عثمان بن حنیف کے نام امام علی کا خط

ویکی شیعہ سے

عُثمان بن حُنَیف کے نام امام علیؑ کا خط، امام علیؑ نے بصرہ کے گورنر عُثمان بن حُنَیف کے نام ایک خط لکھا جو نہج البلاغہ کے مکتوبات کے حصے میں درج ہے۔ اس خط کا بنیادی مقصد عثمان بن حنیف کی سرزنش ہے جس نے کسی ایسی مہمانی میں شرکت کی تھی جس میں غریبوں کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔[1] بعض محققین اس مکتوب کو دین کی جامعیت کا سب سے اہم مصداق سمجھتے ہیں۔[2] اسی طرح کہا گیا ہے کہ یہ خط سیاست اور مدیریت کے میدان میں امام علیؑ کی شخصیت کو پہچنوانے کا سبب بن سکتا ہے۔[3] اس بنا پر اسلام کے سیاسی نظریے کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں اس خط کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[4] چونکہ اس خط میں امام علیؑ کی طرز حکمرانی بیان کی گئی ہے اس بنا پر اس خط کو امام علیؑ کی طرف سے اپنے عمال کو لکھے گئے خطوط میں شامل کیا گیا ہے۔[5]

نہج‌ البلاغہ کے اکثر نسخوں میں یہ خط مکتوبات نہج البلاغہ کے 45ویں نمبر پر درج ہے:[6]

نسخے کا نام خط کا نمبر[7]
المعجم المفہرس، صبحی صالح، فیض الاسلام، ملاصالح، ابن ابی الحدید، عبدہ 45
خوئی، ابن میثم، فی ظلال 44
ملافتح اللہ 48
بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کے نام امام علیؑ کا کھلا خط، نہج‌ البلاغہ کے خط نمبر 45 کی شرح، تحریر: محمد محمدی اشتہاردی

اس خط میں امام علیؑ کی طرف سے جن باتوں کی رعایت کرنے کی سفارش ہوئی ہے وہ یہ ہیں: پاک دامنی، تقوا، غریبوں کا خیال رکھنا، نفسانی خواہشات پر قابو پانا، قناعت، اِسراف سے پرہیز، لوگوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا، سادگی، زندگی میں امام کی اتباع کرنا اور دعوتوں اور مہمانوں کے حوالے سے محتاط رہنا۔[8]

اس خط میں اشرافیہ گری کے نقصانات کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے مقابلہ کرنے کے طریقے کار بھی بیان کیا گیا ہے۔[9] محققین کے مطابق اس خط کو اشرافیہ گری سے مقابلہ کرنے کا بہترین اخلاقی اور سماجی نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔[10]

عثمان بن حُنَیف کے نام امام علیؑ کے خط کے بعض حصے کتاب اَمالی شیخ صدوق[11] و اور دیگر کتابوں میں بھی نقل ہوا ہے۔[12] بعض محققین کے مطابق یہ خط امام علیؑ کی حکومت کے ابتدائی سالوں سنہ 36ھ میں عثمان بن حنیف کو لکھا گیا ہے۔[13] نہج‌ البلاغہ کے ترجموں اور شروحات کی ضمن میں اس خط کے ترجمے اور شرح کے علاوہ اس عربی اور فارسی زبان میں نہج البلاغہ کے اس خط کے خصوصی ترجمے اور شروحات بھی لکھی گئی ہیں جو درج ذیل ہیں:

  • مصر کے گورنر عثمان بن حنیف کے نام امام علیؑ کا کھلا خط، تصنیف: محمد محمدی اشتہاردی؛[14]
  • قیادت اور تقویٰ، تحریر: مصطفی دلشاد تہرانی؛[15]
  • عثمانِ بنِ حًنَیفِ الاَنصاری کے نام امام علی کے خط کی شرح، تصنیف: ہاشم میلانی؛[16]
  • علی اور حکومتی ملازمین، تصنیف: علی‌اکبر حمیدزادہ۔[17]

