باب الساعات

ویکی شیعہ سے
باب الساعات
ابتدائی معلومات
تاسیسقبل از سنہ 61 ہجری
محل وقوعدمشق
مربوط واقعاتاسیران کربلا
مشخصات
معماری


بابُ السّاعات یا دروازہ ساعات دمشق میں اس دروازے کا نام ہے جہاں اسیران کربلا کو یزید کے دربار میں لے جانے سے پہلے کئی گنھٹوں تک روک کر رکھا گیا۔ پیغمبر اکرمؐ کے صحابی سَہل ساعدی نے اسیران کربلا کا باب الساعات سے گزارے جانے کی کیفیت کو نقل کیا ہے۔ اسی وجہ سے عاشورا سے متعلق موضوعات میں باب الساعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔

وجہ نام‌ گذاری

باب الساعات مسجد اُمَویِ دمشق کا صدر دروازہ ہے جس کے اوپر ایک بہت بڑی گھڑی نصب کی گئی تھی۔ اسے باب جیرون بھی کہا جاتا ہے۔[1] بعض احادیث[2] سے معلوم ہوتا ہے کہ دمشق کا حَلَب اور کوفہ کی طرف سے داخلے کا راستہ بھی باب الساعات کے نام سے مشہور تھا[3] جہاں یزید کے دربار میں لے جانے سے پہلے امام حسینؑ کا سر رکھا گیا تھا۔[4] کہا جاتا ہے کہ چونکہ سنہ 61 ہجری کو اسیران کربلا کے قافلے کو کئی گھنٹوں تک یہاں رکھا گیا تھا اس وجہ سے یہ راستہ باب الساعات کے نام مشہور ہوا ہے۔[5]
بعض مورخین اس دروازے کو باب الساعات کے نام سے یاد کرنے کی علت اس گھڑی کو بتاتے ہیں جو اس دروازے پر نصب کیی ہوئی تھی۔[6] بعض مورخین کے مطابق اسیران کربلا کو شام میں باب توماء کے راستے لائے گئے۔[7] اسی طرح بعض اشخاص کا کہنا ہے کہ باب الساعات اسی "باب توماء" کو ہی کہا جاتا ہے جو دمشق کا عیسائی نشین علاقہ تھا اور اس میں ان کے بعض آثار بھی موجود ہیں۔[8]

سہل ساعدی کی روایت

سَہل ساعدی نقل کرتے ہیں کہ جب اسیران کربلا کا قافلہ دمشق لایا گیا تو اس وقت دمشق کے باسی "باب الساعات" کے پاس جمع ہو کر خوشی اور شادمانی کا اظہار کر رہے تھے۔[9] شیخ عباس قمی نے کامل بہائی سے نقل کی ہیں کہ امام حسینؑ کے اہل بیت کو تین دن دمشق کے دروازے پر رکھا گیا۔[10]

سہل ساعدی نے اسیران کربلا کے شہر دمشق میں لائے جانے کی کیفیت یوں بیان کی ہے: شہداء کے کٹے ہوئے سر نیزوں پر بلند کر کے اسیروں کے ہمراہ لائے جا رہے تھے اور امام حسینؑ کی بیٹی سکینہ نے ان سے درخواست کی کہ نیزہ برداروں کو کوئی چیز دے دیں تاکہ یہ لوگ شہداء کے سروں کو اسیروں سے آگے لے جائیں تاکہ نامحرموں کی نگاہ اہل بیت کے مخدرات پر نہ پڑ سکیں۔[11] اسی مناسبت سے واقعہ عاشورا سے مربوط واقعات اور ذکر مصیبت میں "باب الساعات" کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔

باب الساعات میں ایک بہت بڑا پتھر ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہابیل اور قابیل نے اپنی اپنی قربانی اسی پتھر پر رکھی تھی۔[12]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن بطوطہ، سفرنامہ، ۱۳۵۹ش، ج۱، ص۹۰۔
  2. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴۵، ص۱۲۸۔
  3. بیضون، موسوعۃ الکربلا، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۴۱۴۔
  4. بیضون، موسوعۃ الکربلا، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۴۱۴۔
  5. محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۳۷۸ش، ص۱۸۸۔
  6. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، دار الفکر، ج۹، ص۱۵۸۔
  7. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۲۹-۱۳۰۔
  8. شہیدی، «باب الساعات» در دایرۃ المعارف تشیع، ۱۳۸۰ش، ج۳، ص۱۲؛ محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۳۷۸ش، ص۱۸۸۔
  9. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴۵، ص۱۲۸۔
  10. قمی، نفس المہموم، ۱۴۲۱ق، ص۳۹۴۔
  11. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴۵، ص۱۲۸؛ خوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۶۸۔
  12. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۲، ص۴۶۴؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، دار الفکر، ج۹، ص۱۵۴۔

مآخذ

  • ابن اعثم کوفی، احمد، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م۔
  • ابن بطوطہ، سفرنامہ ابن بطوطہ، ترجمہ: محمد علی موحد، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، ۱۳۵۹ش۔
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، بی‌تا۔
  • بیضون، لبیب، موسوعۃ کربلا، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، ۱۴۲۷ق۔
  • حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت،‌ دار صادر، ۱۹۹۵م۔
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیہ‌السلام، قم، انوار الہدی، ۱۴۲۳ق۔
  • قمی، شیخ عباس، نفس المہموم، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، ۱۴۲۱ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، ۱۴۰۴ق۔
  • محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، ۱۳۷۸ش۔
  • شہیدی، عبد الحسین، «باب الساعات»، دایرۃ المعارف تشیع(ج۳)، نشر شہید سعید محبی، ۱۳۸۰ش۔