اذان
اذان، اذکار کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے مسلمان ہر روز یومیہ نمازوں کے وقت ہونے پر لوگوں کو آگاہ کرنے کیلئے بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔ اسی طرح ہر نماز سے پہلے بھی اذان دی جاتی ہے۔ اذان اسلام کی بنیادی اور اساسی تعلیمات پر مشتمل ہے جس میں خدا کی وحدانیت اور حضرت محمدؐ کی رسالت کی گواہی دینے کے ساتھ ساتھ نماز، رستگاری اور نیک اعمال کی کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ جو شخص نماز کا وقت بتانے کے لئے اذان دیتا ہے اسے مؤذن کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان رائج طریقے کے مطابق مؤذن کسی بلند مقام خاص کر مسجد میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے اذان دیتا ہے تاکہ مسلمانوں کو نماز کا وقت داخل ہونے کی طرف آگاہ کیا جا سکے۔
اذان اور اقامت کے بعض جملوں میں شیعہ اور اہل سنت کی درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیعہ حضرات اذان کے دوسرے جملے یعنی حضرت محمد کی رسالت کی گواہی کے بعد حضرت علیؑ کی امامت و ولایت کی گواہی دیتے ہوئے اشهد انّ علیّا ولیُّ الله کو جزء اذان قرار دئے بغیر استحباب کی نیت سے پڑھتے ہیں اسی طرح اہل سنت کے برعکس شیعہ "حیّ علی خیر العمل" کو اذان و اقامت کا جزء سمجھتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت صبح کی آذان و اقامت میں الصلواۃُ خيرٌ مِنَ النَومِ پڑھتے ہیں جسے شیعہ نہیں پڑھتے۔
تعریف
اذان کے اذکار | ترجمہ | تعداد | |
---|---|---|---|
اللهُ أكبَرُ |
خدا توصیف کرنے سے بڑا ہے |
4 مرتبہ |
اذان عربی زبان میں اعلان اور آگاہ کرنے کے معنی میں ہے اور قرآن کریم میں بھی اسی معنی میں آیا ہے۔[2] گاہی اوقات اذان و اقامت کی طرف اشارہ کرنے کیلئے أذانَین کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ [3]
مسلمانوں کے درمیان رائج ہے کہ موذن مسجد میں کسی بلند مقام جسے مینار کہا جاتا ہے پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے اذان دیتا ہے تاکہ مسلمان نماز کا وقت داخل ہونے کی طرف آگاہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ ہر نماز سے پہلے بھی سنت موکدہ کے عنوان سے اذان اور اقامت پڑھی جاتی ہے۔[4]
مذکورہ بالا مقصد یعنی وقت نماز کے اعلان کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے بھی اذان دی جاتی ہے من جملہ ان مقاصد میں سے بعض درج ذیں ہیں:
- اذان مقدمہ نماز کے عنوان سے: نماز شروع کرنے سے پہلے مستحب ہے اذان اور اقامت پڑھی جائے۔
- نماز کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے اذان: بے موقع اذان، مسلمانوں کے درمیان رائج اسلامی شعائر کے عنوان سے بے موقع اذان اس بات کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے اور جمع کرنے کے لئے دی جاتی ہے کہ کوئی خاص اور اہم واقعہ پیش آیا ہے یا پیش آنے والا ہے مثلا کسی معروف شخصیت کا ارتحال آتش سوزی کا کوئی واقعہ وغیرہ۔[5]
- تبرک کے لئے اذان: پیغمبر اکرمؐ کی سنت ہے امام حسنؑ کی ولادت کے موقع پر آپ نے نومود کے کان میں اذان دی۔[6] اس کے بعد یہ چیز شیعہ معتبر حدیثی مآخذ [7] میں ایک سنت کے طور پر رائج ہو گئی ہے کہ نومود بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھی جاتی ہے۔
تشریع
امامیہ کا نظریہ
روایات کے مطابق ہجرت کے پہلے دو سال کے اندر اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی کے بعد اذان کا حکم شریعت میں بیان ہوا۔[8] مکتب امامیہ کی روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اذان کی کیفیت وحی کے ذریعے حاصل کی۔ جبرائیل نے شب معراج ایک مرتبہ اذان دی اور جب دوسری مرتبہ جبرئیل نے اذان دی تو پیغمبر اکرمؐ نے علیؑ کو حکم دیا کہ بلال کو بلا کر اذان کی تعلیم دیں۔[9] مذہب اسماعیلیہ کے مصادر میں بھی مختصر اختلاف کے ساتھ یہی چیز مذکور ہے۔[10]
