احرام

فاقد تصویر
غیر جامع
ویکی شیعہ سے

احرام ایک فقہی اصطلاح اور حج و عمرہ کا پہلا واجب رکن ہے جو نیت اور تلبیہ کے ساتھ محقق ہوتا ہے۔ احرام مقررہ جگہوں سے باندھا جاتا ہے جسے میقات کہا جاتا ہے۔ جو شخص احرام کی حالت میں ہو اسے مُحرِم کہا جاتا ہے۔ مُحرِم کے خاص احکام ہیں من جملہ یہ کہ احرام کی حالت میں بعض امور کی انجام دہی اس پر حرام ہیں جنہیں محرمات احرام کہا جاتا ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

احرام کا لفظ "ح ر م" کے مادے سے ان معانی میں آتا ہے: منع کرنا اور روکنا؛[1] کسی حریم میں داخل ہونا جس کی ہتک حرمت جائز نہیں،[2] مثلا حرم یا حرام مہینے،[3] خاص عہد و پیمان۔[4]

فقہی منابع میں "احرام" کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ بعض اسے خارجی اور بیرونی اعمال میں سے قرار دیتے ہوئے اس کے معنی کو احرام کا لباس پہن کر تلببہ پڑھتے ہوئے حج اور عمرہ کے اعمال میں داخل ہونا بیان کیا ہے۔[5] [6] جبکہ اس کے مقابلے مبں بعض اسے ایک قلبی عمل قرار دیتے ہوئے مخصوص محرمات کو ترک کرنے کی قصد کے ساتھ حج و عمرہ کے اعمال میں داخل ہونے سے تعریف کی ہیں۔ [7] [8] [9]

اس کام کو اسلئے احرام کہا جاتا ہے کہ مُحرِم بعض چیزوں جو اس سے پہلے اس پر حلال تھیں،[10] یا ایسے کام جو حج و عمرہ کے اعمال سے ناسازگار ہیں، کو اپنے اوپر حرام قرار دیتا ہے۔[11] احرام کی حالت میں اس شخص کو "مُحْرِم"[12] کہا جاتا ہے اور قرآن کریم میں موجود لفظ "حُرُم" (جمع حرام) سے "مُحرِم" مراد لیا ہے:يَا أَيُّہا الَّذِينَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُم بَہيمَة الأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللّہ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ (ترجمہ: ایمان والو اپنے عہد و پیمان اور معاملات کی پابندی کرو تمہارے لئے تمام چوپائے حلال کردیئے گئے ہیں علاوہ ان کے جوتمہیں پڑھ کر سنائے جارہے ہیں. مگر حالت احرام میں شکار کو حلال مت سمجھ لینا بے شک اللہ جو چاہتا حکم دیتا ہے)[13] اور يَا أَيُّہا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْتُلُواْ الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ (ترجمہ: ایمان والو حالت احرام میں شکار کو نہ مارو۔) [14]۔[15] احرام حج اور عمرہ کے اہم واجبات میں سے ہے اور شیعہ فقہاء [16] اور اہل سنت فقہاء [17] کی نظر میں حج اور عمرہ کے ارکان میں شمار ہوتا ہے جس کا عمدا ترک کرنا حج اور عمرہ کے باطل ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اس بنا پر حج کے باب میں "احرام" ایک عمدہ مباحث میں سے ہیں۔

احرام تاریخ کے آئینے میں

بعض رویات کے مطابق احرام کی تاریخ اس زمانے سے شروع ہوتی ہے جب سے خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی اور حج کو باقاعدہ ایک عبادت کا درجہ دیا گیا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ خداوند عالم کسی بھی فرشتے کو روی زمین پر نہیں بھیجتا مگر یہ کہ اسے خانہ کعبہ کی زیارت کا حکم دیتا ہے اور وہ فرشتہ عرش الہی سے احرام باندھ کر تلیہ پڑھتے ہوئے خانہ کعبہ کی طرف اترتا ہے۔ [18] امام صادق(ع) سے منقول ایک حدیث کے مطابق حضرت آدم(ع) کے توبہ کے بعد جبرئیل نے آپ کو احرام اور تلبیہ سکھایا اور آپ کو حج کیلئے غسل کرنے اور احرام باندھنے کا کا حکم دیا۔[19] ایک اور حدیث کے مطابق جبرئیل نے حج کے اعمال سے پہلے احرام کی کیفیت سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کو آگاہ کیا اور احرام باندھنے کے بعد حج کا طریقہ انہیں تعلیم دیا۔ [20] ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ حضرت موسی حج کیلئے مصر کے شہر "رحلہ" سے محرم ہوئے[21] اور دو اونی کپڑے بطور احرام پہن کر تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ کی طرف حرکت کی۔[22] ایک اور حدیث میں حضرت موسی(ع) کے ساتھ 70 ہزار پیغمبروں کے احرام باندھنے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[23]

