مندرجات کا رخ کریں

"قریش" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 48: سطر 48:
پہلا گروہ: انہوں نے عبد شمس بن عبد مناف کی سربراہی میں بنی مخزوم، بنی سهم بن عمرو، بنی جمح بن عمرو اور بنی عدی بن کعب کیساتھ مل کر بنی عبد الدار کیساتھ پیمان باندھا۔  
پہلا گروہ: انہوں نے عبد شمس بن عبد مناف کی سربراہی میں بنی مخزوم، بنی سهم بن عمرو، بنی جمح بن عمرو اور بنی عدی بن کعب کیساتھ مل کر بنی عبد الدار کیساتھ پیمان باندھا۔  
دوسرا گروہ: انہوں نے عبد الدار عامر بن ہاشم بن عبد مناف کی زیر قیادت؛ بنی ‌اسد بن عبد العزی، بنی‌ زهره بن کلاب، بنی ‌تیم بن مرة بن کعب اور بنی‌حارث بن فهر بن مالک کیساتھ مل کر ’’عبد مناف‘‘ کی حمایت کا اعلان کیا۔
دوسرا گروہ: انہوں نے عبد الدار عامر بن ہاشم بن عبد مناف کی زیر قیادت؛ بنی ‌اسد بن عبد العزی، بنی‌ زهره بن کلاب، بنی ‌تیم بن مرة بن کعب اور بنی‌حارث بن فهر بن مالک کیساتھ مل کر ’’عبد مناف‘‘ کی حمایت کا اعلان کیا۔
پس ہر گروہ نے دوسرے کے خلاف عہد و پیمان باندھ لیے۔
پس ہر گروہ نے دوسرے کے خلاف عہد و پیمان باندھ لیا۔ عبد مناف کے حامیوں نے اپنے ہاتھ عطر کے ایک برتن میں ڈال کر کعبہ سے مس کیے اور اپنی ثابت قدمی کا یقین دلایا۔ اس کے جواب میں عبد الدار کے حامیوں نے بھی اپنے ہاتھ خون کے ایک برتن سے تر کر کے کعبہ کی دیوار پر ملے اور قسم کھائی کہ اس وقت تک سرتسلیم خم نہیں کریں گے اور آرام نہیں کریں گے کہ جب تک کامیاب نہ ہو جائیں۔ <ref> ابن هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ص۱۳۱-۱۳۲؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱، ص۵۶.</ref> البتہ آخرکار دونوں فریقوں نے صلح پر رضامندی ظاہر کر دی اور مکہ کے عہدوں کو آپس میں تقسیم کر لیا۔<ref> ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفة، ص۱۳۲؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ص۵۶.</ref> 
 
== حلف الفضول ==
===حلف الفضول===
اصلی مضمون: [[ حلف الفضول ]]
{{اصلی|حلف الفضول}}
اس معاہدے کا سبب یہ تھا کہ یمن کے بنو زبید کا ایک آدمی مکہ آیا اور [[ عاص بن وائل سھمی ]] کو ایک جنس فروخت کی؛ مگر عاص نے اس کے پیسے دینے میں تاخیر کی یہاں تک کہ وہ شخص مایوس ہو کر کوہ ابوقبیس کے اوپر چڑھ کر اشعار کے قالب میں فریادیں بلند کرنے لگا۔ کچھ قریشی اس واقعے پر شرمندہ ہوئے اور چارہ جوئی کی تدبیر کرنے لگے۔ [[ زبیر بن عبد المطلب ]] اس کام میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے قریشی گروہوں کو [[ دار الندوۃ ]] میں جمع کیا اور وہاں سے [[ عبد اللہ بن جدعان ]] کے گھر چلا گئے۔ یہاں پیمان باندھا کہ ’’ہر مظلوم کی مدد اور اس کا حق لینے کیلئے ایک دوسرےے کی مدد کریں گے اور اجازت نہیں دیں گے کہ مکہ میں کسی پر ظلم ہو‘‘۔ قریش نے اس پیمان کو [[ حلف الفضول ]] کا نام دیا۔ <ref> مسعودی، مروج الذهب، ص۲۷۱؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۸.</ref>  
اس عہد و پیمان کا سبب یہ تھا کہ بنی زبید سے ایک شخص مکہ آیا اور [[عاص بن وائل سہمی]] کو کچھ سامان بیچا؛ لیکن عاص قیمت ادا کرنے میں تعلل کے شکار ہو‎ئے اور یہ شخص مجبور ہوکر کوہ ابوقبیس پر گیا اور اشعار کی صورت میں اپنی شکایت کا اعلان کیا۔ قریش کے کچھ لوگ اس واقعے کی وجہ سے شرمسار ہوگئے اور چارہ جو‎ئی کے درپے ہو‎ئے۔ اس کام میں پہل کرنے والا [[زبیر بن عبدالمطلب]] تھا جس نے قریش کو [[دار الندوہ]] میں بلایا اور وہاں سے [[عبداللہ بن جدعان]] کے گھر چلے گئے اور وہاں عہد کیا « ہر مظلوم کی مدد کریں اور اس کا حق لینے میں سب ساتھ دیں اور کسی کو یہ اجازت نہ دیں کہ مکہ میں کو‎ئی کسی پر ظلم کرے۔» قریش نے اس عہد و پیمان کو [[حلف الفضول]] نام دیا۔<ref>مسعودی؛ مروج الذہب، ص۲۷۱؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۸.</ref>
== جنگیں ==  
 
