مندرجات کا رخ کریں

شادی بیاه

ویکی شیعہ سے
(دائمی شادی سے رجوع مکرر)

شادى بیاہ یا نکاح، عقد نکاح کے ذریعے کسی مرد اور عورت کاباہم رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن میں شادی کو سکون کا باعث قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ روایات کے مطابق شادی، اسلام کے بعد دوسری بڑی نعمت ہے جو آدھے یا دو تہائی دین اور پیغمبر اکرمؐ کی سنت کی پاسبان ہے۔

شریک حیات کے انتخاب کے لیے احادیث میں جو معیارات بیان کیے گئے ہیں ان میں تقویٰ، اچھے اخلاق اور اچھا خاندان شامل ہیں۔ فقہاء کی نظر میں شادی کرنا مستحب ہے لیکن جو شخص شادی نہ کرنے سے گناہ میں پڑ سکتا ہے تو اس کے لیے یہ واجب ہے۔

شیعہ اثنا عشری مذہب کے مطابق شادى کى دو قسميں ہيں انقطاعی؛ جس کے عقد ميں مدت اور مہر معين کرنا شرط ہے اور اس مدت کے ختم ہونے کے بعد مياں بيوى طلاق کے بغير ايک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہيں۔ اور دائمی جس ميں عمر بھر کيلئے نکاح پڑھا جاتا ہے۔ اور مياں بيوى کے آپس کى جدائى کيلئے طلاق دينے کى ضرورت ہوتى ہے۔

توضیح المسائل کی کتابوں میں شادی کے متعلق بہت سارے فقہی احکام ذکر ہوئے ہیں۔ اور شادی میں ان احکام میں سب سے اہم واجب نکاح کا پڑھنا ہے اور اس میں مرد اور عورت کی صرف رضایت کافی نہیں ہے اور باکرہ لڑکی کے لئے والد یا داد سے اجازت لینا ضروری ہے۔

شادی بیاہ کا رابطہ، لعان، طلاق، موت، جنس کی تبدیلی، ارتداد اور ان عوامل میں سے کسی ایک کے ہونے سے ختم ہوتا ہے اور میاں‌ بیوی الگ ہونے کے بعد عورت کو عدت گزارنی ہوگی۔

تعریف اور قسمیں

شادى بیاہ، شادی شدہ رابطہ اور بندھن کو کہا جاتا ہے جو نکاح کے ذریعے ایجاد کیا جاتا ہے اور شیعہ اثنا عشری مذہب کے مطابق شادى کى دو قسميں ہيں انقطاعی اور دائمی، انقطاعی نکاح میں مدت معين ہوتى ہے اور اس مدت کے بعد مياں بيوى طلاق کے بغير ايک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہيں۔[1]

انقطاعی شادی

پیغمبر اسلام ؐ کے دور میں انقطاعی شادی جائز تھی؛ لیکن دوسرے خلیفہ کے دور میں حرام ہو گئی۔[2] اسلامی مذاہب میں صرف شیعہ امامی مذہب انقطاعی شادی کو جائز سمجھتا ہے۔[3] دائمی اور انقطاعی شادی کا بنیادی فرق انقطاعی میں مدت معین ہونے اور مدت کو بیان کرنا ضروری ہونے میں ہے۔[4]

دائمی اور انقطاعی شادی میں فرق

دائمی شادی اور انقطاعی شادی میں اکثر احکام مشترک اور ایک جیسے ہیں؛ جیسے نکاح پڑھنا دونوں میں ضروری ہے۔ لیکن ان دونوں کے درمیان مندرجہ ذیل فرق بھی ہیں:

  • دائمی شادی میں مرد کو عورت کا نفقہ دینا ہوگا جبکہ انقطاعی میں واجب نہیں؛
  • دائمی شادی میں بیوی مرد کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جاسکتی ہے لیکن انقطاعی شادی میں مرد کی اجازت ضروری نہیں؛
  • دائمی شادی میں میاں بیوی ایک دوسرے سے ارث پاتے ہیں جبکہ انقطاعی شادی میں ارث نہیں لیتے؛[5]
  • اگر انقطاعی شادی کے نکاح میں مہر ذکر نہ ہو تو نکاح باطل ہے جبکہ دائمی میں ایسا نہیں ہے۔[6]