زمانہ جاہلیت میں بھی حج کیلئے احرام باندھنا مرسوم تھا اور کبھی کبھار اسے بعض خرافات کے ساتھ انجام دیتے تھے۔ مثلا ان خرافات میں سے ایک یہ تھا کہ یہ لوگ جب حج کیلئے احرام باندھتے تھے تو اپنے گھر سے خارج ہوتے وقت دروازے سے نکلنے کی بجائے گھر کی دیوار کو خراب کر کے وہاں سے نکلتے تھے اور اس کام کی توجیہ میں یہ کہتے تھے کہ احرام کی حالت میں جس طرح انسان کا لباس تغییر کرتا ہے اسی طرح گھر سے نکلنے کا طریقہ بھی متفاوت ہونا چاہئے۔[24] سورہ بقرہ کی آیت نمبر 189 میں خدا انہیں اس کام سے منع فرمایا ہے:[25] لَیسَ البِرُّ بِأَن تَأتُوا البُیوتَ مِن ظُہورِہا وَلَكِنَّ البِرَّ مَنِ اتَّقَی وَأتُوا البُیوتَ مِن أَبوَابِہا (ترجمہ: اور یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ مکانات میں پچھواڑے کی طرف سے آﺅ،بلکہ نیکی ان کے لئے ہے جو پرہیزگار ہوں اور مکانات میں دروازوں کی طرف سے آئیں اور اللہ سے ڈرو شاید تم کامیاب ہو جاﺅ زمانہ جاہلیت میں ان کا عقیدہ تھا کہ جن کپڑوں میں گناہ اور معصیت انجام دی ہے ان کے ذریعے احرام نہیں باندھنا چاہئے اور اسے کپڑوں میں طواف انجام نہیں دینا چاہئے؛[26] نیز وہ اس پر بھی عقیدہ رکھتے تھے کہ پہلا طواف قبیلہ حمس کے لیاس میں انجام دینا چاہئے اور اگر یہ لباس میسر نہ آتا تو برہنہ طواف کرتے تھے اسی طرح طواف کے بعد جن کپڑوں میں طواف انجام دیا تھا اسے دور پھینک دیتے تھے اور دوبارہ اسے نہیں پہنتے تھے۔[27] اسلام نے ان کاموں سے منع کیا اور قرآن کریم میں سورہ اعراف کی آیت نمبر 28 میں اسے ایک قسم کے برے اعمال میں شمار کی ہے جس کا خدا نے حکم نہیں دیا ہے۔[28]

اسلام میں احرام

اسلام میں بھی دوسرے ادیان الہی کی طرح عمرہ اور حج کے مناسک کیلئے احرام باندھنا تشریع ہوا۔ پیغمبر اکرم(ص) اور آپ کے اصحاب ان مناسک کی بجا آوری کیلئے سب سے پہلے "مُحرِم" ہوتے تھے۔ روایات میں آئی ہے کہ پیغمبر گرامی(ص) نے سنہ آٹھ ہجری کو مسلمانوں کی ایک گروہ کے ساتھ عمرہ کیلئے حدیبیہ سے احرام باندھا لیکن مشرکین مکہ کی ممانعت کی وجہ سے عمرہ انجام دینے میں کامیاب نہ ہوئے تو اونٹوں کی قربانی کرنے کے ذریعے احرام سے خارج ہوئے۔[29] اگلے سال آپ(ص) عمرہ کی قضاء بجا لانے کیلئے جُحْفہ سے محرم ہوئے،[30] اور ہجرت کے دسویں سال اپنی ہمسران اور بہت سارے مسلمانوں کے ساتھ یمنی لباس کے دو ٹکڑے بطور احرام پہن کر "ذوالحُلَیفَہ" سے محرم ہوئے۔[31]

پانچ میقات

تفصیلی مضمون: میقات

رسول خدا(ص) نے حج یا عمرہ کی قصد کرنے والوں کیلئے پانج میقات مقرر فرمائے ہیں جہاں سے احرام باندھنے کے ذریعے حج یا عمرہ شروع ہوتا ہے۔ حج یا عمرہ میں احرام کا کامل ہونا اور صحیح ہونا ان پانچ میقات میں سے کسی ایک سے احرام باندھنے میں ہے اور ان میقات سے بغیر احرام کے عبور نہیں کرنا چاہئے۔[32]

احرام کا فلسفہ اور حکمت

قرآن کریم، احادیث معصومین اور علماء کے اقوال میں احرام کیلئے بہت ساری حکمتیں مذکور ہیں۔ سروہ بقرہ کی آیت نمبر 197:فَمَن فَرَضَ فِیہنَّ الحَجَّ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ وَلا جِدَالَ فِی الحَجِّ وَمَا تَفعَلُوا مِن خَیرٍ یعلَمہ اللَّہ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیرَ الزَّادِ التَّقوَی وَاتَّقُونِ یا أُولِی الألْبَابِ (ترجمہ: حج چند مقررہ مہینوں میں ہوتا ہے اور جو شخص بھی اس زمانے میں اپنے اوپر حج لازم کرلے اسے عورتوں سے مباشرتً گناہ اور جھگڑے کی اجازت نہیں ہے اور تم جو بھی خیر کرو گے خدا اسے جانتا ہے اپنے لئے زادُ راہ فراہم کرو کہ بہترین زادُ راہ تقویٰ ہے اوراے صاحبانِ عقل! ہم سے ڈرو ایک حدیث میں احرام تشریع ہونے کی وجہ اور علت کو حجاج کا حرم مکی میں داخل ہونا ذکر ہوا ہے۔[33]

بعض احادیث میں حرم الہی میں داخل ہونے سے پہلے "احرام" واجب ہونے کا فلسفہ اور اس کی حکمت خضوع و خشوع کی حالت پیدا کرنا، دنیاوی کاموں اور لذتوں سے کناکشی اختیار کرنا اور سختیوں پر صبر پیشہ کرنا قرار دیا ہے۔[34] احرام کے مقدمات میں سے ہر ایک بھی مخصوص حکمت اور فلسفہ رکھتی ہیں۔ مثلاً احرام سے پہلے سر اور دھاڑھی کے بال چھوٹا نہ کرنے کی سفارش، [35] اس وجہ سے ہے حاجی اپنے آپ کو فراموش کرے اور صرف خدا کی طرف متوجہ ہو۔ غسل احرام کا فلسفہ ظاہری آلودگیوں سے پاک و منزہ ہونے کے علاوہ باطنی اور نفسانی آلودگیوں سے بھی پاک و پاکیزہ ہوکر خدا کے گھر کی طرف جانا ہے۔[36]