اسلام سے پہلے قبائل کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئیں کہ جس میں قریش کے کچھ لوگ بھی شامل ہوئے۔ ان میں سے معروف ترین جنگیں وہ تھیں کہ جو حرام مہینوں میں لڑی جانے کی وجہ سے [[ حروبِ فجار ]] کے نام سے مشہور ہوئیں۔ <ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۷.</ref> اسلام کے بعد بھی قریش نے [[ پیغمبرؐ ]] اور [[ مسلمانوں ]] سے جنگیں لڑیں کہ جن میں سے مشہور ترین جنگیں [[ غزوہ بدر ]] ، [[ غزوہ احد ]] اور [[ غزوہ خندق ]] ہیں۔ <ref> ر.ک به مدخل غزوه</ref>
==جنگیں==
قریش نے دوسرے قبیلوں کے ساتھ بہت ساری جنگیں لڑیں اور ان میں سے سب سے مشہور [[فجار کی جنگیں]] اور «یوم الغنب» تھیں۔


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==

نسخہ بمطابق 16:37، 9 دسمبر 2018ء

قُرَیش ، حجاز کے عرب قبائل میں سے اہم ترین اور مشہور ترین قبیلہ تھا کہ پیغمبر اکرمؐ کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ زیادہ تر نسب شناسوں کی یہی رائے ہے کہ پیغمبرؐ کے بارہویں جد نضر بن کنانہ کا لقب قریش تھا؛ اس لیے جس بھی خاندان کا نسب پیغمبرؐ کے بارہویں جد ’’نضر بن کنانہ‘‘ تک پہنچتا تھا، وہ قُرَشی کہلاتا اور اس کا شمار قبیلہ قریش سے ہوتا تھا۔ بعض ماہر نسب شناسوں نے پیغمبرؐ کے دسویں جد فھر بن مالک کا لقب ’’قریش‘‘ قرار دیا ہے اور ان کی نسل کو قریشی قرار دیتے ہیں۔ قرآن میں ایک سورت کا نام قریش ذکر ہوا ہے۔

نام رکھنے کی علت

قریش نام رکھنے کی علت کے بارے میں مختلف وجوہات ذکر ہوئی ہیں، جو یہ ہیں:

  • اول: بعض نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ کے جد ’’فھر‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد کو ان سے نسبت دی گئی ہے۔ [1]
  • دوم: بعض نے کہا ہے کہ ’’قریش نضر بن کنانہ‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد اور نسل پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ [2] نضر کو اس اعتبار سے بھی قریش کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو تلاش میں رہتے تھے چونکہ تقریش کا معنی ’’تفتیش(تلاش)‘‘ ہے اس لیے ان کا لقب قریش ہو گیا۔ [3]
  • سوم: کہا جاتا ہے کہ ’’قرش‘‘ کا معنی ’’کسب‘‘ ہے چونکہ قریش کا کام کھیتی باڑی نہیں تھا اور ان کا پیشہ تجارت تھا، اس لیے یہ لقب ان سے مخصوص ہو گیا۔ [4]
  • چہارم: بعض نے کہا ہے کہ قریش کا معنی ادھر اُدھر سے جمع ہونے والے ہیں۔ قریش کو قریش کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب قصی بن کلاب کا مکہ پر غلبہ ہوا تو انہوں نے مکہ کے اطراف میں بکھرے ہوئے مختلف خاندانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں مکہ میں رہنے کیلئے جگہ فراہم کی۔ [5]