شادی کی اہمیت

اسلام نے شادی کو بہت اہمیت دی ہے اور اسے رسول اللہؐ کی سنتوں میں‌ سے ایک قرار دیا ہے۔[7] کنواراپن اور شادی نہ کرنے کو ایک مکروہ امر قرار دیا گیا ہے۔[8] قرآن میں بھی شادی کو سکون کا باعث قرار دیتے ہوئے[9] مسلمانوں کو اپنے غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کرنے کی تلقین کی گئي ہے۔[10]

روایات میں بھی شادی کی بہت ساری خصوصیات بیان ہوئی ہیں اور احادیث کے مطابق شادی، اسلام‌ کے بعد دوسری بڑی نعمت،[11] دنیا اور آخرت میں‌ خیر برکت کا سبب،[12] نصف یا دو تہائی دین کی حفاظت کرنے ضامن،[13] اور رزق میں فراوانی بخشنے کا سبب قرار دیا ہے۔[14] اور مُردوں میں پست ترین لوگ ان کو قرار دیا ہے جو شادی کئے بغیر مر جاتے ہیں۔[15]

شادی کے تربیتی پہلو کے محقق آیت اللہ مرتضی مطہری
اسلام میں شادی کو (اگرچہ لذت اور شہوت سے مربوط ہے) ایک مقدس کام اور عبادت سمجھا جاتا ہے؛ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شادی وہ پہلا قدم ہے جو انسان خود غرضی اور خود پسندی سے نکل کر غیر کی دوستی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ شادی سے پہلے صرف "میں" تھا اور سب کچھ "میرے" لیے تھا۔ پہلا مرحلے میں شادی کے ذریعے اس حصار کو توڑا جاتا ہے،‌ یعنی شادی کرنے سے اس "میں" کے ساتھ ایک اور وجود بھی آ جاتا ہے اور وہ اس کے لیے اہم ہوتا ہے؛ اب جدوجہد کرتا ہے اور خدمت کرتا ہے تو صرف "میرے" لیے نہیں بلکہ ہمارے لئے۔

مطہری، تعلیم وتربیت در اسلام، ص267.


شادی کے احکام

توضیح المسائل کی کتابوں میں شادی کے متعلق بہت زیادہ فقہی احکام ذکر ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض اہم احکام مندرجہ ذیل ہیں:

  • فقہا کی نظر میں شادی کرنا مستحب مؤکد ہے؛ لیکن جو شخص شادی کے بغیر گناہ میں پڑتا ہوں تو اس پر شادی کرنا واجب ہے۔[16]
  • شادی دائمی ہو یا انقطاعی ان دونوں میں عقد نکاح پڑھنا واجب ہے اور صرف مرد اور عورت کا راضی ہونا کافی نہیں ہے؛[17]
  • مرد اور عورت خود عقد پڑھ سکتے ہیں اور کسی اور کو بھی نکاح پڑھنے کے لئے وکیل بنا سکتے ہیں جو ان کی طرف سے نکاح پڑھے؛[18]
  • اگر مرد اور عورت عربی میں نکاح (صیغے) پڑھ سکتے ہیں تو عربی میں پڑھنا ضروری ہے؛[19]
  • باکرہ لڑکی کے نکاح میں والد یا دادا کی اجازت ضروری ہے؛[20]
  • غیر کنوارے رشید لڑکوں اور رشیدہ لڑکیوں (لڑکے اور لڑکیاں جو رشد کی عمر کو پہنچ چکے ہیں) پر باپ اور دادا کو ولایت حاصل نہیں ہے۔ اور رشیدہ کنواری لڑکی پر ولایت ہونے کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔[21]
  • اپنے محرم سے شادی کرنا حرام ہے جیسے مرد کے لئے ماں، بہن اور ساس؛ اور عورت کے لئے باپ، بھائی اور سسر؛[22]
  • مسلمان عورت کے لئے کسی غیر مسلمان مرد سے شادی کرنا جائز نہیں ہے خواہ دائمی ہو یا انقطاعی؛[23]
  • مسلمان مرد کے لئے اہل کتاب عورت سے انقطاعی شادی کرنا جائز ہے۔[24]

احادیث کی روشنی میں شریک حیات کا انتخاب

ایران میں دائمی شادی فارم

بعض احادیث میں شادی کیلئے شریک حیات کو انتخاب کرتے ہوئے بعض معیاروں کی رعایت کرنے کی بہت تاکید ہوئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے ایک شخص کو دیندار فرد سے شادی کرنے کی تاکید کی ہے۔[25] مکارم الاخلاق کی کتاب میں امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں کہا گیا ہے:‌ مناسب گھرانے میں شادی کریں؛ کیونکہ خاندان کی خصوصیات بچے میں منتقل ہوتی ہیں۔[26] امام رضاؑ سے بھی نقل ہوا ہے کہ آپ نے بد اخلاق فرد سے شادی کرنے سے منع کیا ہے۔ [27]

