مندرجات کا رخ کریں

اذان

فاقد تصویر
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
ویکی شیعہ سے
(موذن سے رجوع مکرر)

اذان، اذکار کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے مسلمان ہر روز یومیہ نمازوں کے وقت ہونے پر لوگوں کو آگاہ کرنے کیلئے بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔ اسی طرح ہر نماز سے پہلے بھی اذان دی جاتی ہے۔ اذان اسلام کی بنیادی اور اساسی تعلیمات پر مشتمل ہے جس میں خدا کی وحدانیت اور حضرت محمدؐ کی رسالت کی گواہی دینے کے ساتھ ساتھ نماز، رستگاری اور نیک اعمال کی کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ جو شخص نماز کا وقت بتانے کے لئے اذان دیتا ہے اسے مؤذن کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان رائج طریقے کے مطابق مؤذن کسی بلند مقام خاص کر مسجد میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے اذان دیتا ہے تاکہ مسلمانوں کو نماز کا وقت داخل ہونے کی طرف آگاہ کیا جا سکے۔

اذان اور اقامت کے بعض جملوں میں شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیعہ حضرات اذان کے دوسرے جملے یعنی حضرت محمدؐ کی رسالت کی گواہی کے بعد حضرت علیؑ کی امامت و ولایت کی گواہی دیتے ہوئے اشهد انّ علیّا ولیُّ الله کو جزء اذان قرار دئے بغیر استحباب کی نیت سے پڑھتے ہیں اسی طرح اہل سنت کے برعکس شیعہ "حیّ علی خیر العمل" کو اذان و اقامت کا جزء سمجھتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت صبح کی اذان و اقامت میں الصلواۃُ خيرٌ مِنَ النَومِ پڑھتے ہیں جسے شیعہ نہیں پڑھتے۔

تعریف

اذان کے اذکار ترجمہ تعداد

اللهُ أكبَرُ
أشْهَدُ أنْ لا إلَهَ إِلّا اللهُ
أشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللهِ
أشْهَدُ أَنَّ عَلِياً وَلِيُّ اللهِ[1]
حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ
حَيَّ عَلَى الفَلاحِ
حَيَّ عَلى خَيرِ العَمَلِ
اللهُ أكبَرُ
لا إلَهَ إِلّا اللهُ

خدا توصیف کرنے سے بڑا ہے
گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے
گواہی دیتا ہوں حضرت محمدؐ خدا کے نبی ہیں
گواہی دیتا ہوں حضرت علیؑ اللہ کے ولی ہیں
نماز کی طرف جلدی کرو
فلاح اور نجات کی طرف جلدی کرو
بہترین کام کی طرف جلدی کرو
خدا توصیف کرنے سے بڑا ہے
خدائے واحد کے سوالے کوئی معبود نہیں ہے

4 مرتبہ
2مرتبہ
2مرتبہ
2مرتبہ
2مرتبہ
2مرتبہ
2مرتبہ
2مرتبہ
2مرتبہ

اذان عربی زبان میں اعلان اور آگاہ کرنے کے معنی میں ہے اور قرآن کریم میں بھی اسی معنی میں آیا ہے۔[2] گاہی اوقات اذان و اقامت کی طرف اشارہ کرنے کیلئے أذانَین کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ [3]

مسلمانوں کے درمیان رائج ہے کہ موذن مسجد میں کسی بلند مقام جسے مینار کہا جاتا ہے پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے اذان دیتا ہے تاکہ مسلمان نماز کا وقت داخل ہونے کی طرف آگاہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ ہر نماز سے پہلے بھی سنت موکدہ کے عنوان سے اذان اور اقامت پڑھی جاتی ہے۔[4]

مذکورہ بالا مقصد یعنی وقت نماز کے اعلان کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے بھی اذان دی جاتی ہے من جملہ ان مقاصد میں سے بعض درج ذیں ہیں:

  • اذان مقدمہ نماز کے عنوان سے: نماز شروع کرنے سے پہلے مستحب ہے اذان اور اقامت پڑھی جائے۔
  • نماز کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے اذان: بے موقع اذان، مسلمانوں کے درمیان رائج اسلامی شعائر کے عنوان سے بے موقع اذان اس بات کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے اور جمع کرنے کے لئے دی جاتی ہے کہ کوئی خاص اور اہم واقعہ پیش آیا ہے یا پیش آنے والا ہے مثلا کسی معروف شخصیت کا ارتحال آتش سوزی کا کوئی واقعہ وغیرہ۔[5]
  • تبرک کے لئے اذان: پیغمبر اکرمؐ کی سنت ہے امام حسنؑ کی ولادت کے موقع پر آپ نے نومود کے کان میں اذان دی۔[6] اس کے بعد یہ چیز شیعہ معتبر حدیثی مآخذ [7] میں ایک سنت کے طور پر رائج ہو گئی ہے کہ نومود بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھی جاتی ہے۔[حوالہ درکار]

تشریع

امامیہ کا نظریہ

روایات کے مطابق ہجرت کے پہلے دو سال کے اندر اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی کے بعد اذان کا حکم شریعت میں بیان ہوا۔[8] مکتب امامیہ کی روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اذان کی کیفیت وحی کے ذریعے حاصل کی۔ جبرائیل نے شب معراج ایک مرتبہ اذان دی اور جب دوسری مرتبہ جبرئیل نے اذان دی تو پیغمبر اکرمؐ نے علیؑ کو حکم دیا کہ بلال کو بلا کر اذان کی تعلیم دیں۔[9] مذہب اسماعیلیہ کے مصادر میں بھی مختصر اختلاف کے ساتھ یہی چیز مذکور ہے۔[10]

اہل سنت کا نظریہ

اہل سنت کے مآخذوں میں نماز کی تشریع کو وحی کی طرف نسبت دئے بغیر مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں مثلا یہ کہ لوگوں کو وقت نماز سے آگاہ کرنے کے مختلف ذرائع کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی اور ہر کوئی اپنی رائے پیش کر رہے تھے بعض نے کہا اس مقصد کے لئے آگ روشن کرنا چاہئے، بعض نے گھنٹی بجانے کی تجویز دی تو بعض نے بگل بجانے کی، اسی سلسلے میں حضرت عمر نے کہا کہ لوگوں کو نماز کی طرف بلانے ہمیں ایک شخص کو معین کرنا چاہئے اس پر رسول اکرمؐ نے بلال کو اس کام کے لئے مقرر فرمایا۔[11]

ایک اور نقل کے مطابق رسول اکرمؐ اہل کتاب کی طرح لوگوں کو بلانے کیلئے بگل وغیرہ کے استعمال کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ عبداللہ بن زید ابن عبدربہ کو خواب میں اذان کے جملے القا ہوئے۔ رسول خداؐ نے اس خواب کو سچا خواب قرار دیا اور بلال کو اس اذان کی تعلیم دینے کا حکم دیا۔[12]

البتہ اہل سے منقول بعض دوسرے احادیث کے مطابق اذان کی شان اس سے بالاتر ہے کہ عبداللہ بن زید جیسے کسی شخص کے خواب پر اس کی بنا رکھی جائے[13] بلکہ پیغمبر اکرمؐ نے اسے جبرئیل سے دریافت فرمایا ہے۔[14]

اذان کے فصول

مذہب امامیہ کے نزدیک اذان کے کلمات کی ترتیب درج ذیل ہے:

  • الله اکبر (4 مرتبہ)
  • اشهد ان لا اله الا الله (2 مرتبہ)
  • اشهد ان محمدا رسول الله (2 مرتبہ)
  • حی علی الصلاة (2 مرتبہ)
  • حی علی الفلاح (2 مرتبہ)
  • حی علی خیر العمل (2 مرتبہ)
  • الله اکبر (2 مرتبہ)
  • لا اله الا الله (2 مرتبہ)[15]

شہادت ثالثہ

اشهد ان علیّا ولیُّ الله کا جملہ امامیہ مذہب کے بعض فرقوں میں رائج تھا۔[16] لیکن فقہی اور حدیثی منابع میں یہ جملہ اذان کے جزء کے طور پر روایات میں نہیں آیا ہے۔

اکثر شیعہ مراجع تقلید اس جملے کو جزو اذان قرار نہیں دیتے لیکن قربت کی نیت سے پڑھنے کو مستحب یا جائز سمجھتے ہیں۔[17]

شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اذان میں موجود اختلافات

  • حی علی خیر العمل: اذان میں حی علی خیر العمل کا جملہ شیعہ مذہب کے مختصات اور شعار میں سے گنا جاتا ہے۔[18] بعض مآخذ کے مطابق یہ جملہ پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ کے دوران، حضرت ابوبکر کے دور خلافت اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی ایام تک اذان کا حصہ تھا اور حضرت عمر نے اس خیال سے کہ اس جملے کی وجہ سے لوگ جہاد جیسے اہم عمل میں سستی کا شکار نہ ہو اس جملے کو اذان سے نکالنے کا حکم دیا[19] حضرت علیؑ کا مؤذن ابن نباح اس جملے کو اذان میں پڑھتے تھے اور امام اسکی تائید کرتے تھے۔[20]
  • تثویب: یعنی صبح کی اذان میں حی علی خیر العمل کی جگہ دو مرتبہ الصلاة خیر من النوم کہنا ہے جو اہل سنت کے نزدیک صحیح ہے۔ اس جملے پر مشتمل احادیث ابومحذوره کے توسط سے منقول ہوئی ہیں۔ تثویب سے مربوط احادیث میں اس بارے میں کہ آیا اس جملے کو رسول خداؐ نے تعلیم دی تھی یا نہیں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[21] تثویب فقہ امامیہ میں کسی دور میں بھی قابل قبول نہیں رہا۔[22]
  • لا اله الا الله اذان کے آخر میں ایک مرتبہ کہنا اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں رائج ہے ۔[23]
  • مالک کی رائے کے مطابق آغاز اذان میں تکبیر چار مرتبہ کی بجائے دو مرتبہ کہنا۔[24]
  • مالکی اور شافعی مذہب میں شہادتین کی ترجیع یعنی پہلی مرتبہ شہادتین آہستہ اور دوسری مرتبہ بلند آواز میں پڑھنا[25]

احکام

اذان کے بعد کی دعا

اَللَّهُمَّ اِجْعَلْ قَلْبِي بَارّاً وَ رِزْقِي دَارّاً وَ عَمَلِي سَارّاً وَ عَيْشِي قَارّاً وَ اِجْعَلْ لِي عِنْدَ قَبْرِ نَبِيِّكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مُسْتَقَرّاً وَ قَرَاراً برحْمَتِکَ یا أرْحَمَ‌ الرّاحِمین.

علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج 81 ص 182. شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ص 724.

