غزوہ خیبر

ویکی شیعہ سے
(جنگ خیبر سے رجوع مکرر)
غزوہ خیبر
سلسلۂ محارب:
رسول خداؐ کے غزوات

تاریخ
مقام حجاز، مدینہ
محل وقوع مدینہ سے 165 کلومیٹر شمال کی جانب
نتیجہ مسلمانوں کی فتح
سبب خیبر نو بنیاد امت مسلمہ کے خلاف سازشوں کا اڈہ بنا ہوا تھا۔
ملک حجاز
فریقین
مسلمین خیبر میں سکونت پذیر یہودی
قائدین
حضرت محمدؐ مرحب (سربراہ قلعہ)
نقصانات
15 یا 18 مسلمان شہید 93 یہودی ہلاک اور بے انتہا مالی نقصانات


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

غزوہ خیبر رسول خداؐ کے غزوات میں سے ایک ہے جو سنہ 7 ہجری میں خیبر کے علاقہ میں پیش آیا۔ خیبر آج مدینہ سے 165 کلومیٹر شمال کی جانب شام کی طرف جانی والی سڑک (شاہراہ تبوک) پر واقع ہے اور اس کا مرکز الشُرَیف کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ متعدد دیہاتوں اور ہرے بھرے کھیتیوں کا مجموعہ ہے جو خیبر ہی کے نام سے دیہی علاقہ ہے اور سطح سمندر سے 854 میٹر کی بلندی پر سنگستان میں واقع ہوا ہے۔ خیبر بڑی بڑی وادیوں پر مشتمل ہے؛ پانی کی فراوانی ہے؛ زرعی علاقہ ہے اور یہاں کی آبادی بھی اچھی خاصی ہے۔ خیبر کی زیادہ تر پیداوار کھجوروں پر مشتمل ہے۔ خیبر کے باشندے زیادہ تر قبیلہ عنزہ سے تعلق رکھتے ہیں جو سُریر نامی گاؤں اور غَرَس سے نورشید تک جانے والی پوری وادی میں سکونت پذیر ہیں۔[1]۔[2]۔[3] غزوہ خیبر، جنگ خیبر یا فتح خیبر جیسے ناموں سے بھی مشہور ہے۔

جنگ خیبر کی تمہیدات

سنہ 4 ہجری میں، جب رسول اللہؐ نے بنو نضیر کے یہودیوں کو خیانت کے جرم میں مدینہ سے نکال باہر کیا، حیی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق اور کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق سمیت بعض یہودی خیبر کی طرف چلے گئے۔ وہ اگلے سال مکہ چلے گئے اور قریش کو رسول اللہؐ کے خلاف جنگ پر اکسایا۔[4]۔[5]۔[6]۔[7] یوں خیبر نو بنیاد اسلامی امت کے لئے خطرات اور سازشوں کے اڈے میں تبدیل ہوا۔[8]۔[9]

ماہ شعبان سنہ 6 ہجری میں بھی جب رسول خداؐ کو معلوم ہوا کہ خیبر کے عرب پڑوسی قبیلے "بنو سعد بن بکر" نے خیبر کے یہودیوں کے لئے اجتماع کیا ہے تو آپؐ نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک گروہ کی سرکردگی میں ان کی طرف روانہ کیا۔ امام علی علیہ السلام نے حملہ کیا تو مذکورہ قبیلے کے جنگجو بھاگ گئے اور بہت سے غنائم مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ نیز اسی سال رمضان کے مہینے میں عبداللہ بن عتیک کی سرکردگی میں ایک سریئے کے کے دوران رسول خداؐ کے خلاف احزاب کو اکسانے والے سلام بن ابی الحقیق کو ہلاک کیا گیا۔ اسی زمانے میں عبد اللہ بن رواحہ کو خیبر میں جاکر تحقیق کرنے کا حکم دیا گیا۔[10]۔[11]

بعدازاں خیبر کے یہودیوں نے اُسَیر بن زارِم/ یُسَیر بن رِزام کو امیر بنایا اور اس نے قبیلہ غطفان سمیت عرب قبائل کو رسول خداؐ کے خلاف اکسایا اور ان کی مدد سے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ آپؐ نے شوال سنہ 6 ہجری میں ایک بار پھر عبداللہ بن رواحہ کو کچھ سپاہی دے کر خیبر روانہ کیا اور جنگ کے نتیجے میں اُسَیر سمیت بعض یہودی مارے گئے۔[12]۔[13]۔[14]۔[15]

علاوہ ازیں، بنو قریظہ کو مدینہ سے نکالے جانے، شہر میں امن و سکون کی بحالی اور دیگر یہودیوں کے ساتھ رسول اللہؐ کے معاہدہ صلح منعقد ہونے کے بعد، خیبر کے یہودی ـ جو بنو نضیر کو یہودیوں کو بھی اپنے ہاں بسائے ہوئے تھے ـ آپؐ سے انتقام لینے کے درپے تھے اور اپنی دولت کو طاقتور قبیلے "غطفان سمیت پڑوسی عرب قبائل کی تحریک کے لئے صرف کررہے تھے؛ تاکہ انہیں مسلمانوں کے خلاف اپنے ساتھ متحد کریں۔ یہی سازشیں اس کے لئے کافی تھیں کہ پیغمبرؐ صلح حدیبیہ کے کچھ ہی عرصہ بعد خیبر پر حملہ کرتے۔[16]

روانگی

رسول اکرمؐ نے محرم الحرام سنہ 7 ہجری کے اوائل میں خیبر کی طرف عزیمت کی اور ماہ صفر المظفر میں خیبر کو فتح کیا اور ربیع الثانی سنہ 7 ہجری کو مدینہ واپس آئے۔[17]۔[18]

مروی ہے کہ رسول اللہؐ غزوہ حدیبیہ کے بعد ذوالحجہ میں مدینہ واپس تشریف فرما ہوئے اور ذوالحجہ کے باقی ماندہ ایام اور محرم الحرام کو مدینہ میں رہے اور سنہ 7 ہجری کے ماہ صفر میں ـ اور بقولے یکم ربیع الاول کی شب کو خیبر کی جانب روانہ ہوئے۔[19]

مدینہ میں جانشینی اور لشکر اسلام کی علمداری

رسول اکرمؐ نے سباع بن عرفطہ غفاری یا ابوذر غفاری[20]۔[21] یا نمیلہ بن عبداللہ لیثی؛[22] یا ابو رہم کلثوم بن حصین الغفاری[23] کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا اور سفید رنگ کا پرچم علی علیہ السلام کے سپرد کیا اور[24]۔۔[25]۔[26]۔[27] اور آپ ؑ کو اپنے لشکر کا امیر اور سپہ سالار قرار دیا ہے۔[28]