قریش کی شاخیں

’’قریش‘‘ مکہ کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو ظہور اسلام کے وقت متعدد شاخوں پر مشتمل تھا؛ منجملہ: بنی ہاشم ، بنی مطلب، بنی حارث، بنی امیہ، بنی نوفل، بنی حارث بن فهر، بنی اسد، بنی عبد الدار، بنی زهره، بنی تیم بن مره، بنی مخزوم، بنی یقَظه، بنی مرّه، بنی عدی بن کعب، بنی سهم، بنی جُمَح، بنی مالک، بنی معیط، بنی نزار، بنی سامه، بنی ادرم، بنی محارب، بنی حارث بن عبدالله، بنی خزیمه اور بنی بنانہ.[حوالہ درکار]

قریش کی ۲۵ شاخوں کے بعض خاندان سرزمین بطحاء ( مکہ کے ہموار علاقوں) میں رہائش پذیر تھے جو (قریش بطاح) یا (قریش بطحاء) کے نام سے مشہور تھے اور کچھ خاندان مکہ شہر سے باہر پہاڑوں پر سکونت پذیر تھے کہ جو ’’قریش ظواہر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ [حوالہ درکار]

مکہ پر حاکمیت کا آغاز

قریش سے پہلے کعبہ کے انتظام کی ذمہ داری قبیلہ خزاعہ کے پاس تھی۔ [6] ان دنوں قریش مکہ کے مضافات میں رہتے تھے اور کعبہ کے معاملات میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد قصی بن کلاب مکہ میں ساکن ہو گئے اور قبیلہ خزاعہ کی بڑی بیٹی کیساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ قصی نے آہستہ آہستہ کعبہ کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بنی کنانہ اور قریش کو اپنا معاون مقرر کیا۔ [7]

پیشہ

تجارت

’’قریشی‘‘ تجارت پیشہ لوگ تھے اور اس غرض سے یمن ، شام اور ایران کا رخ کرتے تھے اور معروف بازار جیسے بازار عکاظ اور بازار ذی المجاز ان کے زیر اختیار تھے۔ [حوالہ درکار]

وہ ہر سال گرمیوں اور سردیوں میں دو تجارتی سفر کرتے تھے کہ جن کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے۔ البتہ پہلے ان کی تجارت مکہ کے اندر تک محدود تھی۔ غیر عرب تاجر ان سے اشیا خریدتے تھے اور ہمسایہ ممالک میں جا کر فروخت کرتے تھے۔ [8] آخرکار ہاشم بن عبد مناف نے قریش کی شام اور یمن کیساتھ تجارت کی داغ بیل ڈالی۔ ہاشم نے شام کے بادشاہ سے شام کے شہروں میں تجارت کی اجازت لی۔ پھر ان کے بھائی عبد الشمس حبشہ کے حاکم سے تجارت کی اجازت لینے میں کامیاب ہوئے اور عبد مناف کے سب سے چھوٹے بیٹے نوفل بن عبد مناف نے بھی عراق کا سفر کر کے کسریٰ سے عراق میں تجارت کا اجازت نامہ دریافت کیا۔ [9]

کعبہ سے مربوط منصب

قریش کعبہ اور اس سے مربوط مسائل کو بہت اہمیت دیتے تھے چونکہ ان کی معیشت اور سیاست کعبہ سے مربوط مناصب کی بنیاد پر قائم تھی۔ کعبہ سے مربوط تمام مراکز کا انتظام قریش کی بزرگ شخصیات کے پاس تھا۔ ظہور اسلام کے وقت کعبہ کے مناصب قریش کی دس شاخوں کے پاس تھے۔ یہ دس شاخیں درج ذیل ہیں: بنی ہاشم، بنی امیہ، بنی عبدالدار، بنی اسد، بنی مخزوم، بنی سہم، بنی تیم، بنی عدی، بنی نوفل اور بنی جمح.[حوالہ درکار]