سلے ہوئے کپڑوں کو اتار کر احرام کا لباس اوڑنے کی وجہ گناہ، نفاق اور ریاکاری کا لباس اتار کر خدا کی اطاعت اور بندگی کا جامہ زیب تن کرنا ہے۔[37] سادہ اور ایک ہی رنگ کے لباس پہننے کی وجہ امتیازی سلوک اور طبقاتی نظام کا خاتمہ[38] و نیز موت اور قیامت کو یاد کرنا؛ جس دن تمام انسان ایک سادہ اور یکساں لباس پہن کر محشور ہونگے۔[39] تلبیہ خدا کی دعوت کا خالصانہ جواب [40] حق اور خدا کی اطاعت میں زبان کھولنا اور باطل اور معصیت سے پرہیز کرنا[41] اور خوف و رجا کی حالت پیدا کرنا؛ خوف اس بات سے کہ شاید خدا اس کے جواب کو قبول نہ کرے اور امید اس بات پر کہ خدا اس کے جواب کو مورد قبول قرار دے گا۔[42] احادیث میں آیا ہے کہ امام سجاد(ع) کے چہرہ اقدس کا رنگ "تلبیہ" پڑھتے وقت پیلا پڑ جاتا تھا اور آپ(ع) کا جسم اطہر کانپنے لگتا تھا اور جب آپ سے اس حالت کے بارے میں استفسار کیا گیا تو فرمایا: مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہ خدا میرے لیبک کے جواب میں کہیں یہ نہ کہے "لالَبَّیكَ وَ لاسَعْدَیک"۔ [43] نیز یہ بھی نقل ہوا ہے کہ "تلبیہ" پڑھتے وقت آپ کبھی سواری سے گرنے کا خطرہ ہوتا تھا۔[44]

محرمات احرام میں سے ہر ایک کیلئے اسرار و رموز کا حامل ہے۔ مثلاً شکاری حرام ہونے کی وجہ، اطاعت گزار اور نافرمان انسان کو پہچاننے کا امتحان اور آزمایش ہے[45]۔ لَیبْلُوَنَّكُمُ اللَّہ بِشَیءٍ مِنَ الصَّیدِ تَنَالُہ أَیدِیكُم وَرِمَاحُكُم لِیعْلَمَ اللہ مَن یخَافُہ بِالغَیبِ... (ترجمہ: ایمان والو !اللہ ان شکاروں کے ذریعہ تمہارا امتحان ضرور لے گا جن تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہنچ جاتے ہیں تاکہ وہ یہ دیکھے کہ اس سے لوگوں کے غائبانہ میں بھی کون کون ڈرتا ہے پھر جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا اس کے لئے دردناک عذاب ہے) [46] مردوں کیلئے سایہ میں جانا حرام قرار دیا تاکہ ان میں سورج کی گرمی میں صبر و تحمل دکھانے کے سبب ان کے گناہ معاف کئے جائیں۔[47] آینہ دیکھنا اور سرمہ لگانا اس لئے حرام ہوا ہے انسان دنیاوی زینت اور اپنے آپ پر توجہ دینے سے باز آئے۔[48] حمل سلاح کی ممانعت اس لئے ہے تاکہ سب کیلئے امنیت اور آسائش فراہم ہو اور صلح و صفا اور ایک دوسرے کی احترام کی فضا کم از کم حج کے دوران قائم ہو۔[49]

موارد وجوب احرام

شیعہ و اہل سنت فقہاء قرآن کی آیات اور احادیث سے استناد کرتے ہوئے "احرام" کو چند موارد میں واجب قرار دیا ہے:

  1. حج اور عمرہ کی ادائیگی: تمام شیعہ[50] اور اہل سنت [51] فقہاء "احرام" کو حج اور عمرہ کے واجبات اور مناسک حج و عمرہ میں سے سب سے پہلا عمل قرار دیتے ہیں۔ بعض شیعہ فقہاء کے مطابق میقات سے بغیر احرام کے عمدا عبور کرنا حج کے باطل ہونا کا سبب ہے۔[52] اکثر شیعہ فقہاء کے مطابق [53] اس صورت میں حاجی پر واجب ہے کہ وہ واپس آئے اور مقررہ میقات سے "احرام" باندھے اور وہاں سے محرم ہو۔ اکثر اہل سنت فقہاء کے مطابق بھی اگر حاجی احرام کو ترک کرے تو ہر حالت میں دوبارہ میقات واپس آکر کر محرم ہونا واجب ہے ورنہ کفارے کی طور پر قربانی کرے۔[54]
  2. حرم مکہ میں داخل ہوتے وقت: بعض شیعہ [55] اور اہل سنت[56] فقہاء کے نزدیک "حرم مکی" میں بغیر احرام کے داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ اس نظریے کی سند وہ روایات ہیں جو احرام کے واجب ہونے کی علت کو حرم مکی کا احترام اور تقدس قرار دیتے ہیں۔[57] اسی طرح وہ احادیث جو بغیر احرام کے حرم میں داخل ہونے کو جائز نہیں سمجھتے۔[58]
  3. مکہ میں داخل ہوتے وقت: شیعہ اور[59] اکثر اہل سنت[60] فقہاء کے نزدیک جو شخص مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ احرام کے ساتھ مکہ میں داخل ہو اگر چہ سال میں دو یا تین بار مکے میں داخل کیوں نہ ہو۔[61] بعض اہل سنت فقہاء مکہ میں داخل ہونے کیلئے احرام کو مستحب قرار دیتے ہیں۔[62]

موارد استثنا

بعض مواقع پر مکہ میں داخل ہونے کیلئے احرام واجب نہیں ہے منجملہ ان موارد میں:

  • وہ لوگ جو بار بار مکے میں داخل ہوتے ہیں؛ جیسے تاجر یا وہ اشخاص جو اہل مکہ کیلئے اشیاء خورد و نوش یا دوسرے ضروری اشیاء فراہم کرتے ہیں۔[63]
  • بیمار حضرات؛ خاص حدیث کے ساتھ استناد کرتے ہوئے۔[64]
  • وہ شخص جو شرعا جائز جنگ کیلئے مکہ میں داخل ہو۔[65]
  • وہ شخص جس کے پہلے احرام سے ایک ماہ نہ گزرا ہو۔[66][67] خواہ پہلا احرام عمرہ مفردہ کیلئے ہو یا عمرہ تمتع یا حج کیلئے۔[68]
  • وہ شخص جو کسی ظالم یا جنگ کی خوف سے مکہ میں پناہ لے آئے۔[69]