سپاہ مسلمین کی تعداد

غزوہ خیبر میں مسلمانوں کی تعداد 1400،[29] یا غزوہ حدیبیہ میں حاضرین کی تعداد کے برابر یعنی 1500[30] یا 1540[31] تھی۔ غزوہ خیبر میں 20 خواتین نے شرکت کی جن میں ام المؤمنین ام سلمہ بھی شامل تھیں۔ بنو غفار کی خواتین رسول اللہؐ کی اجازت سے زخمیوں کی مرہم پٹی اور مسلمانوں کی مدد کرنے کی غرض سے شریک ہوئیں۔[32]۔[33] مدینہ کے یہودیوں میں سے 10 افراد اور غلاموں کی ایک جماعت نے بھی شرکت کی۔[34]

اہالیان خیبر کی تعداد

تاریخی مآخذ میں خیبر کے جنگجؤوں کی تعداد کے بارے میں مبالغہ آمیز اعداد و شمار منقول ہیں؛ واقدی کا کہنا ہے کہ ہر روز 10000 یہودی جنگجو جنگ کے لئے نکلتے تھے[35] اور یعقوبی نے یہودی جنگجؤوں کی تعداد 20000 لکھی ہے۔[36] مؤرخین لکھتے ہیں: یہودی تصور ہی نہیں کرتے تھے کہ پیغمبرؐ ان پر حملہ کریں گے۔ وہ اپنے پہاڑوں کی چوٹیوں پر تعمیر شدہ اپنے مضبوط قلعوں اور بڑی مقدار میں ہتھیاروں اور بےشمار جنگجؤوں، مسلسل جاری پانی کے پیش نظر سمجھ رہے تھے کہ مسلمانوں کے حملے کی صورت میں وہ کئی سال تک مزاحمت کرسکتے ہیں۔ مدینہ میں سکونت پذیر بعض یہودی مسلمانوں کو ڈراتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ خیبریوں اور ان کے مضبوط قلعوں کا سامنا کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔ انھوں نے حتی ایک قاصد خیبر میں کنانہ بن ابی حقیق کے پاس روانہ کیا تھا اور اس کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مسلمانوں کی تعداد قلیل اور عسکری وسائل محدود ہیں۔ کفار قریش کو بھی امید تھی کہ جنگ کی صورت میں خیبر کے یہودی رسول اللہؐ پر غلبہ پائیں گے۔ انھوں نے اس سلسلے میں آپس میں شرط بندیاں بھی کی تھی۔[37]

پیغمبرؐ کا راستہ

پیغمبر اکرمؐ نے قبیلہ اشجع کے دو راہ بلدوں کی مدد سے خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ عِصر / عَصَر، اور "صہباء" جیسی منازل میں پیغمبر اکرمؐ کے مختصر قیام کی برکت سے مساجد تعمیر ہوئیں۔ رسول اللہؐ نے ایک راہ بلد کو ہدایت کی کہ آپؐ کو ایسے راستے سے خیبر کی جانب لے جائے کہ آپؐ شام اور خیبر کے درمیان حائل ہوجائیں اور اہلیان خیبر اپنے غطفانی حلیفوں کی امداد وصول نہ کرسکیں۔ مدینہ سے خیبر کی جانب کئی راستے نکلتے تھے جن میں سے ایک کا نام مرحب تھا جو آپؐ نے سفر کے لئے منتخب کیا۔[38]۔[39]

رسول اللہؐ کے ہراول دستے کے ایک مامور نے عباد بن بشر نے راستے میں قبیلہ اشجع کے ایک یہودی جاسوس کو گرفتار کیا جس نے بتایا کہ قبیلہ غطفان نے خیبر کے باشندوں کو مدد کی یقین دہانی کرائی ہے اور غطفانیوں اور یہودیوں نے رسول خداؐ کے خلاف جنگ کے درمیان اتحاد قائم کیا ہے۔ اس شخص نے ابتداء میں مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی لیکن جب عباد بن بشیر نے اس کو ڈرایا اور اس سے سوالات پوچھے تو کہنے لگا کہ یہودی مسلمانوں سے سخت مرعوب ہوئے ہیں۔[40]

غطفانیوں کی مدد

کہا گیا ہے کہ قبیلۂ غطفان کو جب معلوم ہوا کہ رسول خداؐ خیبر پہنچ چکے ہیں تو اس کے جنگجؤوں نے یہودیوں کو کمک پہنچانے کے لئے ایک منزل تک کا راستہ طے کیا لیکن انہیں گھر بار اور مال و ثروت خطرے میں پڑنے کی فکر لاحق ہوئی اور خیبر کے قلعوں میں داخل ہونے سے پہلے ہی پلٹ کر واپس چلے گئے۔[41]۔۔[42]

لیکن ایک روایت کے مطابق کنانہ جنگ خیبر سے قبل غطفانیوں کے پاس گیا اور خیبر کے کھجوروں کی ایک سال ـ اور بقولے سال کی نصف ـ پیداوار کا وعدہ دے کر انہیں رسول خداؐ کے خلاف جنگ کے لئے اکسایا اور قبیلہ غطفان یہودیوں کا اتحادی بن گیا۔ بعد ازاں غطفانیوں نے (غزوہ بنی لحیان میں رسول اکرمؐ کے اونٹ چوری کرنے والے گروہ کے سرغنے) "عیینہ بن حصن" کو اپنا سربراہ مقرر کیا۔ 4000 غطفانی جنگجو رسول خداؐ کی عزیمت سے 3 روز قبل خیبر کے قلعے "نطاۃ" میں داخل ہوئے۔ آپؐ نے سعد بن عبادہ کو عیینہ کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ ان الله قد وعدني خيبر فارجعوا وکفوا۔۔۔ (یعنی "خداوند متعال نے مجھے فتح خیبر کا وعدہ دیا ہے پس واپس چلے جاؤ اور جنگ سے دست بردار ہوجاؤ۔۔۔)" چنانچہ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس چلے جاؤ ہم بھی خیبر کے کھجوروں کی ایک سال ـ اور بقولے ایک سال کی نصف ـ پیداوار تمہارے حوالے کریں گے۔ عیینہ نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کیا۔ تاہم حضور اکرمؐ کے حملے سے ایک رات قبل غطفانیوں کو ایک غیبی صدا سنائی دی جو انہیں خبر دار کررہی تھی کہ مدینہ کے نواح میں واقع "حیفاء" میں انے کے اموال اور اعزاء و اقارب پر حملہ ہوا ہے چنانچہ وہ نہایت عجلت میں خیبر چھوڑ کر چلے گئے۔[43]

