شادی بیاه

غیر سلیس
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(دائمی شادی سے رجوع مکرر)

شادى بیاہ یا نکاح، عقد نکاح کے ذریعے کسی مرد اور عورت رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے کو کہا جاتا ہے۔ شیعہ اثنا عشری مذہب کے مطابق شادى کى دو قسميں ہيں انقطاعی؛ جس کے عقد ميں مدت معين ہوتى ہے اور اس مدت کے بعد مياں بيوى طلاق کے بغير ايک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہيں۔ اور دائمی جس ميں عمر بھر کيلئے نکاح پڑھا جاتا ہے۔ اور مياں بيوى کے آپس کى جدائى کيلئے طلاق دينے کى ضرورت ہوتى ہے۔

قرآن میں شادی کو سکون کا باعث قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کرنے کی تلقین کی ہے۔ روایات کے مطابق شادی، اسلام کے بعد دوسری بڑی نعمت ہے جو آدھے یا دو تہائی دین اور پیغمبر اکرم ؐ کی سنت کی پاسبان ہے۔

توضیح المسائل کی کتابوں میں شادی کے متعلق بہت زیادہ فقہی احکام ذکر ہوئے ہیں۔ اور شادی میں ان احکام میں سب سے اہم واجب نکاح کا پڑھنا ہے اور اس میں مرد اور عورت کی رضایت ہی کافی نہیں بلکہ شریک حیات کے انتخاب میں دینداری، خوش اخلاقی اور خاندان اچھا ہونے کے معیار کو بھی مدنظر رکھنے کی روایات میں تاکید ہوئی ہے۔

شادی کی تعریف اور قسیمں

شادى بیاہ، شادی شدہ رابطہ اور بندھن کو کہا جاتا ہے جو نکاح کے ذریعے سے ایجاد کیا جاتا ہے اور شیعہ اثنا عشری کے مطابق شادى کى دو قسميں ہيں انقطاعی اور دائمی، انقطاعی نکاح میں مدت معين ہوتى ہے اور اس مدت کے بعد مياں بيوى طلاق کے بغير ايک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہيں۔[1]

انقطاعی شادی

پیغمبر اسلام ؐ کے دور میں انقطاعی شادی جائز تھی؛ لیکن دوسرے خلیفہ کے دور میں حرام ہو گئی۔[2] اسلامی مذاہب میں صرف شیعہ امامی مذہب انقطاعی شادی کو جائز سمجھتا ہے۔[3] دائمی اور انقطاعی شادی کا بنیادی فرق انقطاعی میں مدت معین ہونے اور مدت کو بیان کرنا ضروری ہونے میں ہے۔[4]

فضیلت

اسلام نے شادی کو بہت اہمیت دی ہے اور قرآن میں شادی کو سکون کا باعث قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کرنے کی تلقین کی ہے۔۔[5][6] روایات میں بھی شادی کی بہت ساری خصوصیات بیان ہوئی ہیں اور احادیث کے مطابق شادی، اسلام‌ کے بعد دوسری بڑی نعمت، پیغمبر اکرم ؐ کی سنت، نصف یا دو تہائی دین کی پاسبان، دنیا اور آخرت کی نیکی اور رزق میں فراوانی کا سبب ہے، اور مردوں میں پست ترین لوگ وہ ہیں جو شادی کئے بغیر مر جاتے ہیں۔[7]

فقہا کی نظر میں شادی کرنا مستحب مؤکد ہے؛ لیکن جو شخص شادی کے بغیر گناہ میں پڑتا ہوں تو اس پر شادی کرنا واجب ہے۔[8]

شادی کے احکام

توضیح المسائل کی کتابوں میں شادی کے متعلق بہت زیادہ فقہی احکام ذکر ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض اہم احکام مندرجہ ذیل ہیں:

  • شادی دائمی ہو یا انقطاعی ان دونوں میں عقد نکاح پڑھنا واجب ہے اور صرف مرد اور عورت کا راضی ہونا کافی نہیں ہے؛[9]
  • مرد اور عورت خود عقد پڑھ سکتے ہیں اور کسی اور کو بھی نکاح پڑھنے کے لئے وکیل بنا سکتے ہیں جو ان کی طرف سے نکاح پڑھے؛[10]
  • اگر مرد اور عورت عربی میں نکاح (صیغے) پڑھ سکتے ہیں تو عربی میں پڑھنا ضروری ہے؛[11]
  • باکرہ لڑکی کے نکاح میں والد یا دادا کی اجازت ضروری ہے؛[12]
  • اپنے محرم سے شادی کرنا حرام ہے جیسے مرد کے لئے ماں، بہن اور ساس؛ اور عورت کے لئے باپ، بھائی اور سسر؛[13]
  • مسلمان عورت کے لئے کسی غیر مسلمان مرد سے شادی کرنا جائز نہیں ہے خواہ دائمی ہو یا انقطاعی؛[14]
  • مسلمان مرد کے لئے اہل کتاب عورت سے انقطاعی شادی کرنا جائز ہے۔[15]

دائمی اور انقطاعی شادی میں فرق

دائمی شادی اور انقطاعی شادی میں اکثر احکام مشترک اور ایک جیسے ہیں؛ جیسے نکاح پڑھنا دونوں میں ضروری ہے۔ لیکن ان دونوں کے درمیان مندرجہ ذیل فرق بھی ہیں:

  • دائمی شادی میں مرد کو عورت کا نفقہ دینا ہوگا جبکہ انقطاعی میں واجب نہیں؛
  • دائمی شادی میں بیوی مرد کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جاسکتی ہے لیکن انقطاعی شادی میں مرد کی اجازت ضروری نہیں؛
  • دائمی شادی میں میاں بیوی ایک دوسرے سے ارث پاتے ہیں جبکہ انقطاعی شادی میں ارث نہیں لیتے؛
  • اگر انقطاعی شادی کے نکاح میں مہر ذکر نہ ہو تو نکاح باطل ہے جبکہ دائمی میں ایسا نہیں ہے۔[16]

