مندرجات کا رخ کریں

ثویہ

ویکی شیعہ سے
کوفہ کے نزدیک ثویہ قبرستان

ثَوِیّہ یا ثُوَیہ ایک تاریخی قبرستان ہے جو کوفہ کے قریب واقع ہے جہاں پیغمبر اکرمؐ کے بعض اصحاب اور امام علیؑ کے چند قریبی ساتھی؛ جیسے کُمَیل بن زیاد دفن ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر شہدائے کربلا کے سَر، کوفہ لے جانے سے پہلے، اسی مقام پر زمین پر رکھے گئے تھے۔

آج کل اس قبرستان کو حَنّانہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور دینی بزرگان کی سفارش کے مطابق یہاں نماز پڑھنے کو باعث فضیلت سمجھا جاتا ہے۔

مقام و اہمیت

ابن خلکان کے مطابق، ثویہ کے قبرستان میں پیغمبر اکرمؐ کے بعض صحابہ دفن ہیں۔[1] اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے بعض خاص اصحاب جیسے کمیل بن زیاد اور شریک اَعور بھی یہاں مدفون ہیں۔[2] مرقد امام علی علیہ السلام بھی ثویہ کے قریب واقع ہے۔[3]

آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقہاء میں سے شہید اول نے اپنی کتاب المزار میں تاکید کی ہے کہ امام علی علیہ السلام کے خاص اصحاب کے احترام میں اس قبرستان میں دو رکعت نماز پڑھی جائے۔[4] شیخ عباس قمی کے مطابق، ابوموسی اشعری، مغیرہ بن شعبہ اور زیاد بن ابی‌سفیان کی قبریں بھی اسی قبرستان میں ہیں۔[5]

اس جگہ تاریخی قبروں کے علاوہ کئی مساجد بھی موجود ہیں جو ہر سال دنیا بھر سے زائرین کی کثیر تعداد کی میزبانی کرتی ہیں۔[6]

گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ مفسر سید ہاشم بحرانی نے امام صادقؑ کی ایک روایت کے حوالے سے کہا ہے کہ ثویہ وہ مقام ہے جہاں پیغمبر اکرمؐ اور حضرت علیؑ کی ملاقات ہوئی، اور رجعت کے زمانے میں وہاں ایک مسجد بنائی جائے گی۔[7]تاریخ‌دان حسن عیسی امام صادقؑ کی ایک روایت[8] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام حسینؑ اور کربلا کے دیگر شہداء کے سر، کوفہ لے جانے سے پہلے ثویہ کے مقام پر رکھے گئے تھے۔[9]

نعمان بن بشیر انصاری اور سید اسماعیل حمیری جیسے عربی شعرا نے بھی اپنی شاعری میں "الثویہ" کا ذکر کیا ہے۔[10]

تاریخی پس منظر

ثَوِیہ یا ثُوَیہ،[11] جو "حیرہ" کے پیچھے اور کوفہ کے قریب ایک مقام تھا۔[12] اسلام سے پہلے اس جگہ کو "ثویۃ الحیرہ" کے نام سے جانا جاتا تھا۔[13] ماہر تاریخ حسن عیسی کے مطابق، ابتدائی دور میں یہ جگہ ایک قید خانہ تھی جہاں سزائے موت کے قیدیوں کو رکھا جاتا تھا اور پھر انہیں اعدام کیا جاتا تھا۔[14] اسلام کے بعد اور کوفہ کے قیام کے بعد، ثویہ کو کوفہ کے باشندوں کے لیے قبرستان میں بدل دیا گیا۔[15] چونکہ یہ جگہ "حیرہ" اور "کوفہ" کے علاقوں سے وابستہ تھی، اس لیے اسے "ثویہ حیرہ" یا "ثویہ کوفہ" بھی کہا جاتا تھا۔[16]

جغرافیائی محلِ وقوع

ثویہ، نجف کی طرف کوفہ کے مشہور مقام "خندق کوفہ" کے بعد واقع ہے۔[17] کتاب المفصل فی تاریخ النجف کے مطابق، ثویہ ایک لمبائی میں پھیلا ہوا علاقہ ہے جو نجف کے مشرق سے شروع ہوتا ہے اور نجف کے جنوب مشرق میں واقع "حیرہ" اور پھر کوفہ کے قریب "خندق" تک پہنچتا ہے۔[18] ان کا کہنا ہے کہ آج کل یہ علاقہ شہر نجف کا حصہ بن چکا ہے۔[19] جغرافیائی لحاظ سے، ثویہ کو کوفہ اور حیرہ کی تاریخ کا حصہ مانا جاتا ہے۔[20] ثویہ کے قبرستان کو آج حنّانہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔[21]

حوالہ جات

  1. ابن‌خلکان، وفیات الأعیان، 1900م، ج2، ص506۔
  2. قمی، سفینۃ البحار، 1414ق، ج1، ص528۔
  3. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص193۔
  4. شہید اول، المزار، 1410ق، ص32۔
  5. قمی، سفینۃ البحار، 1414ق، ج1، ص528۔
  6. قبرستان ثویہ، مندرج در سایت آنلاین کربلا۔
  7. بحرانی، البرہان، 1415ق، ج1، ص91 و ج4، ص292۔
  8. شیخ طوسی، الأمالی، 1414ق، ص682۔
  9. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص194۔
  10. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص187۔
  11. بکری، معجم ما استعجم من أسماء البلدان والمواقع، 1403ق، ج1، ص350۔
  12. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص191۔
  13. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص184۔
  14. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص184۔
  15. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص184 و 186۔
  16. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص186۔
  17. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص186۔
  18. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص186۔
  19. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص186۔
  20. قبرستان ثویہ، مندرج در سایت آنلاین کربلا۔
  21. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، 1385شمسی، ج1، ص193۔

مآخذ

  • «قبرستان ثویہ»، مندرج در سایت آنلاین کربلا، تاریخ مشاہدہ: 29 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
  • ابن‌خلکان، أحمد بن محمد، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، محقق: إحسان عباس، بیروت، دار صادر، 1900ء۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان في تفسير القرآن‏، تحقیق: بنياد بعثت، واحد تحقيقات اسلامى‏، قم، مؤسسۃ البعثۃ، قسم الدراسات الإسلاميۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • بکری، عبداللہ بن عبد العزيز، معجم ما استعجم من أسماء البلدان والمواقع، بیروت، عالم الکتب، 1403ھ۔
  • حکیم، حسن عیسی، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، قم، المکتبۃ الحیدریۃ، 1385ہجری شمسی۔
  • شہيد اوّل‏، محمد بن مکی، المزار، قم‏، مؤسسہ امام مہدى(ع)، چاپ اول، 1410ھ۔
  • قمی، عباس، سفينۃ البحار، قم، اسوہ، چاپ اول، 1414ھ۔