خیبری یہودیوں کی حکمت عملی

دوسری طرف سے، خیبر کے یہودیوں کو یقین ہوگیا کہ رسول خداؐ ان کی طرف آکر رہیں گے، تو ابو زینب یہودی نے تجویز دی کہ قلعوں کے باہر چھاؤنی قرار دیں اور جنگ کے لئے تیار ہوجائیں، لیکن انھوں نے قلعوں کے استحکام کے سہارے قلعہ بند ہوکر لڑنے کو ترجیح دی۔[44]

سپاہ اسلام خیبر میں

خداوند متعال نے رسول خداؐ کی سپاہ کی عزیمت کو خیبر کے باشندوں سے خفیہ رکھی یہاں تک کہ آپؐ رات کے وقت خیبر کے قریب پہنچے اور "شق" اور "نطاۃ" نامی قلعوں کے درمیان سے گذرے اور معمول کے خلاف "اذان" کی صدا نہ سنی تو اپنا سفر جاری رکھا؛ اور دعا کی اور مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ بھی وہی دعا پڑھیں۔ اور پھر اپنا سفر جاری رکھا حتی کہ "منزلہ" کے مقام پر پہنچے اور رات وہیں بسر کی اور نماز بھی وہیں ادا کی اور وہی مقام بعد میں "مسجد خیبر" قرار پایا۔ صبح ہوئی تو یہودی ناگہانی طور آپؐ کی آمد سے مطلع ہوئے تو وہ بھاگ کے قلعوں کی پناہ میں چلے گئے۔[45]۔[46]۔[47] رسول اکرمؐ نے اپنے اصحاب کو عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع کیا[48] اور اس روز صبح سے شام تک قلعہ نطاۃ کے باشندوں کے ساتھ نبرد آزما رہے؛ اور پھر اپنی چھاؤنی کو اس مقام سے منتقل کیا جس کی زمین گیلی تھی اور دشمن کی زد میں تھا؛ اور فرمایا کہ "رجیع" نامی مقام پر چلے جائیں۔ نیز فرمایا کہ خیبر کے بعض کھجوروں کو [امکانی طور پر عسکری ضروریات کے تحت] کاٹ دیا جائے۔[49]۔[50]

غزوہ خیبر کی روداد

جنگ کا آغاز

جنگ کے پہلے دن 50 مسلمان زخمی ہوئے۔ رسول اللہؐ نے سات شب و روز تک چھاؤنی لگائی رکھی اور ہر روز مسلمانوں کے ہمراہ ـ جن میں سے ہر ایک گروہ کے پاس ایک پرچم ہوتا تھا ـ یہودیوں کے ساتھ جنگ میں مصروف رہتے تھے۔ چھٹی رات کو نطاۃ کا ایک یہودی باشندہ ـ جس کا نام "سماک" تھا ـ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور امان مانگ کر اس قلعہ کی جانب راہنمائی کی پیشکش کی اور بتایا کہ قلعۂ نطاۃ ـ جو اشیائے خورد و نوش اور ہتھیاروں کا گودام بھی ہے ـ اندرونی طور پر شکست و ریخت کا شکار ہوچکا ہے اور اہلیان قلعہ خوف کے مارے قلعہ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ اگلے دن مسلمانوں نے قلعۂ نطاۃ کو فتح کیا اور سماک نے بعد میں اسلام قبول کیا۔[51]

قلعۂ ناعم کی فتح

مروی ہے کہ سبب سے پہلا قلعہ ـ جو مسلمانوں نے فتح کیا ـ قلعۂ ناعم تھا۔ یہ قلعہ خود کئی ذیلی قلعوں اور حصاروں پر مشتمل تھا اور رسول اکرمؐ نے ان پر حملہ کرنے کے لئے اپنے اصحاب کی صف آرائی کا اہتمام کیا۔ یہودیوں نے مسلمانوں کو تیروں کا نشانہ بنایا اور اصحاب نے اپنے جسموں کو رسول خداؐ کے لئے ڈھال قرار دیا۔ اس روز آپؐ نے اپنا سفید پرچم دو مہاجروں (بقول ابن اسحق ابوبکر اور عمر) اور ان کے بعد ایک انصاری کے سپرد کیا؛ لیکن وہ کچھ زیادہ کام کئے بغیر میدان جنگ سے پلٹ آئے؛ بخاری کی روایت ملاحظہ ہو:

روى البخاري في صحيحه بسنده عن أبي حازم قال : اخبرني سهيل بن سعد رضي لله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يوم خيبر: لأعطين هذه الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه ، يحب الله ورسوله ، ويحبه الله ورسوله۔
ترجمہ: بخاری نے صحیح میں اپنی سند سے، ابن حازم سے روایت کی ہے کہ سہیل بن سعد نے مجھے خبر دی کہ بتحقیق رسول اللہؐ نے خیبر کے دن فرمایا: بتحقیق کل میں یہ پرچم اس مرد کو دوں گا جس کے ہاتھوں خداوند عالم اس قلعے کو فتح فرمائے گا؛ وہ ایسا مرد ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور خدا اور اس کا رسولؐ بھی اس سے محبت کرتے ہیں؛ وہ کرار اور جم کر لڑنے والا اور غیر فرار ہوگا۔

اگلے روز رسول اللہؐ نے علی بن ابی طالبؑ کو بلایا جو آشوب چشم میں مبتلا تھے اور پیغمبر خداؐ کے معجزے سے آشوب چشم میں افاقہ ہوا تو پیغمبر اسلامؐ نے پرچم آپؑ کے سپرد کیا۔[52] یہ روایت مسلم نیسابوری[53]اور دیگر مؤرخین و محدثین نے بھی نقل کی ہے۔[54]۔[55]۔[56]

مرحب کی ہلاکت

بعض روایات میں ہے کہ محمد بن مسلمہ نے رسول خداؐ کی اجازت سے مرحب کو دو بدو لڑائی میں تلوار کا وار کرکے ہلاک کردیا۔[57]۔[58] یا اس کو شدید زخمی کیا اور علیؑ نے اس کا کام تمام کردیا۔[59] تاہم صحیح اور دقیق روایت یہ ہے کہ حضرت علیؑ نے مرحب کو دو بدو لڑائی میں تلوار مار کر ہلاک کردیا اور یہ ضربت اس قدر مؤثر تھی کہ اس کے بعد قلعۂ خیبر فتح ہوا۔[60]۔[61]۔[62]۔[63]۔[64] اہل سنت کے مشہور مؤرخین نے مؤخر الذکر روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[65]