متن اور ترجمہ

متن ترجمہ
أَمَّا بَعْدُ، یا ابْنَ حُنَیفٍ فَقَدْ بَلَغَنِی أَنَّ رَجُلًا مِنْ فِتْیۃِ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ دَعَاكَ إِلَی مَأْدُبَۃٍ فَأَسْرَعْتَ إِلَیہَا اے ابن حنیف! مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے جوانوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے
تُسْتَطَابُ لَكَ الْأَلْوَانُ وَ تُنْقَلُ إِلَیكَ الْجِفَانُ وَ مَا ظَنَنْتُ أَنَّكَ تُجِیبُ إِلَی طَعَامِ قَوْمٍ عَائِلُہُمْ مَجْفُوٌّ وَ غَنِیہُمْ مَدْعُوٌّ کہ رنگا رنگ عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لئے چن چن کر لائے جا رہے تھے اور بڑے بڑے پیالے تمہاری طرف بڑھائے جا رہے تھے۔ مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے یہاں سے فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں۔
فَانْظُرْ إِلَی مَا تَقْضَمُہُ مِنْ ہَذَا الْمَقْضَمِ فَمَا اشْتَبَہَ عَلَیكَ عِلْمُہُ فَالْفِظْہُ وَ مَا أَیقَنْتَ بِطِیبِ وُجُوہِہِ فَنَلْ مِنْہُ جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو، اور جس کے متعلق شبہ بھی ہو اسے چھوڑ دیا کرو، اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔
أَلَا وَ إِنَّ لِكُلِّ مَأْمُومٍ إِمَاماً یقْتَدِی بِہِ وَ یسْتَضِی‌ءُ بِنُورِ عِلْمِہِ أَلَا وَ إِنَّ إِمَامَكُمْ قَدِ اكْتَفَی مِنْ دُنْیاہُ بِطِمْرَیہِ وَ مِنْ طُعْمِہِ بِقُرْصَیہِ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے، اور جس کے نور علم سے کسب ضیا کرتا ہے۔ دیکھو! تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے ساز و سامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔
أَلَا وَ إِنَّكُمْ لاتَقْدِرُونَ عَلَی ذَلِكَ وَ لَكِنْ أَعِینُونِی بِوَرَعٍ وَ اجْتِہَادٍ وَ عِفَّۃٍ وَ سَدَادٍ میں مانتا ہوں کہ تمہارے بس کی یہ بات نہیں، لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری، سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔
فَوَاللہِ مَا كَنَزْتُ مِنْ دُنْیاكُمْ تِبْراً وَ لاادَّخَرْتُ مِنْ غَنَائِمِہَا وَفْراً وَ لاأَعْدَدْتُ لِبَالِی ثَوْبِی طِمْراً وَ لاحُزْتُ مِنْ أَرْضِہَا شِبْراً وَ لاأَخَذْتُ مِنْہُ إِلَّا كَقُوتِ أَتَانٍ دَبِرَۃٍ وَ لَہِی فِی عَینِی أَوْہَی وَ أَوْہَنُ مِنْ عَفْصَۃٍ مَقِرَۃٍ خدا کی قسم! میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا، اور نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ہیں، اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلہ میں (جو پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیاہے۔
