وقوف عرفات
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
وُقوف عَرَفات سے مراد میدان عرفات میں حجاج کرام کا توقف کرنا ہے۔ یہ عمل مناسک حج میں دوسرا عمل ہے اور اسے روز عرفہ یعنی 9 ذی الحجہ کے دن میدان عرفات میں انجام دیا جاتا ہے۔ میدان عرفات میں توقف کرنے کا واجب وقت ظہر سے مغرب تک ہے۔ توقف کی کم سی کم مقدار جس پر توقف صدق آئے حج کے ارکان میں سے ہے۔
عرفات
عرفات تقریبا ۱۸ مربع کیلومیٹر مساجت پر مشتمل ایک میدان ہے جو مسجد الحرام کے مشرق میں 15.5 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ عرفات حرم کے محدودے سے باہر واقع ہے اور مکے سے اس کا فاصلہ مسافت شرعی سے کم ہے۔ تاریخ کی مختلف ادوار میں مختلف سائن بورڈز وغیرہ کے ذریعے میدان عرفات کے محدودے کو دقیق طور پر مشخص کیا گیا ہے۔[1]
وقوف
وقوف سے مراد توقف اور ٹہرنا ہے۔ حج میں دو قسم کے وقوف واجب ہیں: وقوف عرفات اور وقوف مشعر۔ مشعر اور منا میں رات گزارنا بھی حج کے غیر واجب رکن میں سے ہے لیکن عمرہ میں ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں پایا جاتا۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 198 میں اس وقوف کی طرف اشارہ ہوا ہے: فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّہ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوہ كَمَا ہدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِہ لَمِنَ الضَّالِّینَ (ترجمہ: تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنے پروردگار کے فضل وکرم کو تلاش کرو پھر جب عرفات سے کوچ کرو تو مشعرالحرام کے پاس ذکر خداکرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے ہدایت دی ہے اگرچہ تم لوگ اس سے پہلے گمراہوں میں سے تھے)۔
وقوف عرفات کے واجبات
حج کیلئے احرام باندھنے کے بعد واجب ہے روز عرفہ (9 ذی الحجہ) کو ظہر سے مغرب تک میدان عرفات میں توقف کرے۔ اکثر حجاج ایک دن پہلے یعنی روز ترویہ 8 ذی الحجہ کو ہی میدان عرفات میں حاضر ہوتے ہیں.[2] لیکن جو چیز واجب ہے وہ صرف روز عرفہ کے دن توقف کرنا ہے۔ [3]
حج کے ارکان
اسلام سے پہلے قریش خود کو برگزیدہ اور منتخب قبیلہ جانتے ہوئے میدان عرفات میں توقف کرنے سے خود کو بے نیاز سمجھتے تھے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے ان کے اس عمل کو غلط قرار دیتے ہوئے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں توقف فرمایا۔
اس بنا پر "وقوف عرفات" حج کے ارکان میں سے ہے اگرچہ اس پورے مدت میں وہاں ٹہرنا واجب ہے لیکن رکن نہیں ہے بلکہ رکن صرف اتنی مقدار ہے جس پر عرف عام میں توقف کرنا صدق آئے۔ اس توقف کی دو حالت ہے: توقف اختیاری اور توقف اضطراری۔ اگر توقف کرنے کی پوری مدت حاجی بے ہوش یا نیند کی حالت میں رہے تو اس کا توقف صحیح نہیں ہے۔[4]
وقوف اختیاری
عام حالت میں حجاج پر عرفہ کے دن ظہر سے مغرب تک میدان عرفات میں حاضر رہنا واحب ہے۔ جب اس وقوف میں سے اتنا مقدار گذر جائے جس پر عرف میں وقف صدق آئے تو اس کا حج صحیح ہے۔[5]
جو شخص عمداً اور بغیر کسی دلیل کے عرفات میں اتنی مقدار بھی توقف نہ کرے تو اس کا حج باطل ہے۔[6]
عرفات سے غروب سے پہلے کوچ کرنا
اگر حاجی عمداً غروب سے پہلے میدان عرفات سے خارج ہو جائے اور دوبارہ واپس نہ آئے تو بھی اس کا حج صحیح ہے لیکن ایک اونٹ کا بچہ کفارہ کے طور پر دینا واجب ہے اور اگر نہ دے سکتا تو ۱۸ دن روزہ رکھنا واجب ہے۔ لیکن اگر اپنے کام سے پشیمان ہو کر واپس آئے تو اکثر فقہاء کے فتوا کے مطابق کوئی کفارہ نہیں ہے۔[7]
وقوف اضطراری
جو شخص فراموشی یا کسی اور شرعی عُذر کی وجہ سے اگر وقوف اختیاری کو درک نہ کر پائے تو اگر عید قربان کی رات (غروب سے طلوع فجر) کا کچھ حصہ میدان عرفات میں حاضر ہو جائے تو اسے وقوف اضطراری عرفات کہا جاتا ہے اور اس کا حج بھی صحیح ہے۔[8] اگر فراموشی یا کسی اور شرعی عذر کی وجہ سے وقوف عرفات میں سے اختیاری یا اضطراری میں سے کسی ایک کو بھی درک نہ کرے تو وقوف اختیاری مشعر اس کی حج کے صحیح ہونے کیلئے کافی ہے۔[9]
مستحبات وقوف
وقوف عرفات کے کچھ مستحبات بھی ہیں:
- طہارت کے ساتھ ہونا
- غسل کرنا
- حضور قلب
- جبل الرحمہ کی پہاڑی پر نہ چڑنا۔
- ظہر اور عصر کی نماز کو ابتدائی وقت میں بغیر کسی فاصلے کے پڑھنا۔
- اس مکان کے بارے میں وارد ہونے والی متعدد دعاوں کا پڑھنا [1]، بطور خاص دعائے عرفہ امام حسین (ع) اور دعائے عرفہ امام سجاد(ع)۔ [10]
مشرکین سے برائت
آخری سالوں میں عرفہ کے دن وقوف کا وقت شروع ہونے سے پہلے ایران سمیت دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمان مشرکین سے برائت کا اظہار کرتے ہیں۔ [11]
حوالہ جات
مآخذ
- مناسک حج مطابق فتاوای امام خمینی و مراجع معظم تقلید، محمدرضا محمودی، مرکز تحقیقات حج بعثہ مقام معظم رہبری، نشر مشعر، چاپ چہارم، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
- آثار اسلامی مکہ و مدینہ، رسول جعفریان، نشر مشعر۔