فتحِ قلعۂ مرحب

مروی ہے کہ خیبر کے قلعوں میں سب سے بڑا، سخت اور مضبوط قلعہ "قموص" تھا اور رسول خداؐ نے اس کی فتح کا پرچم علیؑ کو عطا کیا اور علیؑ نے مرحب کو ـ جس کا نام اس قلعے کے لئے مختص تھا ـ ہلاک اور قلعے کو فتح کردیا۔[66]۔[67]

مصوری؛ علیؑ کے ہاتھوں باب خیبر اکھاڑے جانے کا منظر

ابو رافع کی روایت کے مطابق، ایک یہودی نے قلعے کے دروازے کے پاس حضرت علی پر وار کیا اور آپؑ کی ڈھال گر گئی چنانچہ آپؑ نے قلعے کے ایک دروازے کو اکھاڑ کر اس کو اپنی ڈھال قرار دیا اور اسی دروازے کو ہاتھ میں لے کر آخر تک لڑتے رہے یہاں تک کہ قلعہ آپؑ کے ہاتھوں فتح ہوا اور اسی قلعے (یعنی قلعۂ مرحب) کی فتح کی خوشخبری رسول خداؐ کے لئے بھجوا دی۔[68]۔[69]۔[70] ایک روایت کے مطابق جس یہودی مرد نے آپؑ پر تلوار کا وار کیا تھا، وہ مرحب ہی تھا۔[71] مروی ہے کہ جنگ کے بعد 40 یا 70 افراد اس دروازے کو اٹھانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔[72]۔[73]۔[74]۔[75] خیبر کی فیصلہ کن فتح امام علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب میں شمار ہوتی ہے جس پر بہت سے مؤرخین اور محدثین کا اتفاق ہے۔[76]۔[77]۔[78] یہودیوں کے متذکرہ بالا دلیر پہلوانوں اور قلعۂ ناعم میں بعض دیگر بہادر جنگجؤوں کی ہلاکت کے بعد خیبر کی فتح کاملہ آسان ہوگئی۔[79]

قلعہ نطاۃ کی فتح

صعب بن معاذ کا حصار بھی نطاۃ کے احاطے میں تھا جس میں کھانے پینے کی اشیاء، دیگر ساز و سامان اور چوپائے نیز 500 جنگجو تھے۔ مسلمانوں نے 10 روز تک نطاۃ کا محاصرے میں رکھا اور قلعے کے اطراف میں لڑتے رہے۔ مجاہدین ـ بالخصوص بنو اسلم بھوک سے نڈھال ہوئے تو رسول اکرمؐ نے دعا کی کہ خداوند متعال سب سے بڑا قلعہ ـ جو سب سے زیادہ پر ثروت بھی تھا ـ ان کے لئے کھول دے۔ بعد ازاں صعب بن معاذ کا حصار دو روز تک گھمسان کی لڑائی کے بعد تیسرے روز بوقت صبح اللہ کی مدد سے فتح ہوچکا اور یہودیوں نے ناعم، نطاۃ اور صعب بن معاذ نامی قلعوں کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی اور سب سے زیادہ مضبوط اور اونچے قلعے ــ یعنی قلعۂ زبیر ــ میں فرار کرکے چلے گئے۔[80]۔[81] یہ قلعہ بھی تین دن تک محاصرے میں رہا؛ اسی اثناء میں ایک یہودی رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور امان مانگی اور اس کی راہنمائی میں شدید جنگ کے بعد مسلمانوں نے اس حصار کو ـ جو نطاۃ کا آخری حصار تھا ـ فتح کرلیا۔[82]

امن و سکون کا احساس اور چھاؤنی کی منتقلی

نطاۃ کے باشندے یہودیوں میں شجاع ترین سمجھے جاتے تھے اور اس قلعے کی تسخیر کے بعد رسول اللہؐ نے یہودیوں کی شب خون اور ناگہانی حملوں سے امن و سکون محسوس کیا اور حکم دیا کہ آپؐ کی چھاؤنی کو رجیع سے اس کے سابقہ مقام یعنی منزلہ میں منتقل کیا جائے اور بعدازاں کئی حصاروں اور ذیلی قلعوں پر مشتمل قلعۂ شِقّ کی طرف روانہ ہوئے اور شدید جنگ کے بعد، مسلمانوں نے ابتداء میں سُمران اور اس کے بعد نزار ناموں حصاروں کو فتح کیا اور وہاں کے باشندوں کو قید کرلیا۔[83]

قلعے کا خزانہ مل گیا

کنانہ اور اس کے بھائی نے قسم مؤکّد اٹھا کر قلعۂ کتبیہ میں کسی قسم کے خزانے کی موجودگی سے انکار کیا تھا لیکن وہ خزانہ ـ جو انھوں نے چھپا رکھا تھا ـ پیغمبر اکرمؐ کو مل گیا چنانچہ آپؐ نے ان دونوں کو دو مسلمانوں کے سپرد کیا تا کہ ان سے اپنے شہید اعزاء و اقارب کا قصاص لیں۔ ان دو افراد نے قبل ازاں بھی کئی موضوعات میں عہد شکنی کی تھی۔ رسول اللہؐ نے صلح نامے کے مطابق ان کے اموال لے لئے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا۔[84]۔[85]۔[86]

یہودیوں کی طرف سے مصالحت کی درخواست

نزار خیبر کا آخری قلعہ تھا جہاں لڑائی ہوئی۔ اس قلعے کے فتح کئے جانے کے بعد نطاۃ اور شقّ سے بھاگے ہوئے لوگ (قلعۂ کتیبہ میں واقع) قموص، وَطیح اور و سُلالِم جیسے مضبوط حصاروں کی پناہ میں چلے گئے اور دروازوں کو مقفل کردیا۔ چنانچہ رسول اللہؐ نے منجنیق استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ 14 دن مسلسل محاصرے کے بعد یہودی تھک ہار گئے اور رسول خداؐ کو مصالحت کی پیشکش کی۔ حصار سلالم کے امیر کنانہ بن ابی الحقیق نے بھی ـ جو اس کے باوجود کہ ایک ماہر تیر انداز تھا ـ اپنے ساتھیوں کو تیر اندازی سے منع کیا اور تھوڑی دیر بعد وہ خود چند یہودیوں کے ہمراہ ـ قلعۂ کتیبہ کے محصورین (یعنی 2000 سے زائد یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں) کی طرف سے، بعض شرطوں پر رسول خداؐ کے ساتھ صلح کرلی۔ رسول اللہؐ نے انہیں امان دی اور وہ انھوں نے اپنے مال و اسباب، سونے، چاندی اور زرہوں کو آپؐ کی تحویل میں دیا۔ وطیح اور سلالم خیبر کے آخری قلعے تھے جو فتح کئے گئے۔