  • اذان میں ترتیب اور موالات یعنی پے در پے کہنا، شرط ہے۔[26]
  • نماز گزار مرد ہو یا عورت، نماز وقت پر ادا کی جا رہی ہو یا قضا، فرادا ہو یا جماعت کے ساتھ ہر صورت میں اذان کہنا مستحب مؤکد ہے، (البتہ عورتیں کو آہستہ کہنا چاہئے)۔ [27]
  • نماز صبح اور مغرب میں اذان کی زیادہ تاکید وارد ہوئی ہے۔
  • اذان کی اس قدر تاکید وارد ہوئی ہے کہ مختلف مذاہب کے بعض فقہا اسے واجب کفائی سمجھتے ہیں۔[28]
  • بعض اس بات کے معتقد ہیں جس شہر میں نماز جمعہ اقامہ ہوتا ہو اگر اس شہر میں لوگ اذان کے ترک کرنے پر اتفاق کر لیں تو انکے خلاف جنگ کریں۔[29]
  • اذان و اقامت نماز یومیہ سے مخصوص ہے دیگر واجب نمازوں میں نماز سے پہلے تین مرتبہ الصلاةکہنا مستحب ہے۔[30]
  • احناف اور شافعیوں کے نزدیک نیت کے بغیر اذان درست ہے جبکہ دیگر مذاہب اسلامی نیت کو واجب سمجھتے ہیں۔[31]
  • امامیہ اور حنبلیوں کے نزدیک اذان عربی میں کہی جانی چاہئے دیگر تین مذاہب کے نزدیک اگر عربی آتی ہو تو عربی میں ضروری ہے ورنہ مقامی زبان میں اذان کہہ سکتے ہیں[32]
  • مؤذّن ضروری ہے کہ مرد(یا مُمَیّز بچہ یعنی اچھے اور برے کی پہچان کرنے والا) ہو، مسلمان اور عاقل ہو اور مستحب ہے کہ عادل، بلند آواز اور وقت سے آشنا ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور بلند جگہ پر کھڑے ہو کر اذان کہے۔[33]
  • بعض فقہا نے تصریح کی ہے کہ عورتوں کی جماعت میں عورت کا اذان کہنا جائز ہے۔[34]
  • مالکی اور بعض شافعی اذان کی اجرت لینے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔لیکن امامیہ، حنفی، حنابلہ اور شافعیہ میں سے بعض اس کام کو موذن کی روزی کے ذرایع میں سے ایک ذریعہ کے عنوان سے قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اذان کی اجرت لینے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[35]
  • صبح کی نماز کے لئے لوگوں کو آمادہ کرنے کیلئے کے علاوہ وقت سے پہلے اذان دینا جائز نہیں ہے البتہ صبح کی اذان بھی وقت سے پہلے دینے کی صورت میں طلوع فجر کے بعد اذان دوبارہ دی جائے۔[36]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. امام علیؑ کی ولایت کی گواہی اگرچہ ایمان کا جزء ہے لیکن اذان اور اقامت کا جزء نہیں ہے۔ رجوع کریں: شہید اول، موسوعۃ الشہید الاول: الجزء التاسع، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ(1)، ص83۔
  2. توبہ آیت3؛ نیز اسی مادہ سے ماخوذ سورۂ حج، آیت27
  3. ر.ک: ابوعبید، ج4، ص320
  4. ر.ک: ابوعبید، غریب الحدیث، 1384ق، ج4، ص320۔
  5. مراجعہ کریں: نظام الملک، سیاست نامہ، ص66 بہ بعد؛ جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، قاہرہ، ج1، ص325۔
  6. مراجعہ کریں: ابن سعد 122ـ132، احمد ابن حنبل، ج6، ص9، 361، 392؛ ابوداوود، سجستانی، سنن ابی داوود، 1401ق، ج4، ص358۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ق، ج6، ص23ـ24؛ طوسی، تہذیب الاحکام، 1379ق، ج7، ص437ـ436۔
  8. ر.ک: ابو داوود، ج1، ص348
  9. ر.ک: کلینی، ج3، ص302؛ ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج1، ص183، طوسی، تہذیب الاحکام، ج2، 277؛ الاستبصار، ج1، ص306ـ305؛ تفصیل کیلئے ر.ک: علل الشرائع، ج2، 314ـ312
  10. قاضی نعمان، ج1، ص143
  11. بخاری، ج1، ص150؛ مسلم، ج1، ص285
  12. ر.ک: ابن ماجہ، ج1، ص233ـ232، ابوداوود، ج1، 338ـ336؛ ترمذی، ج1، ص359؛ نسائی، ج3، ص3ـ2
  13. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ق، ج3، ص178۔
  14. محمدی ری‌شہری، موسوعۃ میزان الحکمۃ، ج2، ص97-98۔
  15. ملاحظہ کریں: طوسی، الخلاف، ج1، ص90
  16. ملاحظہ کریں: ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج1 ص189ـ188؛ طوسی، النہایہ، ص80
  17. نظر مراجع تقلید در مرتبہ حکم شہادت ثالثہ
  18. سید مرتضی، ص39ـ38
  19. قاضی نعمان، دعائم الاسلام، 1389ق، ج1، ص143؛ ابو عبداللہ علوی، الاذان بحی علی خیرالعمل، 1399ق، ص16۔
  20. ابن بابویہ، من لایحضر، ج1، ص187
  21. ر.ک: دارقطنی، ج1، ص235ـ233
  22. ر.ک: کلینی، ج3، ص303 سید مرتضی، ص39؛ طوسی،الاستبصار، ج1، ص308
  23. جزیری ، ج1، ص312
  24. ابن قاسم، ج1، ص57
  25. ر.ک: ابن قاسم، ج1، ص57؛ شافعی، ج1، ص84؛ ابن رشد، ج1، ص106؛ شربینی، ج1، ص136
  26. محقق حلی، ص75.
  27. محقق حلی، ج1، ص74.
  28. طوسی، الخلاف، ج1، ص93؛ ابن ہمام، ج1، ص209؛ محلی، ج1، ص125.
  29. ر.ک: ابن ہمام، ج1، ص209، جزیری، ج1، ص101.
  30. العروه الوثقی، ج1، ص601.
  31. جزیری، ج1، ص314؛ شہید ثانی، ج1، ص239.
  32. جزیری، ج1، ص314؛ شہید ثانی، ج1، ص239.
  33. محقق حلی، ج1، ص75؛ نیز ابن ہبیره ج1، ص82.
  34. ر.ک: محقق حلی، ج1، ص75؛ قس، ابن ہبیره، ج1، ص80.
  35. رک: طوسی الخلاف، ج1، ص96؛ ابن هبیره، ج1، ص83.
  36. مفید، ص98.