زید بن ثابت کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے مجھ سے فرمایا: ”اے زید کیا تم نے بیوی انتخاب کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں، آپؐ نے کہا: اپنی عفت کی حفاظت کے لیے کسی عورت سے نکاح کرو، لیکن عورتوں کے پانچ گروہ سے شادی نہ کرو، میں نے کہا: وہ عورتیں کون ہیں؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: «شَہبَرہ»، «لَہبَرہ»، «نَہبَرہ»، «ہَيدَرہ» اور «لَفوت» نامی عورت سے کبھی نکاح نہ کرو“، میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ آپ کی باتوں کو میں‌ نہیں‌سمجھا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: کیا تم عرب نہیں ہو؟ البتہ شَہبَرہ گندی زبان اور نیلی آنکھوں والی عورت ہے، اور لَہبَرہ دبلی پتلی لمبی عورت، اور نَہبَرہ ایک چھوٹے قد کی بدمزاج عورت، ہَيدَرہ کُبْڑی اور کوہانی بوڑھی عورت اور لفوت وہ عورت جس کے دوسرے شوہر سے بچے ہوں۔[28][یادداشت 1]

پیامبر خدا صلی اللہ علیہ والہ:
آپ کی بہترین عورتیں وہ ہیں جو زیادہ بچے پیدا کرنے ولی اور مہربان ہیں۔ اپنے گھر والوں میں عزیز اور پوشیدہ ہیں، وہ اپنے شوہر کی نسبت متواضع اور بےپردہ جبکہ دوسروں کی نسبت پردہ دار ہیں اور شوہر کا حکم مانتی ہے، خلوت میں شوہر اس سے جو چاہتا ہے زنانہ لطافت کے ساتھ دے دیتی ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: "کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تمہاری عورتوں میں سب سے زیادہ بری کون ہے؟" کہا: ہاں! فرمایا: وہ عورت جو اپنے گھر والوں کی نسبت فروتن اور فرمانبردار ہے اور اپنے شوہر کی نسبت باغی، عقیم اور کینہ پرور ہے۔" وہ برائی سے اجتناب نہیں کرتی، اور جب اس کا شوہر آس پاس نہیں ہوتا ہے تو وہ لاپرواہ ہے، اور خلوت میں اپنے شوہر سے نافرمان سواری کی طرف دوری اختیار کرتی ہے۔ اور اپنے شوہر سے عذر قبول نہیں کرتی اور اس کے گناہ کو معاف نہیں کرتی۔

شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج 20، ص30.

نکاح ختم ہونے کے عوامل

فقہا کی نظر میں نکاح ٹوٹنے کے عوامل مندرجہ ذیل ہیں: تغییر جنسیت،[29] وفات، ارتداد، طلاق، لِعان اور وہ چیزیں جو نکاح فسخ ہونے کا باعث بنتی ہیں[30] نکاح ختم ہونے کے بعد عورت کے لئے عدت (وہ معین مدت جس کے دوران عورت طلاق کے بعد کسی دوسرے مرد سے شادی نہیں کرسکتی ہے) رکھنا لازمی ہے۔[31]

شادی میں رکاوٹیں

اسلامی فقہ میں بعض عورتوں سے شادی بعض رکاوٹوں کی وجہ سے حرام ہے:

  • عارضی رکاوٹیں: وہ شرائط جن میں مرد اور عورت کے درمیان نکاح عارضی طور پر حرام ہے اور جب یہ شرائط ختم ہو جائیں تو حرمت بھی ختم ہو جاتی ہے۔[32] جیسے:
  1. استیفاء عدد:[یادداشت 2] اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آزاد مرد چار آزاد عورتوں سے زیادہ سے دائمی نکاح نہیں کر سکتا ہے۔[33]
  2. دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح: ایک ہی وقت میں دو بہنوں سے نکاح کرنا حرام ہے، لیکن اگر کسی مرد کی بیوی فوت ہو گئی ہو یا طلاق دی ہو تو وہ اس عورت کی بہن سے شادی کر سکتا ہے۔[34][یادداشت 3]
  3. کفر و ارتداد: مسلمان عورت کے لیے کسی غیر مسلم (کافر حربی یا اہل کتاب) اور مرتد سے شادی کرنا جائز نہیں خواہ عقد دائمی ہو یا متعہ، [35] اسی طرح مسلمان مرد کے لیے بھی کافر حربی یا مرتد عورت سے شادی کرنا جائز نہیں۔[36]