صلح نامے کے نکات

اس صلحنامے میں قرار پایا کہ قلعوں کے اندر محصور جنگجؤوں کی جان محفوظ رہے اور وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو لے سرزمین خیبر کو ترک کرکے چلے جائيں اور اپنے اموال، زمینوں، ہتھیاروں، زرہوں، لباس وغیرہ کو رسول اکرمؐ کے حوالے کریں۔[87]۔[88]۔[89]

جنگ خیبر کی مدت

خیبر کے یہودی ـ عام تصورات کے برعکس ـ آخرکار رسول خداؐ کے مقابلے میں مغلوب ہوئے۔ یہ یہودیوں کی دوسری شکست تھی[90] جو تقریبا ایک مہینے تک محاصرے اور جنگ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی۔ بلاذری کے مطابق جنگ اور محاصرے کی یہ مدت 20 سے لے کر 30 دن تک تھی؛[91] شیخ مفید[92] کے مطابق یہ مدت 20 سے کچھ دن زیادہ تھی؛ اسی بنا پر سنہ 7 ہجری کو سنۃ الاستغلاب کہا گیا ہے۔[93]

یہودی عورت کا رسول اللہؐ اور صحابہ کو مسموم کرنا

مروی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے ہاتھوں فتح خیبر کے بعد یہودی عمائدین میں سے سلّام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث نے اپنے باپ حارث، چچا حارث اور شوہر کا بدلہ لینے کی غرض سے زہریلا گوشت رسول اللہؐ کو بطور ہدیہ پیش کیا۔ رسول خداؐ اور بشر بن براء سمیت بعض صحابہ نے اس گوشت میں ایک ایک نوالہ تناول کیا اور پھر سب نے آپؐ کی ہدایت پر ہاتھ کھینچ لیا۔ بشر موقع پر ہی (یا ایک سال علالت کے بعد) اسی مسمومیت کی وجہ سے انتقال کرگئے؛ جیسا کہ رسول اللہؐ کی شہادت کو بھی اسی زہریلے گوشت کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔[94]۔[95]۔[96]۔[97]۔[98]

مقتولین کی تعداد

جنگ خیبر میں 15 سے 18 مسلم مجاہدین شہید ہوئے اور یہودیوں میں سے 93 افراد مارے گئے۔[99]۔[100]۔[101]

شہدائے خیبر کا مزار

مسلمانوں کی عسکری قوت میں اضافہ

خیبر میں رسول خداؐ اور مسلمانوں کی فتح کے نتیجے میں قریش اور ان کے حلیف قبائل کی عسکری لحاظ سے کمزور ہوگئے اور مسلمین کو عسکری اور معاشی لحاظ سے تقویت ملی۔[102]

غنائم

رسول اللہؐ نے فروہ بن عمرو بیاضی کو خیبر کے جنگی غنائم کی حفاظت پر مامور کیا (جو شقّ، نطاۃ اور کتیبہ کے قلعوں سے مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے) اور فرمایا: اگر کسی نے ان اموال سے سوئی یا دھاگا تک بھی اٹھایا ہے، واپس کردے۔ آپؐ نے غنائم کو 5 حصوں میں تقسیم کیا؛ ایک حصہ جو سہم اللہ (خمس) تھا، آپؐ نے خود اٹھایا اور اس میں سے اپنی زوجات، اہل بیت (یعنی علیؑ، اور فاطمہ(س)بنو عبدا المطلب بن ہاشم بن عبد مناف، بنو مطلب بن عبد مناف اور بعض صحابہ، ایتام اور حاجتمندوں کی مدد فرمائی اور باقی 4 حصوں کو فروخت کردیا۔[103]۔[104]۔[105]۔[106]

خیبر کے دوسرے قلعے (منجملہ: وطیح اور سلالم) مصالحت کے ذریعے رسول خداؐ کے سپرد کئے گئے چنانچہ ان قلعوں سے حاصل ہونے والے اموال "مالِ فیئ"[107] میں شمار ہوتے تھے جو خالصۃ الرسولؐ کے زمرے میں آتے تھے۔[108]۔[109]۔[110]۔[111]

مال غنیمت کی تقسیم

خیبر کا مال غنیمت خمس الگ کرنے کے بعد ان افراد کے درمیان بانٹ دیا گیا جو غزوہ حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے خواہ وہ جو جنگ خیبر میں شریک ہوئے خواہ وہ جو شریک نہیں ہوئے تھے؛[112]۔[113] تاہم الواقدی کی رائے[114] زیادہ صحیح ہے جن کا کہنا ہے کہ غنائم کو خیبر میں حاضر تمام افراد کے درمیان بانٹ کیا گیا چاہے وہ جنہوں نے غزوہ حدیبیہ میں شرکت کی تھی چاہے وہ جنہوں نے شرکت نہیں کی تھی۔ فروخت شدہ اموال سے حاصلہ آمدنی بھی ان کے درمیان بانٹ دی گئی۔ تمام حصص کی تعداد 1800 تھی جن کو 18 گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر 100 حصص کی تقسیم کے لئے ایک سرپرست متعین کیا گیا۔[115]۔[116]۔[117]۔[118]۔[119]۔[120]۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag۔[121]۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag

فتح خیبر کے بعد قبیلہ دوس کے بعض افراد ابو ہریرہ، طفیل بن عمرو اور قبیلہ اشجع کے کچھ افراد خیبر پہنچے اور رسول خداؐ نے انہیں بھی غنائم میں سے حصہ عطا کیا۔[122]۔[123]

رسول اللہؐ نے غزوہ خیبر میں شریک یہودیوں، غلاموں اور خواتین کو بھی غنائم میں سے حصہ دیا یا کچھ بطور عطیہ دیئے۔[124]۔[125]

یہودیوں کی خیبر میں زراعت کرنے کی درخواست

رسول خداؐ نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے یہودیوں کی درخواست پر انہیں وہاں زراعت اور کھجوروں کی پرورش کی اجازت دی جس میں انہیں مہارت حاصل تھی؛ اور اجازت دی کہ خیبر کی زراعت اور نخلستانوں کی آدھی پیداوار اپنے لئے رکھیں اور ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور ان کی جان و مال اور زمینوں کو امان عطا کی۔[126]۔[127]۔[128]۔[129]

رسول اللہؐ کا صفیہ کے ساتھ نکاح

خیبر میں یا خیبر سے مدینہ واپسی کے وقت مقام صہباء میں رسول اللہؐ نے صفیہ بنت حیی بن اخطب کو ـ جو جنگی قیدیوں میں شامل تھیں ـ اسلام کی دعوت دی اور انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی چنانچہ آپؐ نے انہیں آزاد کیا اور ان سے نکاح کرلیا۔[130]۔[131]