بَلَی كَانَتْ فِی أَیدِینَا فَدَكٌ مِنْ كُلِّ مَا أَظَلَّتْہُ السَّمَاءُ فَشَحَّتْ عَلَیہَا نُفُوسُ قَوْمٍ وَ سَخَتْ عَنْہَا نُفُوسُ قَوْمٍ آخَرِینَ وَ نِعْمَ الْحَكَمُ اللہُ بے شک اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کر ایک فدک ہمارے ہاتھوں میں تھا، اس پر بھی کچھ لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پروا نہ کی اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے۔
وَ مَا أَصْنَعُ بِفَدَكٍ وَ غَیرِ فَدَكٍ وَ النَّفْسُ مَظَانُّہَا فِی غَدٍ جَدَثٌ تَنْقَطِعُ فِی ظُلْمَتِہِ آثَارُہَا وَ تَغِیبُ أَخْبَارُہَا وَ حُفْرَۃٌ لَوْ زِیدَ فِی فُسْحَتِہَا وَ أَوْسَعَتْ یدَا حَافِرِہَا لَأَضْغَطَہَا الْحَجَرُ وَ الْمَدَرُ وَ سَدَّ فُرَجَہَا التُّرَابُ الْمُتَرَاكِمُ بھلا میں فدک یا فدک کے علاوہ کسی اور چیز کو لے کر کروں ہی گا کیا؟ جبکہ نفس کی منزل کل قبر قرار پانے والی ہے کہ جس کی اندھیاریوں میں اس کے نشانات مٹ جائیں گے اور اس کی خبریں ناپید ہو جائیں گی۔ وہ تو ایک ایسا گڑھا ہے کہ اگر اس کا پھیلاؤ بڑھا بھی دیا جائے اور گور کن کے ہاتھ اسے کشادہ بھی رکھیں، جب بھی پتھر اور کنکر اس کو تنگ کر دیں گے اور مسلسل مٹی کے ڈالے جانے سے اس کی دراڑیں بند ہو جائیں گی۔
وَ إِنَّمَا ہِی نَفْسِی أَرُوضُہَا بِالتَّقْوَی لِتَأْتِی آمِنَۃً یوْمَ الْخَوْفِ الْأَكْبَرِ وَ تَثْبُتَ عَلَی جَوَانِبِ الْمَزْلَقِ وَ لَوْ شِئْتُ لَاہْتَدَیتُ الطَّرِیقَ إِلَی مُصَفَّی ہَذَا الْعَسَلِ وَ لُبَابِ ہَذَا الْقَمْحِ وَ نَسَائِجِ ہَذَا الْقَزِّ وَ لَكِنْ ہَیہَاتَ أَنْ یغْلِبَنِی ہَوَای وَ یقُودَنِی جَشَعِی إِلَی تَخَیرِ الْأَطْعِمَۃِ وَ لَعَلَّ بِالْحِجَازِ أَوْ الْیمَامَۃِ مَنْ لاطَمَعَ لَہُ فِی الْقُرْصِ وَ لاعَہْدَ لَہُ بِالشِّبَعِ میری توجہ تو صرف اس طرف ہے کہ میں تقوائے الٰہی کے ذریعہ اپنے نفس کو بے قابو نہ ہونے دوں، تاکہ اس دن کہ جب خوف حد سے بڑھ جائے گا، وہ مطمئن رہے اور پھسلنے کی جگہوں پر مضبوطی سے جما رہے۔ اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کیلئے ذرائع مہیا کر سکتا تھا۔ لیکن ایسا کہاں ہو سکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنالیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانوں کے چن لینے کی دعوت دے، جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو۔
أَوْ أَبِیتَ مِبْطَاناً وَ حَوْلِی بُطُونٌ غَرْثَی وَ أَكْبَادٌ حَرَّی أَوْ أَكُونَ كَمَا قَالَ الْقَائِلُ: کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا کروں، درآنحالانکہ میرے گرد و پیش بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپتے ہوں؟ یا میں ویسا ہو جاؤں جیسا کہنے والے نے کہا ہے کہ:
وَ حَسْبُكَ دَاءً أَنْ تَبِیتَ بِبِطْنَۃٍ * وَ حَوْلَكَ أَكْبَادٌ تَحِنُّ إِلَی الْقِدِّ ’’تمہاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں‘‘؟