اہل سنت کا نظریہ
اہل سنت کے مآخذوں میں نماز کی تشریع کو وحی کی طرف نسبت دئے بغیر مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں مثلا یہ کہ لوگوں کو وقت نماز سے آگاہ کرنے کے مختلف ذرائع کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی اور ہر کوئی اپنی رائے پیش کر رہے تھے بعض نے کہا اس مقصد کے لئے آگ روشن کرنا چاہئے، بعض نے گھنٹی بجانے کی تجویز دی تو بعض نے بگل بجانے کی، اسی سلسلے میں حضرت عمر نے کہا کہ لوگوں کو نماز کی طرف بلانے ہمیں ایک شخص کو معین کرنا چاہئے اس پر رسول اکرمؐ نے بلال کو اس کام کے لئے مقرر فرمایا۔[11]
ایک اور نقل کے مطابق رسول اکرمؐ اہل کتاب کی طرح لوگوں کو بلانے کیلئے بگل وغیرہ کے استعمال کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ عبداللہ بن زید ابن عبدربہ کو خواب میں اذان کے جملے القا ہوئے۔ رسول خداؐ نے اس خواب کو سچا خواب قرار دیا اور بلال کو اس اذان کی تعلیم دینے کا حکم دیا۔[12]
البتہ اہل سے منقول بعض دوسرے احادیث کے مطابق اذان کی شان اس سے بالاتر ہے کہ عبداللہ بن زید جیسے کسی شخص کے خواب پر اس کی بنا رکھی جائے[13] بلکہ پیغمبر اکرمؐ نے اسے جبرئیل سے دریافت فرمایا ہے۔[14]
فصول
امامیہ کے نزدیک اذان کے کلمات کی ترتیب درج ذیل ہے:
- الله اکبر (۴ مرتبہ)
- اشهد ان لا اله الا الله (۲ مرتبہ)
- اشهد ان محمدا رسول الله (۲ مرتبہ)
- حی علی الصلاة (۲ مرتبہ)
- حی علی الفلاح (۲ مرتبہ)
- حی علی خیر العمل (۲ مرتبہ)
- الله اکبر (۲ مرتبہ)
- لا اله الا الله (۲ مرتبہ)[15]
شہادت ثالثہ
اشهد ان علیّا ولیُّ الله کا جملہ امامیہ مذہب کے بعض فرقوں میں رائج تھا۔[16] لیکن فقہی اور حدیثی منابع میں یہ جملہ اذان کے جزء کے طور پر روایات میں نہیں آیا ہے۔
اکثر شیعہ مراجع تقلید اس جملے کو جزو اذان قرار نہیں دیتے لیکن قربت کی نیت سے پڑھنے کو مستحب یا جائز سمجھتے ہیں۔[17]
شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اذان میں موجود اختلافات
- حی علی خیر العمل: اذان میں حی علی خیر العمل کا جملہ شیعہ مذہب کے مختصات اور شعار میں سے گنا جاتا ہے۔[18] بعض مآخذ کے مطابق یہ جملہ پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ کے دوران، حضرت ابوبکر کے دور خلافت اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی ایام تک اذان کا حصہ تھا اور حضرت عمر نے اس خیال سے کہ اس جملے کی وجہ سے لوگ جہاد جیسے اہم عمل میں سستی کا شکار نہ ہو اس جملے کو اذان سے نکالنے کا حکم دیا[19] حضرت علیؑ کا مؤذن ابن نباح اس جملے کو اذان میں پڑھتے تھے اور امام اسکی تائید کرتے تھے۔[20]
- تثویب: یعنی صبح کی اذان میں حی علی خیر العمل کی جگہ دو مرتبہ الصلاة خیر من النوم کہنا ہے جو اہل سنت کے نزدیک صحیح ہے۔ اس جملے پر مشتمل احادیث ابومحذوره کے توسط سے منقول ہوئی ہیں۔ تثویب سے مربوط احادیث میں اس بارے میں کہ آیا اس جملے کو رسول خداؐ نے تعلیم دی تھی یا نہیں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[21] تثویب فقہ امامیہ میں کسی دور میں بھی قابل قبول نہیں رہا۔[22]
- لا اله الا الله اذان کے آخر میں ایک مرتبہ کہنا اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں رائج ہے ۔[23]
- مالک کی رائے کے مطابق آغاز اذان میں تکبیر چار مرتبہ کی بجائے دو مرتبہ کہنا۔[24]
- مالکی اور شافعی مذہب میں شہادتین کی ترجیع یعنی پہلی مرتبہ شہادتین آہستہ اور دوسری مرتبہ بلند آواز میں پڑھنا[25]
احکام
اَللَّهُمَّ اِجْعَلْ قَلْبِي بَارّاً وَ رِزْقِي دَارّاً وَ عَمَلِي سَارّاً وَ عَيْشِي قَارّاً وَ اِجْعَلْ لِي عِنْدَ قَبْرِ نَبِيِّكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مُسْتَقَرّاً وَ قَرَاراً برحْمَتِکَ یا أرْحَمَ الرّاحِمین.
علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج ۸۱ ص ۱۸۲. شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ص ۷۲۴.
- اذان میں ترتیب اور موالات یعنی پے در پے کہنا، شرط ہے۔[26]
- نماز گزار مرد ہو یا عورت، نماز وقت پر ادا کی جا رہی ہو یا قضا، فرادا ہو یا جماعت کے ساتھ ہر صورت میں اذان کہنا مستحب مؤکد ہے، (البتہ عورتیں کو آہستہ کہنا چاہئے)۔ [27]
- نماز صبح اور مغرب میں اذان کی زیادہ تاکید وارد ہوئی ہے۔
- اذان کی اس قدر تاکید وارد ہوئی ہے کہ مختلف مذاہب کے بعض فقہا اسے واجب کفائی سمجھتے ہیں۔[28]
- بعض اس بات کے معتقد ہیں جس شہر میں نماز جمعہ اقامہ ہوتا ہو اگر اس شہر میں لوگ اذان کے ترک کرنے پر اتفاق کر لیں تو انکے خلاف جنگ کریں۔[29]
- اذان و اقامت نماز یومیہ سے مخصوص ہے دیگر واجب نمازوں میں نماز سے پہلے تین مرتبہ الصلاةکہنا مستحب ہے۔[30]
- احناف اور شافعیوں کے نزدیک نیت کے بغیر اذان درست ہے جبکہ دیگر مذاہب اسلامی نیت کو واجب سمجھتے ہیں۔[31]
- امامیہ اور حنبلیوں کے نزدیک اذان عربی میں کہی جانی چاہئے دیگر تین مذاہب کے نزدیک اگر عربی آتی ہو تو عربی میں ضروری ہے ورنہ مقامی زبان میں اذان کہہ سکتے ہیں[32]
- مؤذّن ضروری ہے کہ مرد(یا مُمَیّز بچہ یعنی اچھے اور برے کی پہچان کرنے والا) ہو، مسلمان اور عاقل ہو اور مستحب ہے کہ عادل، بلند آواز اور وقت سے آشنا ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور بلند جگہ پر کھڑے ہو کر اذان کہے۔[33]
- بعض فقہا نے تصریح کی ہے کہ عورتوں کی جماعت میں عورت کا اذان کہنا جائز ہے۔[34]
- مالکی اور بعض شافعی اذان کی اجرت لینے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔لیکن امامیہ، حنفی، حنابلہ اور شافعیہ میں سے بعض اس کام کو موذن کی روزی کے ذرایع میں سے ایک ذریعہ کے عنوان سے قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اذان کی اجرت لینے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[35]
- صبح کی نماز کے لئے لوگوں کو آمادہ کرنے کیلئے کے علاوہ وقت سے پہلے اذان دینا جائز نہیں ہے البتہ صبح کی اذان بھی وقت سے پہلے دینے کی صورت میں طلوع فجر کے بعد اذان دوبارہ دی جائے۔[36]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ امام علیؑ کی ولایت کی گواہی اگرچہ ایمان کا جزء ہے لیکن اذان اور اقامت کا جزء نہیں ہے۔ رجوع کریں: شہید اول، موسوعۃ الشہید الاول: الجزء التاسع، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ(۱)، ص۸۳۔