غزوہ خیبر کے بارے میں بعض آیات کریمہ

مروی ہے کہ سورہ فتح کی آیت ... وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً ﴿18﴾ (ترجمہ: اور انہیں عنایت کی ایک قریبی فتح)[؟–18] میں دی گئی بشارت کا تعلق فتح خیبر سے ہے اور اگلی آیت میں وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً ... ﴿19﴾ (ترجمہ: اور بہت سے اموال غنیمت ...)[؟–19] سے مراد غزوہ خیبر میں مسلمانوں کے ہاتھ لگنے والے غنائم ہیں۔[132]۔[133]۔[134] بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ سورہ فتح کی پہلی 15 آیات کریمہ اور [[سورہ احزاب کی آیت وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضاً لَّمْ تَطَؤُوهَا...﴿27﴾ (ترجمہ: اور تمہیں قابض بنایا ان کی زمین اور ان کے مکانات اور ان کے اموال اور اس زمین پر جسے تم اپنے زیر قدم لائے نہ تھے...)[؟–27] کی شان نزول غزوہ خیبر ہے۔[135]۔[136]

خلیفہ ثانی کے دور میں خیبریوں کا جلا وطن کیا جانا

خلیفۂ ثانی کے دور میں خیبر کے یہودی ایک مسلمان کے قتل میں ملوث قرار پائے اور عمر نے ایک حدیث کی رو سے ـ جو وہ رسول اللہؐ سے منتسب کرتے تھے کہ "دو مذاہب جزیرۃ العرب میں جمع نہیں ہوتے" ـ حجاز کے یہودیوں منجملہ اہلیان خیبر کو شام جلاوطن کیا اور خیبر کی زمینوں اور نخلستانوں کو ایک بار پھر تقسیم کیا اور بعض نے زمینوں کو پسند کیا اور بعض دوسروں نے ضمانت شدہ پیداوار کو۔[137]۔[138]۔[139]۔[140]۔[141]۔[142] خیبر سے نکالے جانے والے بعض یہودی عراق اور مصر چلے گئے۔[143]

فتح خیبر کے بارے میں اشعار

فتح خیبر کے بعد حسان بن ثابت سمیت بعض شعراء نے اس واقعے کے بارے میں اشعار کہے۔[144]۔[145]

علیؑ کی شان میں حسان کے اشعار:
وكان علىّ أرمد العين يبتغى *** دواء فلمّا لم يحسّ مداويا
شفاه رسول اللّه منه بتفلة *** فبورك مرقيّا و بورك راقيا
وقال سأعطى الرّاية اليوم صارما *** كميّا محبّا للإله مواليا
يحبّ الإله والإله يحبّه *** به يفتح اللّه الحصون الأوابيا
فاصفی بها دون البرية كلها *** عليا وسماه الوزير المواخيا

اور علي ؑ کو آشوب چشم لاحق تھا شفا بخش دوا کے منتظر تھے ليکن طبيب نہيں مل رہا تھا
اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ نے اپنے مبارک آب دہن سے آپ ؑ کي آنکھوں کو شفا بخشی
پس مبارک ہے وہ جس نے شفا دی اور مبارک ہے وہ جو شفا یاب ہوا
اور رسول اکرمؐ نے فرمايا: "ميں آج (يوم خيبر) پرچم ايسے جوانمرد کو دے رہا ہوں جو کاٹ دینے والی تلوار کا مالک اور مرد شجاع ہے؛ اللہ سے محبت کرنے والا اور اس کے احکام کا پیرو ہے
اللہ سے محبت کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے محبت کرتا ہے اور اسی کے ہاتھوں اللہ تعالی قلعے فتح فرمائے گا
رسول خداؐ نے اس مہم کی انجام دہی کے لئے تمام انسانوں کے درمیان علیؑ کو چن لیا، انہیں اپنا وزیر اور بھائی قرار دیا۔