شادی کا قانونی اندراج

بعض ممالک میں قانونی طور پر شادی کا رجسٹریشن کیا جاتا ہے۔ [46] اور بعض ممالک میں رجسٹرار کے پاس درج نہ کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔[47] رجسٹریشن کرنے کے اہداف میں سے بعض یہ ہیں: نکاح صحیح ہونے پر اطمینان ہو سکے، اختلافات سے روک تھام اور جھگڑے کی صورت میں عدالت میں شادی ثابت کرنے کا آسان حل جو کہ میاں بیوی دونوں کے لئے آسان ہے۔[48]

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1392شمسی، ج1، ص390
  2. سبحانی، «ازدواج موقت در کتاب و سنت»، ص125، 126۔
  3. سبحانی، «ازدواج موقت در کتاب و سنت»، ص63۔
  4. حسینی، احکام ازدواج، 1389شمسی، ص121۔
  5. حسینی، احکام ازدواج، 1389شمسی، ص120-121۔
  6. اکبری، احکام خانوادہ، 1393شمسی، ص26۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، باب کراہة العزبہ، ص329۔
  8. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج20، ص18۔
  9. سورہ روم، آیہ 21۔
  10. قرآن، سورہ نور، آیہ 32؛ حسینی، احکام ازدواج، 1389شمسی، ص39، 40۔
  11. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، بَابُ مَنْ وُفِّقَ لَہُ الزَّوْجَةُ الصَّالِحَة، ص327۔
  12. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، بَابُ مَنْ وُفِّقَ لَہُ الزَّوْجَةُ الصَّالِحَة، ص327۔
  13. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، باب کراہة العزبہ، ص329۔
  14. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، باب ان التزویج یزید فی الرزق، ص330-331۔
  15. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، باب کراہة العُزبَہ، ص329۔
  16. حسینی، احکام ازدواج، 1389شمسی، ص39، 40۔
  17. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1424ھ، ج2، ص450۔
  18. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1424ھ، ج2، ص450۔
  19. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1424ھ، ج2، ص453۔
  20. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1424ھ، ج2، ص458۔
  21. خمینی، تحریر الوسیلہ، ناشر: موسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى( رہ)، ج2، ص242۔
  22. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1424ھ، ج2، ص464۔
  23. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1424ھ، ج2، ص468۔
  24. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، 1424ھ، ج2، ص468۔
  25. کلینی، کافی، 1407ھ، ج5، ص332۔
  26. طبرسی، مکارم الأخلاق، 1370شمسی، ص203۔
  27. کلینی، کافی، 1407ھ، ج5، ص563۔
  28. صدوق، الخصال،1362شمسی، ج1، ص316۔
  29. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، 1384شمسی، ص992-993۔
  30. نجفی، جواہرالکلام، 1404ھ، ج32، ص211۔
  31. نجفی، جواہرالکلام، 1404ھ، ج32، ص211۔
  32. ساردویی‌نسب و دیگران، «واکاوی تطبیقی حرمت‌ہای ابدی ازدواج در فقہ امامیہ و زیدیہ با رویکرد حقوقی»، ص86.
  33. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص236۔
  34. شہید اول، اللمعة الدمشقیة، 1410ھ، ص164۔
  35. خمینی، تحریر‌الوسیلہ، 1434ھ، ج2، ص305۔
  36. خمینی، تحریر‌الوسیلہ، 1434ھ، ج2، ص305۔
  37. ساردویی‌نسب و دیگران، «واکاوی تطبیقی حرمتہای ابدی ازدواج در فقہ امامیہ و زیدیہ با رویکرد حقوقی»، ص86.
  38. شیخ مفید، المقنعہ، 1413ھ، ص501۔
  39. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج2، ص237؛ فاضل مقداد، کنزالعرفان، 1425ھ، ج2، ص295۔
  40. علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ص583۔
  41. ابن ادریس حلی، السرائر، 1410ھ، ج2، ص526۔
  42. شیخ مفید، المقنعہ، 1413ھ، ص501۔
  43. علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ص465؛ شیخ مفید، المقنعہ، 1413ھ، ص501۔
  44. شیخ مفید، المقنعہ، 1413ھ، ص501؛ فاضل آبی، کشف الرموز، 1417ھ، ج2، ص216۔
  45. بہجت، مناسک حج، قم، ص100؛ سبحانی، مناسک حج، 1388شمسی،ج1، ص91۔
  46. اسدی، «نقد و بررسی قوانین ثبت ازدواج»، ص103۔
  47. اسدی، «نقد و بررسی قوانین ثبت ازدواج»، ص103۔
  48. اسدی، «نقد و بررسی قوانین ثبت ازدواج»، ص106-109۔

