کا گوشت خاک ہونے لگتا ہے اس کا خون دونوں پہلوں میں خشک ہو جاتا ہے اور ہڈیاں بوسیدہ ہو کر مٹی ہونے لگتی ہیں وہ روز قیامت تک اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ خدا پھر اس کو زندہ کر کے قبر سے اٹھاتا ہے۔ جب صور پھونکا جاۓ گا تو وہ قبر سے اٹھے گا اور میدان حشر و نشر میں بلایا جاۓ گا اور اس وقت اہل قبور زندہ ہوں گے اور قبر سے نکالے جائیں گے اور ان کے سینہ کے راز ظاھر کیۓ جائیں گے۔
وَ جِیءَ بِكُلِّ نَبِی وَ صِدِّیقٍ، وَ شَهِیدٍ وَ مِنْطِیقٍ، وَ [تَوَلـَّیٰ] لِفَصْلِ حُکْمِهِ [رَبٌّ] قَدِیرٌ، بِعَبْدِهِ خَبِیرٌ بَصِیرٌ؛ فَكَمْ [مِن] زَفرَةٍ تُضنیهِ وَ حَسْرَةٍ تُنضیهِ، فِی مَوْقِفٍ مَهِیلٍ [عَظیمٍ]، وَ مَشْهَدٍ جَلِیلٍ [جَسیمٍ]، بَینَ یدَی مَلِکٍ [كَریمٍ]، بِكُلِّ صَغِیرَةٍ وَ كَبِیرَةٍ عَلِیمٍ؛ اور پر نبی صدیق و شہید حاضر کیا جاۓ گا اور فیصلہ کے لیۓ رب قدیر جو اپنے بندوں کے حالات سے آگاہ ہے جدا جدا کھڑا کرے گا۔ پھر بہت سی آوازیں اس کو پریشانی میں ڈال دیں گی اور خوف و حسرت سے وہ لاغر ہو جاۓ گا اور اس بادشاہ عظیم کے سامنے جو پر چھوٹے اور بڑے گناہ کو جانتا ہے۔
فَحِینَئِذٍ یلْجِمُهُ عَرَقُهُ وَ [یحفِزُهُ] قَلَقُهُ، فَعَبْرَتُهُ غَیرُ مَرْحُومَةٍ وَ صَرْخَتُهُ غَیرُ مَسْمُوعَةٍ [وَ حُجَّتـُهُ غَیرُ مَقبُولَةٍ]، وَ بَرَزَتْ صَحِیفَتُهُ وَ تَبَینَتْ جَرِیرَتُهُ، [وَ نَطَقَ كُلُّ عُضوٍ مِنهُ] بِسُوءِ عَمَلِهِ، وَ شَهِدَتْ عَینُهُ بِنَظَرِهِ، وَ یدُهُ بِبَطْشِهِ، وَ رِجْلُهُ بِخَطْوِهِ، وَ جِلْدُهُ بِلَمْسِهِ وَ فَرْجُهُ بِمَسِّهِ؛ ڈرتا ہوا جاضر ہو گا اس وقت گناہوں کی شرم سے اس قدر پسینہ بہے گا کہ منہ تک آ جاۓ گا اور اس کو اس سے قلق ہو گا۔ وہ بہت کچھ آہ و فریاد کے گا مگر کوئی شنوائی نہ ہو گی اس اور اس کے سب گناہ ظاھر کر دیۓ جائیں گے اور اس کا نامہء اعمال پیش کیا جاۓ گا ۔ پش وہ اپنے اعمال بد کو دیکھے گا اور اس کی بدنظری کی اور ہاتھ بیجا مارنے کی اور پاؤں (برے کام کے لیۓ) جانے کی اور شرم گاہ بدکاری کی اور جلد مس کرنے کی گواہی دیں گے۔
وَ یهَدِّدُهُ مُنْكَرٌ وَ نَكِیرٌ، وَ كُشِفَ [عَنهُ] حَیثُ یصِیرُ، فَسُلْسِلَ جِیدُهُ وَ غُلَّتْ یدُهُ، فَسِیقَ یسْحَبُ وَحْدَهُ، فَوَرَدَ جَهَنَّمَ [بِكَربٍ] شَدِیدٍ، وَ ظَلَّ یعَذَّبُ فِی جَحِیمٍ، وَ یسْقَی شَرْبَةً مِنْ حَمِیمٍ، تَشْوِی وَجْهَهُ وَ تَسْلَخُ جِلْدَهُ، [یضرِبُهُ زَبینـَتـُهُ بِمِقمَعٍ مِن حَدیدٍ، یعُودُ جِلدُهُ بَعدَ نَضجِهِ بِجِلدٍ جَدیدٍ]، یسْتَغِیثُ فَیعْرِضُ عَنْهُ خَزَنَةُ جَهَنَّمَ، وَ یسْتَصْرِخُ فَیلْبَثُ حُقْبَهُ بِنَدَمٍ؛ پھر اسے نکیر اور منکر ڈرائیں گے۔ اس سے پردہ اٹھایا جائے گا پس اس کی گردن میں زنجیر ڈال دی جاۓ گی اور مشکیں باندھ دی جائیں گی۔ پھر کھینچ کر جہنم میں ڈال دیا جاۓ گا اور وہ روتا پیٹتا داخل جہنم ہو گا ۔ جہاں اس پر سخت عذاب کیا جاۓ گا ۔ جہنم کا کھولتا ہوا پانی اس کو پینے کو ملے گاجس سے اس کا منہ جل جاۓ گا۔ اس کی کھال نکل جاۓ گی۔ فرشتہ آہنی گرزوں سے اس کو ماریں گے اور کھال اڑ جانے کے بعد نئ کھال پھر پیدا ہوگی وہ بہت کچھ آہ و فریاد کرے گا مگر خزانہ جہنم کے فرشتے اس کی طرف سے منہ پھیر لیں گے ۔ اس طرح ایک مدت دراز تک وہ عذاب میں مبتلا اور نادم رہے گا اور استغاثہ کرتا رہے گا۔
نَعُوذُ بِرَبٍّ قَدِیرٍ مِنْ شَرِّ كُلِّ مَصِیرٍ، وَ نَسْأَلُهُ عَفْوَ مَنْ رَضِی عَنْهُ، وَ مَغْفِرَةَ مَنْ قَبِلَ مِنْهُ؛ فَهُوَ وَلِی مَسْأَلَتِی وَ مُنْجِحُ طَلِبَتِی؛

میں پروردگار قدیر سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھے پر مضر شۓ کے شر سے محفوظ رکھے اور میں اس سے ایسی معافی کا خواستگار ہوں جیسے اس نے کسی شخص سے راضی ہو کر اس کو عطا کی ہو اور ایسی مغفرت چاہتا ہوں جو اس نے قبول فرمائی ہو۔

پس وہی میری خواہش پوری کرنے والا اور مطلب کا بر لانے والا ہے۔
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنْ تَعْذِیبِ رَبِّهِ جُعِلَ فِی جَنَّتِهِ بِقُرْبِهِ، وَ خُلِّدَ فِی قُصُورٍ وَ نِعَمِهِ، وَ [مُكِّنَ مِن] حُورٍ عِینٍ وَ حَفَدَةٍ [وَ طِیفَ عَلَیهِ بِكُؤُوسٍ، وَ سَكَنَ حَظیرَةً مُشَیدَةً وَ مَكُنَ فِردَوسَ]، وَ تَقَلَّبَ فِی نَعِیمٍ وَ سُقِی مِنْ تَسْنِیمٍ، [وَ شَرِبَ مِن عَینِ سَلسَبیلٍ مَمزوجَةٍ بِزَنجَبیلٍ]، مَخْتُومَةٍ بِمِسْکٍ وَ [عَبیرٍ، مُستَدیمٌ لِلحُبُورِ، مُستشعِرٌ لِلسُّرورِ، یشرَبُ مِن خُمُورٍ، فی رَوضٍ مُشرِقٍ مُغدِقٍ، لَیسَ یصدَعُ مَن شَرِبَهُ]، یشْرَبُ مِنْ خَمْرٍ مَعْذُوبٍ شُرْبُهُ، لَیسَ ینْزَفُ لُبُّهُ؛ جو شخص مستحق عذاب نہیں ہے وہ بہشت کے مضبوط محلوں میں ہمیشہ رہے گا اور حورعین و خادم اس کی ملک ہوں گے جام ہاۓ کوثر سے سیراب ہو گا اور خطیرہء قدس میں مقیم ہو گا۔ نعمت ہاۓ بہشت میں متصرف رہے گا اور نہر تسنیم کا پانی پیۓ گا اور چشمہ سلسبیل سے جس میں سونٹہ ملی ہوئی ہے اور مشک و عنبر کی مہر لگی ہوئی ہے سیراب ہو گا اور وہاں کا دائمی مالک ہوگا وہ معطر شراب پیۓ گا مگر اس سے خمار ہو گا اور نہ حواس میں فتور.