- ↑ توبہ آیت۳؛ نیز اسی مادہ سے ماخوذ سورۂ حج، آیت۲۷
- ↑ ر.ک: ابوعبید، ج۴، ص۳۲۰
- ↑ ر.ک: ابوعبید، غریب الحدیث، ۱۳۸۴ق، ج۴، ص۳۲۰۔
- ↑ مراجعہ کریں: نظام الملک، سیاست نامہ، ص۶۶ بہ بعد؛ جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، قاہرہ، ج۱، ص۳۲۵۔
- ↑ مراجعہ کریں: ابن سعد ۱۲۲ـ۱۳۲، احمد ابن حنبل، ج۶، ص۹، ۳۶۱، ۳۹۲؛ ابوداوود، سجستانی، سنن ابی داوود، ۱۴۰۱ق، ج۴، ص۳۵۸۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۲۳ـ۲۴؛ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۷۹ق، ج۷، ص۴۳۷ـ۴۳۶۔
- ↑ ر.ک: ابو داوود، ج۱، ص۳۴۸
- ↑ ر.ک: کلینی، ج۳، ص۳۰۲؛ ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۸۳، طوسی، تہذیب الاحکام، ج۲، ۲۷۷؛ الاستبصار، ج۱، ص۳۰۶ـ۳۰۵؛ تفصیل کیلئے ر.ک: علل الشرائع، ج۲، ۳۱۴ـ۳۱۲
- ↑ قاضی نعمان، ج۱، ص۱۴۳
- ↑ بخاری، ج۱، ص۱۵۰؛ مسلم، ج۱، ص۲۸۵
- ↑ ر.ک: ابن ماجہ، ج۱، ص۲۳۳ـ۲۳۲، ابوداوود، ج۱، ۳۳۸ـ۳۳۶؛ ترمذی، ج۱، ص۳۵۹؛ نسائی، ج۳، ص۳ـ۲
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۷۸۔
- ↑ محمدی ریشہری، موسوعۃ میزان الحکمۃ، ج۲، ص۹۷-۹۸۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طوسی، الخلاف، ج۱، ص۹۰
- ↑ ملاحظہ کریں: ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج۱ ص۱۸۹ـ۱۸۸؛ طوسی، النہایہ، ص۸۰
- ↑ نظر مراجع تقلید در مرتبہ حکم شہادت ثالثہ
- ↑ سید مرتضی، ص۳۹ـ۳۸
- ↑ قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ۱۳۸۹ق، ج۱، ص۱۴۳؛ ابو عبداللہ علوی، الاذان بحی علی خیرالعمل، ۱۳۹۹ق، ص۱۶۔
- ↑ ابن بابویہ، من لایحضر، ج۱، ص۱۸۷
- ↑ ر.ک: دارقطنی، ج۱، ص۲۳۵ـ۲۳۳
- ↑ ر.ک: کلینی، ج۳، ص۳۰۳ سید مرتضی، ص۳۹؛ طوسی،الاستبصار، ج۱، ص۳۰۸
- ↑ جزیری ، ج۱، ص۳۱۲
- ↑ ابن قاسم، ج۱، ص۵۷
- ↑ ر.ک: ابن قاسم، ج۱، ص۵۷؛ شافعی، ج۱، ص۸۴؛ ابن رشد، ج۱، ص۱۰۶؛ شربینی، ج۱، ص۱۳۶
- ↑ محقق حلی، ص۷۵.
- ↑ محقق حلی، ج۱، ص۷۴.
- ↑ طوسی، الخلاف، ج۱، ص۹۳؛ ابن ہمام، ج۱، ص۲۰۹؛ محلی، ج۱، ص۱۲۵.
- ↑ ر.ک: ابن ہمام، ج۱، ص۲۰۹، جزیری، ج۱، ص۱۰۱.
- ↑ العروه الوثقی، ج۱، ص۶۰۱.
- ↑ جزیری، ج۱، ص۳۱۴؛ شہید ثانی، ج۱، ص۲۳۹.
- ↑ جزیری، ج۱، ص۳۱۴؛ شہید ثانی، ج۱، ص۲۳۹.
- ↑ محقق حلی، ج۱، ص۷۵؛ نیز ابن ہبیره ج۱، ص۸۲.
- ↑ ر.ک: محقق حلی، ج۱، ص۷۵؛ قس، ابن ہبیره، ج۱، ص۸۰.
- ↑ رک: طوسی الخلاف، ج۱، ص۹۶؛ ابن هبیره، ج۱، ص۸۳.