کعبہ کے مناصب جو قریش کے پاس تھے؛ یہ ہیں: ’’سقایت ‘‘ (کعبہ کے زائرین کو پانی پلانا) ، ’’رفادت‘‘ (زائرین کعبہ کی مہمان نوازی)‘ ’’حجابت ‘‘ (کلید داری اور دربانی)، ’’قضاوت‘‘، قیادت (تجارتی اور جنگی قافلوں کی سربراہی اور سرپرستی) ’’عمارت‘‘ (مسجد الحرام کی دیکھ بھال)، اموال کعبہ کی جمع آوری اور دیکھ بھال کا منصب، دیت اور غرامت کی ادائیگی کا منصب اور ۔۔۔ [حوالہ درکار]

دین

حضرت ابراہیمؑ کے دین کی پیروی

تاریخ اسلام کے بعض مآخذ کی بنا پر قریشی پہلے حضرت ابراہیم کے دین یعنی دین حنیف پر کاربند تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اس سے دور ہو گئے۔ اس کے باوجود دین ابراہیم کے بعض احکام و آداب اسی طرح باقی رہے مگر ان میں بھی تبدیلیاں اور بدعتیں ایجاد کر دی گئیں۔ منجملہ ان بدعتوں میں سے ایک عرفہ میں وقوف کا ترک ہے۔ [10] قریشی جانتے تھے کہ عرفہ میں وقوف دین ابراہیمؑ کے احکام میں سے ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے خود اسے ترک کر دیا جبکہ دوسرے عربوں پر اسے واجب قرار دیا ور کہنے لگے: ہم ابراہیمؑ کی اولاد، اہل حرم، کعبہ کے خادم اور مجاور ہیں؛ ہمارے لیے سزاوار نہیں ہے کہ حرم سے خارج ہو کر غیر حرم کا حرم کی مانند احترام کریں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس کام سے ان کا عربوں کے نزدیک مقام کم ہوتا ہے۔ [11] یہ لوگ حرم سے باہر کے لوگوں کو پابند کرتے تھے کہ اپنی اشیائے خوردونوش حرم کے اندر نہ لائیں اور اہل حرم کے کھانے تناول کریں، طواف کے موقع پر اہل مکہ کا قومی اور مقامی لباس پہنیں اور اگر کوئی اسے خریدنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پابرہنہ طواف کرے۔ [12] یہ بدعتیں خاص طور پر عام الفیل کے بعد زور پکڑ گئیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے لشکر کو تہس نہس کر دیا تھا؛ چونکہ اس واقعے کے بعد کعبہ اور قریش کا مقام عربوں کی نگاہ میں بڑھ گیا۔ عرب کہتے تھے: یہ قریش اللہ والے ہیں کیونکہ خدا نے ان کا دفاع کیا اور ان کے دشمنوں کو نابود کیا۔ [13] وہ لوگ اعمال حج کی ادائیگی کے دوران:

  • تلی ہوئی اشیا نہیں پکاتے تھے۔
  • دودھ ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔
  • بال اور ناخن نہیں کاٹتے تھے۔
  • تیل نہیں ملتے تھے۔
  • عورتوں سے دور رہتے تھے۔
  • خوشبو استعمال نہیں کرتے تھے۔
  • گوشت نہیں کھاتے تھے۔
  • مکہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے۔
  • مناسک حج کی ادائیگی کے دوران چمڑے کے خیموں میں رہتے تھے۔[14]

بت پرستی

مکہ کے لوگ آئین اسماعیل پر باقی تھے مگر عمرو بن لحی خزاعی نے اسے تبدیل کر دیا۔ شام کے علاقے بلقاء کی جانب ایک سفر کے بعد وہ کچھ بت مکہ لے آیا اور مکہ میں بت پرستی کی ترویج کرنے لگا۔ [15] عزی، ہبل، أساف، نائلہ اور منات کا شمار قریش کے معروف بتوں میں ہوتا تھا۔