أَ أَقْنَعُ مِنْ نَفْسِی بِأَنْ یقَالَ ہَذَا أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ وَ لاأُشَارِكُہُمْ فِی مَكَارِہِ الدَّہْرِ أَوْ أَكُونَ أُسْوَۃً لَہُمْ فِی جُشُوبَۃِ الْعَیشِ کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنینؑ کہاجاتا ہے مگر میں زمانہ کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کی بدمزگیوں میں ان کیلئے نمونہ نہ بنوں؟
فَمَا خُلِقْتُ لِیشْغَلَنِی أَكْلُ الطَّیبَاتِ كَالْبَہِیمَۃِ الْمَرْبُوطَۃِ، ہَمُّہَا عَلَفُہَا أَوِ الْمُرْسَلَۃِ شُغُلُہَا تَقَمُّمُہَا تَكْتَرِشُ مِنْ أَعْلَافِہَا وَ تَلْہُو عَمَّا یرَادُ بِہَا میں اس لئے تو پیدا نہیں ہوا ہوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں، اس بندھے ہوئے چوپایہ کی طرح جسے صرف اپنے چارے ہی کی فکر رہتی ہے، یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح جس کا کام منہ مارنا ہوتا ہے۔ وہ گھاس سے پیٹ بھر لیتا ہے اور جو اس سے مقصد پیشِ نظر ہوتا ہے اس سے غافل رہتا ہے۔
أَوْ أُتْرَكَ سُدًی أَوْ أُہْمَلَ عَابِثاً أَوْ أَجُرَّ حَبْلَ الضَّلَالَۃِ أَوْ أَعْتَسِفَ طَرِیقَ الْمَتَاہَۃِ وَ كَأَنِّی بِقَائِلِكُمْ یقُولُ إِذَا كَانَ ہَذَا قُوتُ ابْنِ أَبِی طَالِبٍ فَقَدْ قَعَدَ بِہِ الضَّعْفُ عَنْ قِتَالِ الْأَقْرَانِ وَ مُنَازَلَۃِ الشُّجْعَانِ أَلَا وَ إِنَّ الشَّجَرَۃَ الْبَرِّیۃَ أَصْلَبُ عُوداً وَ الرَّوَاتِعَ الْخَضِرَۃَ أَرَقُّ جُلُوداً وَ النَّابِتَاتِ الْعِذْیۃَ أَقْوَی وَقُوداً وَ أَبْطَأُ خُمُوداً۔ کیا میں بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہوں یا بیکار کھلے بندوں رہا کر دیا گیا ہوں کہ گمراہی کی رسیوں کو کھینچتا رہوں اور بھٹکنے کی جگہوں میں منہ اٹھائے پھرتا رہوں؟۔ میں سمجھتا ہوں تم میں سے کوئی کہے گا کہ: جب ابن ابی طالبؑ کی خوراک یہ ہے تو ضعف و ناتوانائی نے اسے حریفوں سے بھڑنے اور دلیروں سے ٹکرانے سے بٹھا دیا ہو گا۔ مگر یاد رکھو کہ جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے اور تر و تازہ پیڑوں کی چھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے، اور صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا ہے اور دیر میں بجھتا ہے۔
وَ أَنَا مِنْ رَسُولِ اللہِ كَالضَّوْءِ مِنَ الضَّوْءِ وَ الذِّرَاعِ مِنَ الْعَضُدِ وَ اللہِ لَوْ تَظَاہَرَتِ الْعَرَبُ عَلَی قِتَالِی لَمَا وَلَّیتُ عَنْہَا وَ لَوْ أَمْكَنَتِ الْفُرَصُ مِنْ رِقَابِہَا لَسَارَعْتُ إِلَیہَا وَ سَأَجْہَدُ فِی أَنْ أُطَہِّرَ الْأَرْضَ مِنْ ہَذَا الشَّخْصِ الْمَعْكُوسِ وَ الْجِسْمِ الْمَرْكُوسِ حَتَّی تَخْرُجَ الْمَدَرَۃُ مِنْ بَینِ حَبِّ الْحَصِیدِ۔ مجھے رسول ﷺ سے وہی نسبت ہے جو ایک ہی جڑ سے پھوٹنے والی دو شاخوں کو ایک دوسرے سے اور کلائی کو بازو سے ہوتی ہے۔ خدا کی قسم! اگر تمام عرب ایکا کر کے مجھ سے بھڑنا چاہیں تو میدان چھوڑ کر پیٹھ نہ دکھاؤں گا، اور موقع پاتے ہی ان کی گردنیں دبوچ لینے کیلئے لپک کر آگے بڑھوں گا اور کوشش کروں گا کہ اس الٹی کھوپڑی والے بے ہنگم ڈھانچے (معاویہ) سے زمین کو پاک کر دوں، تاکہ کھلیان کے دانوں سے کنکر نکل جائے۔