شیخ مفید، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ص70۔

حوالہ جات

  1. البلادی، معجم المعالم، ص170-171۔
  2. حافظ وهبة، جزیرة العرب فی القرن العشرین، ص24۔
  3. الحربی، کتاب المناسک، ص413.
  4. الواقدی، المغازی، ج2، ص441-442۔
  5. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص201، 225۔
  6. البلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص409۔
  7. نیز: التجانی، الترتیبات المالیة، ص56-57، 92۔
  8. التجانی، الترتیبات المالیة، ص93-94۔
  9. Watt, Muhammad at Madina, p212.
  10. الواقدی، المغازی، ج2، ص526-563۔
  11. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص286-288۔
  12. الواقدی، المغازی، ج2، ص566-568۔
  13. ابن هشام، السیرة النبویة، ج4، ص266-267۔
  14. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص92۔
  15. Watt, Muhammad at Madina, p212.213.
  16. Watt, Muhammad at Madina, p216.218.
  17. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص342، 355۔
  18. ابن حبیب، المحبر، ص115۔
  19. الواقدی، المغازی، ج2، ص634۔
  20. الواقدی، المغازی، ج2، ص636-637۔
  21. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص99۔۔
  22. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص342۔
  23. ابن حبیب، المحبر، ص127۔
  24. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص342۔
  25. المفید، الارشاد، ج1، ص126۔
  26. قس الواقدی، المغازی، ج2، ص649۔
  27. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص106۔
  28. العاملی، الصحیح من سیرة النبیؐ، ج17، ص153-154۔
  29. الواقدی، المغازی، ج2، ص689۔
  30. ابن زنجویه، ج1، ص190 ۔
  31. البلاذری، انساب الاشراف، ص28۔
  32. الواقدی، المغازی، ج2، ص685-687۔
  33. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص357۔
  34. الواقدی، المغازی، ج2، ص684-685۔
  35. الواقدی، المغازی، ج2، ص637۔
  36. الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص56۔
  37. الواقدی، المغازی، ج2، ص634، 637، 640-641، 701-703۔
  38. الواقدی، المغازی، ج، 2، ص639-640۔
  39. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص344۔
  40. الواقدی، المغازی، ج2، ص640-642۔
  41. الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص650۔
  42. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص344 ۔
  43. الواقدی، المغازی، ج2، ص650-652۔
  44. الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص637-638۔
  45. الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص637۔
  46. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص343-344۔
  47. البكري، معجم ما استعجم، ج2، ص522 ۔
  48. ابن ابی شیبه، المصنف، ج8، ص526۔
  49. الواقدی، المغازی، ج2، ص643-645۔
  50. قس العاملی، الصحیح من سیرة النبیؐ، ج17، ص139-141۔
  51. الواقدی، المغازی، ج2، ص644-648۔
  52. البخاری، صحيح البخاري، ج5، ص134۔
  53. النیسابوری، صحيح مسلم، ج7، ص121-122۔
  54. رجوع کریں: الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص648-649، 652-654۔
  55. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص349۔
  56. البلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص86، 92-93۔
  57. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص348۔
  58. خلیفه بن خیاط، تاريخ خليفة، ص49۔
  59. الواقدی، المغازی، ج2، ص655-656۔
  60. ابن حنبل، المسند، ج4، ص52۔
  61. النیسابوری، الصحیح، ج5، ص194-195۔
  62. طبری، تاریخ، ج3، ص12-13۔
  63. ۔مفید، الارشاد، ج2، ص12-13 و ص126-127۔
  64. صالحی شامی، ج5، ص126-127۔
  65. الحلبی، السیرة الحلبیة، ج2، ص56۔
  66. الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص56۔
  67. البكري، معجم ما استعجم، ج2، ص522۔
  68. الواقدی، المغازی، ج2، ص655۔
  69. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص349-350۔
  70. المقدسی، البدء والتاریخ، ج5، ص226۔
  71. المقريزي، امتاع الاسماع، ج1، ص310 ۔
  72. المفید، الارشاد، ج2، ص128-129۔
  73. البیهقی، دلائل النبوة، ج4، ص212۔
  74. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابي طالب، ج2، ص78، 125-128۔
  75. العاملی، الصحیح من سیرة النبیؐ، ج18، ص27۔
  76. ابن بابویه، الخصال، ج2، ص369۔
  77. مفید، الارشاد، ج1، ص124۔
  78. العاملی، الصحیح من سیرة النبیؐ، ج18، ص29-34 ۔
  79. الواقدی، المغازی، ج2، ص654، 657-658۔
  80. الواقدی، المغازی، ج2، ص662۔
  81. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص345-346۔
  82. الواقدی، المغازی، ج2، ص666-667۔
  83. الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص648، 668۔
  84. الواقدی، المغازی، ج2، ص671-673۔
  85. قس ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص351۔
  86. البلاذری، انساب الاشراف، ص23-24۔
  87. الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص669-671۔
  88. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص347، 351-352۔
  89. البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج1، ص443۔
  90. الواقدی، المغازی، ج2، ص676۔
  91. البلاذري، فتوح البلدان، ص39، قس ص28۔
  92. شیخ مفید، الارشاد، ج1، ص125۔
  93. مسعودی، التنبیه والاشراف، ص256۔
  94. الواقدی، المغازی، ج2، ص677-678۔
  95. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص352-353۔
  96. البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج1، ص639۔
  97. الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص56-57۔
  98. سلام، حصون خیبر فی الجاهلیة، ص92-93۔
  99. الواقدی، المغازی، ج2، ص700۔
  100. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص357-358۔
  101. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص107۔
  102. التجانی، الترتیبات المالیة، ص60-61، 94۔
  103. الواقدی، المغازی، ج2، ص680-682، 690، 693-696۔
  104. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص363، 365-366۔
  105. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص107-108۔
  106. ابن زنجویه، کتاب الاموال، ج1، ص187۔
  107. وہ مال جو اللہ نے بغیر جنگ کے اپنے رسول کی طرف پہنچایا۔
  108. الواقدی، المغازی، ج2، ص670-671۔
  109. ابن فراء، الاحکام السلطانیة، ص200-201۔
  110. السهمودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، ج4، ص1209-1210۔
  111. صالحی شامی، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص143۔
  112. صنعانی، المصنف، ج5، ص372۔
  113. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص364۔
  114. الواقدی، المغازی، ج2، ص684۔
  115. ابویوسف، کتاب الخراج، ص23۔
  116. الواقدی، المغازی، ج2، ص689۔
  117. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص364۔
  118. قس ابن آدم، کتاب الخراج، ص37-39۔
  119. ابن زنجویه، کتاب الاموال، ج1، ص188-190۔
  120. البلاذري، فتوح البلدان، ص28-29۔
  121. البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج2، ص689-690۔
  122. الواقدی، المغازی، ج2، ص683۔
  123. قس العاملی، الصحیح من سیرة النبیؐ، ج18، ص95-98۔
  124. . الواقدی، المغازی، ج2، ص684-687۔
  125. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص356-357۔
  126. ابو یوسف، کتاب الخراج، ص50-51۔
  127. صنعانی، المصنف، ج8، ص99۔
  128. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص352، 371۔
  129. ابن زنجویہ، کتاب الاموال، ج3، ص1066-1068
  130. الواقدی، المغازی، ج2، ص673-675؛ 707-708۔
  131. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص354۔
  132. الواقدی، المغازی، ج2، ص684۔
  133. الصنعانی، المصنف، ج5، ص372۔
  134. البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج1، ص254۔
  135. ابن ابی شیبہ، المصنف، ج8، ص519۔
  136. الطبري، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، ص110 اور اگلے صفحات۔
  137. ابویوسف، کتاب الخراج، ص89۔
  138. الواقدی، المغازی، ج2، ص654، 695-699۔
  139. ابو یوسف، کتاب الخراج، ص89۔
  140. الواقدی، المغازی، ج2، ص654، 695-699، 716-721۔
  141. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص371-372۔
  142. البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ص23-26 ۔
  143. جواد علی، المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام، ج6، ص525۔
  144. الواقدی، المغازی، ج2، ص701۔
  145. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص355-356۔