مقررہ میقات سے پہلے احرام باندھنا

شیعوں کی نزدیک میقات سے پہلے احرام باندھنا جائز نہیں ہے،[70] مگر یہ کہ میقات سے پہلے احرام باندھنے کا نذر یا عہد کیا ہو تو اس صورت میں یہ جائز ہے [71] اگرچہ بعض فقہاء ایسے نذر اور عہد کے صحیح ہونے کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی احرام کو میقات سے ہی باندھنا چاہئے۔[72] موجودہ دور میں جہاز میں سفر کرنے والے حضرات جہاز یا ایرپوٹ سے ہی لباس احرام باندھتے ہیں تاکہ مقررہ میقات میں سے کسی ایک کے اوپر سے گذرتے وقت احرام کی حالت میں رہے لیکن بعض فقہاء کے نزدیک ہوائی سفر کرنے والے مسافرین پر ایسا کرنا واجب نہیں ہے بلکہ جدہ پہنچنے کے بعد حدیبیہ سے محرم ہو سکتے ہیں یا نذر کی صورت میں خود جدہ ہی سے احرام باندھنا کافی ہے۔[73]

حج کیلئے احرام باندھنے کی مدت

حج کیلئے معینہ مدت شوال، ذوالقعدہ اور ۹ ذی الحجہ تک ہے اور آیہ شریفہ "الحج اشہر معلومات‌"[74] اور اس عبادت کو معینہ مدت میں انجام دینا واجب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت سے پہلے یا بعد میں احرام باندھنا صحیح نہیں ہے۔[75] لیکن عمرہ کیلئے احرام پورے سال میں جائز ہے سوائے مناسک حج کے ایام کے۔ [76] حنفی، مالکی اور حنبلی مذاہب میں حج کیلئے مذکورہ مہینوں کے علاوہ بھی احرام جائز ہے منتہی مکروہ ہے۔[77] لیکن ابن حزم اس نظریے کے باکل مخالف ہیں اور مذکورہ مہینوں کے علاوہ احرام کو جائز نہیں سمجھتے ہیں.[78]

لباس احرام

  • مُحرِم جو لباس بطور احرام استعمال کرتا ہے اسے پاک ہونا شرط ہے اسی طرح اس کا حرام گوشت حیوان کے جلد، اون یا بال سے نہیں ہونا چاہئے۔ [79]
  • اگر عورت اپنے جسم پر مذکورہ شرائط کے ساتھ کوئی لباس پہنی ہوئی ہو تو اسی میں "مُحرِم" ہو سکتی ہے لیکن مرد اپنے لباس میں اگر چہ مذکورہ شرائط پائی جاتی ہوں "محرم" نہیں ہو سکتا یعنی لباس احرام کو سلا ہوا یا ریشم کے جنس میں سے بھی نہیں ہونا شرط ہے لیکن عورت ریشم اور سلے ہوئے کپڑے میں محرم ہو سکتی ہے۔[80]
  • مرد محرم ایک کپڑا اپنی کمر کے گرد باندھ دیتا ہے جسے "ازار‌" کہا جاتا ہے جبکہ ایک اور کپڑے کو اپنے کاندے پر ڈال دیت ہے جسے "رداء‌" کہا جاتا ہے۔ ازار کو ناف سے لے کر زانو تک ہونا چاہئے ۔ [81]
  • ردا کو ہر دو کاندں پر ڈالا جاتا ہے۔ آیا توشح(کپڑے کو دائیں بغل کے نیچے سے عبور دے کر بائیں کاندی پر ڈال دینا یا برعکس کو توشح کہا جاتا ہے) صحیح ہے یا نہیں علماء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض فقہا اسے جائز قرار دیتے ہیں [82] لیکن بعض اسے جائز نہیں سمجھتے.[83]
  • لباس احرام زنان و ازار مردان نباید بدن‌نما باشد. اما در مورد ردا برخی‌ گفتہ‌اند کہ بہتر است آن ہم بدن‌نما نباشد و گروہی دیگر ہم گفتہ‌اند کہ احتیاط این است کہ بدن‌نما و نازک نباشد.[84]

واجبات احرام

نیت، تلبیہ اور لباس احرام پہننا جو تقریبا ایک ساتھ انجام پاتے ہیں، احرام کے واجبات میں سے ہیں۔

  • نیت: حج یا عمرہ کی نیت میں قصد قربت کے ساتھ اس کی نوعیت یعنی تمتع، قران اور افراد اسی طرح وجوب یا استحباب نیز یہ کہ حجۃالاسلام ـ استطاعت حاصل ہونے کے بعد پہلا حج ـ ہے یا حج کی کوئی اور قسم جیسے حج مستحبی، نذری، یا نیابتی وغیرہ کو معین کرنا ضروری ہے۔ اس بنا پر اگر نیت میں عمدا یا سہوا کوئی خلل ایجاد ہو جائے تو احرام باطل ہو جاتا ہے۔[85]
  • نیت کو تلبیہ یعنی چار تکبیر کے ساتھ شروع کرنا ضروری ہے۔ اگر احرام حج تمتع یا حج افراد کیلئے ہو تو تلبیہ کے بغیر اصلا احرام منعقد نہیں ہو تا ہے۔ لیکن حج قران میں تلبیہ یا تقلید یا اشعار میں سے جس کو چاہے انتخاب کرنے میں مخیر ہے۔ احرام اور تلبیہ، تقلید یا اشعار کی وہی نسبت ہے جو تکبیرۃ الاحرام کو نماز کے ساتھ ہے۔ [86] پس لباس احرام پہنے کے ساتھ تلبیہ‌ یعنی تکبیروں کو پڑھنا ضروری ہے "لَبَّیكَ اللّہمَّ لَبَّیكَ، لَبَّیكَ لاشَریكَ لَكَ لَبَّیكَ، إنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃ لَكَ وَ الْمُلْكَ، لاشَریكَ لَكَ لَبَّیک[87]
  • مردوں کیلئے تلبیہ میں جہر مستحب ہے لیکن عورتوں کیلئے ان جملات کو آہستہ ادا کرنا ضروری ہے مگر یہ کہ کوئی نامحرم ان کی آواز نہ سنتا ہو تو اس صورت میں وہ بھی جہر کے ساتھ پڑھ سکتی ہیں۔[88]
  • سواری پر سوار ہوتے وقت یا سواری سے اترتے وقت نیز اوپر جاتے وقت یا نیچے آتے وقت اسی کسی سے ملاقات کے وقت یا نیند سے بیدار ہوتے وقت بطور خاص وقت سحر نیز ہر نماز کے بعد تلبیہ کو تکرار کرنا مستحب ہی لیکن جب مکہ کے گھر نظر آنے لگے تو تلبیہ کو قطع کرنا چاہئیے۔ بہتر ہے مستحب تکبیروں جیسے: "لَبَّیکَ ذَاالمَعارِجِ، لَبَّیکَ...‌" وغیر کو مناسک حج کی کتابوں میں مذکور طریقے کے مطابق انجام دینا چاہئیے۔[89]