منابع

  • قرآن مجید۔
  • ابن بابویہ، محمد، علل الشرائع، نجف، 1386ھ/1966ء۔
  • ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، حسن موسوی خرسان، بیروت 1401ھ/1981ء۔
  • ابن خزیمہ، محمد، صحیح، مصطفی اعظمی، بیروت، 1971ـ1979ء۔
  • ابن رشد قرطبی، محمد، بدایۃ المجتہد، بیروت 1406ھ/1986ء۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، شرح حال امام حسن(ع)، تراثنا، قم 1408ھ، شمسی 11۔
  • ابن قاسم، عبدالرحمان، المدونۃ الکبری، بغداد، مکتبۃ المثنی۔
  • ابن ماجہ، محمد، سنن،محمد فواد عبدالباقی، استانبول، 1401ھ/1981ء۔
  • ابن ہبیره، یحیی، الافصاح، حلب، 1366ھ/1947ء۔
  • ابن ہمام، محمد، فتح القدیر، قاہرہ، 1391ھ۔
  • ابوداوود سجستانی، سلیمان، سنن، استانبول، 1401ھ/1981ء۔
  • ابو عبدالله علوی، محمد، الاذان بحی علی خیرالعمل، یحیی عبدالکریم، دمشق، 1399ھ/1989ء۔
  • ابوعبید، قاسم، غریب الحدیث، حیدرآباد دکن، 1384ھ/1965ء۔
  • احمد بن حنبل، مسند، قاہرہ، 1313ھ۔
  • بخاری، محمد، الجامع الصحیح، استانبول، 1403ھ/1981ء۔
  • ترمذی، محمد، السنن، استانبول، 1401ھ/1981ء۔
  • جزیری، عبدالرحمان، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، قاہرہ، الطبعہ التجاریہ۔
  • حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک، حیدرآباد دکن، 1324ھ۔
  • دارقطنی، علی، سنن، بیروت، 1406ھ/1986ء۔
  • دارمی، عبداللہ، سنن، استانبول، 1401ھ/1981ء۔
  • سید مرتضی، علی، الانتصار، نجف، 1391ھ/1971ء۔
  • شافعی، محمد، الام، محمد زہری نجار، بیروت، دارالمعرفہ۔
  • شربینی، محمد، مغنی المحتاج، قاہرہ، 1352ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین، الروضۃ البهیہ، بیروت، 1403ھ/1983ء۔
  • طبرانی، سلیمان، المعجم الکبیر، حمدی عبدالمجید سلفی، بغداد،1400ھ/1980ء۔
  • طوسی، محمد، الاستبصار، حسن موسوی خرسان، نجف، 1375ھ۔
  • طوسی، تہذیب الاحکام، حسن موسوی خرسان، نجف، 1379 ھ۔
  • طوسی، الخلاف، تہران، 1377ھ۔
  • طوسی، النہایہ، آسف فیضی، قاہرہ، 1389ھ۔
  • کاسانی، علاءالدین، بدائع الصنائع، قاہرہ، 1406ھ/1986ء۔
  • کلینی، محمد، الکافی، علی اکبر غفاری، بیروت، 1401ھ۔
  • محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام، نجف، 1389ھ/1969ء۔
  • محلی، جلال الدین، شرح منہاج الطالبین، ہمراه حاشیہ علی شرح منہاج الطالبین، شہاب الدین قلیوئی، قاہره، مطبعہ عیسی البابی الحلبی۔
  • مسلم بن حجاج، صحیح، محمد فواد عبدالباقی، استانبول، 1401ھ/1981ء۔
  • محمد بن مکی، موسوعہ الشہید الاول: الجزء التاسع، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ(1)، بیروت: مرکز العلوم والثقافہ الاسلامیہ، 1430ھ-2009ء۔
  • مفید، محمد، المقنعہ، قم، 1401ھ۔
  • نسائی، احمد، سنن، استانبول، 1401ھ/1981ء۔
  • نظام الملک، حسن، سیاست نامہ، ہیوبرت دارک، تہران، 1347ہجری شمسی۔
  • یزدی، محمد کاظم، العروۃ الوثقی فیما تم بہ البلوی، موسسہ اعلمی للمطبوعات، بیروت۔

بیرونی لنک