- ↑ مفید، ص۹۸.
منابع
- قرآن مجید۔
- ابن بابویہ، محمد، علل الشرائع، نجف، ۱۳۸۶ھ/۱۹۶۶ء۔
- ابن بابویہ، من لا یحضره الفقیہ، حسن موسوی خرسان، بیروت ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ء۔
- ابن خزیمہ، محمد، صحیح، مصطفی اعظمی، بیروت، ۱۹۷۱ـ۱۹۷۹ء۔
- ابن رشد قرطبی، محمد، بدایۃ المجتہد، بیروت ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶ء۔
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، شرح حال امام حسن(ع)، تراثنا، قم ۱۴۰۸ق، شمسی ۱۱۔
- ابن قاسم، عبدالرحمان، المدونۃ الکبری، بغداد، مکتبۃ المثنی۔
- ابن ماجہ، محمد، سنن،محمد فواد عبدالباقی، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ء۔
- ابن ہبیره، یحیی، الافصاح، حلب، ۱۳۶۶ق/۱۹۴۷ء۔
- ابن ہمام، محمد، فتح القدیر، قاہرہ، ۱۳۹۱ھ۔
- ابوداوود سجستانی، سلیمان، سنن، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ء۔
- ابو عبدالله علوی، محمد، الاذان بحی علی خیرالعمل، یحیی عبدالکریم، دمشق، ۱۳۹۹ق/۱۹۸۹ء۔
- ابوعبید، قاسم، غریب الحدیث، حیدرآباد دکن، ۱۳۸۴ق/۱۹۶۵ء۔
- احمد بن حنبل، مسند، قاہرہ، ۱۳۱۳ھ۔
- بخاری، محمد، الجامع الصحیح، استانبول، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۱ء۔
- ترمذی، محمد، السنن، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ء۔
- جزیری، عبدالرحمان، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، قاہرہ، الطبعہ التجاریہ۔
- حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک، حیدرآباد دکن، ۱۳۲۴ھ۔
- دارقطنی، علی، سنن، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶ء۔
- دارمی، عبداللہ، سنن، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ء۔
- سید مرتضی، علی، الانتصار، نجف، ۱۳۹۱ق/۱۹۷۱ء۔
- شافعی، محمد، الام، محمد زہری نجار، بیروت، دارالمعرفہ۔
- شربینی، محمد، مغنی المحتاج، قاہرہ، ۱۳۵۲ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین، الروضۃ البهیہ، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء۔
- طبرانی، سلیمان، المعجم الکبیر، حمدی عبدالمجید سلفی، بغداد،۱۴۰۰ق/۱۹۸۰ء۔
- طوسی، محمد، الاستبصار، حسن موسوی خرسان، نجف، ۱۳۷۵ھ۔
- طوسی، تہذیب الاحکام، حسن موسوی خرسان، نجف، ۱۳۷۹ ھ۔
- طوسی، الخلاف، تہران، ۱۳۷۷ھ۔
- طوسی، النہایہ، آسف فیضی، قاہرہ، ۱۳۸۹ھ۔
- کاسانی، علاءالدین، بدائع الصنائع، قاہرہ، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م
- کلینی، محمد، الکافی، علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۴۰۱ھ۔
- محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام، نجف، ۱۳۸۹ق/۱۹۶۹ء۔
- محلی، جلال الدین، شرح منہاج الطالبین، ہمراه حاشیہ علی شرح منہاج الطالبین، شہاب الدین قلیوئی، قاہره، مطبعہ عیسی البابی الحلبی۔
- مسلم بن حجاج، صحیح، محمد فواد عبدالباقی، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ء۔
- محمد بن مکی، موسوعہ الشہید الاول: الجزء التاسع، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ(۱)، بیروت: مرکز العلوم والثقافہ الاسلامیہ، ۱۴۳۰ق-۲۰۰۹ء۔
- مفید، محمد، المقنعہ، قم، ۱۴۰۱ھ۔
- نسائی، احمد، سنن، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ء۔
- نظام الملک، حسن، سیاست نامہ، ہیوبرت دارک، تہران، ۱۳۴۷ش۔
- یزدی، محمد کاظم، العروۃ الوثقی فیما تم بہ البلوی، موسسہ اعلمی للمطبوعات، بیروت۔
بیرونی لنک
- منبع مقالہ:دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی