کرم اللہ وجہہ
کَرَّمَ اللَّہُ وَجْہَہ ایک احترام آمیز تعبیر ہے جسے اہل سنت حضرت علی علیہ السلام کے نام کے آخر میں استعمال کرتے ہیں اور دوسرے صحابہ کے لئے "رضی اللہ عنہ" کی تعبیر استعمال کرتے ہیں۔ شیعہ حضرت علیؑ کے نام کے ساتھ "کرم اللہ وجہہ" استعمال نہیں کرتے بلکہ اسی کی جگہ علیہالسلام استعمال کرتے ہیں۔
اہل سنت علماء "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر کو صرف حضرت علیؑ کے ساتھ اس لئے مختص قرار دیتے ہیں چونکہ آپؑ نے کبھی بھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں وہابی مفتی عبدالعزیز بن باز "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر کو امام علیؑ کے ساتھ مختص قرار دینے کو شیعوں کی بدعت قرار دیتا ہے۔
حافظ رجب بُرسی اہل سنت کی جانب سے "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر کو امام علیؑ کے ساتھ مختص قرار دینے کو خلفاء ثلاثہ پر امام علیؑ کی برتری اور فضیلت کی دلیل قرار دیتے ہیں۔ بعض شیعہ محققین نے کرم اللہ وجہہ کو امام علیؑ سے اختصاص کی دلیل ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید کی بعض آیات «لَا یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ[؟–؟]؛ میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا» اور «فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ[؟–؟]؛ ان بندوں سے بعض تو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں»، سے استناد کرتے ہوئے تینوں خلیفوں کو امامت کے لائق نہیں سمجھے ہیں؛ کیونکہ ان آیات کی روشنی میں جو شخص گناہ کا مرتکب ہوا ہے اس نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اللہ کی طرف سے دیا گیا عہدہ ظالم کو نہیں ملتا ہے۔
مفہوم شناسی
"کَرَّمَ اللَّہُ وَجْہَہ" کی تعبیر کو اگر دعائیہ جملہ قرار دیں[1] تو اس کے معنی "خدا انہیں شریف اور بزرگوار قرار دے" ہیں[2] لیکن اگر اس کو جملہ خبریہ قرار دیں تو اس کے معنی "خدا نے انہیں شریف اور بزرگوار قرار دیا" کے ہیں،[3] یہ تعبیر ایک احترام آمیز جملہ ہے جسے اہل سنت امام علیؑ کے نام کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔[4] اہل سنت علماء میں سے ابن حَجَر ہَیْتَمی اور مؤمن شِبْلَنجی اس تعبیر کا معنا "خدا انہیں غیرِ خدا کی عبادت سے محفوظ رکھا" قرار دیتے ہیں۔[5] اہل سنت کی کتابوں میں بعض اوقات امام علیؑ کے لئے "کَرَّمَ اللَّہُ وَجْہَہُ فِی الجَنَّۃ" کی تعبیر بھی استعمال ہوئی ہے۔[6]
احمد بن حَنبَل نے اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے فقہاء سے حدیث رایت نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ نے غزوہ خیبر کے موقع پر پرچم اسلام امام علیؑ کو عطا فرمایا اور اس موقع پر "وَالَّذِی کَرَّمَ وَجْہَ مُحَمَّد" کی تعبیر ارشاد فرمایا۔[7]
امام علیؑ کے ساتھ مختص ہونا
اہل سنت علماء میں سے ابن کثیر اور ابن حَجَر ہَیْتَمی کا کہنا ہے کہ "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر حضرت علیؑ کے ساتھ مختص ہے اور خلفائے ثلاثہ اور دیگر صحابہ کے لئے یہ تعبیر استعمال نہیں ہوتی ہے۔[8] مذہب حنفیہ کے علماء میں سے احمد بن محمد خَفاجی اور محمد بن احمد سَفارینی بھی اہل سنت کے یہاں اس تعبیر کے رائج ہونے کی تصریح کرتے ہیں۔[9] پندرہویں صدی ہجری میں لکھی جانے والی کتابوں میں "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر صرف امام علیؑ کے ساتھ مختص کی گئی ہے۔[10]
مختص ہونے کی دلیل
اہل سنت علماء "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر صرف امام علیؑ کے ساتھ مختص ہونے کے حوالے سے درج ذیل دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
- کسی بت کو سجدہ نہ کرنا: ابن حَجَر ہَیْتَمی اور مؤمن شِبْلَنجی "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر حضرت علیؑ کے ساتھ مختص ہونے کی دلیل یہ بیان کرتے ہیس کہ چونکہ آپؑ نے کبھی کسی بت کے سامنے سجدہ نہیں کیا۔[11] ابن حجر ابوبکر بن ابی قحافہ کو بھی بت کو سجدہ نہ کرنے میں حضرت علیؑ کے ساتھ شریک قرار دیتے ہیں؛ لیکن حضرت علیؑ کا بت کو سجدہ نہ کرنے کو تمام علماء متفقہ طور پر قبول کرتے ہیں۔[12] اسی طرح ہیتمی ان لوگوں کے جواب میں جو کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر نے بھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا ہے، کہتے ہیں کہ یہ لوگ شرک کے خاتمے کے بعد متولد ہوئے ہیں؛ اس بنا پر یہ لوگ ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو بت پرستی کے زمانے میں ہونے کے باوجود کسی بت کو سجدہ نہیں کیا۔[13]
- ولادت سے پہلے پیغمبر اسلامؐ کا احترام کے سبب: مسلمان متکلم اور فلسفی جلالالدین دَوّانی کہتے ہیس کہ جب حضرت علیؑ فاطمہ بنت اسد کے بطن میں تھے اور فاطمہ بنت اسد جب بھی حضرت محمدؐ کو دیکھتی اپنی جگہ سے بلند ہوتی تھی؛ اس سلسلے میں وہ کہتی تھیں کہ میرے بطن میں موجود بچہ ایسی حرکت انجام دیتا ہے جس سے میں سمجھ جاتی ہوں کہ مجھے پیغمبر اکرمؐ کے احترام میں کھڑا ہونا چاہئے۔ دوانی کے بقول اکثر اہل سنت علماء "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر کو امام علیؑ کے ساتھ مختص قرار دینے کی دلیل اسی کام کو مانتے ہیں۔[14]
وہابیوں کا اس اختصاص سے انکار
اسلامی مذاہب پر تحقیق کرنے والے محقق مہدی فرمانیان کے مطابق وہابی حضرت علیؑ کے نام کے ساتھ "کَرَّمَ اللَّہُ وَجْہَہ" کہنے سے منع کرتے ہیں[15] اور وہابیت پر تحقیق کرنے والے محقق قاسم اف کی نقل کے مطابق ابن تیمیہ نے اپنی اکثر کتابوں میں امام علیؑ کے لئے "کرم اللہ وجہہ" استعمال نہیں کیا ہے۔[16]
وہابی مفتی عبدالعزیز بن باز کے مطابق حضرت علیؑ کے نام کے ساتھ "کرم اللہ وجہہ" کا استعمال[17] شیعوں کی بدعت ہے۔[18] عبد العزیز بن باز کے شاگرد محمد صالح المُنَجِّد بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ شروع میں شیعوں نے اس تعبیر کو حضرت علیؑ کے لئے استعمال کیا اور ناداں کاتبوں نے ان کی پیروی کی ہے۔[19] البتہ ان لوگوں نے اپنے مدعا پر کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔[20]
تیرہویں صدی ہجری کی شیعہ عالم دین ادیب دَرّہ صوفی کے مطابق شیعہ، امام علیؑ کی لئے "علیہ السلام"، "سَلامُ اللّہ عَلَیْہ" یا "صَلَواتُ اللّہ عَلَیْہ" کی تعبیر استعمال کرتے ہیں۔[21] افغانستان کے شیعہ عالم دین محمد آصف محسنی امام علیؑ کے لئے "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر استعمال کرنے کو اہل سنت کا خاصہ قرار دیتے ہیں۔[22]
امام علیؑ کی افضلیت کی دلیل
آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین اور محدث حافظ رجب بُرسی اہل سنت علماء کی طرف سے "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر کو حضرت علیؑ کے ساتھ مختص قرار دینا دوسرے صحابہ پر آپؑ کی افضلیت کی دلیل ہے۔[23] محمد ثقفی تہرانی اس اختصاص کو اس بات کی دلیل قرار دیتے ہیں کہ خلفائے راشدین میں سے صرف امام علیؑ نے کسی بت کو سجدہ نہیں کیا۔ اس کے بعد وہ اس بات سے یہ نتیچہ لیتے ہیں کہ خلفائے راشدین میں سے صرف امام علیؑ امامت کے لائے سزاور ہیں؛ کیونکہ جس شخص نے بت پرستی کی ہے وہ امامت کے لئے سزاوار نہیں بن سکتا۔[24]
شیعہ محقق سید محمد جواد حسینی جلالی "کرم اللہ وجہہ" کی تعبیر کو امام علیؑ کے ساتھ مختص قررا دینے کی دلائل کی طرف اشارہ کرنے کے بعد قرآنی آیات "لَا یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ؛ (ترجمہ: میرا عہدہ ظالمین تک نہیں پہنچے گا")[؟–؟] [25] اور "فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ؛ (ترجمہ: ان میں سے بعض اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں")[؟–؟][26] سے استناد کرتے ہوئے خلفائے ثلاثہ کو امامت کے لئے شائستہ نہیں سمجھتے۔ کیونکہ ان آیات کے مطابق جو شخص کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے گویا اس نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور خدا کا عہدہ(امامت) ظالمین تک نہیں پہنچے گا۔[27]
حوالہ جات
- ↑ آل شیخ، "قول کرم اللہ وجہہ لعلی بن أبی طالب"۔
- ↑ بستانی، فرہنگ ابجدی، ۱۳۷۵ش، ذیل واژہ کرّم تکریما، ص۷۲۶؛ ملاحظہ کریں: زبیدی، تاج العروس، ۱۴۱۴ق، ذیل واژہ کرم۔ ج۱۷، ص۶۰۷،
- ↑ زواوی، شمائل الرسول(ص)، دارالقمہ، ج۱، ص۴۲۹۔
- ↑ دیکھئے: مالک بن انس، موطأ مالک، المکتبۃالعلمیہ، ص۲۸۳؛ شیبانی، الحجۃ علی أہل المدینۃ، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۲۸؛ عسکری، تصحیفات المحدثین، ۱۴۰۲ق، ج۲، ص۱۲۶ و ۵۱۸؛ ابن حجر الہیتمی، الفتاوی الحدیثیہ، دارالفکر، ص۱۸؛ ابن رجب الحنبلی، شرح حدیث لبیک اللہم لبیک، ۱۴۱۷ق، ص۱۴۲؛ آلوسی، الاجوبۃ العراقیہ علی الاسئلۃ الاہوریہ، ۱۳۰۱ق، ج۱، ص۶۲؛ حلبی، السیرۃ الحلبیہ، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۴۲۷؛ خلف، مدخل الی التفسیر و علوم القرآن، دارالبیان العربی، ص۹۳۔
- ↑ ابن حجر الہیتمی، الفتاوی الحدیثیہ، دارالفکر، ج۱، ص۴۱؛ شبلنجی، نورالابصار، ۱۴۱۵ق، ص۱۵۶۔
- ↑ نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: طبرانی، المعجم الصغیر، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۲۲۸ و ص۲۶۰؛ ابن قیم، اعلام الموقعین، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۲۵۶ و ج۴، ص۴۷۵؛ ابن نور الدین، تیسیر البیان، ۱۴۳۳ق، ج۳، ص۱۳۳۔
- ↑ ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۱۷، ص۱۹۷۔
- ↑ ابن کثیر، تفسیر، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۵۲۴؛ ابن حجر الہیتمی، الفتاوی الحدیثیہ، دار الفکر، ج۱، ص۴۱۔
- ↑ خفاجی، حاشیۃ الشہاب، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۴۷۹؛ السفارینی، غذاء الالباب، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۳۳۔
- ↑ برای نمونہ: الہرری، تفسیر حدائق الروح و الریحان، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۱۳۱ و ۲۱۴۔
- ↑ شبلنجی، نورالابصار، ۱۴۱۵ق، ص۱۵۶۔
- ↑ ابن حجر الہیتمی، الفتاوی الحدیثیہ، دار الفکر، ج۱، ص۴۱۔
- ↑ ابن حجر الہیتمی، الفتاوی الحدیثیہ، دار الفکر، ج۱، ص۴۱۔
- ↑ دوانی، نورالہدایہ، ۱۳۹۲ش، ص۵۳۔
- ↑ فرمانیان، الوہابیۃ المتطرفہ، ۱۴۳۵ق، ج۴، ص۳۷۸۔
- ↑ قاسم اف، ابن تیمیہ امام سلفیہا، ۱۳۹۱ش، ص۱۹۹؛ نگاہ کنید بہ: ابن تیمیہ، بغیۃ المرتاد، ۱۴۱۵ق، ص۳۲۱؛ ابن تیمیہ، جامع الامسائل لابن تیمیہ، ۱۴۲۲ق، ص۱۶۹، ابن تیمیہ، الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان، ۱۴۰۵ق، ص۱۸۔
- ↑ بن باز، مسائل الامام ابن باز، ۱۴۲۸ق، ص۳۳۔
- ↑ "كيفيۃ ايصال التبرعات-الى المجاہدين الافغان"؛ ملاحظہ کریں: آل شیخ، "قول کرم اللہ وجہہ لعلی بن أبی طالب"۔
- ↑ المنجد، موقع الاسلام سؤال و جواب، ۱۴۳۰ق، ج۹، ص۱۰۱۔
- ↑ نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: بن باز، مسائل الامام ابن باز، ۱۴۲۸ق، ص۳۳؛ المنجد، موقع الاسلام سؤال و جواب، ۱۴۳۰ق، ج۹، ص۱۰۱؛ ابن جبرین، فتاوی فی التوحید، ۱۴۱۸ق، ص۳۸۔
- ↑ نظام اعرج، شرح النظام علی الشافیہ، دار الحجۃ للثقافہ، ص۲۵۔
- ↑ محسنی، زہرا(س) گل ہمیشہ بہار نبوت، ۱۳۹۲ش، ص۳۰۔
- ↑ حافظ برسی، مشارق انوار الیقین، ۱۴۲۷ق، ص۳۲۳۔
- ↑ ثقفی، تفسیر روان جاوید، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۱۶۹؛ اسی طرح ملاحظہ کریں: وردانی، فریب، ۱۳۸۹ش، ص۲۵۵؛ الحسون، التحول المذہبی، ۱۳۸۴ش، ص۱۵۵۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ۱۲۴
- ↑ سورہ فاطر، آیہ۳۲۔
- ↑ خواجہ نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، ۱۴۰۷ق، پاورقی، ص۲۳۹ و ۲۴۱۔
مآخذ
- آل شیخ، عبدالعزیز بن عبداللہ و دیگران (اللجنۃ الدائمۃ للبوحث العلمیۃ و الافتاء)، "قول کرم اللہ وجہہ لعلی بن أبی طالب"، الاسلام سؤال و جواب، بایگانی شدہ از نسخہ اصلی، تاریخ درج مطلب: ۲۱ مہر ۱۳۸۷/۱۳ اکتوبر ۲۰۰۷، تاریخ بازدید: ۳۱ مرداد ۱۳۹۹۔
- آلوسی، محمود بن عبداللہ، الاجوبۃ العراقیہ علی الاسئلۃ الاہوریہ، بغداد، مطبعۃ الحمیدیہ، ۱۳۰۱ق۔
- ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان، تحقیق عبدالقادر الارناؤوط، دمشق، مکتبۃ دارالبیان، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
- ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، بغیۃ المرتاد علی المتفلسفہ و القرامطہ و الباطنیہ، تحقیق موسی الدرویش، مدینہ، مکتیۃ العلوم و الحکم، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ش۔
- ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، جامع المسائل لابن تیمیہ-المجموعۃ الاولی، تحقیق محمدعزیر شمس، اشراف بکر بن عبداللہ ابوزید، مکہ، دار عالم الفوائد للنشر و التوزیع، ۱۴۲۲ق۔
- ابن جبرین، عبداللہ بن عبدالرحمان، فتاوی فی التوحید، اعداد و تقدیم حمد بن ابراہیم الحریقی، بیجا، دارالوطن للنشر، ۱۴۱۸ق۔
- ابن حجر الہیتمی، احمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیہ، بیجا، دار الفکر، بیتا۔
- ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیت الارنؤوط و دیگران، اشراف عباللہ بن عبدالمحسن الترکی، بیجا، مؤسسۃ الرسالہ، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۱م۔
- ابن رجب الحنبلی، عبدالرحمن بن احمد، شرح حدیث لبیک اللہم لبیک، بہ تحقیق ولید عبدالحرمن محمد آل فریان، مکہ، دارعالم الفوائد، ۱۴۱۷ق۔
- ابن قیم، محمد بن ابیبکر، اعلام الموقعین عن رب العالمین، تقدیم و تعلیق و تخریج الاحادیث: بن حسن آل سلمان و احمد عبداللہ احمد، عربستان، دار ابن الجوزی للنشر و التوزیع، ۱۴۲۳ق۔
- ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر ابن کثیر، تحقیق و تقدیم یوسف عبدالرحمن المرعشلی، بیروت، دارالمعرفۃ للطباعۃ و النشر و التوزیع، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م۔