مستحبات احرام

جو شخص احرام باندھنے کا قصد رکھتا ہے اسے احرام سے پہلے درج ذیل کاموں کو انجام دینا مستحب ہے:

  • بدن کو پاک و پاکیزہ کرنا؛
  • ناخن کاٹنا؛
  • مونچھوں کا چھوٹا کرنا؛
  • زیر بغل اور زیر ناف بالوں کو صاف کرنا؛
  • اگر حج کا ارادہ رکھتا ہو تو پہلی ذوالقعدہ سے لیکن اگر عمرہ مفردہ کا قصد رکھتا ہو تو ایک مہینہ پہلے سر اور چہرے کے بالوں کو چھوٹا نہ کرے۔
  • غسل کرنا مستحب ہ اسی طرح کسی فریضہ بطور خاص نماز ظہر کے بعد احرام باندھنا یا حتی نافلہ کے بعد احرام باندھنا مستحب ہے۔ [90] اگر چہ بعض فقہاء غسل کو احرام کے واجبات میں سے قرار دیتے ہیں۔[91]

محرمات

بعض چیزیں احرام باندھنے کے بعد "مُحرِم" پر حرام ہو جاتی ہیں جبکہ ان میں سے اکثر چیزیں عام حالت میں اس پر حلال تھیں، انہیں تروک محرمات احرام کہا جاتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

  1. صحرائی جانوروں کا شکار؛ چرندوں میں سے ہو یا پرندوں میں سے، ان کو مارنا یا ان کا شکار کرنا یا ان کا گوشت کھانا اگرچہ کسی اور نہ شکار کیا ہو، اسی طرح شکاری کی رہنمائی کرنا یا شکار کا راستہ روکنا اسی طرح بیابان میں رہنے والے پرندوں کے بچوں یا ان کے انڈوں کا کھانا اسی طرح صحرائی ملخ کا کھنا محرم پر حرام ہے۔ اگر محرم شکار کو ذبح تو وہ میتہ اور مردار کے حکم میں ہے جس کا کھانا محرم اور محلل دونوں پر حرام ہے۔[92] قرآن کی صریح حکم کے مطابق [93] حرم میں شکار کرنا محل اور محرم دونوں پر یکساں حرام ہے اور اس عمل پر کفارہ دینا واجب ہے جس کی تفصیل فقہی کتابوں میں مذکور ہیں۔
  2. جنسی رابطہ؛ چاہے دخول کی حد تک ہو یا فقط لمس کرنا اور بوسہ دینے کی حد تک ہو اسی طرح شہوت کے ساتھ عورتوں کی طرف نگاہ کرنا نیز کسی عورت کے ساتھ اپنے لئے عقد پڑھنا یا کسی دوسرے کی عقد میں گواہ بننا حرام ہے۔ [94] اگر احرم کی حالت میں کوئی عقد منعقد ہو تو یہ عقد باطل اور فاسد ہے۔[95]
  3. عطر یا خوشبو کا استعمال کلی طور پر خوشبو حرام ہے چاہے اسے کھانے میں استعمال کرے سوائے خلوق کعبہ کے(خلوق ایک عطر ہے جو زعفران اور بعض دیگر خوشبو دار مواد سے مرکب ہے اور پیلا یا سرخ ہے اور اس کے ذریعے کعبہ کو معطر کرتے ہیں۔)[96]
  4. مردوں پر سلے ہوئے کپڑے پہنا؛ مگر استثنائی موارد میں،
  5. سرمہ لگانامرد اور عورت دنوں کیلئے سرمہ لگانا حرام ہے کیوںکہ یہ ایک قسم کی زینت شمار ہوتی ہے۔ خاص کر سیاہ رنگ یا خوشبودار سرمہ۔
  6. آیینہ دیکھنا؛
  7. ایسی چیز کا پہنا جو پاوں کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ دے جیسے بوٹ اور جوراب وغیرہ،
  8. فسوق؛ یعنی خدا یا رسول خدا(ص) یا کسی ایک ائمہ اطہار کی جھوٹی نسبت دینا،
  9. جدال بحث و گفتگو کرنا، اور "لاواللہ‌" و «"بلی واللہ‌" کہنا اور لفظ اللہ کے ساتھ قسم کھانا،
  10. انسان کی بدن پر موجود حشرات کو مارنا،
  11. زینت کیلئے انگوٹھی کا پہننا، لیکن وہ انگوٹھی جو زینت شمار نہیں ہوتی اور انہیں "حرز" يا "ثواب" کیلئے استعمال کرتے ہیں، ان کے استعمال میں کوئی اشکال نہیں ہے۔[97]
  12. معطر روغن کا استعمال حرام کے وقت مطلقا حرام ہے لیکن احرام سے پہلے ایسے روغن کے استعمال جس کی خوشبو احرام باندھنے تک باقی رہتا ہے، سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اسی طرح احرام کے بعد بدن کو روغن کے ذریعے مرطوب کرنا بھی حرام ہے مگر اضطراری حالت میں۔
  13. بدن سے بالوں کو اکھیڑنا، مگر یہ کہ علاج معالجے کیلئے ہو،
  14. مردوں پر سر کو ڈھانپنا یہاں تک کہ غسل ارتماسی میں پورے سر کو پانی میں ڈبو دینا بھی شامل ہے اسی طرح عورتوں پر چہرے کو چھپانا۔
  15. مردوں کیلئے سایے میں جانا
  16. بدن سے خون جاری کرنا؛
  17. ناخن لینا؛
  18. حرم کے درختوں اور سبزوں کا کاٹنا؛ مگر یہ کہ محرم کی ملکیت میں اگے ہوں لیکن پھل دار درخت، اذخر اور خرما کا کاٹنا جائز ہے۔
  19. اسلحہ ساتھ رکھنا، مگر ضرورت کے وقت؛
  20. احرام کی حالت میں مرنے والے شخص کیلئے غسل دیتے وقت کافور کا استعمال۔[98]