هَذِهِ مَنْزِلَةُ مَنْ خَشِی رَبَّهُ وَ حَذَّرَ نَفْسَهُ، وَ تِلْكَ عُقُوبَةُ مَنْ عَصَی مُنْشِئَهُ وَ سَوَّلَتْ لَهُ نَفْسُهُ مَعْصِیةَ مُبْدِئِهِ؛ لَهُوَ ذَلِكَ قَوْلٌ فَصْلٌ وَ حُکْمٌ عَدْلٌ، خَیرُ قَصَصٍ قُصَّ وَ وُعِظَ بِهِ وَ نُصَّ، تَنْزِیلٌ مِنْ حَكِیمٍ حَمِیدٍ، نَزَلَ بِهِ رُوحُ قُدُسٍ مُبینٍ، عَلیٰ نَبِی مُهتَدٍ مَکینٍ، صَلَّت عَلَیهِ رُسُلٌ سَفَرَةٌ مُكَرَّمُونَ بَرَرَةٌ؛ یہ منزلت اس شخص کی ہے جو خدا سے ڈرتا اور گناہوں سے تچتا ہے اور وہ عذاب اس شخص کے لیۓ ہے جو اپنے خالق کی نافرمانی کرتا اور خواہشات نفسانی سے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے پس یہی قول فصیل اور عادلانہ حکم ہے اور بہترین قصہ و نصحت ہے جس کی صراحت خداوند حکیم و حمید نے اس کتاب میں فرمائی ہے جو روح القدس نے ہدایت یافتہ راست باز پیغمبر کے قلب پر نازل کیا.
عُذتُ بِرَبٍّ رَحیمٍ مِن شَرِّ كُلِّ رَجیمٍ، فَلْیتَضَرَّعْ مُتَضَرِّعُكُم و لْیبتَهـِلْ مُبتَهـِلُكُمْ، فَنَستَغفِرُ رَبَّ كُلِّ مَربُوبٍ، لی وَ لَكُمْ میں پروردگار رحیم سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھ کو ہر دشمن لعین و رجیم کے شر سے بچاۓ پس اس کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والوں کو چاہیۓ کہ عاجزی کریں اور دعا کرنے والے دعا کریں اور تم میں سے ہر شخص میرے اور اپنے لیۓ استغفار کرے میرا پروردگار تنہا میرے لیے بس ہے۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن‌شہرآشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۴۸۔
  2. احسانی‌فر، دوشاهکار علوی، ص۱۹.
  3. ملاحظہ کریں:احسانی‌فر، دوشاہکار علوی، ص۵۵-۱۴۰۔
  4. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۹، ص۱۴۰-۱۴۳۔
  5. دیلمی، اعلام‌الدین، ۱۴۰۸ق، ص۷۲-۷۳۔
  6. کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۷۴۱-۷۴۵۔
  7. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۴، ص۳۴۱-۳۴۳۔
  8. خویی، منہاج‌البراعہ، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۲۱۰-۲۱۵۔
  9. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۴، ص۳۴۳۔

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ‌اللہ، شرح نہج البلاغہ، قم، مکتبۃ آیۃ‌اللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • ابن‌شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل‌ابی‌طالب علیہم‌السلام، علامہ، قم، ۱۳۷۹ھ۔
  • احسانی‌فر لنگرودی، محمد، «یک کتاب در یک مقالہ (دو شاہکار علوی) پژوہشی دربارہ خطبہ‌ہای بی‌الف و بی‌نقطہ امیرالمؤمنین»، علوم حدیث، شمارہ ۲۹، پاییز ۱۳۸۲ش۔
  • احسانی‌فر لنگرودی، محمد، دوشاہکار علوی، بی‌جا، بی‌تا۔
  • خویی، میرزا حبیب‌اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ، ترجمہ حسن حسن‌زادہ آملی و محمدباقر کمرہ‌ای، تصحیح ابراہیم میانجی، تہران، مکتبۃالاسلامیۃ، ۱۴۰۰ھ۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، تصحیح مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌السلام، قم، مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌السلام، ۱۴۰۸ھ۔
  • رضایی، سید عبدالحسین، ترجمہ جلد ہفدہم بحارالانوار الروضہ در مبانی اخلاق از طریق آیات و روایات، تہران، اسلامیہ، ۱۳۶۴ش۔
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، المصباح، قم، دارالرضی (زاہدی)، ۱۴۰۵ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