سید رضی نے اس مکتوب کے درمیانی حصے کو نقل نہیں کیا ہے اور اس کا آخری حصہ یوں ہے:
إِلَیكِ عَنِّی یا دُنْیا، فَحَبْلُكِ عَلَی غَارِبِكِ قَدِ انْسَلَلْتُ مِنْ مَخَالِبِكِ وَ أَفْلَتُّ مِنْ حَبَائِلِكِ وَ اجْتَنَبْتُ الذَّہَابَ فِی مَدَاحِضِكِ اے دنیا! میرا پیچھا چھوڑ دے، تیری باگ ڈور تیرے کاندھے پر ہے۔میں تیرے پنجوں سے نکل چکا ہوں، تیرے پھندوں سے باہر ہو چکا ہوں اور تیری پھسلنے کی جگہوں میں بڑھنے سے قدم روک رکھے ہیں۔
أَینَ الْقُرُونُ الَّذِینَ غَرَرْتِہِمْ بِمَدَاعِبِكِ؟ أَینَ الْأُمَمُ الَّذِینَ فَتَنْتِہِمْ بِزَخَارِفِكِ؟ فَہَا! ہُمْ رَہَائِنُ الْقُبُورِ وَ مَضَامِینُ ال‍لّحُودِ کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں تو نے کھیل تفریح کی باتوں سے چکمے دیئے؟ کدھر ہیں وہ جماعتیں جنہیں تو نے اپنی آرائشوں سے ورغلائے رکھا؟ وہ تو قبروں میں جکڑے ہوئے اور خاکِ لحد میں دُبکے پڑے ہیں۔
وَ اللہِ لَوْ كُنْتِ شَخْصاً مَرْئِیاً وَ قَالَباً حِسِّیاً لَأَقَمْتُ عَلَیكِ حُدُودَ اللہِ فِی عِبَادٍ غَرَرْتِہِمْ بِالْأَمَانِی وَ أُمَمٍ أَلْقَیتِہِمْ فِی الْمَہَاوِی وَ مُلُوكٍ أَسْلَمْتِہِمْ إِلَی التَّلَفِ وَ أَوْرَدْتِہِمْ مَوَارِدَ الْبَلَاءِ إِذْ لاوِرْدَ وَ لاصَدَرَ اگر تو دکھائی دینے والا مجسمہ اور سامنے آنے والا ڈھانچہ ہوتی تو بخدا! میں تجھ پر اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں جاری کرتا کہ تو نے بندوں کو امیدیں دلا دلا کر بہکایا، قوموں کی قوموں کو (ہلاکت کے) گڑھوں میں لا پھینکا اور تاجداروں کو تباہیوں کے حوالے کر دیا اور سختیوں کے گھاٹ پر لا اتارا، جن پر اس کے بعد نہ سیراب ہونے کیلئے اترا جائے گا اور نہ سیراب ہو کر پلٹا جائے گا۔
ہَیہَاتَ مَنْ وَطِئَ دَحْضَكِ زَلِقَ وَ مَنْ رَكِبَ لُجَجَكِ غَرِقَ وَ مَنِ ازْوَرَّ عَنْ حَبَائِلِكِ وُفِّقَ، پناہ بخدا! جو تیری پھسلن پر قدم رکھے گا وہ ضرور پھسلے گا، جو تیری موجوں پرسوار ہو گا وہ ضرور ڈوبے گا اور جو تیرے پھندوں سے بچ کر رہے گا وہ توفیق سے ہمکنار ہو گا۔
وَ السَّالِمُ مِنْكِ لایُبَالِی إِنْ ضَاقَ بِہِ مُنَاخُہُ وَ الدُّنْیا عِنْدَہُ كَیوْمٍ حَانَ انْسِلَاخُہُ۔ تجھ سے دامن چھڑا لینے والا پروا نہیں کرتا، اگرچہ دنیا کی وسعتیں اس کیلئے تنگ ہوجائیں۔ اس کے نزدیک تو دنیا ایک دن کے برابر ہے کہ جو ختم ہوا چاہتا ہے۔