احادیث کی روشنی میں انتخاب شریک حیات کا معیار

بعض احادیث میں شادی کیلئے شریک حیات کو انتخاب کرتے ہوئے بعض معیاروں کی رعایت کرنے کی بہت تاکید ہوئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے ایک شخص کو دیندار فرد سے شادی کرنے کی تاکید کی ہے۔[17] مکارم الاخلاق کی کتاب میں امام صادق ؑ سے منقول ایک حدیث میں کہا گیا ہے:‌ مناسب گھرانے میں شادی کریں؛ کیونکہ خاندان کی خصوصیات بچے میں منتقل ہوتی ہیں۔ [18] امام رضا ؑ سے بھی ذکر ہوا ہے کہ آپ نے بد اخلاق لڑکی سے شادی کرنے کو منع کیا ہے۔ [19]

نکاح ختم ہونے کے عوامل

فقہا کی نظر میں نکاح ٹوٹنے کے عوامل مندرجہ ذیل ہیں: تغییر جنسیت،[20] وفات، ارتداد، طلاق، لِعان اور وہ چیزیں جو نکاح فسخ ہونے کا باعث بنتی ہیں[21] نکاح ختم ہونے کے بعد عورت کے لئے عدت (وہ معین مدت جس کے دوران عورت کسی اور مرد سے شادی نہیں کرسکتی ہے) رکھنا لازمی ہے۔[22]

شادی کا قانونی اندراج

بعض ممالک میں قانونی طور پر شادی کا رجسٹریشن کیا جاتا ہے۔ [23] اور بعض ممالک میں رجسٹرار کے پاس درج نہ کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔[24] رجسٹریشن کرنے کے اہداف میں سے بعض یہ ہیں: نکاح صحیح ہونے پر اطمینان ہو سکے، اختلافات سے روک تھام اور جھگڑے کی صورت میں عدالت میں شادی ثابت کرنے کا آسان حل جو کہ میاں بیوی دونوں کے لئے آسان ہے۔[25]

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۳۹۰
  2. سبحانی، «ازدواج موقت در کتاب و سنت»، ص۱۲۵، ۱۲۶۔
  3. سبحانی، «ازدواج موقت در کتاب و سنت»، ص۶۳۔
  4. حسینی، احکام ازدواج، ۱۳۸۹ش، ص۱۲۱۔
  5. قرآن، سورہ نور، آیہ ۳۲۔
  6. حسینی، احکام ازدواج، ۱۳۸۹ش، ص۳۹، ۴۰۔
  7. اسدی، «ازدواج»۔
  8. حسینی، احکام ازدواج، ۱۳۸۹ش، ص۳۹، ۴۰۔
  9. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۵۰۔
  10. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۵۰۔
  11. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۵۳۔
  12. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۵۸۔
  13. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۶۴۔
  14. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۶۸۔
  15. امام خمینی، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۶۸۔
  16. حسینی، احکام ازدواج، ۱۳۸۹ش، ص۱۲۰، ۱۲۱۔
  17. کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۳۳۲۔
  18. طبرسی، مکارم الأخلاق، ۱۳۷۰ش، ص۲۰۳۔
  19. کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۵۶۳۔
  20. امام خمینی، تحریر الوسیله، ۱۳۸۴ش، ص۹۹۲-۹۹۳.
  21. نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۱۱.
  22. نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۱۱.
  23. اسدی، «نقد و بررسی قوانین ثبت ازدواج»، ص۱۰۳۔
  24. اسدی، «نقد و بررسی قوانین ثبت ازدواج»، ص۱۰۳۔
  25. اسدی، «نقد و بررسی قوانین ثبت ازدواج»، ص۱۰۶-۱۰۹۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • اسدی، سيدمصطفى، «ازدواج»، دانشنامہ موضوعی قرآن۔
  • اسدی، لیلا سادات، «نقد و بررسی قوانین ثبت ازدواج»، "مطالعات راہبردی زنان" کے میگزین میں، تہران، شورای فرہنگی اجتماعی زنان و خانوادہ، تابستان ۱۳۸۷، شمارہ ۴۰۔
  • حسینی، سیدمجتبی، احکام ازدواج (مطابق با نظر دہ تن از مراجع عظام)، قم، دفتر نشر معارف، چاپ ہفتم، ۱۳۸۹ش۔
  • سبحانی، جعفر، «ازدواج موقت در کتاب وسنت»، فقہ اہل بیت، ش۴۸، ۱۳۸۵ش۔
  • صنعانی، عبدالرزاق بن ہمام، المصنّف، مجلس علمی، بی‌جا، ۱۳۹۰ق/۱۹۷۰م۔
  • طبرسى، حسن بن فضل‏، مکارم الاخلاق، قم، الشریف الرضی، چاپ چہارم، ۱۴۱۲ق/۱۳۷۰ش۔
  • کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، تحقیق على اكبر غفارى‌، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ق۔
  • منصور، جہانگیر، قانون مدنی با آخرین اصلاحیہ‌ہا و الحاقات ہمراہ با قانون مسؤلیت مدنی، تہران، نشر دیدار، ۱۳۹۱ش۔
  • موسوى ‌خمينى، سيدروح اللہ، توضیح المسائل(مُحَشّی)، تحقیق سيدمحمدحسين بنى ہاشمى خمينى‌، قم، ‌دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ق۔
  • ہاشمی شاہرودی، سید محمود، فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل بیت علیہم السلام، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۲ش۔