نوٹ

  1. بعض محققین نے ان الفاظ کی توضیحات پیش کی ہیں تاکہ فطری اور غیر ارادی خصوصیت کا ہونا شادی سے محروم ہونے کا معیار اور وجہ نہ بن جائے مثلاً (لہبرہ) کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ اس عورت کو کہا جاتا ہے جو لمبی اور دبلی پتلی (کم عقل) ہو اور (ہیدرہ) اس عورت کو کہا جاتا ہے جو بوڑھی، اور مکار ہے۔
  2. یعنی نکاح اور طلاق میں‌ عدد پورا ہونا۔موسسہ دائرة المعارف الفقہ الاسلامي، فرہنگ فقہ فارسی، ج1، ص503.
  3. ایک ہی وقت میں دو بہنوں سے نکاح کرنا جائز نہیں خواہ وہ سگی بہنیں ہوں یا رضاعی بہنیں - خواہ نکاح دائمی ہو، یا متعہ اور انقطاعی یا مختلف ہو (ایک سگی بہن ہو اور دوسری رضاعی بہن، ایک کا نکاح ہو اور دوسری سے متعہ)۔ اگر اس نے دو بہنوں میں سے ایک سے نکاح کرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح کیا تو صرف دوسرا نکاح باطل ہے، پہلا نہیں، چاہے اس نے پہلی سے ہمبستری کی ہو یا نہ ہو۔ اور اگر وہ ان دونوں سے ایک ہی صیغہ عقد کے ساتھ یا ایک ہی وقت میں دونوں سے عقد کرے تو وہ ایک ساتھ باطل ہو جائیں گے۔خمینی، تحرير الوسيلة، ناشر: موسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى( رہ)، ج2، ص266.
  4. اگر کوئی شخص کسی آزاد عورت کو تین طلاق دے تو وہ عورت اس پر حرام ہو جائے گی اور اس کے لیے حلالہ کئے بغیر اس عورت سے نکاح جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح نو بار طلاق دے دے تو وہ اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ موسسہ دائرة المعارف الفقہ الاسلامي، فرہنگ فقہ فارسی، ج1، ص503.

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • اسدی، لیلا سادات، «نقد و بررسی قوانین ثبت ازدواج»، در مجلہ مطالعات راہبردی زنان، تہران، شورای فرہنگی اجتماعی زنان و خانوادہ، تابستان 1387، شمارہ 40.
  • اکبری، محمود، احکام خانوادہ، قم، فتیان، 1393ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1384ش/1426ھ۔
  • امام خمينى، سيد روح‌اللہ، توضیح المسائل (مُحَشّی)، تحقیق سيد محمدحسين بنى‌ہاشمى خمينى‌، قم، ‌دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ہشتم، 1424ھ۔‌
  • حر عاملی، محمد بن حسن، المحقق:مؤسسة آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث ـ قم، الناشر مؤسسة آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث ـ قم، بی تا.
  • حسینی، سید مجتبی، احکام ازدواج (مطابق با نظر دہ تن از مراجع عظام)، قم، دفتر نشر معارف، چاپ ہفتم، 1389ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، «ازدواج موقت در کتاب وسنت»، فقہ اہل بیت، ش 48، 1385ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسة المعارف الإسلامیة، چاپ اول، 1413ھ۔
  • صنعانی، عبدالرزاق بن ہمام، المصنّف، مجلس علمی، بی‌جا، 1390ق/1970م.
  • طبرسى، فضل بن حسن، مکارم الاخلاق، قم، الشریف الرضی، چاپ چہارم، 1412ق/1370ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تصحیح محمدتقی کشفی، تہران، المکتبة المرتضویة لاحیاء الآثار الجعفریہ، 1387ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق على‌اكبر غفارى‌، تہران، دار الكتب الإسلامية، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • منصور، جہانگیر، قانون مدنی با آخرین اصلاحیہ‌ہا و الحاقات ہمراہ با قانون مسؤلیت مدنی، تہران، نشر دیدار، 1391ہجری شمسی۔
  • ہاشمی شاہرودی، سید محمود، فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل بیت علیہم‌السلام، قم، مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، چاپ اول، 1392ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