ان محرمات میں سے ایک یا زیادہ کا مرتکب ہونے کی صورت میں محرم کو گائیں، اونٹ یا گوسفند کی قربانی یا نقدا کفارہ ادا کرنا ضروری ہے لیکن اگر مالی استطاعت نہ رکھتا ہو تو روزہ رکھنا واجب ہے۔[99]

مکروہات

فقہی کتابوں میں بعض کاموں کی انجام دہی کو احرام کی حالت میں مکروہ قرار دیا ہے۔مکروہ وہ درج ذیل ہیں: رنگین لباس کا پہننا بطور خاص سیاہ لباس، رنگین بطور خاص سیاہ بیڈ پر سونا، گندے اور نقش و نگار والے کپڑے کا پہننا، زینت کیلئے حنا کا استعمال، عورتوں کیلئے نقاب لگانا (بعض اسے حرام سمجھتے ہیں)، حمام جانا اور کسیہ رگڑنا، آواز دینے والے کے جواب میں "لبیک‌" کہنا مکروہ ہے۔ [100]

حوالہ جات

  1. الصحاح، ج۵، ص۱۸۹۷؛ معجم مقاییس اللغہ، ج۲، ص۴۵؛ لسان العرب، ج۱۲، ص۱۲۲، «حرم»
  2. الصحاح، ج۵، ص۱۸۹۷؛ تاج العروس، ج۱۶، ص۱۳۴، «حرم»
  3. العین، ج۳، ص۲۲۱-۲۲۲؛ الصحاح، ج۵، ص۱۸۹۷
  4. معجم مقاییس اللغہ، ج۲، ص۴۵؛ لسان العرب، ج۱۲، ص۱۲۳
  5. مغنی المحتاج، ج۱، ص۴۷۶؛ مستند الشیعہ، ج۱۱، ص۲۵۶؛ کشاف القناع، ج۲، ص۴۷۱
  6. جواہر الکلام، ج۱۸، ص۱۹۷-۱۹۹
  7. مسالک الافہام، ج۲، ص۲۲۴؛ مستمسک العروہ، ج۱۱، ص۳۵۸
  8. مغنی المحتاج، ج۱، ص۴۷۶؛ حواشی الشروانی، ج۴، ص۵۰
  9. جامع المدارک، ج۲، ص۳۷۸؛ المعتمد، ج۲، ص۴۷۸، «کتاب الحج»
  10. تفسیر قرطبی، ج۶، ص۳۶؛ کشاف القناع، ج۲، ص۴۷۱
  11. معجم الفاظ الفقہ الجعفری، ص۳۳
  12. المدونۃ الکبری، ج۱، ص۳۶۰؛ المقنعہ، ص۴۳۱-۴۳۲
  13. مائدہ، آیت نمبر 1
  14. مائدہ، آیت نمبر 95
  15. الکشاف، ج۱، ص۵۹۱؛ مجمع البیان، ج۳، ص۴۱۷
  16. تحریر الاحکام، ج۱، ص۵۷۶؛ مجمع الفائدہ، ج۶، ص۱۷۵
  17. المجموع، ج۸، ص۲۶۵؛ الفقہ الاسلامی، ج۳، ص۲۱۸۰
  18. اخبار مکہ، ج۱، ص۳۹
  19. وسائل الشیعہ، ج۱۱، ص۲۳۶؛ بحار الانوار، ج۱۱، ص۱۷۸
  20. الکافی، ج۴، ص۲۰۲؛ وسائل الشیعہ، ج۱۱، ص۲۲۹
  21. من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۲۳۴؛ علل الشرایع، ج۲، ص۴۱۸
  22. الکافی، ج۴، ص۲۱۳؛ علل الشرایع، ج۲، ص۴۱۹
  23. الکافی، ج۴، ص۲۱۴؛ من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۲۳۴
  24. صحیح البخاری،دار الفكر، ۱۴۰۱ق، ج۵، ص۱۵۶-۱۵۷؛ مجمع البیان، ج۲، ص۲۷
  25. المیزان، ج۲، ص۵۷؛ الکاشف، ج۱، ص۲۹۵
  26. التفسیر الکبیر، ج۵، ص۱۰۶؛ المفصل، ج۲، ص۳۵۷
  27. جامع البیان، ج۲، ص۴۰۱؛ الدر المنثَور، ج۳، ص۷۵
  28. مجمع البیان، ج۴، ص۲۴۴؛ تفسیر قرطبی، ج۷، ص۱۸۹
  29. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۵۴؛ مستدرک الوسائل، ج۹، ص۳۰۷
  30. تاریخ طبری، ج۲، ص۳۰۹؛ من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۴۵۰-۴۵۱
  31. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۹؛ البدایۃ و النہایہ، ج۵، ص۱۳۷
  32. کلینی، ج۴، ص۳۱۸
  33. المحاسن، ج۲، ص۳۳۰؛ من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۱۹۵
  34. علل الشرایع، ج۱، ص۲۷۴؛ عیون اخبار الرضا۷، ج۱، ص۱۲۷
  35. مستدرک الوسائل، ج۹، ص۱۶۰
  36. مستدرک الوسائل، ج۱۰، ص۱۶۷؛ اسرار و معارف حج، ص۱۱۲
  37. مستدرک الوسائل، ج۱۰، ص۱۶۶؛ جامع احادیث الشیعہ، ج۱۰، ص۳۷۱