اُعْزُبِی عَنِّی، فَوَاللہِ لاأَذِلُّ لَكِ فَتَسْتَذِلِّینِی وَ لاأَسْلَسُ لَكِ فَتَقُودِینِی وَ اَیمُ اللہِ یمِیناً أَسْتَثْنِی فِیہَا بِمَشِیئَۃِ اللہِ لَأَرُوضَنَّ نَفْسِی رِیاضَۃً تَہِشُّ مَعَہَا إِلَی الْقُرْصِ إِذَا قَدَرْتُ عَلَیہِ مَطْعُوماً وَ تَقْنَعُ بِالْمِلْحِ مَأْدُوماً مجھ سے دور ہو! (خدا کی قسم) میں تیرے قابو میں آنے والا نہیں کہ تو مجھے ذلتوں میں جھونک دے اور نہ میں تیرے سامنے اپنی باگ ڈھیلی چھوڑنے والا ہوں کہ تو مجھے ہنکا لے جائے۔ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں، ایسی قسم جس میں اللہ کی مشیت کے علاوہ کسی چیز کا استثناء نہیں کرتا کہ میں اپنے نفس کو ایسا سدھاؤں گا کہ وہ کھانے میں ایک روٹی کے ملنے پر خوش ہو جائے، اور اس کے ساتھ صرف نمک پر قناعت کرلے،
وَ لَأَدَعَنَّ مُقْلَتِی كَعَینِ مَاءٍ نَضَبَ مَعِینُہَا مُسْتَفْرِغَۃً دُمُوعَہَا اور اپنی آنکھوں کا سوتا اس طرح خالی کر دوں گا جس طرح وہ چشمہ آب جس کا پانی تہ نشین ہو چکا ہو۔
أَ تَمْتَلِئُ السَّائِمَۃُ مِنْ رِعْیہَا فَتَبْرُكَ وَ تَشْبَعُ الرَّبِیضَۃُ مِنْ عُشْبِہَا فَتَرْبِضَ وَ یأْكُلُ عَلِی مِنْ زَادِہِ فَیہْجَعَ؟! کیا جس طرح بکریاں پیٹ بھر لینے کے بعد سینہ کے بل بیٹھ جاتی ہیں اور سیر ہو کر اپنے باڑے میں گھس جاتی ہیں اسی طرح علیؑ بھی اپنے پاس کا کھانا کھا لے اور بس سو جائے؟
قَرَّتْ إِذاً عَینُہُ إِذَا اقْتَدَی بَعْدَ السِّنِینَ الْمُتَطَاوِلَۃِ بِالْبَہِیمَۃِ الْہَامِلَۃِ وَ السَّائِمَۃِ الْمَرْعِیۃِ۔ اس کی آنکھیں بے نور ہو جائیں اگر وہ زندگی کے طویل سال گزارنے کے بعد کھلے ہوئے چوپاؤں اور چرنے والے جانوروں کی پیروی کرنے لگے۔
طُوبَی لِنَفْسٍ أَدَّتْ إِلَی رَبِّہَا فَرْضَہَا وَ عَرَكَتْ بِجَنْبِہَا بُؤْسَہَا وَ ہَجَرَتْ فِی ال‍لّیلِ غُمْضَہَا حَتَّی إِذَا غَلَبَ الْكَرَی عَلَیہَا افْتَرَشَتْ أَرْضَہَا وَ تَوَسَّدَتْ كَفَّہَا فِی مَعْشَرٍ أَسْہَرَ عُیونَہُمْ خَوْفُ مَعَادِہِمْ وَ تَجَافَتْ عَنْ مَضَاجِعِہِمْ جُنُوبُہُمْ خو شا نصیب! اس شخص کے کہ جس نے اللہ کے فرائض کو پورا کیا، سختی اور مصیبت میں صبر کئے پڑا رہا، راتوں کو اپنی آنکھوں کو بیدار رکھا، اور جب نیند کا غلبہ ہوا تو ہاتھ کو تکیہ بنا کر ان لوگوں کے ساتھ فرشِ خاک پر پڑا رہا، کہ جن کی آنکھیں خوفِ حشر سے بیدار،
وَ ہَمْہَمَتْ بِذِكْرِ رَبِّہِمْ شِفَاہُہُمْ وَ تَقَشَّعَتْ بِطُولِ اسْتِغْفَارِہِمْ ذُنُوبُہُمْ أُولئِكَ حِزْبُ اللہِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ پہلو بچھونوں سے الگ اور ہونٹ یادِ خدا میں زمزمہ سنج رہتے ہیں اور کثرتِ استغفار سے جن کے گناہ چھٹ گئے ہیں۔ ’’یہی اللہ کا گروہ ہے اور بیشک اللہ کا گروہ ہی کامران ہونے والا ہے‘‘۔
فَاتَّقِ اللہَ یا ابْنَ حُنَیفٍ وَ لْتَكْفُفْ أَقْرَاصُكَ لِیكُونَ مِنَ النَّارِ خَلَاصُكَ۔[18] اے ابن حنیف! اللہ سے ڈرو اور اپنی ہی روٹیوں پر قناعت کرو، تاکہ جہنم کی آگ سے چھٹکارا پا سکو۔[19]


حوالہ جات

  1. منتظری، درس‌ہایی از نہج البلاغہ، 1395ہجری شمسی، ج13، ص120۔
  2. منصوری لاریجانی، عرفان سیاسی، 1385ہجری شمسی، ص57۔
  3. عترت‌دوست، و مہدیہ احمدی، «راہکارہای مقابلہ با اشرافی‌گری بر مبنای تحلیل محتوای نامہ امام علیؑ بہ عثمان بن حنیف»، ص89-90۔
  4. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: منصوری لاریجانی، عرفان سیاسی، 1385ہجری شمسی، ص56-57؛ اخلاقی، رابطہ قدرت و عدالت در فقہ سیاسی، 1390ہجری شمسی، ص275؛ ایروانی، مبانی فقہی اقتصاد اسلامی، 1393ہجری شمسی، ص362؛ مرتضوی، دانشنامہ امام خمینی، 1400ہجری شمسی، ج2، ص6743۔
  5. عترت‌دوست، و مہدیہ احمدی، «راہکارہای مقابلہ با اشرافی‌گری بر مبنای تحلیل محتوای نامہ امام علیؑ بہ عثمان بن حنیف»، ص70-71۔
  6. نگاہ کنید بہ:‌ دشتی، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، 1375ہجری شمسی، ص515۔
  7. دشتی، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، 1375ہجری شمسی، ص515۔
  8. ملاحظہ کریں: نہج البلاغہ، نامہ 45، 1414ھ، ص416-420۔
  9. عترت‌دوست، و مہدیہ احمدی، «راہکارہای مقابلہ با اشرافی‌گری بر مبنای تحلیل محتوای نامہ امام علیؑ بہ عثمان بن حنیف»، ص90۔
  10. عترت‌دوست، و مہدیہ احمدی، «راہکارہای مقابلہ با اشرافی‌گری بر مبنای تحلیل محتوای نامہ امام علیؑ بہ عثمان بن حنیف»، ص70۔
  11. شیخ صدوھ، امالی، 1376ہجری شمسی، ص620-623۔
  12. اس خط کے دیگر منابع سے آشنائی کے لئے مراجعہ کریں: الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغہ، 1409ھ، ج3، ص362۔
  13. نہج البلاغہ، نامہ 45، ترجمہ محمد دشتی، 1379ہجری شمسی، ص553۔
  14. محمدی اشتہاردی، نامہ سرگشادہ امام علیؑ بہ عثمان بن حنیف، 1383ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  15. دلشاد تہرانی، زمامداری و پارسایی، 1397ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  16. میلانی، شرح کتاب امیرالمؤمنینؑ الی عثمان بن حنیف الانصاری، 1433ھ، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  17. حمیدزادہ، علی و کارگزاران حکومت، 1389ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ۔
  18. نہج البلاغہ، تحقیق صبحی صالح، نامہ 45، 1414ھ، ص416-420۔
  19. نہج البلاغہ، ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین، مکتوب نمبر 45۔

مآخذ

  • اخلاقی، غلام‌سرور، رابطہ قدرت و عدالت در فقہ سیاسی، قم، مرکز بین‌المللی ترجمہ و نشر المصطفی(ص)، 1390ہجری شمسی۔
  • الحسینی الخطیب، سید عبدالزہراء، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، بیروت، دار الزہراء، 1409ھ۔
  • ایروانی، جواد، مبانی فقہی اقتصاد اسلامی، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، 1393ہجری شمسی۔
  • حمیدزادہ، علی‌اکبر، علی و کارگزاران حکومت، اصفہان، اقیانوس معرفت، 1389ہجری شمسی۔
  • دشتی، محمد، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم، موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیرالمؤمنینؑ، 1375ہجری شمسی۔
  • دلشاد تہرانی، مصطفی، زمامداری و پارسایی، تہران، دریا، 1397ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ترجمہ حسین انصاریان، تہران، پیام آزادی، 1388ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ترجمہ محمد دشتی، قم، مشہور، 1379ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، الأمالی، تہران، کتابچی، 1376ہجری شمسی۔
  • عترت‌دوست، محمد، و مہدیہ احمدی، «راہکارہای مقابلہ با اشرافی‌گری بر مبنای تحلیل محتوای نامہ امام علیؑ بہ عثمان بن حنیف»، در مجلہ اسلام و مطالعات اجتماعی، شمارہ 34، پاییز 1400ہجری شمسی۔
  • محمدی اشتہاردی، محمد، نامہ سرگشادہ امام علیؑ بہ عثمان بن حنیف استاندار بصرہ، قم، اخلاھ، 1383ہجری شمسی۔
  • مرتضوی، سید ضیاء، دانشنامہ امام خمینی، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، 1400ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، درس‌ہایی از نہج البلاغہ، تہران، انتشارات سرایی، 1395ہجری شمسی۔
  • منصوری لاریجانی، اسماعیل، عرفان سیاسی، تہران، مہدی القرآن، 1385ہجری شمسی۔
  • میلانی، ہاشم، شرح کتاب امیرالمؤمنینؑ الی عثمان بن حنیف الانصاری، نجف، العتبۃ العلویۃ المقدسہ، 1433ھ۔