- بستانی، فؤاد افرام، فرہنگ ابجدی، تہران، اسلامی، ۱۳۷۵ش۔
- بن باز، عبدالعزیز بن عبداللہ، مسائل الامام ابن باز، تقیید و جمع و تعلیق أبیمحمد عبداللہ بن مانع، ریاض، دارالتدمیرہ، ۱۴۲۸ق/۲۰۰۷م۔
- الحسون، علاء، التحوّل المذہبی بحث تحلیلی حول رحلۃ المستبصرین إلی مذہب أہل البیت(ع)، ایران، قلمالشرق، ۱۳۸۴ش/۲۰۰۵م۔
- "حکم قول: علی کرم اللہ وجہہ"، الامام ابن باز؛ بایگانی شدہ از نسخہ ايصال التبرعات الى المجاہدين الافغان اصلی، تاریخ بازدید: ۲۳ مرداد ۱۳۹۹۔
- الحلبی، علی بن ابراہیم، السیرۃ الحلبیہ: إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، بیروت، دارالکتبالعلمیہ، ۱۴۲۷ق۔
- السفارینی الحنبلی، محمد بن احمد، غذاء الالباب فی شرح منظومہ الآداب، مصر، مؤسسۃ قرطبہ، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳م۔
- ثقفی تہرانی، محمد، روان جاوید در تفسیر قرآن مجید، تہران، برہان، ۱۳۹۸ق۔
- حافظ برسی، رجب بن محمد، مشارق أنوار الیقین فی أسرار أمیر المؤمنین(ع)، قم، ذویالقربی، ۱۴۲۷ق۔
- خفاجی، احمد بن محمد، حاشیۃ الشہاب المسماۃ عنایۃ القاضی و کفایۃ الراضی علی تفسیر البیضاوی، تحقیق مہدی عبدالرزاق، بیروت، دار الکتب العلمیہ، منشورات محمدعلی بیضون، ۱۴۱۷ق۔
- خلف، عبدالجواد، مدخل الی التفسیر و علوم القرآن، قاہرہ، دارالبیان العربی، بیتا، ص۹۳۔
- خواجہ نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، تجرید الاعتقاد، تحقیق محمدجواد حسینی جلالی، تہران، مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۴۰۷ق۔
- دوانی، محمد بن اسعد، نورالہدایہ فی اثبات الامامہ، تصحیح وحید توسلی و دیگران، قم، مجمع ذخایر اسلامی، ۱۳۹۲ش۔
- زبیدی، مرتضی محمد بن محمد، تاجر العروس من جواہر القاموس، با تحقیق و تصحیح علی شیری، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق۔
- زواوی، احمد بن عبدالفتاح، شمائل الرسول(ص)، اسکندریہ، دارالقمہ، بیتا۔
- شبلنجی، مؤمن، نور الابصار فی مناقب آلبیت النبی المختار(ص)، قم، شریف الرضی، ۱۴۱۵ق/۱۳۷۳ش۔
- شیبانی، محد بن الحسن، الحجۃ علی أہل المدینۃ، تحقیق مہدی حسن الکیلانی القادری، بیروت، عالمالکتب، ۱۴۰۳ق۔
- طبرانی، ابوالقاسم، الروض الدانی (المعجم الصغیر)، بیروت، عمان، المکتب الاسلامی، دار عمار، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
- عسکری، ابواحمد، تصحیفات المحدثین، تحقیق محمود احمد میرہ، قاہرہ، المطبعت العربیۃ الحدیثۃ، ۱۴۰۲ق۔
- فرمانیان، مہدی، جمع من المؤلفین، الوہابیۃ المتطرفہ: موسوعۃ نقدیہ، قم، دار الاعلام لمدرسۃ اہلالبیت(ع)، ۱۴۳۵ق۔
- قاسم اف، الیاس، ابن تیمیہ امام سلفیہا، قم، مجمع جہانی اہل بیت(ع)، ۱۳۹۱ش۔
- مالک بن انس، موطأ مالک روایۃ محمد بن الحسن الشیبانی، تعلیق و تحقیق عبدالوہاب عبداللطیف، المکتبۃالعلمیہ، چاپ دوم۔
- محسنی، محمدآصف، زہرا(س) گل ہمیشہ بہار نبوت، بہ کوشش: ہیئت الغدیر و حوزہ علمیہ خاتم النبین(ص)، کابل، ہیئت الغدیر، ۱۳۹۲ش۔
- المنجد، محمدصالح، موقع الاسلام سؤال و جواب، تم نسخہ من الانترنت فی۱۴۳۰ق۔
- نظام اعرج نیشابوری، شرح النظام علی الشافیہ، تحقیق محمدزکی جعفری، قم، دار الحجۃ للثقافہ، بیتا۔
- وردانی، صالح، فریب، قم، بنیاد معارف اسلامی، ۱۳۸۹ش۔
- الہرری، محمد الامین بن عبداللہ، تفسیر حدائق الروح والریحان فی روابی علوم القرآن، بیروت، دار طوق النجاۃ، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۱م۔