  38. احیاء علوم الدین، ج۱، ص۶۰۳؛ صہبای حج، ص۳۴۹
  39. احکام القرآن، ج۲، ص۶۰۴؛ مستدرک الوسائل، ج۱۰، ص۱۷۴
  40. بحار الانوار، ج۹۶، ص۱۲۴
  41. مستدرک الوسائل، ج۱۰، ص۱۶۷؛ صہبای حج، ص۳۷۸
  42. احیاء علوم الدین، ج۱، ص۴۸۸
  43. احیاء علوم الدین، ج۱، ص۴۸۸؛ بحار الانوار، ج۶۴، ص۳۳۷
  44. علل الشرایع، ج۱، ص۲۳۵؛ مستدرک الوسائل، ج۹، ص۱۹۷
  45. صہبای حج، ص۳۸۳-۳۸۴
  46. مائدہ/آیت نمبر ۹۴
  47. الکافی، ج۴، ص۳۵۰؛ وسائل الشیعہ، ج۱۲، ص۵۱۸
  48. الکافی، ج۴، ص۳۵۶؛ علل الشرایع، ج۲، ص۴۵۸
  49. اسرار و معارف حج، ص۱۴۷
  50. تحریر الاحکام، ج۱، ص۵۷۶؛ مجمع الفائدہ، ج۶، ص۱۷۵
  51. المجموع، ج۸، ص۲۶۵؛ الفقہ الاسلامی، ج۳، ص۲۱۸۰
  52. النہایہ، ص۲۷۲
  53. النہایہ، ص۲۷۳؛ المعتبر، ج۲، ص۸۰۸؛ تذکرۃ الفقہاء، ج۷، ص۱۹۸
  54. المغنی، ج۳، ص۲۱۶-۲۱۷؛ المجموع، ج۷، ص۱۷۴؛ البحر الرائق، ج۳، ص۸۵
  55. تذکرۃ الفقہاء، ج۷، ص۲۰۸؛ کشف الغطاء، ج۴، ص۵۳۴
  56. المغنی، ج۳، ص۲۱۸؛ المجموع، ج۷، ص۱۴
  57. من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۱۹۵
  58. تہذیب، ج۵، ص۱۶۵؛ جامع احادیث الشیعہ، ج۱۰، ص۱۰۴
  59. الخلاف، ج۲، ص۳۷۶؛ شرائع الاسلام، ج۱، ص۱۸۷؛ مسالک الافہام، ج۲، ص۲۶۹
  60. بدائع الصنائع، ج۲، ص۱۶۴؛ المغنی، ج۳، ص۲۱۹
  61. جواہر الکلام، ج۱۸، ص۴۳۷
  62. الخلاف، ج۲، ص۳۷۷؛ فتح العزیز، ج۷، ص۲۷۶
  63. الخلاف، ج۲، ص۳۷۷؛ المجموع، ج۷، ص۱۱؛ جواہر الکلام، ج۱۸، ص۴۴۸
  64. تہذیب، ج۵، ص۱۶۵
  65. المغنی، ج۳، ص۲۱۸؛ المجموع، ج۷، ص۱۵؛ تذکرۃ الفقہاء، ج۷، ص۲۰۶
  66. وسائل الشیعہ، ج۱۲، ص۴۰۲؛ مستدرک الوسائل، ج۹، ص۱۹۱
  67. قواعد الاحکام، ج۱، ص۴۲۰؛ جواہر الکلام، ج۱۸، ص۴۴۸
  68. مستمسک العروہ، ج۱۱، ص۲۱۹؛ معتمد العروۃ الوثقی، ج۲، ص۲۸۳-۲۸۴
  69. المغنی، ج۳، ص۲۱۸؛ تذکرۃ الفقہاء، ج۷، ص۲۰۶
  70. کلینی، ج۴، ص۳۱۹
  71. طوسی، الاستبصار، ج۲، ص۱۶۳
  72. ابن ادریس، ج۱، ص۵۲۷
  73. مغنیہ، ج۱، ص۲۰۸
  74. بقرہ، آیہ ۱۹۷
  75. کلینی، ج۱، ص۳۲۱؛ طوسی، الحج، ج۲، ص۱۶۱
  76. طوسی، الخلاف، ج۲، ص۲۶۰
  77. ابن حزم، ج۷، ص۶۶
  78. ابن حزم، ج۷، ص۶۶ـ۶۵
  79. شہید ثانی، ج۲، ص۲۳۱
  80. شہید ثانی، ج۲، ص۲۳۲ـ۲۳۱
  81. شہید ثانی، ج۲، ص۲۳۲ـ۲۳۱
  82. جواہر الکلام ج۱۸، ص۲۳۶-۲۳۸.
  83. العروۃ الوثقى مع تعليقات الفاضل، ج‌۲، ص: ۴۰۵
  84. تفصيل الشريعۃ في شرح تحرير الوسيلۃ - الحج، ج‌۳، ص: ۲۵۴.
  85. محقق حلی، شرایع، ج۱، ص۲۴۵
  86. شہید ثانی، ج۲، ص۲۳۲ـ۲۳۰
  87. شہید ثانی، ج۲، ص۲۳۰ـ۲۲۹
  88. شہید ثانی، ج۲، ص۲۳۳
  89. طوسی، المبسوط، ج۱، ص۳۱۷
  90. طوسی، الحج، ص۱۷۴؛ محقق حلی، شرایع، ج۱، ص۲۴۴ـ۲۴۳؛ المختصر ص۸۲ـ۸۱
  91. شہید ثانی، ج۲، ص۲۸۹
  92. محقق حلی، شرایع، ج۱ ص۲۴۹ـ۲۴۸
  93. مائدہ، آیہ ۹۶ـ۹۵
  94. محقق حلی، شرایع، ج۱، ص۲۴۹
  95. ابن زہرہ، ص۴۲۰
  96. طریحی، فخرالدین،مجمع البحرین ج۵، ص۱۵۶.
  97. مناسك حج و احكام عمرہ (سبحانى)، ص: ۷۷.
  98. محقق حلی، شرایع، ج۱، ص۲۵۱ـ۲۴۹؛ یحیی بن سعید، ص۱۹۴؛ ابن زہرہ، ص۴۲۱ـ۴۲۰
  99. محقق حلی، المختصر، ص۱۰۶ـ۱۰۱؛ یحیی بن سعید، ص۱۹۶ـ۱۸۶
  100. محقق حلی، شرایع، ج۱، ص۲۵۲ـ۲۵۱