  • ’’عزی‘‘ ان کا سب سے بڑا بت تھا، اس لیے قریش کو عزّی بھی کہتے تھے۔ وہ عزی کی زیارت کرتے، اس کیلئے تحائف لے جاتے، اس کیلئے قربانی کرتے اور اس کے تقرّب کی سعی میں مشغول رہتے تھے۔
  • ’’ہبل‘‘ کو سرخ عقیق سے انسانی شکل میں بنایا گیا تھا اور کعبہ کے اندر کا سب سے بڑا بت شمار ہوتا تھا۔ [16]
  • اساف اور نائلہ بھی قریش کے دو بت تھے اور وہ اس کی پرستش کرتے تھے۔ یہ دونوں بت مسخ شدہ پتھر کی شکل میں تھے۔ قریش نے انہیں کعبہ کے سامنے لوگوں کی نصیحت کیلئے رکھا ہوا تھا۔ [17]
  • منات بھی ان بتوں میں سے تھا کہ جسے دیگر عربوں کے علاوہ قریش بھی لائقِ احترام سمجھتے تھے۔ [18]

اس کے باوجود قریش میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جو بت پرستی میں ملوث نہیں تھے اور دین حنیف کے پیرو تھے یا نصرانی ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ قریش میں اور بالخصوص بنی ہاشم کے خاندان میں آئین ابراہیمؑ کے پیروکار موجود تھے۔ ورقہ بن نوفل ان شخصیات میں سے تھا کہ جس نے بت پرستی چھوڑ کر مسیحیت اختیار کر لی تھی۔ [19] زید بن عمرو بن نفیل نے بھی بت پرستی چھوڑ دی تھی اور دین کی تلاش میں تھا یہاں تک کہ اسے شام میں عیسائیوں نے قتل کر دیا۔ خطا در حوالہ: نادرست <ref> ٹیگ; بے نام حوالہ جات کا مواد ہونا چاہیے

پیمان مطیبن

اصلی مضمون: حلف المطیبین عبد مناف اور عبد الدار کی موت کے بعد، ان کی اولاد میں امور مکہ سنبھالنے کے معاملے میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ جس کے بعد قریشی خاندانوں میں سے ہر خاندان کسی نہ کسی گروہ کیساتھ وابستہ ہو گیا۔ پہلا گروہ: انہوں نے عبد شمس بن عبد مناف کی سربراہی میں بنی مخزوم، بنی سهم بن عمرو، بنی جمح بن عمرو اور بنی عدی بن کعب کیساتھ مل کر بنی عبد الدار کیساتھ پیمان باندھا۔ دوسرا گروہ: انہوں نے عبد الدار عامر بن ہاشم بن عبد مناف کی زیر قیادت؛ بنی ‌اسد بن عبد العزی، بنی‌ زهره بن کلاب، بنی ‌تیم بن مرة بن کعب اور بنی‌حارث بن فهر بن مالک کیساتھ مل کر ’’عبد مناف‘‘ کی حمایت کا اعلان کیا۔ پس ہر گروہ نے دوسرے کے خلاف عہد و پیمان باندھ لیا۔ عبد مناف کے حامیوں نے اپنے ہاتھ عطر کے ایک برتن میں ڈال کر کعبہ سے مس کیے اور اپنی ثابت قدمی کا یقین دلایا۔ اس کے جواب میں عبد الدار کے حامیوں نے بھی اپنے ہاتھ خون کے ایک برتن سے تر کر کے کعبہ کی دیوار پر ملے اور قسم کھائی کہ اس وقت تک سرتسلیم خم نہیں کریں گے اور آرام نہیں کریں گے کہ جب تک کامیاب نہ ہو جائیں۔ [20] البتہ آخرکار دونوں فریقوں نے صلح پر رضامندی ظاہر کر دی اور مکہ کے عہدوں کو آپس میں تقسیم کر لیا۔[21]

حلف الفضول

اصلی مضمون: حلف الفضول اس معاہدے کا سبب یہ تھا کہ یمن کے بنو زبید کا ایک آدمی مکہ آیا اور عاص بن وائل سھمی کو ایک جنس فروخت کی؛ مگر عاص نے اس کے پیسے دینے میں تاخیر کی یہاں تک کہ وہ شخص مایوس ہو کر کوہ ابوقبیس کے اوپر چڑھ کر اشعار کے قالب میں فریادیں بلند کرنے لگا۔ کچھ قریشی اس واقعے پر شرمندہ ہوئے اور چارہ جوئی کی تدبیر کرنے لگے۔ زبیر بن عبد المطلب اس کام میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے قریشی گروہوں کو دار الندوۃ میں جمع کیا اور وہاں سے عبد اللہ بن جدعان کے گھر چلا گئے۔ یہاں پیمان باندھا کہ ’’ہر مظلوم کی مدد اور اس کا حق لینے کیلئے ایک دوسرےے کی مدد کریں گے اور اجازت نہیں دیں گے کہ مکہ میں کسی پر ظلم ہو‘‘۔ قریش نے اس پیمان کو حلف الفضول کا نام دیا۔ [22]

جنگیں

اسلام سے پہلے قبائل کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئیں کہ جس میں قریش کے کچھ لوگ بھی شامل ہوئے۔ ان میں سے معروف ترین جنگیں وہ تھیں کہ جو حرام مہینوں میں لڑی جانے کی وجہ سے حروبِ فجار کے نام سے مشہور ہوئیں۔ [23] اسلام کے بعد بھی قریش نے پیغمبرؐ اور مسلمانوں سے جنگیں لڑیں کہ جن میں سے مشہور ترین جنگیں غزوہ بدر ، غزوہ احد اور غزوہ خندق ہیں۔ [24]

حوالہ جات

  1. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۶.
  2. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸.
  3. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸-۲۲۹.
  4. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۷؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱۱، ص۸۰.
  5. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۶.
  6. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیه، ص۱۲۶.
  7. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۶؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۱، ص۲۳۸-۲۳۹.
  8. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۱، ص۲۴۲.
  9. بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱، ص۵۹.
  10. [حوالہ درکار]
  11. ابن حبیب بغدادی، المنمق، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۷.
  12. ابن هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ص۱۲۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۹.
  13. ابن هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ص۱۲۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۹.
  14. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۱، ص۲۵۶؛ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۹.
  15. ابن کلبی، الاصنام، ۱۴۲۱ق، ص۸.
  16. ابن کلبی، الاصنام، ۱۴۲۱ق، ص۲۷-۲۸.
  17. ابن کلبی، الاصنام، ۱۴۲۱ق، ص ۹ و ۲۹؛ ابن هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ص۸۲.
  18. ابن کلبی، الاصنام، ۱۴۲۱ق، ص۱۳.
  19. ابن قتیبة، المعارف، قاهره، ص۵۹.
  20. ابن هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ص۱۳۱-۱۳۲؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱، ص۵۶.
  21. ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفة، ص۱۳۲؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ص۵۶.
  22. مسعودی، مروج الذهب، ص۲۷۱؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۸.
  23. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۷.
  24. ر.ک به مدخل غزوه

مآخذ

  • ابن حبیب بغدادی؛ المنمق فی اخبار القریش، تحقیق خور شید احمد فاروق، بیروت، عالم الکتب، چاپ اول.
  • ابن سعد؛ طبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطاء، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول.
  • ابن قتیبہ؛ المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ دوم.
  • ابن ہشام؛ السیرۃ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا.
  • اصفہانی، ابوالفرج؛ الاغانی، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی.
  • بلاذری؛ انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکارو ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، ۱۹۹۶.
  • سمعانی؛ الانساب، تحقیق عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدرآباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، چاپ اول.
  • معجم البلدان، شہاب الدین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی (م ۶۲۶)، بیروت،‌دار صادر، ط الثانیۃ، ۱۹۹۵.
  • یعقوبی؛ تاریخ یعقوبی، بیروت، دارالصادر، چاپ دوم، ۱۹۸۸.
  • مسعودی؛ مروج الذہب، تحقیق اسعد داغر قم‌دار المجری، چاپ دوم، ۱۴۰۹.
  • مقدسی، مطہر بن طاہر؛ البدء و التاریخ، پورسعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ بی‌تا.
  • کلبی، ہشام بن محمد؛ الاصنام، تحقیق احمد زکی پاشا، قاہرہ، افست تہران، نشر نو، چاپ دوم.