مآخذ

  • مضمون کا اصل ماخذ: دانشنامۂ جہان اسلام ج16.
  • ابن آدم، کتاب الخراج، چاپ احمد محمد شاکر، قاهره [بی تا]
  • ابن ابی شیبہ، المصنف فی الاحادیث والآثار، چاپ سعید لحام، بیروت 1409هجری قمری /1989 عیسوی۔
  • ابن اثیر الجزری، علی بن ابی الکرم محمد بن محمد بن عبدالکریم بن عبدالواحد الشیبانی، الكامل في التاريخ، دارالکتب العلمیه، بیروت لبنان ۔ 1407 هجری قمری / 1987 عیسوی۔
  • ابن بابویہ، کتاب الخصال، چاپ علی اکبر غفاری، قم 1362 هجری شمسی۔
  • ابن حبیب، کتاب المحبر، چاپ ایلزه لیشتن اشتتر، حیدرآباد، دکن 1361هجری قمری /1942، چاپ افست بیروت [بی تا]
  • ابن خرداذبہ، أبو القاسم عبيد الله بن عبد الله (المتوفى: نحو 280هـ)، المسالك والممالك، دار صادر أفست ليدن، بيروت ۔ 1889 عیسوی۔
  • ابن زنجویہ، کتاب الاموال، چاپ شاکر ذیب فیاض، ریاض 1406هجری قمری /1986 عیسوی۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، (بیروت)۔
  • ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، نجف 1956 عیسوی۔
  • ابن فراء، الاحکام السلطانیة، چاپ محمد حامد فقی، بیروت 1403هجری قمری / 1983 عیسوی۔
  • ابن ہشام، السیرة النبویة، چاپ مصطفی سقا، ابراهیم ابیاری و عبدالحفیظ شلبی، قاهره 1355هجری قمری /1936 عیسوی۔
  • ابوعبید، قاسم بین سلام، کتاب الاموال، چاپ محمد خلیل هراس،بیروت 1408هجری قمری /1988 عیسوی۔
  • ابویوسف، یعقوب بن ابراهیم، کتاب الخراج، بیروت 1399هجری قمری /1979 عیسوی۔
  • ابن حنبل، احمد، مسند الامام احمد بن حنبل، بیروت: دار صادر [بی تا]
  • بخاری، محمد بن اسماعیل بن ابراهیم بن المغیرة الجعفی البخاری (194 - 256ه‍)، الجامع المسند الصحیح المختصر، المشرف: محمد زهیر بن ناصر بن ناصی، دار الطوق النجاة، بیروت - لبنان 1422 هجری قمری۔
  • بكري الاندلسي، أبو عبيد عبد الله بن عبد العزيز، معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع، مخطوطات القاهرة، المحقق: مصطفى السقا، بيروت الطبعة الثالثة 1403 هجری قمری / 1983 عیسوی۔‍
  • بلادي، عاتق بن غيث، معجم المعالم الجغرافية في السيرة النبوية، الناشر: دار مكة للنشر والتوزيع، سنة النشر: 1402 هجری قمری / 1982 عیسوی۔
  • بلاذري، أحمد بن يحيی بن جابر، جمل من أنساب الأشراف، المحقق: سهيل زكار - رياض زركلي، دار الفكر للطباعة والنشر ۔ بيروت ۔ لبنان، الطبعة الاولی ـ 1417 هجری قمری / 1996 عیسوی۔
  • بلاذري، فتوح البلدان، الدكتور صلاح الدين المنجد، نشره ووضع ملاحقه وفهارسه ملتزمة النشر والطبع مكتبة النهضة المصرية، القاهرة مطبعة لجنة البيان العربي۔
  • بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوة، چاپ عبدالمعطی قلعجی، بیروت 1405هجری قمری /1985 عیسوی۔
  • ڈاکٹڑ جواد علي، المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام، ساعدت جامعة بغداد في نشره، الطبعة الثانية 1413 هجری قمری / 1993 عیسوی۔
  • حافظ وهبہ، جزيرة العرب في القرن العشرين، مطبعة لجنة التأليف والترجمة والنشر، الطبعة الاولی، 1354 هجری قمری / 1935 عیسوی۔
  • حربی، ابراهیم بن اسحاق، کتاب المناسک و اماکن طرق الحج و معالم الجزیرة، چاپ حمد جاسر، ریاض 1401 هجری قمری /1981 عیسوی۔
  • عصقري، خليفة بن خياط، تاريخ ابن خياط، تحقيق: سهيل زكار، دار الفكر، بيروت لبنان 1993 عیسوی / 1414 هجری قمری۔
  • سلام، سلام شافعي محمود، حصون خيبر في الجاهلية و عصر الرسول صلى الله عليه و آله، الناشر: منشأة المعارف - الاسكندرية۔ 1409 هجری قمری /1989 عیسوی۔
  • سهمودی، علی بن عبدالله، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، بیروت 1404هجری قمری /1984 عیسوی۔
  • صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الهدی و الرشاد فی سیرة خیر العباد، چاپ عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت 1414 هجری قمری /1993 عیسوی۔
  • تجانی، صلاح، الترتیبات المالیة فی تاریخ غزوة خیبر: بواعثها و نتائجها»، مجلة المورخ العربی، ج1، ش 5 (1997 عیسوی)۔
  • عبدالرزاق بن همام صنعانی، المصنف، چاپ حبیب الرحمان اعظمی، بیروت، 1403هجری قمری /1983 عیسوی۔
  • طبري، ابو جعفر محمد، تاريخ الرسل والملوك، محمد ابوالفضل ابراهیم، الطبعة الثانیة، دار المعارف بمصر۔
  • طبري، محمد بن جرير، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، قدم له: خليل الميس، ضبط وتوثيق وتخريج: صدقي جميل العطار، دار الفكر، بيروت لبنان، 1415 هجری / 1995 عیسوی۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم صلی الله علیه و آله و سلم، قم، 1385 هجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین بن علی، التنبیه والاشراف، لیدن، 1894 عیسوی۔ دار صادر بیروت۔
  • شيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان العكبري البغدادي (336 - 413 ه‍)، الارشاد في معرفة حجج الله علي العباد، تحقيق: مؤسسة آل البيتؑ لتحقيق التراث، دار المفيد ۔ المؤتمر، الالفي للشيخ المفيد في مدينة قم سنة 1413 هجری قمری۔
  • مقدسي، المطهر بن طاهر، (المتوفی: نحو 355ه‍) البدء والتاريخ۔
  • مقريزي، أحمد بن علي بن، إمتاع الأسماع بما للنبي صلى الله عليه وسلم من الأحوال والأموال والحفدة المتاع، محقق: محمد عبد الحميد النميسي، دار الكتب العلمية، 1420 هجری قمری / 1999 عیسوی۔
  • حلبی، علی بن ابراهیم بن احمد الشافعی، السیره الحلبیه: (انسان العیون فی سیرة الامین المامون)، تحقیق: عبدالله محمد الخلیلی بیروت، دار الکتب العلمیة، الطبعة الثانية، 1427 هجری قمری / 2006 عیسوی۔
  • نيشابوري، مسلم بن الحجاج ابن مسلم القشيرى، الجامع الصحيح، دار الفكر بيروت - لبنان۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن 1966، چاپ افست قاهره، بی تا۔
  • يعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر، تاريخ اليعقوبي، مؤسسه ونشر فرهنگ اهل بيت ؑ - قم ۔ دار صادر بيروت 1379 هجری قمری / 1960 عیسوی۔
  • Watt, William Montgomery, Muhammad at Madina, Karachi 1981.
پچھلا غزوہ:
حدیبیہ
رسول اللہؐ کے غزوات
غزوہ خیبر
اگلا غزوہ:
عمرۃ القضاء