مآخذ

  • قرآن مجید.
  • ابن ادریس، محمد، السرائر، قم، ۱۴۱۰ق.
  • ابن حزم، علی المحلی، بہ کوشش احمد محمد شاکر، بیروت، دارالآفاق الجدیدۃ.
  • ابن رشد، محمد، بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م.
  • ابن زہرہ، حمزہ، الحج من غنیۃ النزوع، الینابیع الفقہیہ، بہ کوشش علی اصغر مروارید، تہران، ۱۴۰۶ق.
  • بخاری، محمد، صحیح، بیروت، عالم الکتب.
  • جزیری، عبدالرحمان، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م.
  • جصاص، احمد، احکام القرآن، بہ کوشش محمد صادق قمحاوی، بیروت ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
  • دارمی، عبداللہ، سنن، بیروت، ۱۳۹۸ق/۱۹۷۸م.
  • شافعی، محمد، الام، بہ کوشش محمد زہری نجار، بیروت، دارالمعرفۃ.
  • شہید ثانی، زین الدین، الروضۃ البہیۃ، بہ کوشش محمد کلانتر، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
  • طوسی، محمد، الاستبصار، بہ کوشش حسن موسوی خراسانی، تہران، ۱۳۹۰ق.
  • طوسی، محمد، تہذیب الاحکام، بہ کوشش حسن موسوی خراسانی، تہران، ۱۳۹۰ق.
  • طوسی، محمد، «‌الحج من النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی»، الینابیع الفقہیۃ، بہ کوشش علی اصغر مروارید، تہران، ۱۴۰۶ق.
  • طوسی، محمد، الخلاف، بہ کوشش علی خراسانی و دیگران، قم، ۱۴۰۹ق.
  • طوسی، محمد، المبسوط، بہ کوشش محمد تقی کشفی، تہران، ۱۳۸۷ق.
  • علامہ حلی، حسن، القواعد، ہمراہ ایضاح فخرالمحققین، بہ کوشش حسین موسوی کرمانی و دیگران، قم ۱۳۸۷ق.
  • کلینی، محمد، الفروع من الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۴۰۱ق.
  • مالک بن انس، المدونۃ الکبری، مصر، مطبعۃ السعادۃ.
  • محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام، بہ کوشش عبدالحسین محمدعلی، نجف، ۱۳۸۹ق/۱۹۶۹م.
  • محقق حلی، جعفر، المختصر النافع، تہران، ۱۳۴۰۲ق.
  • مغنیہ محمد جواد، الفقہ علی المذاہب الخمسہ، بیروت، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴م.
  • یحیی بن سعید حلی، الجامع للشرائع، قم ۱۴۰۵ق.
  • احكام القرآن:الجصاص (م.۳۷۰ق.)، بہ كوشش عبدالسلام، بیروت،‌دار الكتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق
  • اخبار مكہ:الازرقی (م.۲۴۸ق.)، بہ كوشش رشدی الصالح، مكہ، مكتبۃ الثقافہ، ۱۴۱۵ق
  • بحار الانوار:المجلسی (م.۱۱۱۰ق.)، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق
  • البدایۃ و النہایہ:ابن كثیر (م.۷۷۴ق.)، بہ كوشش علی شیری، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۸ق
  • تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوك):الطبری (م.۳۱۰ق.)، بہ كوشش گروہی از علما، بیروت، اعلمی، ۱۴۰۳ق
  • تاریخ الیعقوبی:احمد بن یعقوب (م.۲۹۲ق.)، بیروت،‌دار صادر، ۱۴۱۵ق
  • تفسیر قرطبی (الجامع لاحكام القرآن):القرطبی (م.۶۷۱ق.)، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق
  • التفسیر الكبیر:الفخر الرازی (م.۶۰۶ق.)، قم، دفتر تبلیغات، ۱۴۱۳ق
  • جامع البیان:الطبری (م.۳۱۰ق.)، بہ كوشش صدقی جمیل، بیروت،‌دار الفكر، ۱۴۱۵ق
  • صحیح البخاری:البخاری (م.۲۵۶ق.)، بیروت،‌دار الفكر، ۱۴۰۱ق
  • علل الشرایع:الصدوق (م.۳۸۱ق.)، بہ كوشش بحر العلوم، نجف، المكتبۃ الحیدریہ، ۱۳۸۵ق
  • الكافی:الكلینی (م.۳۲۹ق.)، بہ كوشش غفاری، تہران،‌دار الكتب الاسلامیہ، ۱۳۷۵ش
  • مجمع البیان:الطبرسی (م.۵۴۸ق.)، بہ كوشش گروہی از علما، بیروت، اعلمی، ۱۴۱۵ق
  • مستدرك الوسائل:النوری (م.۱۳۲۰ق.)، بیروت، آل البیت علیہم السلام، ۱۴۰۸ق
  • المیزان:الطباطبایی (م.۱۴۰۲ق.)، بیروت، اعلمی، ۱۳۹۳ق
  • النہایہ:الطوسی (م.۴۶۰ق.)، بہ كوشش آغا بزرگ تہرانی، بیروت،‌دار الكتاب العربی، ۱۴۰۰ق
  • وسائل الشیعہ:الحر العاملی (م.۱۱۰۴ق.)، قم، آل البیت علیہم السلام، ۱۴۱۲ق

بیرونی روابط

منابع مقالہ: